Home Pakistan ” جبر کے خلاف مظلوم قومیتوں کی جدوجہد اور یکجہتی کیسے ممکن...

” جبر کے خلاف مظلوم قومیتوں کی جدوجہد اور یکجہتی کیسے ممکن ہے "

10 دسمبر 2023 بروز اتوار دن2 بجے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع ِ پر جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی راولپنڈی اسلام آباد کے زیر اہتمام، اسلام آباد پریس کلب میں " جبر کے خلاف مظلوم قومیتوں کی جدوجہد اور یکجہتی کیسے ممکن ہے " کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقا د کیا گیا۔

SHARE

10 دسمبر 2023 بروز اتوار دن2 بجے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع ِ پر جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی راولپنڈی اسلام آباد کے زیر اہتمام، اسلام آباد پریس کلب میں ” جبر کے خلاف مظلوم قومیتوں کی جدوجہد اور یکجہتی کیسے ممکن ہے ” کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقا د کیا گیا۔

اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے ساجد کاشر ایڈوکیٹ نے کہا اس وقت پوری دنیا مظلوم اور محکوم قوموں کا جیل خانہ ہے۔سامراجی ممالک سے لیکر نوآبادیات اور نیم آبادیات تک نہ صرف قومی وسائل کو لوٹا جا رہا ہے بلکہ سیاسی اور سماجی کارکنوں پر بے دردی سے ریاستی دہشت گردی کی جارہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ قومی سرمایہ کا عالمی سامراجی سرمایہ کے ساتھ منسلک ہونا ہے۔ اس لیے اب کسی قسم کے کوئی امکانات نہیں کہ قومی سرمایہ داری عالمی سرمایہ داری کی مخالفت کر سکے اس لیے اس ذمہ داری کو سرانجام دیتے کیلئے محنت کشوں کو ورکرز کنٹرول کے نعرے کے ساتھ مظلوم قوموں کی جدوجہد کو لیکر یکجہتی کی بات کرنی چاہیے۔کانفرنس کے تعارفی کلمات کا آغاز کرتے ہوئے کامریڈ مدثر محبوب ایڈوکیٹ نے کہا کہ پاکستان میں مظلوم قومیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک رکھا جاتا ہے اس کی دنیا میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ جب کبھی مظلوم قومیتوں کے سیاسی کارکنان اپنے وسائل پر اختیار کی بات کرتے ہیں تویہ ریاست خوفناک طریقہ سے ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے انہوں لاپتہ کر دیتی ہے اور پھر کچھ دنوں یا مہینے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔یہ سلسلہ مسلسل جاری و ساری ہے خاص طور پر اس درد ناک صورتحال کو بلوچستان اور پختونخوا میں عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے جہان سے حالیہ سالوں میں 12,000 سے 15,000 بلوچوں اور تقربیا ً 10,000 سے 15,000 پشتونوں کو لاپتہ کیا گیا ان میں سے بہت ساروں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ حقیقت ہے یہ سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی ریاست اپنے بنائے ہوئے آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ڈرتی ہے کہ لوگوں کو کسی جگہ کوئی ریلیف نہ مل جائے۔ آج سامراج کی ایما پر دنیا کی قومی ریاستوں کیلئے آسان ہو گیا ہے کہ وہ عالمی اور ریجنل تنازعات کو دلیل کے طور پر رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے مظلوم قومیتوں پر جبر کرنے کو جائز ثابت کرنے کیلئے مخالفین کو دوسری ریاستوں کا ایجنٹ قرار دیں۔جس طرح پاکستانی ریاست بلوچوں،پستونون، سندھیوں، کشمیروں، گلگتیوں اور بلتیوں کو انڈیا وغیرہ کا ایجنٹ قرار دیتی ہے اسی طرح ہندوستانی ریاست اپنے زیر اثر ریاستوں آسام، میگھالیہ، تریپورہ، اروناچل پردیش، میزورم، منی پور اور ناگالینڈ، پنجاب اور جموں کشمیرکے مزاحمتکاروں کو پاکستان اور چین وغیرہ کا ایجنٹ قرار دیتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ آج کے سامراجی عہد میں کسی طرح کی حکومتیں چاہیے وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت پر مبنی ہوں یا آمریتوں پر مبنی وہ سامراج کے ساتھ پوری طرح منسلک ہو چکی ہیں اس کا مطلب ہے کہ ان کا سرمایہ عالمی سامراجی سرمائے کا شرکت دار ہے اس لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقہ جبر اور جمہوری سوال کے نامکمل اور جزوی حل کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے مکمل حل سوشلزم کی طرف بڑھے۔

 

باقی مقررین میں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبران راجہ مجتبیٰ،اربات ایڈوکیٹ، واجد علی واجد ایڈوکیٹ اور راشد نعیم نے کہا کہ گزشتہ چھ مہینے سے جموں کشمیر کے عوام مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، بجلی کے بلات کا مکمل بائیکاٹ ہے اور ریاست کی طرف سے مسلسل تشدد جاری ہے۔پاکستان زیر اہتمام جموں کشمیر کے حکمران جو کئی بار عوامی نمائندوں (جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی)کی قیادت سے مذکرات کر چکے ہیں لیکن عوام کو پُر امن طریقے سے کسی قسم کی ریلیف دینے سے انکاری ہیں۔پہلے حکمرانوں کی طرف سے عوامی نمائندوں کو مختلف تجویز دی جاتی رہی، کبھی 200 اور کبھی 300 یونٹس تک فری بجلی مہیا کرنے کی، پر اب یہ حکمران واویلاکر رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اختیارات نہیں کہ وہ عوام کو بجلی بلات یا باقی اشیا پر سبسڈی مہیا کر سکیں۔ مقررین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم باقی مظلوم قومیتوں کی قیاد ت سے مل کر جدوجہد اور یکجہتی کے خواہاں ہیں تاکہ مظلوم قومیتوں کے وسائل پر پہلے حق ان کی اپنی قوم کا سمجھا جائے جو جزوی طور پر اپنی آئین ساز اسمبلی کی صورت میں ہو یا مکمل برابری کی سطح پر ایک فیڈریشن میں نئے عمرانی معاہدے کی شکل میں سامنے آئے۔

عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلستان کی نمائندگی کرتے ہوئے صفی اللہ،مخدوم خلیق الزمان ایڈوکیٹ نے کہا کہ گلگت بلستان کے اندر انتہائی ریاستی دہشت گردی کی جارہی ہے۔ عوامی نمائندوں کے خلاف 16 ایم پی او اور دہشتگردی ایکٹ کے شیڈول 4 کے تحت کاروائی کی جا رہی ہیں۔ ریاست مختلف حربوں کے ذریعے عوام کی جدوجہد اور یکجہتی کو توڑنے کیلئے فرقہ واریت کا استعمال کر رہی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت ہے ایک کا زخم سب کا زخم کی بنیاد پر مظلوموں سے یکجہتی اور مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ نیشنل ڈیموکرٹیک موومنٹ کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹڑ افراسیاب خٹک، سرائیکی نیشنلسٹ رہنما ابرار رانا ’ بلوچستان لیبر فیڈریشن کے رہنما عبدلمعروف آزاد’ ایم کیو ایم لندن کے آرگنائزر مومن خان مومن اور جموں کشمیرعوامی ایکشن کمیٹی راولپنڈی اسلام آباد کے رہنما نثار شاہ ایڈوکیٹ نے کہا اب وقت ہے تقریر اور تحریر کی قدغن سے لیکر مظلوم قوموں کے وسائل پر قبضہ اور سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے والوں کے خلاف مل کر لڑا جائے۔

آخر پر عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے رہنما اورعوامی حقوق کی پاداش میں لمبے عرصے تک جیل کاٹنے والے مزاحمت کار بابا جان نے کہا کہ آج یہ پورا خطہ سامراج کی آماچگاہ بنا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان سے لیکر گوادر تک مظلوم عوام اور محنت کش طبقہ مسلسل تحریکوں میں ہے اور جواب میں ریاست مسائل حل کرنے کے بجائے جبر سے کام لے رہی ہے اس لیے ضروری ہے کہ مل کر ا س جبر کا مقابلہ کیا جائے ہم پاکستان کے تمام سماجی، سیاسی اور انقلابی نمائندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جبر کے سوال کو اپنے سماجی، سیاسی اور انقلابی پلیٹ فارم کا اہم سوال سمجھتے ہوئے یکجہتی کا پیغام دیں۔یہی ایک طریقہ کار ہے جس کے ذریعے غیر مشروط بنیادوں پر مظلوم قومیتوں کی حمایت کرتے ہوئے ایک ملکی اورعالمی یکجہتی کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔

 
See insights and ads
Boost post
All reactions:

You and 3 others

SHARE