ہم ہر صورت ایسے غلیظ اور انسانیت سوز واقعات کی مذمت کے ساتھ ذمہ دار عناصر کوکیفر کردار تک پہنچانے کی مانگ کرتے ہیں۔
محنت کش تحریک
پولیس نے گزشتہ روز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے چیف سیکیورٹی افسر میجر ریٹائرڈ اعجاز حسین شاہ کو منشیات کی خرید و فروخت کے الزام میں گرفتارکیا جس کے قبضے سے آئس اورجنسی گولیوں کے علاوہ طالبات اور عملے کی قابل اعتراض ویڈیوز بھی برآمد کی گئیں۔
اس حادثہ کے بعد ہمارے ذہنوں میں بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں۔
کیا یہ کاروبار ہر یونیورسٹی میں ہوتا ہے؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ طالبات خود ویڈیوز بنواتی ہیں؟
کیا ایسی ویڈیوز ریکارڑکر کے کاروبار کیا جا تاہے؟
کیا طالبات کو سمسٹرپاس کروانے کیلئے بلیک میل کیا جا رہاتھا؟
کیا اس کاروبار میں محض یونیورسٹی کی انتظامیہ یا باقی اداروں کی بیوروکریسی بھی شامل ہے؟
اس واقعہ پر پولیس کی ایک خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کا ایک گروپ منشیات کی فروخت، طالبات اور اساتذہ کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے 28جون کو بغداد الجدید پولیس نے اسی یونیورسٹی کے خزانچی کو گرفتار کیا تھا جس کے پاس سے کرسٹل میتھ نشہ اور جنسی اشتعال دلانے والی گولیاں برآمدکی گئی تھی۔
ایک خصوصی رپورٹ میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ منشیات کے الزام میں گرفتار دونوں عہدیدار یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ کو بلیک میل کرنے اور ان کے جنسی استحصال میں بھی ملوث تھے۔ خزانچی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ دیگر اساتذہ کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر منشیات خریدتا اور طلبہ میں بانٹتا تھا اور ڈانس/فحش پارٹیوں کا اہتمام کرتا تھا۔پولیس نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی اساتذہ کا گروہ لڑکیوں کا استحصال/بلیک میل کرتا تھا اور منشیات (آئس، شراب اور چرس) کا استعمال کرکے انہیں پھنسا لیتا تھا، یہ گروہ اس قسم کی سرگرمیاں یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج کی مدد سے انجام دے رہا تھا۔
اس پولیس رپورٹ کے بعدہمیں سمجھنا چاہیے کہ موجودہ نظام جس میں سرمائے کے حصول، لالچ اور حوس کیلئے کسی کے ساتھ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ حادثہ ان سول اور فوجی حکمرانوں کے گالوں پر زوردار طمانچہ ہے جو کئی برسوں سے سیکیورٹی کے نام پر اس ملک کے سارے وسائل ہڑپ کر رہے ہیں۔ کہاں ہیں وہ دنیا کی اول نمبر کی دوڑ میں شامل ایجنسیاں جو شہریوں کواپنے حقوق کی بات کرنے سے پہلے ہی اٹھا لیتی ہیں؟ کیوں وہ ان ویڈیوز تک نہیں پہنچ سکیں جن کی بنیاد پر یہ درندہ صفت انسان اپنے کاروبار کی خاطرہزاروں بے بسوں کی زندگیوں سے کھلواڑکرتے رہے؟ ہر عام و خاص اس دلیل کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر پانچ ہزار پانچ سو طالبات اور فیمیل اساتذہ کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جو کوئی ایک دن میں نہیں بنائی گئیں بلکہ سالوں پر محیط پروجیکٹ ہے جو نہ جانے کتنے سالوں سے ریاستی لوگوں کے درمیان معاہدوں پر چلتا رہا۔ نہ جانے کتنے محنت کشوں کی بیٹیوں نے اپنی ڈگریوں کی خاطر قربانیاں دی ہوں گی۔ کتنی آج تک ذہنی اضطراب کا شکار ہو چکی ہوں گی۔
موجودہ واقعہ کے سوسائٹی پر اثرات
ایسے واقعات ہمارے جیسے ناہموار ترقی والے سماجوں میں انسانوں کو زیادہ اذیت دینے کا باعث بنتے ہیں جہاں آپ کسی واقعہ میں ملوث نہ ہونے کے باوجود شک کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ مثلا ہم اس واقعہ کو دیکھیں تو حتیٰ کہ و ہ ساری خواتین جو اس یونیورسٹی سے دس سال پہلے فارغ ہو چکی ہیں جو شادی شدہ ہیں یا نوکریاں حاصل کر چکی ہیں۔ سب اس واقعہ کے بعد عام لوگوں کی نظروں میں، رشتے داروں اور اپنے بچوں کی تفتیش میں آئیں گی۔ان سے شایدڈھیروں سوالات پوچھے جائیں گے۔کہ آپ کے وقت بھی یہی انتظامیہ تھی؟ویڈیوز کیسے بنائی گئی ہوں گی؟ طالبات کو باہر لیکر گئے ہوں گے یا یونیورسٹی میں ہی بنائی ہو ں گی وغیرہ۔۔اب اُن بیچارے والدین کی ذہنی حالت کیا ہو گی جو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بچی کو دو چار سال مزید پڑھالیں گے تاکہ اُسے آسانی کے ساتھ نوکری مل جائے گی۔ اب وہ کیسے ہمت کریں گے کہ بچی کا ایسی یونیورسٹیوں میں داخلہ ہو جو سمسٹر ز پاس کرنے کی شرط کو لیکر ریپ تک کر ڈالتے ہیں۔
اگر کوئی انفرادی طور پر ہمت کر بھی لیتا ہے تو کیا اُس کے حسدمیں گھرے رشتہ دار یہ ہونے دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب خواتین کو مزید کمزور کرنے،دبانے اور چار دیواری میں قید کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا ہے جس کو یہا ں کے نام نہاد مذہبی عناصر اچھا خاصا اپنے مقاصد کیلئے استعمال کریں گے۔
ایسے واقعات اورہماری اخلاقیات
عمومی طور پر ایسے واقعات پر ہماری اخلاقیات ہمیشہ انفرادیت کا طرف سفر کرتی ہیں۔ عورت جس کوایک جنس کے طور پر لیاجاتا ہے۔ اُس کی غلطیوں اور مجبوریوں کوکبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ اُس کو مردوں اور دوسری عورتوں سے سرزد ہوئی غلطیو ں کی سزا دی جاتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد مشرقی جملوں کا استعمال کرتے ہوئے ہر گھر کے اندر بڑے بڑے لیکچرز دیئے جائیں گے کہ عورت کو یونیورسٹی میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔عورت کا کام تو صرف گھر داری اور بچوں کی پرورش ہے۔ اس طرح اس واقعہ میں ملوث گنہگاروں کیلئے پہلے سے تیار بہانہ موجود ہے جس سے ان پر پریشر کم سے کم ہو گااور ساتھ ریاست بھی کچھ مدد کر دے گی ۔
ریاست قصور وار ہے!
ریاست کو کسی صورت بھی اس واقعہ سے بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کیونکہ ریاست کی طرف سے اہم لوگ بھاری مراعات کے ساتھ یونیورسٹی میں تدیس کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے تعینات کئے گئے تھے۔ جو وائس چانسلرور اُس کے ساتھ انتظامی اموار میں درجنوں کام کرنے والے، ایگزیکٹو سیکرٹری، پرنسپل سٹاف آفس، منیجر ایکسٹرنل کمیونیکیشن، ایڈمنسٹریٹو آفیسر، اسسٹنٹ، ہر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہان اور ۱سٹاف، بیسیوں ٹیچرزاور سیکیورٹی کا عملہ، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سیکیورٹی آفیسر کچھ ٹیچرز کے ساتھ مل کر یہ گھناؤنافعل سر انجام دے رہا تھااور باقی انتظامی امور دیکھنے والوں کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی۔ کیا یہ بات مان لینا چاہیے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیں اور ہم اس منطق سے کبھی ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔
ان ویڈیوز کو استعمال کرتے ہوئے بہت بڑے پیمانے پر بلیک میلنگ کی گئی ہے جس میں یہاں کی اپر مڈل کلاس، سول اور ملٹری بیوروکریسی، سرمایہ دار اور جاگیردار شامل ہیں۔ کیونکہ یہی وہ پرتیں ہیں جو ہر صورت میں اپنی عیاشیاں جاری رکھنا چاہتی ہیں ورنہ محنت کشوں کو تو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ طالبات کو نوچنے والوں کا ہر صورت محاسبہ کیا جائے۔
متعلقہ واقعہ کے سماجی اور سیاسی تحریکو ں پر اثرات
پہلے ہی اگر سماجی اور سیاسی تحریکوں میں عورتوں کی شمولیت دیکھی جائے تو نا ہونے کے برابر ہے۔ اس طرح کے واقعات عورتوں میں مزید خوف و ہراس پھیلائیں گے۔ انھیں فیملیز کی طرف سے تعلیم حاصل کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنے پڑے گا۔ جو کہ اس خطے کے حکمرانوں کیلئے ایک اہم اور فائدہ مندنقطہ ہے۔کیونکہ عورتیں جو مردوں کی نسبت زیادہ تعداد اور زیادہ استحصال کا شکار ہیں۔وہ اب کافی عرصہ تک مذہبی اور لبرل کے درمیان بحثوں کا موضوع رہیں گی اور تحریکوں کا رخ کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچیں گی۔اس لیے ضروری ہے کہ اس واقعہ کے بعدہم اپنے گھر وں کی خواتین سے لیکر عزیزو اقارب اور ملنے جلنے والوں کی خواتین کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اس واقعہ پردلیرانہ احتجاج کے ساتھ مستقبل کی سماجی اور سیاسی تحریکوں میں اپنا کردار ادا کریں۔
مطالبات
فوری طور پر تمام یونیورسٹی انتظامیہ بشمول وائس چانسلر کو برطرف کر کے ان کے نام ایف آئی آر کی ضمنیوں میں ڈالے جائیں!
تمام یونیورسٹیوں کے انتظامی امور کو بہتر کرنے کیلئے طلبہ یونین کے الیکشن کرواتے ہوئے طلبہ کی منتخب قیادت، انتظامیہ اور اساتذہ پر مشتمل کونسل بنائی جائے۔جس سے طالبات کے ساتھ ساتھ والدین کا اعتماد بھی بحال ہو گا۔
سمسٹر سٹم میں امتحانات کے تمام انتظامات بشمول حاضری متعلقہ یونیورسٹی کے اساتذہ سے واپس لیکر چیکنگ کا متبادل طریقہ اختیار کی جائے۔
اس طرح کے واقعات میں ملوث پروفیسرز اور انتظامی امور سرانجام دینے والوں پر باقی دفعات کے ساتھ جنسی زیادتی کی دفعات کا اطلا ق کیا جائے اور ساتھ انہیں جنسی صلاحیت سے بھی محروم کئے جانے کی سزائیں دی جائیں جو باقی ایسی ذہنیت رکھنے والوں کی حاصلہ شکنی کا باعث بنے۔