گزشتہ دنوں سے پاکستا ن زیرِانتظام جموں کشمیر میں عام عوام سراپا احتجاج ہیں۔ جس کے بنیادی مطالبات میں فری بجلی ، آٹے پر سبسڈی اور حکمرانوں کی مراعات میں کمی شامل ہیں۔ کشمیر جس کے زیادہ تر عوام ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر پاکستان نوازرہے ہیں، آج تک پاکستانی ریاست کی طرف سے مرتب تعلیم و آرٹ اور میڈیا کے سیٹ کیے گئے بیانیے کو ہی سچ مانتے اور پیروی کرتے رہے ہیں۔ان فرمودات کے ذریعے گزشتہ دہائیوں سے ثقافت، مذہب اور وطن سے محبت کا چرچا کیا جاتا رہا۔گنجائش اتنی رکھی گئی کہ اگر کوئی ثقافت، مذہب یا وطن سے محبت کو سمجھنے کیلئے سوال کرے تواُسے ملک دشمنوں کی لائن میں کھڑا کر دیا گیا۔ان نکات کو لیکر محنت کش عوام کی ایسی برین واشنگ کی گئی کہ آج تک حکمران طبقے کو اپنے مفادات حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ آج تک یہی چورن عوام میں بکتا رہا جس کا مرکز بھارت مخالف شاونزم تھا۔لیکن نئی نسل نہ صرف ان کے آباؤاجداد کو دیئے گئے چورن کے ڈکاروں کی بدبوکو محسو س کر چکی ہے بلکہ بطور طبیب اس کا علاج بھی کر رہی ہے۔ اس سماجی تبدیلی میں 2007-09 کے عالمی معاشی بحران اور حالیہ یوکرین جنگ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔جہاں پوری دنیاکی سرمایہ داری کو معاشی بحران کاسامنا کرنا پڑا وہاں پاکستان جیساترقی پذیر ملک جس کے حکمرانوں نے ہمیشہ سٹراجیک اہمیت کی وجہ سے امریکہ کیلئے کرایہ کی ریاست کا کردار ادا کیا، سماجی اسٹرکچر کو ایسے برقرار رکھا تاکہ جاگیرداری، مذہبی پیشوایت، سرمایہ داری اور دیہی سرمایہ داری کی تمام پرتوں کا ملان برقرار رہے جس کی سربراہی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس رہی۔کیونکہ پاکستان میں سامراج کے بعد سب سے زیادہ وسائل رکھنے والی قوت اسٹیبلشمنٹ ہے جس کی دولت اب سامراجی دولت کے ساتھ نتھی ہو چکی ہے اس لیے ہر سال جرنیلوں کی مختلف معاشی سرگرمیوں کی خبریں منظرعام پر آتی رہتی ہیں کہ فلاں جرنل کے پاس امریکہ اور کینڈا میں اتنےریسٹورنٹس،جائیدادیں ہیں وغیرہ۔یہی اسٹیبلشمنٹ ہے جو بروقت اور عوامی مزاج کے مطابق مختلف پارٹیوں کو ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرتی رہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہی سامراجی پالیسیوں کیلئے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرتی ہے جو نیولبر ل پالیسیوں پر آب و تاب سے عمل کرتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے مسئلہ کشمیر کو لیکر امریکی سامراج کے مفادات انڈیا کی طرف چلے گئے ہیں۔ کیونکہ اب انڈیا سامراج کی ایک بڑی اور اہم منڈی ہے جو نہ صرف محنت کی تقسیم میں اہم کردار اد ا کر رہی ہے بلکہ سستی لیبر مہیا کرنے والی اہم ریاست بھی ہے۔جس نے اس معاشی بحران کے دوران عالمی سامراج امریکہ اور اُس کے اتحادوں کیلئے اپنی سستی لیبر اور منڈی کو نہایت کم شرائط پر کھولا ہے۔بڑی معیشت ہونے کے ناطے سامراجی کیمپ میں اہم حیثیت بھی اختیار کر چکی ہے۔
پاکستانی ریاست جو ماضی قریب میں کرایے کی ریاست کے طور پر امریکی سامراج کو سروسز دیتی رہی۔اب اس کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اس لیے امریکی سامراج نے انڈیا کو کشمیر کی خاص حیثیت ختم کرنے پر کوئی اپوزیشن نہیں دی بلکہ رسمی طور پر پاکستان کے حکمرانوں کو اجازت دی کہ وہ بے شک یو این میں اپنے عوام کو مزید بیوقوف بنانے کیلئے تقاریر کرتے رہیں اس کا مطلب سادہ اور دو ٹوک ہے کہ مودی حکومت کا 5اگست 2019 کو اپنے آئین سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے وفاق کے کنٹرول میں لینے کے پیچھے سامراجی آشرباد تھی جس کی پیشگی اطلاح پاکستان کو دی جا چکی تھی۔
پاکستانی ریاست جو ماضی میں دہلی کے لال قلعے پر پاکستانی جھنڈا لہرانے کی قسمیں کھاتی رہی انڈیا کے اس عمل پر نہ صرف خود خاموش رہی بلکہ پاکستان زیرانتظام کشمیر کے عوام کو بھی خاموشی اختیار کر نے کی دھمکیا ں دیتی رہی اورجب کچھ قوم پرست پارٹیوں نے سیزفائرر لائن کراس کرنے کی کوشش کی جنہیں لائن آف کنٹرول کے پاس روکا گیا اور بالاآخر عوام کے سامنے ان کی ساکھ بچانے کیلئے ایک دفعہ پھر یواین او کو درمیان میں ڈالا گیا وہ یو این او جو ابھی تک امریکی سامراج کی داشتہ ہے پھر سوال تو بنتا ہے کہ کیا قوم پرستوں کو نہیں پتہ کہ اقوام متحدہ کیا ہے؟
پھر باقی ماندہ قوم پرستوں اور انقلابیوں نے پیپلز نیشنل الائنس (پی این اے) کے نام سے ایک اور اتحاد تشکیل دیا جس نے پاکستانی ریاست کے دوغلے پن کو کھل کر ڈسکس کیا کہ پاکستان ہماری تحریک کا ساتھی نہیں بلکہ خود قابض ہے اس لیے جو جس کا غلام وہ اُسی کے خلاف علم بغاوت بلند کرے۔اور یہ نعرہ لگایا کہ وسائل ہمارے قبضہ تمھارا نا منظور نامنظور!
یہ بالکل درست عمل تھا کہ دونوں ممالک ہی قابض ہیں جنہوں نے کشمیریوں کو دونوں اطراف ایک لائن کھینچ کر روکا ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستانی ریاست کے براہ راست قبضے کے خلاف لڑیں۔اس لیے ان کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ لیکن پی این اے کی قیادت ٹھوس پروگرام کو سامنے لائے بغیر انتہائی مرکزیت کے ساتھ کنفیوژڈ سرحدی خطوط کا استعمال کرتی رہی، کبھی قانون ساز اسمبلی کو با اختیار کرو، کبھی پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر آئین ساز اسمبلی دو وغیرہ،اس اتحاد کی زیادہ تر قیادت کیڈرز کے درمیان مناظرے اور مباحثے سے بھاگتی رہی۔ جس کی بنیادی وجہ وہی منطق تھا کہ قانون ساز اسمبلی کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر وحدت، آزادی اور قومی جمہوری انقلاب کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔یہ وجہ تھی کہ قیادت کی مرکزیت اور غیرسائنسی اپروچ کی وجہ سے پیپلز نیشنل الائنس (پی این اے) زیادہ عوام کو نکالنے میں نا کام رہا۔چند ہزار افراد مظفرآباد تک پہنچے جن پر 22 اکتوبر 2019 کو ریاست نے اچھا خاصہ تشدد کیا۔ اس عمل سے نہ صرف نوجوانوں کے حوصلے پست ہوئے بلکہ قیادت بھی پوری طرح سے بے نقاب ہوئی اور اُس کے بعد اس اتحاد کی تمام پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہیں۔
اس وقت کی تحریک جس کی قیادت زیادہ تر انہیئ نوجوانوں کے پاس ہے جن کا سابقہ یا موجود تعلق کسی نہ کسی طرح سے مزاحمت کاری کے ساتھ رہ چکا ہے ۔ جو عرصہ داراز سے پاکستان زیرانتظام جموں کشمیر کے اندر دونو ں قابض ممالک پاکستان اور ہندوستان کے قبضے کا خاتمہ، وسائل کی لوٹ مار، بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں۔ان میں زیادہ تر وہ نوجوان ہیں جو اپنی قوم پرست یاترقی پسند گروپوں کی دوغلی سیاست سے تنگ ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس آگے بڑھنے یا کنٹرول کرنے کا کوئی واضح راستہ نہیں لیکن یہ مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔عوام کے اندر دہائیوں کی محرومیوں کا بدلہ لینے کی تڑپ ہے وہ اپنے ماضی کے دکھوں اور تکالیف کا مداوا چاہتے ہیں۔ان کی اتنی نفرت مقامی حکمرانوں کے خلاف پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی جو اس وقت سامنے آرہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سماجی ابھار میں بے پناہ خامیاں پائی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی اوراہم کمزوری تاریخی واقعات میں عوام کی مداخلت کے وقت کیا ہونا چاہیے،کن تاریخی حوالہ جات کا مطالعہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس وقت جہاں عوام لڑاکا بنیادوں پر لڑنا چاہتی ہے وہاں چند عناصر جو تحریک کے بننے کے بعد شامل ہوئے یا مقامی حکمرانوں کی طرف سے شامل کیے گئے،تحریک کے بہت سارے ریڈیکل نعروں کو محدود کروا رہے ہیں۔آزادی اور خودمختاری کے نعروں کو محدود کر کے صرف مسائل کے نعروں تک محدود کیا جا رہا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے یہ کوئی آج کی محرومی نہیں جس کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ دہائیوں کی محرومیاں ہیں جن کو آج تک برداشت کیا گیا ہے۔ کیا چند سرمایہ دار حکمرانوں یا ان کے ساتھ جڑے کچھ مفاد پرست ٹولوں کی وجہ سے پروگرام یا نعروں کو ایڈوانس کیے بغیر کوئی جدوجہد کی جا سکتی ہے؟
کچھ دوستوں کی نظریاتی کنفیوژ ن پوری طرح سے عیاں ہو رہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ مقامی حکمرانوں اور ان کے کارندوں کے ساتھ مل کر ایشوز پرلڑا جائے حالانکہ اُن کی سیاست اور ہماری سیاست میں بنیادی فرق ہے۔ ان کی سماجی اقدار اور ہیں ہماری اور۔ ان کے معاشی مفادات اور ہمارے معاشی مفادات اورہیں۔ ان کے اہداف ہیں کہ عوامی تحریک کو استعمال کرکے پاکستان کے حکمرانوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لیا جائے ہمارے مفادات یہ ہیں کہ ہر طرح کے حکمرانوں کا وسائل سے کنٹرول ختم کر کے صرف عام عوام سے کنٹرول کروایا جائے ۔اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ پولرلائزیشن کے ڈر سے سب کو تحریک کا حصہ رکھنا چاہتے ہیں وہ بنیادی طور پر سمجھتے ہیں کہ ابھی نہ وہ اور نہ عوام اس قابل ہوئے ہیں کہ وہ کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے سکیں جو کہ وہی روایتی طریقہ کار ہے جس کے تحت آج تک چیزوں کا تجزیہ اور حل پیش کیا جاتا رہا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عمل تحریک کو تھکاوٹ کی طرف لے جائے گا کیوں عام عوام کی طرف سے سول نافرمانی کا اعلان کرنے،پاکستان کی طرف سے دی گئی قانون ساز اسمبلی کے نمائندوں کو اس سارے عمل کا قصور وار سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں عوام کو پاکستان کے حکمران منظور نہیں وہاں پر ان کی طرف سے دیئے گئے ایک عبوری آئین کے ذریعے ذمہ داریاں سرانجام دینے والی اسمبلی تو قطعی طور پر برداشت نہیں کی جا رہی۔ وہ اسمبلی جس نے آج تک کشمیروں کو تقریر اور تحریر کی آزادی تک نہیں دی۔ہم اسمبلی کے الیکشن میں جموں کشمیر کی خودمختاری کو لیکر کاغذات تک جمع نہیں کروا سکتے بلکہ پہلے جموں کشمیر بنے گا پاکستان کا حلف دینا پڑتا ہے!
76 سالوں سے پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے زیر قبضہ کشمیر کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوام کو بیوقوف بناتا آرہا ہے کہ وہ کشمیر کیلئے ہزاروں سالوں تک لڑلیں گے۔جس کی بنیادی وجہ کشمیر ایشو کو زندہ رکھ کے پاکستان زیر انتظام کشمیر کے وسائل کو لوٹنا او ر دوسری طرف پاکستانی عوام کے جذبات کو ابھارنا ہے۔ جس کیلئے پاکستانی میڈیا اور نصاب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جو پاکستان کی مالک ہے جس نے پاکستان کے جنم سے لیکر امریکہ کے ساتھ ساز بار ی رکھتے ہوئے بے شمار ادارے بنا کر پاکستان کے زیادہ تر وسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھا بلکہ کشمیر کے دفاع کے نام پر ملکی بجٹ کا ایک اہم اور زیادہ حصہ استعمال کرتی رہی۔ پاکستان میں عملی طور پر چار دفعہ مارشل لاز لگائے گئے اور ملک میں باقی تمام عرصے کا سفر بھی تقربیاً بوناپارٹسٹ رجیم کے کنٹرول میں رہا، مطلب تاریخی طور پر سیاسی حکومتوں کی بھاگ دور ملٹری اشرافیہ کے پاس ہی رہی۔ اس ملٹری اشرافیہ اور اس کی حاشہ بردار سیاسی اشرافیہ نے کشمیر کے اندر کبھی کوئی ترقی نہیں ہونے دی ہمیشہ یہ جواز مہیا کیا کہ کشمیر ایک متنازیہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ حالانکہ خوبصورت پہاڑوں،جنگلات، دریاؤں اور آبشاروں کی اس سرزمین پر اچھا خاصہ ٹورازم ہو سکتا تھا لیکن نہیں ہونے دیا گیا،کیونکہ اگر ٹورازم ہوتا تو کیسے ملٹری آفیسرز کے اہل خانہ گرمیوں کی چھٹیاں اتنے پرسکون ماحول میں گزارتے؟
جموں کشمیر کے اندرصنعت لگائی جا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہونے دیا گیاکیونکہ صنعت لگتی تو20سے 30 لاکھ لوگ جنہوں نے روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کیا ان میں سے زیادہ تعداد کو یہاں روزگار مل سکتا تھا۔ جموں کشمیر کے اندر ہایئڈروپاورز لگائے گئے جن سے اس وقت تقریباً4 سے پانچ ہزار میگا واٹ بجلی پید ا کی جا رہی ہے جو آنے والے دو تین سالوں تک 8 سے 10 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ ا س پیداواری عمل میں مصروف زیادہ تر مزدوروں کا تعلق بھی کشمیر سے نہیں اور پھر کشمیر میں بجلی کی کل ضرورت جوتقریباً 385 میگاواٹ ہے وہ بھی انتہائی کنجوسی سے دی جا رہی ہے دس دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے اور عوام کے اعتراضات کے وقت پاکستان زیرانتظام کشمیر کے حکمران اس کی ساری ذمہ داری پاکستان واپڈا پر لگاتے ہیں اور پاکستان واپڈا واپس کشمیر کے ان نا اہل حکمرانوں پر۔
کشمیر کی بندر بانٹ پر شملہ معاہدہ
اس میں شک نہیں کے کشمیر کی بندر بانٹ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی جب جموں کشمیر کے عوام بے جااور زیادہ ٹیکسوں اور آزادی کیلئے جدوجہد میں مصروف تھے جس کا آغاز برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ تحریک کی اتنی شدت تھی کہ جموں کشمیر کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ اپنے تمام ظلم و جبر کے ساتھ عوام کو مذید رعاتیں دینے کو تیار ہو چکا تھا، لیکن اکتوبر 1948کو برطانوی سامراج کی ایما پر پاکستان نے مداخلت کرتے ہوئے بڑی تعداد میں قبیلوں کو کشمیر میں داخل کیا جنہوں نے نہ صرف کشمیر کی مہاراجہ سے آزادی کی تحریک کو ثبوتاژ کیا اور مہاراجہ کو جواز مہیا کیا کہ وہ انڈیا سے مدد طلب کرے جس کیلئے انڈیا پہلے سے تیار بیٹھا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر کی تقسیم کا دونوں ممالک کے حکمرانوں اور برطانوی سامراج کے علم میں نہیں تھا۔حالانکہ دونوں ممالک کی فوجوں کی تربیت ابھی تک سامراجی کمانڈر زہی کر رہے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اُس وقت کے پرانے سامراج برطانیہ اور ابھرتے ہوئے سامراج کی ایک سٹریٹیجک چال تھی جس کی بھینٹ کشمیریوں کو بھی چڑھاگیا۔ کیونکہ اس پر نہ صرف دونوں ممالک کی اشرافیہ نے خوب لوٹ مار کی بلکہ مسئلہ کشمیر کو یواین او میں رکھو ا کر سامراج نے بھی اپنے سٹریٹیجک مفادات کا دفاع کیا۔
1971میں انڈیا اور پاکستان کی جنگ ہوئی جس میں پاکستان کو شکست ہوئی اورانڈیا نے پاکستان کے تقریباً93,000 ہزارفوجی گرفتار کر لیے جن پر مختلف لے دے ہوتی رہی لیکن آخر کار دونوں ممالک نے نے مل کر شملہ معاہدہ کیا جس کا اہم نقطہ کشمیر ایشو کو دونوں ممالک نے اپنا نجی مسئلہ قرار دیا اور عالمی طاقتوں امریکہ اور روس نے بھی نمایاں طور پر اس ساز بازی کا ساتھ دیتے ہوئے ایشو کے اصل ورثاء کشمیر یوں کو فریقین کی لسٹ سے خارج کر دیا گیا۔یوں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ سے اٹھواکر دونوں ممالک کا نجی مسئلہ بنا دیا گیا۔
جب انڈیا سوویت کیمپ میں تھا اُس وقت امریکہ کو پاکستان کی سخت ضرورت تھی نہ صرف پاکستان کی مدد سے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کی بلکہ کشمیر میں بھی انڈیا کے خلاف مسلح سرگرمیوں میں مددکرتا رہا لیکن روس کا آزاد منڈی کی معیشت کی طرف رجوع کرنے سے صورتحال یکساں تبدیل ہو گئی۔ امریکہ سامراج نے واحد طاقت کے طور ہر خطے کے اندر اپنے معاشی اور سٹریٹیجک اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ساری ریاستوں کیلئے اپنی پالیسیاں تبدیل کیں۔
انڈیا ایک طرف مانگ اور سستی لیبرکی منڈی ہے جو لیبر کی تقسیم کی وجہ سے میٹروپولیٹن ریاست کا روپ دھار چکی ہے تو دوسری طرف امریکہ کو ابھرتے ہوئے سامراج چین کے خلاف ایک اتحادی کی ضرورت تھی جس کیلئے انڈیا ایک بہترین آپشن تھا تاکہ سامراجی تعلقات میں چین کو ہمیشہ ہمسایہ ملک انڈیا سے مسلسل دباؤ میں رکھوایا جائے۔
موجودہ تحریک کا کردار
ہم اس تحریک کا پس منظر پہلے سے ہی اوپر بیان کر چکے ہیں۔ یہ تحریک پچھلی تحریکوں کا ہی تسلسل ہے۔لیکن بعض اوقات دہائیوں کا سفر دنوں میں طے کرنے کے جذبے امڈ آتے ہیں۔ اس وقت نہ صرف پاکستان زیرانتظام کشمیر میں ایسا ہو رہا ہے بلکہ اس تحریک نے پاکستان کے محنت کشوں کو بھی متاثر کیا ہے کہ وہ بھی حکمرانوں کی دی ہوئی بھوک ننگ اور نام نہاد آزادی کو اصل آزادی میں تبدیل کرنے کے جذبے سے سرشار ہو سکیں۔ پاکستان زیرانتظام کشمیر کی تحریک نے بالعموم اشیاء خودرونوش اور بلخصوص بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور حکمرانوں کی مراعات کے خلاف ایک عمومی تحریک ہے جس کے نعرے وہی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے لگائے جا رہیں، بجلی ہماری راج تمہارا نامنظور منظور، اس نعرہ کا مطلب قطعی طور پر صرف پاکستان کے حکمرانوں کو للکارنا نہیں بلکہ پاکستان کے زیراہتمام کشمیر کے حکمرانوں کے خلاف بھی مزاحمت کرنا ہے۔جو عرصہ دازسے پاکستان کے حکمرانوں کی ایما پر جموں کشمیر کے عوام کے وسائل لوٹتے رہے ہیں۔انہوں نے اس لوٹ مار سے بے حساب دولت جمع کی۔پاکستان کی پارٹیوں کو ایک متنازعہ علاقے میں متعارف کروایا بلکہ اقتدار میں آ کر جموں کشمیر، پاکستان اور بیرون ممالک میں لا تعداد جائیدادیں بنائیں جہاں ان حکمرانوں کے بچے نہ صرف امریکہ،کینڈا اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ا علیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ وہاں اپنے کاروبار کی بھی دیکھ بھال کرتے ہیں اور پھر واپس آکر زیادہ اچھے طریقے سے عوام کو جھوٹ پر مبنی بھاشن دے کر قانون ساز اسمبلی میں رکن منتخب ہو تے ہیں تاکہ اپنے والدین کی کمائی ہوئی دولت کی حفاظت کے ساتھ مزید دولت کے ذرائع تلاش کیے جا سکیں۔اس تماشا کی جھلک دیکھنی ہے تو موجودہ اسمبلی میں حکمرانوں کی اولادوں کو دیکھیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کے ساتھ قانون ساز اسمبلی کا الیکشن جیتا اور وزیر بننے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ہمیں ان حکمرانوں کی دولت کی حوس اور لالچ کے اور کیا ثبوت چاہیے کہ یہ ایک ہی وقت میں اقتدار اور اختلاف میں بیٹھے ہیں؟
کیا ان قانون ساز اسمبلی کے حکمرانوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
اگر دیانت داری سے موجودہ حکمرانوں کے سیاسی شعورکے ارتقا کا تجزیہ کیا جائے تو جموں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہو گا کہ ان حکمرانوں پر کبھی اعتماد نہ کیا جائے۔ جموں کشمیر کی پرانی سیاسی جماعت جو مسلم کانفرنس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس نے اپنے وجود سے لیکر پہلے مسلم لیگ اور پھر پاکستان کی وفاداری (شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار)کے طور پر کی۔ مسلم کانفرنس کی قیادت کا پوسچراس طرح بنایا گیا تاکہ عوام اُس کی قیادت کی ایمانداری اور سادگی کی مثالیں دیں۔منافقین کی عظمت کو ایسے رنگا گیا کہ ان کی مکاری لمبے عرصے تک ہمارے آباواجداد کی ایک پوری کھیپ کو بیوقوف بناتی رہی۔ پاکستان کے حکمرانوں کو بڑے بھائی کے طور پر متعارف کرواتے رہے۔کشمیر بنے گا پاکستان کے بیانیے کواس لیے اہمیت دیتے تھے تاکہ ایک طرف عوام کی سادگی سے فائدہ اٹھا کر وسائل کو ہڑپ کیا جائے تو دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں،خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کا آشرباد حاصل کرتے رہیں۔
لیکن چونکہ سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی سائنسی قوانین کے تابع ہیں اس لیے جوں جوں انسانی شعور ی ترقی کرتا ہے وہ پرانے پر سوال اور نئے کی تلاش میں رہتا ہے۔جموں کشمیر کے عوام نے جب سوالات کا سلسلہ شروع کیا تو بے شمار فارمولے لانے کی کوشش کی گئی۔ جن کے تحت جی بی اور نام نہاد آزادکشمیر کو پاکستان کے قبضے میں دینا شامل تھا۔لیکن معصوم عوام پر حکمرانی کیلئے الحاق ِ پاکستان کے درد مندوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم تو سارے کشمیر کو آزاد کروا کر پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے یہ تو منظور نہیں کہ ایک ٹکڑے کو پاکستان میں شامل کیا جائے۔ اس طرح مسلم کانفرنس کی قیادت کا سارے کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کا فارمولا اسٹیبلشمنٹ کیلئے مشکل تھا اور دوسری طرف مسلم کانفرنس کی قیادت جو سردار ابراہیم خان کے جانے کے بعد سردار عبدالقیوم کے گرد گھوم رہی تھی۔ اُس نے اپنے بعد مذید مرکزیت قائم کرنے کیلئے اپنی پارٹی کی قیادت اپنے بیٹے سردار عتیق کے حوالے کی جس کی وجہ سے باقی پارٹی قیادت نے عدم اعتماد کرتے ہوئے پاکستان کے سرمایہ داروں کی پارٹی مسلم لیگ نواز کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کے جاگیردار پاپولر لیڈر ذولفقار علی بھٹو کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی لانچ کی گئی تھی۔ جس میں نہ صرف جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی اول درجے کی قیادت سردار ابراہیم خان کی شکل میں شامل ہوئی بلکہ بے شمار قوم پرستوں، راہ شماری کا چرچاکرنے والے اہم لیڈر جموں کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید نے بھی اپنی پارٹی کو پیپلز پارٹی میں زم کیا۔بے شمار جموں کشمیر کے اسٹالنسٹوں نے اپنے پاکستانی اسٹالنسٹ بھائیوں کی پیروی کرتے ہوئے بھٹو کے قدموں میں ڈھرلی۔پہلے یہی حکمران تھے جن کی قیادت سردار ابراہیم خان کر رہے تھے۔ جنہوں نے اکتوبر 1949 میں اپنی نوکری پکی کرنے کیلئے پاکستان کے حکمرانوں سے معاہدہ کراچی کرتے ہوئے جموں کشمیر کے اہم حصے گلگت بلتستان کو پاکستان کے مکمل کنٹرول میں دیا تھا۔جس کی آڑ میں بعد میں اسٹیٹ سبجکٹ رول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گلگت بلستان جیسے اسٹرٹجیک اہم خطے کی ڈیموگرفی تبدیل کی گئی جس کا فائدہ اٹھا کر متعلقہ خطے کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ پرانے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون ساز اسمبلی کے نمائندوں پر قطعی یقین نہ کیا جائے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ اتنی دولت کما چکے ہیں کہ ان کی معیارزِ زندگی اور عام عوام کے معیارِ زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔انھوں نے دولت کے حصول کیلئے جو ساری کرپشن کی ہے اس کے سارے ثبوت اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں تاکہ ان میں سے کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کی ایما کے بغیر کوئی معاشی یا سیاسی سرگرمی نہ کر سکے۔
کیا ان حکمرانوں کو اشیاء خوردونوش، بجلی کی قیمتوں، خاندان کے علاج اور بچوں کی تعلیم کی کوئی پروا ہو گی کہ انکے ساتھ کسی قسم کا اتحاد کیا جا سکے؟؟؟ "اس لیے جڑی چھنی ہو ہی جاننی”
اس لیے ضروری ہے کہ ان حکمرانوں پر اعتماد کیے بغیر تحریک کو عام لڑاکا عوام کی پرتوں میں منظم کیا جائے!
تحریک میں مڈل کلاس / چھوٹے کاروباری حضرات کا کردار
مڈل کلاس سے ہماری مراد چھوٹے کاروباری ہیں جو کچھ ملازمین کے ساتھ اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ بینکوں کے منیجرز، اچھی آمدنی والے ڈاکٹرز، وکلاء اور درمیانے درجے کے آفیسرز بھی شامل ہیں۔
اس وقت جموں کشمیر میں مڈل کلاس خاص طور پر چھوٹے تاجر انتہائی مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ تحریک کا حصہ ہیں وہ خطہ جس کیلئے پاکستان کے حکمرانوں نے ہمیشہ متنازعہ ہونے کی گردان کی اب عالمی سامراجی ادارے آئی ایم ایف کی ایما پربے حساب ٹیکسز لگا رہے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے عام عوام خرید و فروخت میں کفایت شعاری کرنے پر مجبور ہیں۔جس سے چھوٹے تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے دوسری طرف زیادہ تر کاروباری سرگرمیاں بڑے بڑے شاپنگ مالزکی طرف شفٹ ہو چکی ہیں جہاں لوگوں کو ایک چھت کے نیچے نہ صرف ساری اشیا ضرورت میسر ہوتی ہیں بلکہ کافی آٹیمز پرڈسکاؤنٹ بھی ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹے تاجر وں کو انتہائی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ مال ادھار پر دینا اور پھر معاشی بحران کی وجہ سے واپسی اہم مسئلہ ہے۔اس لیے تمام شعبوں میں ایک بحران کی کیفیت ہے۔ لوگ بیماری میں پورا پورا دن سرکاری ہسپتالوں کی لائنوں میں لگنا پسند کرتے ہیں تاکہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کی فیسوں،بھاری نسخوں اور ٹیسٹوں سے بچا جا سکے۔ لوگ تھانوں اورکورٹس کا رخ کرنا کم کر چکے ہیں تاکہ وکلاء اور انصاف سے آری منصفوں کا سامنا نہ کرنے پڑے۔عوام تعلیمی نصاب کی حقیقت اس حد تک جان چکے ہیں کہ اپنے بچوں کی تعلیم پر تھوڑا خرچ کرنا بھی ضائع لگتا ہے۔ ورکرز اپنی تنخواہوں پر ٹیکسوں کی ادائیگی کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔
نوآبادیات کی مڈل کلاس مہنگائی کی وجہ سے تنگ ہے اور اپنی محنت یا کمائی بڑے کاروباریوں کو دینے کی مخالفت کر تی ہے۔
لیکن یہ مخالفت کبھی بڑھ رہی ہے اور کبھی کم، کیونکہ جموں کشمیر میں موجود مڈل کلاس جو تاجروں اور ٹرانسپوٹرز کی قیادت پر مشتمل ہے بہت سارے ضلعوں کے اندر عوامی حقوق تحریک کے شروع میں عوام کے ساتھ مل کر مزاحمت کر رہی تھی۔اب ریاستی تشدد کے بعد نہ صرف امن کا نعرہ دے رہی ہے بلکہ ہڑتالوں اور دھرنوں کو ثابوتاژ کر نے کیلئے ریاستی حکمت عملی میں شامل ہے۔ مڈل کلاس کی انہی قلابازیوں کو دیکھ کر 20ویں صدی کے عظیم بالشویک انقلاب کے دوسرے اہم قائد سرخ فوج کے کمانڈر لیون ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ کیا تھا۔ ” جوں جوں انقلابی تحریکوں میں شدت آتی ہے۔ مڈل کلاس اپنی بزدلی اور کچھ کھونے کے ڈر سے آگے پیچھے ہو کرطاقت کا توزن چیک کرتی ہے۔اگرمحنت کش طبقہ طاقت سے اقتدار پر قابض ہو جائے تو مڈل کلاس اپنی خدمات محنت کش طبقے کو پیش کرتی ہے اور اگر حکمران طبقہ اپنی طاقت سے قبضہ برقرار رکھ لیتا ہے تو مڈل کلاس واپس انہی کی گود میں بیٹھ جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام اپنے حقوق کے ساتھ وسائل پر کنٹرول کیلئے طاقت حاصل کریں مڈل کلاس خود ہی ان کے یارانے میں آ جائے گی۔
قوم پرست اور سوشلسٹ رحجانات کی ناکامی
جموں کشمیر کے دونوں اطراف کی قوم پرست اور سوشلسٹ سیاست بھی کسی حد تک وہی ذمہ داریاں نبھاتی رہی جس طرح آرپار کی راویاتی پارٹیاں نے کردار ادا کیا۔نیشنل کانفرنس سے لیکر محاز رائے شماری، لبریشن فرنٹ کی مسلح جدوجہد اور باقی پارٹیاں جموں کشمیر کے ایشو کو مشروط بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ کسی نے بھی مکمل حل پیش نہیں کیا۔ کوئی اس کو انڈیا کے لبرل اور ترقی پسند آئین کے ساتھ مشروط کرتا رہا تو کوئی مسلمانوں کی اکثریت پر مبنی ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستا ن کے ساتھ کرنے کی بات کرتا رہا۔جنہوں نے خودمختاری کی جدوجہد کا راگ الاپا، ان میں سے توکچھ پاکستان کے قبضہ کو چھوٹی برائی کے طور پر دیکھتے رہے حتی کہ یہاں تک کہتے رہے کہ پاکستان قابض نہیں بلکہ انڈیا کے خلاف آزادی کی جنگ میں ہمارا شریک ہے اور کچھ انڈیا کے قبضے کو جائز قرار دیتے ہوئے یہ کہتے رہے چونکہ پاکستان کی اکتوبر 1948 کی دوراندوزی کی وجہ سے انڈیا کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ ایک معائدے کی صورت میں انٹر ہوا ہے لہذا پاکستان قابض ہے انڈیا قابض نہیں یعنی ان کے نزدیک جموں کشمیر چونکہ مہاراجہ کی جاگیر تھی اور جب اُس کی جاگیر کے ظا لمانہ ٹیکسوں کے خلاف عام عوام نے جو بغاوت کی تھی وہ بغاوت نہیں بلکہ بیرونی سازش تھی جو پاکستان کی طرف سے ہوئی اس طرح یہ قوم پرست
عوامی بغاوت و تحریک کو سیدھے سادے طریقے سے نظر انداز کرکے انڈیا کے نام نہاد سیکولرازم کی طرف جھک جاتے ہیں۔ کیا ایک غاصب کے کہنے پر دوسرے غاصب کے خلاف جدوجہد کی جا سکتی ہے؟
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کا کشمیر پر قبضہ ہے بے شک مہاراجہ کے خلاف عام عوام کی تحریک کو انگریز سامراج کی آشرباد سے پاکستان نے مداخلت کر کے ثبوتاژ کرتے ہوئے ایک مخصوض ٹولے کو ساتھ رکھ کر جموں کشمیر کے 5135 مربع میل مظفرآباد، پونچھ اورمیرپور ڈوژن پر مشتمل عبوری آزاد جموں کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی اور بعد میں گلگت بلتستان جس کا کنٹرول برطانیوی سامراج نے مہاراجہ سے لیکر اپنی ایک ایجنسی کے حوالے کیا ہوا تھا۔برصغیر کی تقسیم کے بعدپاکستان نے 1949 میں اس پر قبضہ کر لیا۔اور پھر اس قبضے کو مستقل کرنے کیلئے 28 اپریل 1949کو اپنی ہی بنائی ہوئی عبوری آزاد جموں کشمیر حکومت سے معاہدہ کرا چی پر دستخط کروا لیے۔
اس آرٹیکل میں ہم کچھ قوم پرست اور انقلابی ہونے کے علمبردار وں پر بھی بات کریں گے جو کشمیر کی خودمختار ی اور انقلاب پر بات کرتے ہیں کچھ خودمختاری کے نعروں کو لیکر انتہائی کنفیوژڈ پوزیشن کے ساتھ کشمیر عوام کے اقتدار کی بات کرتے ہیں کبھی موجود ہ اسمبلی کو با اختیار کیا جائے اور کبھی گلگت بلتستان کے عوام کی ہم آہنگی کے بغیر گلگت بلتستان اور پاکستان زیرانتظام جموں کشمیر کو ملا کر آئین سازاسمبلی دی جائے۔جس پر کبھی کوئی واضح پوزیشن نہیں رکھی گئی کہ یہ سب ہو گا کیسے؟
باقی انقلابی قومی جبر کو استحصال کے تابع کرتے ہوئے ایشوز کی سیاست کو لیکر مسئلہ جموں کشمیر کا حل برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن سے مشروط کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک جزوی اور عبوری حل کی کوئی اہمیت نہیں۔ان دونوں طرح کے سیاسی رجحانات کااہم اور بڑا مسئلہ ہے کہ یہ چیزوں کو انتہائی مرکزیت سے دیکھتے ہیں ان کی پارٹیوں کے اندر کبھی جمہوری مرکزیت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس لیے کوئی ہر سال بعد ٹوٹتی ہیں اور کچھ دہائیؤ بعد۔بڑے طریقوں کے ساتھ نیچے والے ہجوم سے اپنے مرید پیدا کرتے ہوئے چندر لیڈرز سے لمبی لمبی تقریرں یا کتابیں لکھوا کر اُس کی پیروی کا سبق دیتی پھرتی ہیں۔ اس لیے یہ پارٹیوں سے کمپنیوں کی طرح سفر کرتے رہتے ہیں۔جس کی وجہ سے مزاحمتی عنصر ان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے تنقیدی طور پر عوامی ایکشن کمیٹیوں کو آرگنائز کر رہا ہے۔موجودہ صورتحال میں بھی پروگرام کو ایڈوانس نہیں کیا جا رہا۔ جس کی بنیادی وجہ ایک طرف یہ نقطہ نظر پہ کنفیوژڈ ہیں اوردوسری طرف عوام کے کچھ حصوں کی پولرائزیشن اور پھر عوام کی واقعات میں براہ راست مداخلت پر۔
محنت کش طبقہ(ورکرز)
کیونکہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تحریکوں میں صنعتی مزدور کے بعد اہم کردار ادا کرنے والا شعبہ خد مات ہے اور کشمیر میں پیداواری عمل کے نہ ہونے کی وجہ سے خدمات کے ورکرز کی اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ عام عوام کے حقوق کی تحریک کے ساتھ باقائدہ یکجہتی کریں۔اپنی ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشن کی قیادت کو مجبور کریں کہ وہ موجودہ انقلابی صورتحال میں عام عوام کے مسائل کے ساتھ اپنے ورکرز کی مانگوں کو آگے بڑھائیں اور احتجاج کا سلسلہ شروع کریں کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے ٹریڈ یونینز پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ایکٹ 2016اور آڈرنینس 2023کا مقصد ورکرز کوہڑتال کے حق سے محروم کرنا، سروسز سٹرکچر اور پنشن میں رددوبدل کرنا اور مختلف رائٹ سائزنگ اور ڈاؤن سائزنگ جیسے ہتھکنڈے شامل ہیں۔یہ قوانین لانے کا واحد مقصد ورکرز کی شعبہ جاتی اور اجتماعی طاقت کو توڑنا ہے کیونکہ وہ آسانی کے ساتھ منظم ہو کر اپنے مفادات واگذارکرو ا سکتے ہیں۔ جو حکمرانوں کی پریشانیاں بڑھانے اور چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے ہمارے جیسے نوآبادیاتی خطے پر بھی ورکرز پرحملے کیے جا رہے ہیں۔ تاکہ آسانی کے ساتھ جو تھوری بہت حاصلات موجود ہیں ان کو بھی نیو لبر ل پالیسوں کے تحت چھین لیا جائے۔ہمیں کئی دفعہ یہ گفتگو سننے کو ملتی ہے کہ تعلیم کی نجکاری کی جا رہی ہے اور یہ سچ بھی ہے اب پاکستان میں تعلیم کی نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ نجکاری کے خلاف اساتذہ کی ہڑتالوں پر ریاستی تشدد کیا جا رہا ہے تو کیا کشمیر کے اندر یہ نہیں ہو گا؟
موجودہ حملوں کو دیکھ کے لگ رہا ہے کہ جموں کشمیر کے حکمران بھی اپنی شرکت داری کیلئے تعلیم، صحت اور برقیات وغیرہ کی نجکاری کی طرف بڑھیں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ ورکرز ان حملوں کو سمجھیں اور اپنے اپنے اداروں کے مفادات کو انفردی طور پر محفوظ کرنے کے بجائے مشترکہ لڑائی کا آغاز کریں۔ بے شک پچھلے دنوں تمام شعبوں نے ملا کر فیڈریشن کیلئے ایک کونسل کا انتخاب کیا ہے لیکن ضرورت اس عمل کی ہے کہ مل کر کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے حکمران کے ورکرز دشمن قوانین کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مزید مانگیں رکھی جائیں۔ورکرز کو چاہیے کہ اپنی قیادت پر نیچے سے پریشر بنائیں تاکہ جن تنظیموں کی قیادت فیڈریشن کی کوشش کر رہی ہے ان کی مدد ہو سکے۔کیونکہ ورکرز کا وہی اتحاد ہی قابل ِ ذکر ہو سکتا ہے جس میں ورکرز کی شمولیت ہو جو زیادہ جمہوری ہو۔بے شک اتحاد کی سیاست میں ہمیشہ لوگوں کی سوچیں۔ طریقہ کار مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی ذمہ داروں کی نوعیت مختلف ہے، قیادت کی اپنی وابستگیاں مختلف ہیں۔کچھ ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشن کی زیادہ تر قیادت اس چکر میں ہوتی ہے کہ اپنے شعبوں کے اندر سے کچھ مخصوص ورکرز کے چھوٹے موٹے مسائل کو حل کر کے اپنی قیادت پربراجمان رہے۔دنیا بھر کی ٹریڈ یونینز اپنے ورکرز کی مفادات کا خیال رکھتی ہیں پر ہمارے ہاں ورکرز کے مفادات کیلئے سرکاری اہلکاروں اور وزراء کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کچھ سالوں سے نوجوان ورکرز اور چند دیانتدار سینئر قیادت نے ورکرز کی سیاست کو تیز کیا جس کی وجہ سے ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشن پر حملوں کے ساتھ ورکرز پر بھی ریاستی حملے جاری ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ایک لڑاکا، جمہوری اور پاپولر فیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے جس کے پروگرام میں تمام اداروں کے مفادات کے ساتھ ہر طرح کے استحصال اور جبر کو بھی شامل کیا جائے۔
عوامی ایکشن کمیٹیز کی سیاست
عوامی ایکشن کمیٹیز کی سیاست کے پس منظر میں جائے بغیر دیہاتوں سے لیکر شہروں تک ساری محنت کش عوام چاہے اُن کا تعلق کس بھی پرت سے ہو مبارک باد کے مستحق ہیں اور لگتا ہے شاہد یہی ٹھیک طریقہ کار تھا جس کی وجہ سے عوامی ایکشن کمیٹیز کی تحریک اور قیادت یہاں تک پہنچی ہے۔ ہم ان مزاحمتکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے جہاں پر روایتی قیادت سے کنٹرول چھینا وہاں قوم پرست قیادت کو بھی یہ باور کروانے پر مجبور کیا کہ تمہاری حکمت ِعملی، طریقہ کار اور مرکزیت متروک ہو چکی ہے۔ کچھ مزاحمتکاروں نے عام عوام کو اس طرح جگایاکہ آج تقریباً 90فیصد عوام سمجھ چکے ہیں کہ سیاست میں ان کی براہ راست مداخلت ہی ا ن کے مفادات کا خیال رکھ سکتی ہے۔جوں جوں تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ اُسی تناسب سے عام عوام کے حوصلے بھی بلند ہو رہے ہیں۔نوجوان نئے نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس مہینے کی 5تاریخ کو عام ہڑتال اور پورے پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر میں ریلیاں نکالی گئیں۔پھر 10 اکتوبر کو خواتین اور بچوں نے احتجاج کیا۔ 17 اکتوبر کو پھر طلبہ نے احتجاج کیا اور پھر 28 اکتوبر کو دوبارہ احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی۔
عوامی ایکشن کمیٹیز کی کمزوریاں
ہم سب خود تنقید ی ہو کر یہ جانتے ہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹیز کی مروجہ قیادت کے اندر بے حد کمزوریاں ہیں۔ زیادہ تر مزاحمتکاراپنی قوم پرست پارٹیوں سے ٹوٹنے کے باوجود فرقہ واریت کا شکار ہیں۔ مختلف پس منظر ہونے کی وجہ سے ابھی تک ایک دوسرے سے کھل کر پروگرام پہ بحث کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ پولرائزیشن کے ڈر سے نعرہ کو ایڈوانس نہیں کیا جا رہا۔عوامی ایکشن کمیٹیز کے پلیٹ فارم سے بار بار اپیل کی جاتی ہے کہ پروگرام کی مسلمہ حقیقت کو چھوڑ کر صرف مانگوں تک محدود رہا جائے۔ دہائیوں سے اس ساری بے بسی کے ذمہ داروں کے خلاف متبادل کی بات نہ کی جائے۔ یہ کوئی سمجھداری نہیں کہ حکمرانوں کے بے اثر ہونے پر بھی متبادل نہ دیا جائے۔
کیا کیا جائے؟
اس وقت ضروری ہے کہ اس "کیا کیا جائے” کے سوال کو عام کیا جائے کیونکہ ہر تحریک کے دوران اس سوال کی شدت موجود رہتی ہے۔ تحریک کو کیسے اور کس کے ساتھ مل کرمزید آگے بڑھایا جائے۔عوام کی تعلیم اور تنظیم کا اہتمام کیسے ہو۔ اس وقت ضروری ہے کہ عوام کے اندر جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے کیلئے ہر گاؤں کی سطح سے پیپلز اسمبلیوں کی بنیاد رکھی جائے جہاں تمام” مسائل اور حل ” پر گفتگو ہو۔ ان پیپلز اسمبلیوں کے آخر پر ووٹنگ کروا تے ہوئے اکثریت رائے کے احترام سے موجودہ مطالبات کی کامیابی کیلئے کمپین اور قیادت کی درجہ بندی کروائی جائے یہی ایک بہترین طریقہ ہے جو جمہوری مرکزیت کی طرف جاتا ہے اور جمہوری مرکزیت ہی شاندار تعلقات اور متبادل معاشرے کی بنیادرکھ سکتی ہے۔آگے چل کر حکمرانوں کی بے اثر ی کو استعمال کرتے ہوے پاکستان زیرانتظام جموں کشمیر کے اندر آئین ساز اسمبلی کال کرنے کیلئے عارضی انقلابی حکومت کا نعرہ دیا جائے۔
عارضی انقلابی حکومت اس لیے کہ موجودہ حکمرانوں کی کرپشن اوربے پناہ دولت کے سامنے آنے کی وجہ سے،عوام کا ان سے اعتماد اٹھ چکاہے۔عوام سمجھ چکے ہیں کہ یہ پاکستانی حکمرانوں کے وفادار اور کٹھ پتلیاں ہیں۔ان کا اٹھنا، بیٹھنا،کھانا، پینا، گھر، گاڑی ہر چیز عام عوام سے مختلف ہے۔ ان کی ذات اور قبیلہ مختلف ہے۔ ان کی وجہ سے کتنی ماؤں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر میں پاکستان یا بیرونی ممالک کام کرنے بھیج دیتی ہیں۔ کتنے گھروں کی تنگ دستی سے بھاگے ہوئے نوجوان ڈنکی روٹس کا استعمال کرتے ہوئے قدرت کو پیارے ہو چکے ہیں۔ کتنے خاندان اپنے بچوں کیلئے بہتر تعلیم اور صحت میسرنہ ہونے کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں چلے جاتے ہیں۔ 70فیصد لوگ ملک سے باہر ہیں جن میں 20 سے 25فیصد پاکستان میں اور 40 سے 45 فیصد یورپ، امریکہ اور خلیجی ممالک ؤمیں نوکریاں کرتے ہیں۔ ان غلیظ حکمرانوں اور ان کے آقاؤں کو شرم نہیں آتی جب یہ اُن پردیسیوں کے رقوم کی ترسیل سے زرمبادلہ بناتے ہیں جنہیں یہ یہاں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کر سکے۔ان دکھوں، تکالیف اور ذہنی دباؤ کو دیکھ کر! فریڈرک نطشے! کا وہ قول یاد آتا ہے کہ امیروں نے غریبوں کے لیے خدا کے سوا کچھ نہیں چھوڑا!
اس لیے ان پر اعتماد کیے بغیر جدوجہد کی جائے۔ جو مسلسل آگے کی طرف بڑھے۔حکمران آئے روز عوام سے کہتے ہیں کہ پاکستان ان سے ناانصافی کر تا ہے اپنے وعدوں کے مطابق کو ئی بھی شَے پوری مہیا نہیں کی جاتی وغیرہ، مطلب جب شکاری خود جال میں پھنسا تو اُسے جال کے ہونے پر اعتراض ہونے لگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے بے ساختہ پن کا فائدہ اٹھایا جائے۔عوام ان کی بااختیاری کیلئے کچھ نہ کرے بلکہ اب ضروری ہے کہ نہ صرف اکیلے انہیں بلکہ تمام ریاستی اسٹیک ہولڈرز جن میں عام عوام کے نمائندے، ورکنگ کلاس کی قیادت،مڈل کلاس (وکلاء پروفیسر، تاجراور ٹرانسپوٹرز) اور طلبہ کی قیادت کو شامل کر کے عارضی انقلابی حکومت بنائی جائے جو آئین سازی کے فرائض سرانجام دیکر آئین ساز اسمبلی کا ل کرے۔ یہی پاکستان کے حکمرانوں کیلئے بھی بہتر ہے جو 76 سالوں سے بڑا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نہ صرف باقی جموں کشمیر کیلئے خود لڑے گی جو کا فی حد اور وقت تک پاکستان کیلئے فائدہ مند ہو گا اور اگر اس عام عوام کی تحریک پر مزید تشد د کیا گیا تو یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان اوردنیا بھر میں بیٹھے کشمیری اپنا رشتہ ناطہ،دوستی یاری استعمال کرتے ہوئے جہاں باقی دنیا کے عوام سے مدد لے سکتے ہیں وہاں پاکستان کے عوام سے بھی اپیل کر کے بڑے پیمانے کی یکجہتی لے سکتے ہیں جو یہاں کے عوام کی تحریک کا آغازہو گا۔ جو وسائل کساتھ جمہوری نعروں سے شروع ہو کر اسٹیبلشمنٹ کی سلطنت کو بھسم کر سکتی ہے۔
اس دیس کے ہر ایک لیڈر پر سوال اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے