بھگت سنگھ: مزاحمت کی مستقل علامت
13 دسمبر 2023 کو نوجوانوں اور خواتین کے ایک گروپ نے انڈین پارلیمنٹ(لوک سبھا) کے فلور پر سموگ بموں کا استعمال کیا۔اس ریڈیکل گروپ کے نوجوانوں نے 94 سال پہلے کے انقلابیوں کے عمل کی نقل کی، جو آج تک ہندوستان میں مزاحمت اور بغاوت کی علامت ہیں۔
اس دن پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے نوجوانوں کے اقدامات نے بھگت سنگھ کی تقلید کرتے ہوئے حکمران طبقے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ایسی سیاسی کارروائی کا استعمال کیا جیسی کاروائی کا استعمال بھگت سنگھ نے دو جابرانہ بلوں کی منظوری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مقننہ کے فلور پر سموگ بموں کا استعمال کرتے ہوئے کیا تھا۔اس گروپ کے دو لیڈرز منورنجن ڈی اور ساگر شرما نے ملک کو درپیش مسائل میں عدم مساوات، بے روزگاری اور منی پور میں تشدد کے واقعات کوحل کرنے میں پارلیمنٹ کی ناکامی پر احتجاج کے لیے بم حملے کا استعمال کیا۔
دونوں حملوں میں غیر مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تاکہ پارلیمنٹ میں موجود لوگوں کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ مقصد قتل کرنا نہیں تھا بلکہ سیاسی بیان دینا تھا۔ جس طرح بھگت سنگھ نے اپنے ساتھی بھٹکیشور دت کے ساتھ مل کر گرفتاری دی تھی، بالکل اسی طرح ان اسموگ بم حملے کے منصوبہ سازوں نے کیا۔ بھگت سنگھ گرفتاری کو عدالتی کارروائی بنا کر برطانوی راج کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کر نا چاہتا تھا، جس میں وہ کامیاب رہا لیکن سیاسی طور پر دسمبر 2023 کے حملہ آوروں کو وہ پذیری نہیں ملی جو بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھیوں کو ملی تھی۔جس کی بنیادی وجہ ان کے پاس کسی قسم کی سیاسی قوت کی عدم دستیابی،سیاسی تحریک کا موجود نہ ہوتا اوران کو ہندوستان میں سخت قوانین کے تحت زیر حراست رکھنا شامل ہے۔ان پر کی گئی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ انہوں نے آن لائن گروپس اور چیٹ گروپس کی ہم آہنگی سے یہ اقدامات کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے پاس پارلیمنٹ کو چیلنج کرنے کے مبہم اہداف سے ہٹ کر کوئی خاص ایجنڈا نہیں تھا اور نہ ہی کوئی سیاسی مقاصد تھے جو ان کو عوام سے نزدیک کرتے۔ بہر حال ان کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے اقدامات کو جھٹلایا یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ انقلابی عمل بھگت سنگھ کی مستقل میراث کا ثبوت ہے۔
بھگت سنگھ کی دنیا:
بھگت سنگھ اپنے وقت کے مادی حالات کی پیداوار تھا۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں ان سیاق و سباق کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں اس کی پرورش ہوئی۔
1857 میں پہلی جنگ آزادی کے بعد برصغیر پاک و ہند میں برطانوی راج بدل گیاتھا۔ پرانی کمپنی پر مبنی استعمار کو ایک سامراجی بیوروکریسی کے حق میں ختم کر دیا گیا تھا۔ جو لندن سے براہ راست ہندوستان پر حکومت کرتی تھی۔ عالمی سرمایہ داری نے سامراج کے دور میں داخل ہونے کے ساتھ ہی ہندوستان پر ایک نئے قسم کے استحصال کا آغاز کیا۔برطانوی راج نے ریلوے کی تیز رفتار توسیع، صنعتی سرمائے، اور برطانوی مالیات کے شگنجوں کو مزیذ گہر ا کیا۔ جس نے تیزی سے ہندوستان کو اپنی گرفت میں جکڑا۔بعد میں جب امریکی مالیاتی سرمایہ برطانوی مالیاتی سرمائے سے منسلک ہوا تو دونوں نے مل کر مقامی ہندوستانی سرمایہ دار طبقے کی ترقی کی راہ میں ہزاروں مسائل کھڑے کرتے ہوئے اپنے ماتحت بنایا۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے نہ صرف ہندوستان کے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا بلکہ لاکھوں لوگوں کو برطانوی جنگی جنوں میں افرادی قوت کے طور پر استعمال کیا۔ہم کہا سکتے ہیں کہ برطانوی سلطنت کو پہلی جنگ عظیم میں فتحیات کرنے میں ہندوستانی جوٹ اور ہندوستان سپاہیوں کا سب سے بڑا کردار ہے۔یہ سارا عمل اُس وقت رونما ہو رہا تھا جب ایک طرف ہندوستانی فوجی یورپ کی خندقوں، افریقہ کے جنگلوں اور میسوپوٹیمیا کے صحراؤں میں لڑتے ہوئے مررہے تھے تو دوسرے طرف ان کے پیارے باقی ہندوستانی عوام کے ساتھ 1918 کی انفلوئنزا وباء کا سامنہ کر رہے تھے۔ اس وباء کے دوران دس ملین اموات ہوئی۔
ہندوستان میں انفلوئنزا کی وبا کے دوران برطانوی ہینڈلنگ میں سخت قرنطینہ کے اقدامات اور بدسلوکی کے ساتھ لاپرواہی یا سراسر نسل پرستانہ طریقہ کار استعما ل کیا گیا تھا۔ بڑی تعداد میں ہلاکتیں برطانوی انتظامیہ کی نااہلی کا نتیجہ تھیں۔جس نے برطانوی حکمرانی کے خلاف عوام کو ریڈیکل بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان ہندوستانیوں کے لیے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا تھا، یہ توقع کی جا رہی تھی کہ انگریزوں کی طرف سے کوئی فائدہ دیا جائے گا۔ عوام کا خیال تھا کہ دسیوں ہزار لوگوں کی قربانیوں کے اعتراف میں ہندوستان کو آزادی یا کم از کم کسی قسم کی خود مختاری دینے کی طرف ا قدام اٹھائے جائیں گے۔لیکن کچھ بھی نہ بدلہ واپس آنے والے ہندوستانیوں، خاص طور پر صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو واپس،گورنر او ڈوائر کی بے رحم حکمرانی میں دے دیاگیا۔
پنجاب میں احتجاج کو روکنے کے لیے رولٹ ایکٹ کے ذریعے جابرانہ کارروائیاں کا استعمال کیا گیا۔ جس سے قوم پرست بغاوت کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس بغاوت نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ ایسا وقت تھا جب دنیا روس میں پہلا کامیاب سوشلسٹ انقلاب دیکھ رہی تھی اور ہندوستان میں ساتھ ہی تاشقند میں انڈین کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی بے شک اُس وقت بھگت سنگھ کی عمر صرف 13 سال تھی۔
اُس وقت بائیں بازو کی غدر پارٹی جس کا پنجاب میں کافی اثر تھا، نے نوجوان بھگت سنگھ کو انقلابی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دو سب سے اہم فیصلہ کن واقعات جنہوں نے ا سے ریڈیکل بنانے میں مدد کی، ایک تحریک عدم تعاون تھی، جو 1857 کی بغاوت کے بعد برطانوی حکومت کے خلاف پہلی بڑی عوامی تحریک تھی۔ (دوسر اواقعہ)جب چوری چورا گاؤں میں عوام نے پولیس اسٹیشن جلا کر22 پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس واقعہ کے بعد گاندھی اور کانگریس پارٹی کی طرف سے تحریک کے خاتمے کے اعلان کے بعد ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن دیگر ریڈیکل تنظیموں سے ملکر ایک ساتھ کانگریس سے الگ ہو گئی جنہوں نے کانگریس پارٹی کی سیاسی حکمت ِعملی سے اختلاف کرتے ہوئے انقلابی طرز کی سیاست کو اپنا مقصدبناتے ہوئے کانگریس کو چیلنج کیا۔بعد میں بھگت سنگھ ان کے ساتھ شامل ہوا اور جلد ہی مشہور اور انقلابی لیڈر کے طور پر سامنے آیا۔
ایچ ایس آر اے:
بھگت سنگھ کو یادکرنے کے ساتھ ضروری ہے اُس کی تنظیم کو بھی یاد کیا جائے۔ ہندوستان ریپبلکن آرمی 1928 میں ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن بن گئی۔
ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن نے اپنی سیاسی زندگی کا سفر ہندوستان ریپبلکن آرمی کے طور پر شروع کیا،جو آئرش ریپبلکن آرمی کے ماڈل سے متاثر تھی جس نے حال ہی میں آئرلینڈ کے لیے آزادی حاصل کی تھی۔ یاد رہے مسلح جدوجہد کو گاندھی کی طرف سے شروع کی گئی ‘پرامن’ تحریک کے برعکس پیش کیاگیا۔
اس تنظیم کی بنیاد رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، سچندرا ناتھ بخشی، سچندرا ناتھ سانیال اور جوگیش چندر چٹرجی نے 1922 میں اُس وقت رکھی جب عدم تعاون کی تحریک کو اچانک معطل کر دیا گیا جس کی وجہ سے کانگریس پارٹی کے نوجوانوں کے اندر بے چینی نے جنم لیا۔
بھگت سنگھ نے 1920 کی دہائی کے دوران رونما ہونے والی مختلف سیاسی پیشرفتوں کو قریب سے دیکھا جن کی وجہ سے وہ ریدیکل ہوتا گیااور اسی دہائی میں وہ HRA میں شامل ہوالیکن وہ پہلے ہی سے سوشلسٹ خیالات سے متاثر تھا۔ اب یہ تنظیم پرانی HRA کی ریڈیکل جمہوریہ نہیں رہی تھی بلکہ تنظیم کو ایک عسکریت پسند سوشلسٹ انقلابی تنظیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ستمبر 1928 میں بھگت سنگھ نے دہلی میں بنگال، پنجاب اور بہار میں متعدد سوشلسٹ تنظیموں کے اتحاد کی قیادت کی۔ اس میٹنگ سے ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن(HSRA) کا ظہور ہوا جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ تنظیم ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے پرعزم تھی۔ اس تنظیم نے بجا طور پر ہندوستان میں جبر کی نشاندہی کرتے ہوئے سامراج کو سرمایہ دارانہ نظام کے آخری مرحلے کے طور پر دیکھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کیے بغیر ہندوستان کی آزادی حاصل نہیں کی جا سکتی۔اس لیے ضروری ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مزدوروں اور کسانوں کو آگے بڑھ کر برطانوی سامراج کے خلاف انقلابی جدوجہد کی قیادت کرنی ہوگی۔
HSRA کانگریس اور گاندھی کی قیادت کی مخالفت میں کھڑی تھی،گاندھی کی عدمِ تشددپالیسی پر تنقید کرتے ہوئے HSRA کے بھگوتی چرن ووہرا نے "فلاسفی آف دی بم لکھی "۔