Home Pakistan جموں کشمیر عوامی حقوق تحریک کیلئے یکجہتی کی اپیل

جموں کشمیر عوامی حقوق تحریک کیلئے یکجہتی کی اپیل

SHARE

ہم پاکستان،ہندوستان اور دنیا بھرکی مظلوم قومیتوں،طلبہ،انسانی حقوق،ٹریڈیونینز،خواتین، کسانوں اور عالمی سوشلسٹ تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر عوامی حقوق تحریک جس کے اہم مطالبات (پن بجلی کی پیداواری لاگت کے مطابق بجلی کی فراہمی، گندم کے آٹے پر سبسڈی اور اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ) شامل ہیں کی حمایت کریں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریک میں جس طرح مقبول عوام نے شعوری مداخلت کا اظہار کیا اُس کی مثال دیکھنے کوبہت کم ملتی ہے۔ اس تحریک کا قطعی طور پر تعلق صرف پاکستان زیرانتظام جموں کشمیر تک محدود نہیں بلکہ مطالبات کی ہیت کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ سامراج مخالف تحریک ہے کیونکہ ایک طرف جہاں سامراج سیاسی طور پر نظام کا رکھوالا ہے وہاں معاشی طور پر پن بجلی کی پیداوار کے اہم اور بڑے منگلا اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹز میں (برطانیہ، امریکہ، فرانس اور چینی) کمپنیوں کی انویسٹمنٹ کے ناطے بڑا حصہ دار بھی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تحریک کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے جموں کشمیر کے مقبول عوام کی پشت پناہی کی جائے۔
تفصیل اورہمارا سیاسی موقف
پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر 10 مئی کو پاکستان زیر انتظام جموں و کشمیر کے ریاستی دارالحکومت مظفرآباد اور باقی اضلاح میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔اس ہڑتال کے دوران مختلف جگہوں پر پولیس اور مظاہر ین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جن میں آنسو گیس کی شدید شیلنگ اور پتھراؤ کا تبادلہ شامل رہا۔جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے جمعہ کو ہڑتال کی کال مظفرآباد اور میرپور ڈویژن کے مختلف علاقوں میں راتوں رات چھاپوں کے دوران اس کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو پولیس کی طرف سے گرفتار کرنے کے بعد دی تھی۔گزشتہ ماہ، کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ ریاست بھر سے لوگ ہفتہ (11 مئی) کو پاکستان زیر انتظام جموں و کشمیر میں پن بجلی کی پیداواری لاگت کے مطابق بجلی کی فراہمی، گندم کے آٹے پر سبسڈی اور اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کا مطالبہ لیکر مظفر آباد کی طرف لانگ مارچ کریں۔ان مطالبات کو لیکر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے گزشتہ سال اگست میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی تھی۔ اس کے بعد گورنمنٹ اور (JAAC) کے درمیان مختلف اوقات میں مکالمہ ہوتا رہا۔پچھلے سال دسمبر میں، حکومت کی طرف سے ایک سرکاری مصالحتی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے بعد 4 فروری2024 کو دونوں فریقین کے درمیان اتفاق ہوا جس کے بعد حکومت نے کچھ مطالبات کو جزوی طور پر مانتے ہوئے باقی مطالبات کیلئے وقت مانگ لیا اس کا حکومت کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا،حالانکہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو،حکومت کے ساتھ اتنا نرم رویہ رکھنے پر نیچے عوامی ایکشن کمیٹیوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
تاہم، اپریل میں کمیٹی نے حکومت کی جانب سے ”تحریری وعدوں کی عدم تکمیل” کے خلاف احتجاجاً 11 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔
ریاستی دارالحکومت اور باقی اضلاح میں، پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جو بعد میں پُر امن مظاہرین پر پولیس کی طرف سے آنسو گیس کی شیلنگ کی وجہ سے پُر تشد د ہوئی کیونکہ پولیس کے تشدد کی وجہ سے مظاہرین نے جوابی حملوں میں پتھراؤ کا استعمال کیا۔ اس کے بعد مختلف شہروں میں مظاہرے کیے گئے، جہاں لوگوں نے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا۔
11مئی ہفتے کے روز پولیس اور حقوق کی تحریک کے کارکنوں کے درمیان پورے علاقے میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، مختلف حکومتی ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں پر ایک پولیس اہلکار ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہو ئے وہاں ہزاروں مظاہرین کو زخمی کیا گیا۔ پولیس اہلکار سب انسپکٹر عدنان قریشی سینے میں گولی لگنے سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسلام گڑ قصبے میں چل بسا جہاں وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ کوٹلی کے راستے مظفر آباد جانے والی ریلی کو روکنے کیلئے تعینات تھا۔ اس دفعہ عوامی حقوق تحریک کی قیادت اور کارکنان پہلے دنوں کی نسبت زیادہ پرجوش، بہادر اور منظم نظر آ رہے ہیں۔ قافلوں کے افراد ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ہر قصبے اور شہر میں قافلوں کا بھرپور استقبال اور کھانا پینا پیش کیا جاتا ہے۔ عوام کسی بھی قسم کے ریاستی خوف سے بے نیاز ہو کر تحریک میں اپنے احساسات، جذبات، افکار، ہمت اور جرا ت کو جلا بخشنے کیلئے موسیقی اور بھنگڑا(رقص)کا استعمال کر رہی ہے۔
پاکستان زیر انتظام کشمیر جس کے زیادہ تر عوام ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر پاکستان نوازرہے ہیں،کچھ سال قبل تک پاکستانی ریاست کی طرف سے مرتب تعلیم و آرٹ اور میڈیا کے سیٹ کیے گئے بیانیے کو ہی سچ مانتے اور پیروی کرتے رہے۔ان فرمودات کے ذریعے گزشتہ دہائیوں سے ثقافت، مذہب اور وطن سے محبت کا چرچا کیا جاتا رہا۔گنجائش اتنی رکھی گئی کہ اگر کوئی ثقافت، مذہب یا وطن سے محبت کو سمجھنے کیلئے سوال کرے تواُسے ملک دشمنوں کی لائن میں کھڑا کر دیا گیا۔ان نکات کو لیکر محنت کش عوام کی ایسی برین واشنگ کی گئی تھی کہ کچھ سال پہلے تک حکمران طبقے کو اپنے مفادات حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ یہی چورن عوام میں بکتا رہا جس کا مرکز بھارت مخالف شاونزم تھا۔لیکن نئی نسل نہ صرف ان کے آباؤاجداد کو دیئے گئے چورن کے ڈکاروں کی بدبوکو محسو س کر چکی ہے بلکہ بطور طیب اس کا علاج بھی کر رہی ہے۔ اس سماجی تبدیلی میں

 09 -2007 کے عالمی معاشی بحران، یوکرین جنگ اور فلسطیں پر اسرائیلی جارحیت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔جہاں پوری دینا کی سرمایہ داری کو معاشی بحران کاسامنا کرنا پڑا وہاں پاکستان جیسےترقی پذیر ملک کی حالت انتہائی خراب ہوئی۔یہ ملک جس کے حکمرانوں نے ہمیشہ سٹراجیک اہمیت کی وجہ سے امریکہ کیلئے کرایہ کی ریاست کا کردار ادا کیا۔ سماجی اسٹرکچر کو ایسے برقرار رکھا تاکہ جاگیرداری، مذہبی پیشوایت، سرمایہ داری اور دیہی سرمایہ داری کی تمام پرتوں کا ملان برقرار رہے جس کی سربراہی ہمیشہ اسٹبیلشمنٹ کے پاس رہی۔کیونکہ پاکستان میں سامراج کے بعد سب سے زیادہ وسائل رکھنے والی قوت اسٹبیلشمنٹ ہے جس کی دولت اب سامراجی دولت کے ساتھ نتھی ہو چکی ہے اس لیے ہر سال جرنلوں کی مختلف معاشی سرگرمیوں کی خبریں منظرعام پر آتی رہتی ہیں کہ فلاں جرنل کے پاس امریکہ اور کینڈا میں اتنے ریسٹورنٹس ہیں وغیرہ۔یہی اسٹبیلشمنٹ ہے جو بروقت اور عوامی مزاج کے مطابق مختلف پارٹیوں کو ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرتی رہتی ہے۔ اسٹبیلشمنٹ ہی سامراجی پالیسوں کیلئے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرتی ہے جو نیولبر ل پالیسیوں پر آب و تاب سے عمل کرتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دو دہائی سے مسئلہ کشمیر کو لیکر امریکی سامراج کے مفادات انڈیا کی طرف چلے گئے ہیں۔ کیونکہ انڈیا سامراج کی ایک بڑی اور اہم منڈی ہے جو نہ صرف محنت کی تقسیم میں اہم کردار اد ا کر رہی ہے بلکہ سستی لیبر مہیا کرنے والی اہم ریاست ہے۔جس نے اس معاشی بحران کے دوران عالمی سامراج امریکہ اور اُس کے اتحادوں کیلئے اپنی سستی لیبر اور منڈی کو نہایت کم شرایط پر کھولا ہے۔بڑی معیشت ہونے کے ناتے سامراجی کیمپ میں اہم حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
پاکستانی ریاست جو ماضی قریب میں کرایے کی ریاست کے طور پر امریکی سامراج کو سروسز دیتی رہی۔اب اس کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اس لیے امریکی سامراج نے انڈیا کو کشمیر کی خاص حیثیت ختم کرنے پر کوئی اپوزیشن نہیں دی بلکہ رسمی طور پر پاکستان کے حکمرانوں کو اجازت دی کہ وہ بے شک یو این میں اپنے عوام کو مزید بیوقوف بنانے کیلئے تقاریر کرتے رہے اس کا مطلب سادہ اور دو ٹوک ہے کہ مودی حکومت کا 5اگست 2019 کو اپنے آئین سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے وفاق کے کنٹرول میں لینے کے پیچھے سامراجی اشرباد تھی جس کی پیشگی اطلاح پاکستان کو دی جا چکی تھی۔
۔ پاکستان جو ماضی میں دہلی کے لال قلعے پر پاکستانی جھنڈا لہرہانے کی قسمیں کھاتا رہا انڈیا کے اس عمل پر نہ صرف خود خاموش رہا بلکہ پاکستان زیرانتظام کشمیر کے عوام کو بھی خاموشی اختیار کر نے کی دھمکیا ں دیتا رہا اورجب کچھ قوم پرست پارٹیوں نے سیزفار لائن کراس کرنے کی کوشش کی جنہیں لائن آف کنٹرول کے پاس روکا گیا اور بالاآخر عوام کے سامنے ان کی ساکھ بچانے کیلئے ایک دفعہ پھر یواین او کو درمیان میں ڈالا گیا وہ یو این او جو ابھی تک امریکی سامراج کی داشتہ ہے پھر سوال تو بنتا ہے کہ کیا قوم پرستوں کو نہیں پتہ کہ اقوام متحدہ کیا ہے؟
پھر باقی ماندہ قوم پرستوں اور انقلابیوں نے پیپلز نیشنل الائنس (پی این اے) کے نام سے ایک اور اتحاد تشکیل دیا جس نے پاکستانی ریاست کے دوغلے پن کو کھل کر ڈسکس کیا کہ پاکستان ہماری تحریک کا ساتھی نہیں بلکہ خود قابض ہے اس لیے جو جس کا غلام وہ اُسی کے خلاف علم بغاوت بلند کرے۔اور یہ نعرہ لگایا کہ وسائل ہمارے قبضہ تمارا نا منظور نامنطور۔
یہ بالکل درست عمل تھا کہ دونوں ممالک ہی قابض ہیں جنہوں نے کشمیریوں کو دونوں اطراف ایک لائن کھچ کر روکا ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستانی ریاست کے براہ راست قبضے کے خلاف لڑیں۔اس لیے ان کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ لیکن پی این اے کی قیادت ٹھوس پرورگرام کو سامنے لائے بغیر انتہائی مرکزیت کے ساتھ کنفیوژڈ سرحدی خطوط کا استعمال کرتی رہی، کبھی قانون ساز اسمبلی کو با اختیار کرو، کبھی پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر آئین ساز اسمبلی دو وغیرہ،اس اتحاد کی زیادہ تر قیادت کیڈرز کے درمیان مناظرے اور مباحثے سے بھاگتی رہی۔ جس کی بنیادی وجہ وہی منطق تھا کہ قانون ساز اسمبلی کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر وحدت، آزادی اور قومی جمہوری انقلاب کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔یہ وجہ تھی کہ قیادت کی مرکزیت اور غیرسائنسی اپروچ کی وجہ سے پیپلز نیشنل الائنس (پی این اے) زیادہ عوام کو نکالنے میں نا کام رہا۔چند ہزار افراد مظفرآباد تک پہنچے جن   پر 22 اکتوبر 2019 کو ریاست نے اچھا خاصہ تشدد کیا۔ اس عمل سے نہ صرف نوجوانوں کے حوصلے پست ہوئے بلکہ قیادت بھی پوری طرح سے بے نقاب ہوئی اور اُس کے بعد اس اتحاد کی تمام پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہی۔
اس وقت کی تحریک جس کی قیادت زیادہ تر انہی نوجوانوں کے پاس ہے جن کا سابقہ یا موجود تعلق کسی نہ کسی طرح سے مزحمتکاری کے ساتھ رہ چکا ہے ۔ جو عرصہ داراز سے پاکستان زیرانتظام جموں کشمیر کے اندر دونو ں قابض ممالک پاکستان اور ہندوستان کے قبضے کا خاتمہ، وسائل کی لوٹ مار، بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں۔ان میں زیادہ تر وہ نوجوان ہیں جو اپنی قوم پرست یاترقی پسند گروپوں کی دوغلی سیاست سے تنگ ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس آگے بڑھنے یا کنٹرول کرنے کا کوئی واضح راستہ نہیں لیکن یہ مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام ان کے شاناباشان کھڑے نظر آتے ہیں۔عوام کے اندر دہائیوں کی محرومیوں کا بدلہ لینے کی تڑپ ہے وہ اپنے ماضی کے دکھوں اور تکالیف کا مداوا چاہتے ہیں۔ان کی اتنی نفرت مقامی حکمرانوں کے خلاف پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی جو اس وقت سامنے آرہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سماجی ابھار میں بے پناہ خامیاں پائی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی اہم کمزوری تاریخی واقعات میں عوام کی مداخلت کے وقت کیا ہونا چاہیے،کن تاریخی حوالہ جات کا مطالعہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس وقت جہاں عوام لڑاکا بنیادوں پر لڑنا چاہتے ہیں۔ وہ حقوں کی تحریک سے آزادی، خودمختاری اور انقلاب کے نعروں کی طرف رجوع کر رہے ہیں ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے یہ کوئی آج کی محرومی نہیں جس کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ دہائیوں کی محرومیاں ہیں جن کو آج تک برداشت کیا گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے پرورگرام کو ایڈوانس کرتے ہوئے جدوجہد کی جائے۔
بہت عرصہ پہلے سے عام عوام کی طرف سے سول نافرمانی کا مطالبہ کیا جا رہے ہے کیونکہ جہاں عوام پاکستان کے حکمرانوں کو قابض سمجھتے ہیں وہاں پاکستان کی طرف سے دی گئی قانون ساز اسمبلی کے نمائندوں کوبرابر کا شریک تصور کرتے ہیں۔ یہ وہ اسمبلی جس نے آج تک کشمیروں کو تقریر اور تحریر تک کی آزادی نہیں دی۔اسمبلی کے الیکشن میں جموں کشمیر کی خودمختاری کو لیکر کاغذات تک جمع نہیں کروا سکتے بلکہ پہلے جموں کشمیر بنیگا پاکستان کا حلف دینا پڑتا ہے۔
76 سالوں سے پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے زیر قبضہ کشمیر کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوام کو بیوقوف بناتا آرہا ہے کہ وہ کشمیر کیلئے ہزاروں سالوں تک لڑلیں گے۔جس کی بنیادی وجہ کشمیر ایشو کو زندہ رکھ کے پاکستان زیر انتظام کشمیر کے وسائل کو لوٹنا او ر دوسری طرف پاکستانی عوام کے جذبات کو ابھارنا ہے۔ جس کیلئے پاکستانی میڈیا اور نصاب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جو پاکستان کی مالک ہے جس نے پاکستان کے جنم سے لیکر امریکہ کے ساتھ ساز بار ی رکھتے ہوئے بے شمار ادارے بنا کر پاکستان کے زیادہ تر وسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھا بلکہ کشمیر کے دفاع کے نام پر ملکی بجٹ کا ایک اہم اور زیادہ حصہ استعمال کرتی رہی۔ پاکستان میں عملی طور پر چار دفعہ مارشل لائز لگائے گئے اور ملک میں باقی تمام عرصے کا سفر بھی تقربیا بوناپارٹسٹ رجیم کے کنٹرول میں رہا، مطلب تاریخی طور پر سیاسی حکومتوں کی بھاگ دور ملٹری اشرافیہ کے پاس ہی رہی۔
اس ملٹری اشرافیہ اور اس کی حاشہ بردار سیاسی اشرافیہ نے کشمیر کے اندر کبھی کوئی ترقی نہیں ہونے دی ہمیشہ یہ جواز مہیا کیا کہ کشمیر ایک متنازیہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ حالانکہ خوبصورت پہاڑوں،جنگلات، دریاؤں اور ابشاروں کی اس سرزمین پر اچھا خاصہ ٹورازم ہو سکتا تھا لیکن نہیں ہونے دیا کیونکہ اگر ٹورازم ہوتا تو کیسے ملٹری آفیسرز کے اہل خانہ گرمیوں کی چھٹیاں اتنے پرسکون ماحول میں گزرتے؟
جموں کشمیر کے اندرصنعت لگائی جا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہونے دیا کیونکہ صنعت لگتی تو20سے 30 لاکھ لوگ جنہوں نے روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کیا ان میں سے زیادہ تعداد کو یہاں روزگار مل سکتا تھا۔ جموں کشمیر کے اندر ہایئڈپاورز لگائے گئے جن سے اس وقت تقربیا4 سے پانچ ہزار میگا واٹز بجلی پید ا کی جائے رہی ہے جو آنے والے دو تین سالوں تک 8 سے 10 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ ا اس پیداواری عمل میں مصروف زیادہ تر مزدوروں کا تعلق بھی کشمیر سے نہیں اور پھر کشمیر میں بجلی کی کل ضرورت جوتقربیا 385 میگاواٹز ہے وہ بھی انتہائی کنجوسی سے دی جا رہی ہے دس دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے اور عوام کے اعتراضات کے وقت پاکستان زیرانتظام کشمیر کے حکمران اس کی ساری ذمہ داری پاکستان وپڈا پر لگاتے ہیں اور پاکستان وپڈا واپس کشمیر کے ان نا اہل حکمرانوں پر۔
کشمیر کی بندر بانٹ پر شملہ معاہدہ
اس میں شک نہیں کے کشمیر کی بندر بانٹ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی جب جموں کشمیر کے عوام بے جا ٹیکسوں اور آزادی کیلئے جدوجہد میں مصروف تھے جس کا آغاز برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ تحریک کی اتنی شدت تھی کہ جموں کشمیر کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ اپنے تمام ظلم و جبر کے ساتھ عوام کو مذید رعاتیں دینے کو تیار ہو چکا تھا، لیکن اکتوبر 1948 کو برطانیوی سامراج کی ایما پر پاکستان نے مداخلت کرتے ہوئے بڑی تعداد میں قبیلیوں کو کشمیر میں داخل کیا جنہوں نے نہ صرف کشمیر کی مہاراجہ سے آزادی کی تحریک کو ثبوتاژ کیا اور مہاراجہ کو جواز مہیا کیا کے وہ انڈیا سے مدد طلب کرے جس کیلئے انڈیا پہلے سے تیار بیٹھا تھا۔ کہ کیسے ہو سکتے ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر کی تقسیم کا دونوں ممالک کے حکمرانوں اور برطانیوی سامراج کے علم میں نہیں تھا۔حالانکہ دونوں ممالک کی فوجوں کی تربیت ابھی تک سامراجی کمانڈر زہی کر رہے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اُس وقت کے پرانے سامراج برطانیہ اور ابھرتے ہوئے سامراج کی ایک سٹرجیک چال تھی جس کی بھینٹ کشمیریوں کو بھی چڑھاگیا۔ کیونکہ اس پر نہ صرف دونوں ممالک کی اشرافیہ نے خوب لوٹ مار کی بلکہ مسئلہ کشمیر کو یواین او میں رکھو ا کر سامراج نے بھی اپنے سٹرجیک مفادات کا دفاع کیا۔
1971میں انڈیا اور پاکستان کی جنگ ہوئی جس میں پاکستان کو شکت ہوئی اورانڈیا نے پاکستان کے تقربیا93,000 ہزارفوجی گرفتار کر لیے جن پر مختلف دے لے ہوتی رہی لیکن آخر کار دونوں ممالک نے نے مل کر شملہ معاہدہ کیا جس کا اہم نقطہ کشمیر ایشو کو دونوں ممالک نے اپنا نجی مسئلہ قرار دیا اور عالمی طاقتوں امریکہ اور روس نے بھی نمایاں طور پر اس ساز باز کا ساتھ دیتے ہوئے ایشو کے اصل وارثاء کشمیر یوں کو فریقین کی لسٹ سے خارج کر دیا گیا۔یوں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ سے اٹھوا کر دونوں ممالک کا نجی مسئلہ بنا دیا گیا۔
جب انڈیا سوویت کیمپ میں تھا اُس وقت امریکہ کو پاکستان کی سخت ضرورت تھی نہ صرف پاکستان کی مدد سے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کی بلکہ کشمیر میں بھی انڈیا کے خلاف مسلح سرگرمیوں میں مددکرتا رہا لیکن روس کا آزاد منڈی کی معیشت کی طرف رجوع کرنے سے صورتحال یکساں تبدیل ہو گئی۔ امریکہ سامراج نے واحد طاقت کے طور ہر خطے کے اندر اپنے معاشی اور سٹرجیک اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ساری ریاستوں کیلئے اپنی پالیسیاں تبدیل کی۔
انڈیا ایک طرف مانگ اور سستی لیبرکی منڈی ہے جو لیبر کی تقسیم کی وجہ سے میٹروپولیٹن ریاست کا روپ دھار چکی ہے دوسری طرف امریکہ کو ابھرتے ہوئے سامراج چین کے خلاف ایک اتحادی کی ضرورت تھی جس کیلئے انڈیا ایک بہترین اپشن تھا تاکہ سامراجی تعلقات میں چین کو ہمیشہ ہمسایا ملک انڈیا سے مسلسل دباؤ میں رکھویا جائے۔
موجودہ تحریک کا کردار
ہم اس تحریک کا پس منظر پہلے سے ہی اوپر بیان کر چکے ہیں۔ یہ تحریک پچھلی تحریکوں کا ہی تسلسل ہے۔لیکن بعض اوقات دہاہوں کا سفر دنوں میں طے کرنے کے جذبے امٹ آتے ہیں۔ اس وقت نہ صرف پاکستان زیرانتظام کشمیر میں ایسا ہو رہا ہے بلکہ اس تحریک نے پاکستان کے محنت کشوں کو بھی متاثر کیا ہے کہ وہ بھی حکمرانوں کی دی ہوئی بھوک ننگ اور نام نہاد آزادی کو اصل آزادی میں تبدیل کرنے کے جذبے سے سرشار ہو سکیں۔ پاکستان زیرانتظام کشمیر کی تحریک نے بالعموم اشیاء خودرنوش اور بلخصوض بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور حکمرانوں کی مراحات کے خلاف ایک عمومی تحریک ہے جس کے نعرے وہی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے لگائے جا رہے، بجلی ہماری راج تمہارا نامنظور منظور، اس نعرہ کا مطلب قطعی طور پر صرف پاکستان کے حکمرانوں کو للکارنا نہیں بلکہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے حکمرانوں کے خلاف بھی مزاحمت کرنا ہے۔جو عرصہ دازسے پاکستان کے حکمرانوں کی ایما پر جموں کشمیر کے وسائل لوٹتے رہے۔اس لوٹ مار سے بے حساب دولت جمع کی۔پاکستان کی پارٹیوں کو ایک متنازعہ علاقے میں متعارف کروایا بلکہ اقتدار میں آ کر جموں کشمیر، پاکستان اور بیرون ممالک میں لا تعداد جائیدایں بنائی جہاں ان حکمرانوں کے بچے نہ صرف امریکہ،کینڈا اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ا علیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ وہاں پر اپنے کاروبار کی بھی دیکھ بھال کرتے ہیں اور پھر واپس آکر زیادہ اچھے طریقے سے عوام کو جھوٹ پر مبنی پاشن دے کر قانون ساز اسمبلی میں روکن منتخب ہو تے ہیں تاکہ اپنے والدین کی کمائی ہوئی دولت کی حفاظت کے ساتھ مزید دولت کے ذرائع تلاس کیے جا سکیں۔اس تماشا کی جھلک دیکھنی ہے تو موجودہ اسمبلی میں حکمرانوں کی اولادوں کو دیکھیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کے ساتھ قانون ساز اسمبلی کا الیکشن جیتا اور وزیر بننے بیٹھے ہیں۔ ہمیں ان حکمرانوں کی دولت کی حوس اور لالچ کے اور کیا ثبوت چاہیے کہ یہ ایک ہی وقت میں اقتدار اور اختلاف میں بیٹھے ہیں؟
کیا ان قانون ساز اسمبلی کے حکمرانوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
اگر دیانت داری سے موجودہ حکمرانوں کے سیاسی شعورکے ارتقا کا تجزیہ کیا جائے تو جموں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہو گا کہ ان حکمرانوں پر کبھی اعتماد نہ کیا جائے۔ جموں کشمیر کی پرانی سیاسی جماعت جو مسلم کانفرنس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس نے اپنے وجود سے لیکر پہلے مسلم لیگ اور پھر پاکستان کی وفاداری (شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار)کے طور پر کی۔ مسلم کانفرنس کی قیادت کا پوسچراس طرح بنایا گیا تاکہ عوام اُس کی قیادت کی ایمانداری اور سادگی کی مثالیں دیں۔منافقین کی عظمت کو ایسے رنگا گیا کہ ان کی مکاری لمبے عرصے تک ہمارے آباواجداد کی ایک پوری کھپ کو بیوقوف بناتی رہی۔ پاکستان کے حکمرانوں کو بڑے بھائی کے طور پر متعارف کرواتے رہے۔کشمیر بنیگا پاکستان کے بیانے کواس لیے اہمیت دیتے تھے تاکہ ایک طرف عوام کی سادگی سے فائدہ اٹھا کہ وسائل کو ہڑپ کیا جائے تو دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کی آشرباد حاصل کرتے رہے۔
لیکن چونکہ سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی سانئسی قوانین کے تابے ہیں اس لیے جوں جوں انسانی شعور ترقی کرتا ہے وہ پرانے پر سوال اور نئے کی تلاس میں رہتا ہے۔جموں کشمیر کے عوام نے جب سوالات کا سلسلہ شروع کیا تو بے شمار فارمولے لانے کی کوشش کی گئی۔ جن کے تحت جی بی اور نام نہاد آزادکشمیر کو پاکستان کے قبضے میں دینا شامل تھا۔لیکن معصوم عوام پر حکمرانی کیلئے الحاق ِ پاکستان کے درد مندوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم تو سارے کشمیر کو آزاد کروا کر پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے یہ تو منظور نہیں کہ ایک ٹکڑا کو پاکستان میں شامل کیا جائے۔ اس طرح مسلم کانفرنس کی قیادت کا سارے کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کا فارمولا اسٹیبلشمنٹ کیلئے مشکل تھا اور دوسری طرف مسلم کانفرنس کی قیادت جو سردار ابراہیم خان کے جانے کے بعد سردار عبدالقیوم کے گرد گھوم رہی تھی۔ اُس نے اپنے بعد مذید مرکزیت قائم کرنے کیلئے اپنی پارٹی کی قیادت اپنے بیٹے سردار عتیق کے حوالے کی جس کی وجہ سے باقی پارٹی قیادت نے عدم اعتماد کرتے ہوئے پاکستان کے سرمایہ داروں کی پارٹی مسلم لیگ نواز کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کے جاگیردار پاپولر لیڈر ذولفقار علی بھٹو کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی لانچ کی گئی تھی۔ جس میں نہ صرف جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی اول درجے کی قیادت سردار ابراہیم خان کی شکل میں شامل ہوئی بلکہ بے شمار قوم پرستوں، راہ شماری کا چرچاکر نے والے اہم لیڈر جموں کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید نے بھی اپنی پارٹی کو پیپلز پارٹی میں زحم کیا۔بے شمار ا جموں کشمیر کے اسٹالنسٹوں نے اپنے پاکستانی اسٹالنسٹ بھائیوں کی پیروی کرتے ہوئے بھٹو کے قدموں میں ڈھرلی۔پہلے یہی حکمران تھے جن کی قیادت سردار ابراہیم خان کر رہے تھے۔ جنہوں نے اکتوبر 1949 میں اپنی نوکری پکی کرنے کیلئے پاکستان کے حکمرانوں سے معاہدہ کراچی کرتے ہوئے جموں کشمیر کے اہم حصے گلگت بلتستان کو پاکستان کے مکمل کنٹرول میں دیا تھا۔جس کی آڑ میں بعد میں اسٹٹ سبجکٹ رول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گلگت بلستان جیسے اہم اسٹرجیک خطے کی ڈیموگرفیی تبدیل کی گئی، جس کا فائدہ اٹھا کر متعلقہ خطے کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ پرانے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون ساز اسمبلی کے نمائندوں پر قطعی یقین نہ کیا جائے۔اس کی بنیادی وجہ یہ اتنی دولت کما چکے ہیں کہ ان کی معیارے زندگی اور عام عوام کے معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔انھیں نے دولت کے حصول کیلئے جو ساری کرپشن کی ہے اس کے سارے ثبوت اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں تاکہ ان میں سے کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کی ایما کے بغیر کوئی معاشی یا سیاسی سرگرمی نہ کر سکے۔
کیا ان حکمرانوں کو اشیاء خوردونوش، بجلی کی قیمتوں، خاندان کے علاج اور بچوں کی تعلیم کی کوئی پروا ہو گی کہ انکے ساتھ کسی قسم کا اتحاد کیا جا سکے؟؟؟ "اس لیے جڑی چھنی ہو ہی جاننی”
اس لیے ضروری ہے کہ ان حکمرانوں پر اعتماد کیا بغیر تحریک کو عام لڑاکا عوام کی پرتوں میں منظم کیا جائے!
تحریک میں مڈل کلاس / چھوٹے کاروباری حضرات کا کردار
مڈل کلاس سے ہماری مراد چھوٹے کاروباری جو کچھ ملازمین کے ساتھ اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ بینکوں کے منیجرز، اچھی آمدنی والے ڈاکٹرز، وکلاء اور درمیانے درجے کے آفیسر بھی شامل ہیں۔
اس وقت جموں کشمیر میں مڈل کلاس خاص طور پر چھوٹے تاجر انتہائی مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ تحریک کا حصہ ہیں وہ خطہ جس کیلئے پاکستان کے حکمرانوں نے ہمیشہ متنازعہ ہونے کی گردان کی اب عالمی سامراجی ادارے آئی ایم ایف کی ایما پربے حساب ٹیکسز لگا رہے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے عام عوام خرید و فروخت میں کفایت شعاری کرنا پر مجبور ہیں۔جس سے چھوٹے تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے دوسری طرف زیادہ تر کاروباری سرگرمیاں بڑے بڑے شپنگ مالزکی طرف شفٹ ہو چکی ہیں جہاں لوگوں کو ایک چھت کے نیچے نہ صرف ساری اشیا ضرورت میسا ہوتی ہیں بلکہ کافی آٹیم پرڈسکائٹ بھی ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹے تاجر وں کو انتہائی پیچدگیوں کا سامنا ہے۔ مال آدھار پر دینا اور پھر معاشی بحران کی وجہ سے واپسی اہم مسئلہ ہے۔اس لیے تمام شعبوں میں ایک بحران کی کفیت ہے۔ لوگ بیماری میں پورا پورا دن سرکاری ہسپتالوں کی لائنوں میں لگنا پسند کرتے ہیں تاکہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کی فیسوں،بھاری نسخوں اور ٹیسٹوں سے بچا جا سکے۔ لوگ تھانوں اورکورٹس کا رخ کرنا کم کر چکے ہیں تاکہ وکلاء اور انصاف سے آری منصفوں کا سامنا نہ کرنے پڑے۔عوام تعلیمی نصاف کی حقیقت اس حد تک جان چکے ہیں کہ اپنے بچوں کی تعلیم پر تھوڑا خرچ کرنا بھی ضائع لگتا ہے۔ ورکرز اپنی تنخواہوں پر ٹیکسوں کی ادائیگی کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔
نوآبادیات کی مڈل کلاس مہنگائی کی وجہ سے تنگ ہے اور اپنی محنت یا کمائی بڑے کاروباریوں کو دنیے کی مخالفت کر تی ہے۔
لیکن یہ مخالف کبھی بڑا رہی ہے اور کبھی کم، کیونکہ جموں کشمیر میں موجود مڈل کلاس جو تاجروں اور ٹرانسپوٹرز کی قیادت پر مشتمل ہے بہت سارے ضلعوں کے اندر عوامی حقوق تحریک کے شروع میں عوام کے ساتھ مل کر مزاحمت کر رہی تھی۔ اب ان میں سے بہت سارے موقع اور مفادات پرست ریاست کے سپاہی بن کر امن کا نعرہ دے رہے ہیں بلکہ ہڑتالوں اور دھرنوں کو ثابوتاژ کر نے کیلئے ریاستی حکمت عملی میں شامل رہے۔ مڈل کلاس کی انہی قلابازیوں کو دیکھ کر 20ویں صدی کے عظیم بالشویک انقلاب کے دوسرے اہم قائد سرخ فوج کے کمانڈر لیون ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ کیا تھا۔ جوں جوں انقلابی تحریکوں میں شدت آتی ہے۔ مڈل کلاس اپنی بزدلی اور کچھ کھونے کے ڈر سے آگے پیچھے ہو کرطاقت کا توزن چیک کرتی ہے۔اگرمحنت کش طبقہ طاقت سے اقتدار پر قابض ہو جائے تو مڈل اپنی خدمات محنت کش طبقے کو پیش کرتی ہے اور اگر حکمران طبقہ اپنی طاقت سے قبضہ برقرار رکھ لیتا ہے تو مڈل کلاس واپس انہی کی گود میں بیٹھ جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام اپنے حقوق کے ساتھ وسائل پر کنٹرول کیلئے طاقت حاصل کرے مڈل کلاس خود ہی ان کے یارانے میں آ جائے گی۔
قوم پرست اور سوشلسٹ رحجانات کی ناکامی
جموں کشمیر کے دونوں اطراف کی قوم پرست اور سوشلسٹ سیاست بھی کسی حد تک وہی ذمہ داریاں نبھاتی رہی جس طرح آرپار کی راویاتی پارٹیاں نے کردار ادا کیا۔نیشنل کانفرنس سے لیکر محاز رائے شماری، لبریشن فرنٹ کی مسلح جدوجہد اور باقی پارٹیاں جموں کشمیر کے ایشو کو مشروط بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ کسی نے بھی مکمل حل پیش نہیں کیا۔ کوئی اس کو انڈیا کے لبرل اور ترقی پسند آئین کے ساتھ مشروط کرتا رہا تو کوئی مسلمانوں کی اکثریت پر مبنی ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستا ن کے ساتھ کرنے کی بات کرتا رہا۔جنہوں نے خودمختاری کی جدوجہد کا رگ الاپاان میں سے توکچھ پاکستان کے قبضہ کو چھوٹی برائی کے طور پر دیکھتے رہے حتی کہ یہاں تک کہتے رہے کہ پاکستان قابض نہیں بلکہ انڈیا کے خلاف
آزادی کی جنگ میں ہمارا شریک ہے اور کچھ انڈیا کے قبضے کو جائز قرار دیتے ہوئے یہ کہتے رہے چونکہ پاکستان کی اکتوبر 1948 کی دوراندوزی کی وجہ سے انڈیا کشمیر میں مہاراج ہری سنگھ کے ساتھ ایک معائدے کی صورت میں انٹر ہوا ہے لہذا پاکستان قابض ہے انڈیا قابض نہیں یعنی ان کے نزدیک جموں کشمیر چونکہ مہاراجہ کی جاگیر تھی اور جب اُس کی جاگیر کے ظلمانہ ٹیکسوں کے خلاف عام عوام نے جو بغاوت کی تھی وہ بغاوت نہیں بلکہ بیرونی سازش تھی جو پاکستان کی طرف سے ہوئی اس طرح یہ قوم پرست
عوامی بغاوت و تحریک کو سیدھے سادے طریقے سے نظر انداز کرکے انڈیا کے نام نہاد سیکولرازم کی طرف جھک جاتے ہیں۔ کیا ایک غاصب کے کہنے پر دوسرے غاصب کے خلاف جدوجہد کی جا سکتی ہے؟
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کا کشمیر پر قبضہ ہے بے شک مہاراجہ کے خلاف عام عوام کی تحریک کو انگریز سامراج کی آشرباد سے پاکستان نے  مداخلت کر کے ثابوتاژ کرتے ہوئے ایک مخصوض ٹولے کو ساتھ رکھ کر جموں کشمیر کے 5135 مربع میل مظفرآباد، پونچھ اورمیرپور ڈوژن پر مشتمل عبوری آزاد جموں کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی اور بعد میں گلگت بلتستان جس کا کنٹرول برطانیوی سامراج نے مہاراجہ سے لیکر اپنی ایک ایجنسی کے حوالے کیا ہوا تھا۔برصغیر کی تقسیم کے بعدپاکستان نے 1949 میں اس پر قبضہ کر لیا۔اور پھر اس قبضے کو مستقل کرنے کیلئے 28 اپریل 1949کو اپنی ہی بنائی ہوئی عبوری آزاد جموں کشمیر حکومت سے معاہدہ کرا چی پر دستخط کروا لیے۔
اس آرٹیکل میں ہم کچھ قوم پرست اور انقلابی ہونے کے عالمبردار وں پر بھی بات کریں گے جو کشمیر کی خودمختار ی اور انقلاب پر بات کرتے ہیں کچھ خودمختاری کے نعروں کو لیکر انتہائی کنفیوژڈ پوزیشن کے ساتھ عوامی اقتدار کی بات کرتے ہیں کبھی موجود اسمبلی کو با اختیار کیا جائے اور کبھی گلگت بلتستان کے عوام کی ہم آہنگی کے بغیر گلگت بلتستان اور پاکستان زیرانتظام جموں کشمیر کو ملے کر آئین سازاسمبلی دی جائے۔جس پر کبھی کوئی واضح پوزیشن نہیں رکھی گئی کہ یہ سب ہو گا کیسے؟
باقی انقلابی قومی جبر کو استحصال کے تابع کرتے ہوئے ایشوز کی سیاست کو لیکر مسئلہ جموں کشمیر کا حل برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن سے مشروط کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک جزوی اور عبوری حل کی کوئی اہمیت نہیں۔
ان دونوں طرح کے سیاسی رجحانات کااہم اور بڑا مسئلہ ہے کہ یہ چیزوں کو انتہائی مرکزیت سے دیکھتے ہیں ان کی پارٹیوں کے اندر کبھی جمہوری مرکزیت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس لیے کوئی ہر سال بعد ٹوٹتی ہیں اور کچھ دہائیوں بعد۔قیادت بڑے طریقوں کے ساتھ نیچے والے ہجوم سے اپنے مرید پیدا کرتے ہوئے چندر لیڈز سے لمبی لمبی تقریر یا کتابیں لکھوا کر اُس کی پیروی کا سبق دیتی پھرتی ہیں۔ اس لیے یہ پارٹیوں سے کمپنیوں کی طرح سفر کرتے رہتے ہیں۔جس کی وجہ سے مزاحمتی عنصر ان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے تنقیدی طور پر عوامی ایکشن کمیٹیوں کو آرگنائز کر رہا ہے۔موجودہ صورتحال میں بھی پروگرام کو ایڈوانس کیا جا رہا۔
محنت کش طبقہ(ورکرز)
کیونکہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تحریکوں میں صنعتی مزدور کے بعد اہم کردار ادا کرنے والا شعبہ خد مات ہے اور کشمیر میں پیداواری عمل کے نہ ہونے کی وجہ سے خدمات کے ورکرز کی اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ عام عوام کے حقوق کی تحریک کے ساتھ باقائدہ یکجہتی کریں۔اپنی ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشن کی قیادت کو مجبور کریں کہ وہ موجودہ انقلابی صورتحال میں عام عوام کے مسائل کے ساتھ اپنے ورکرز کی مانگو ں کو آگے بڑھیں اور احتجاج کا سلسلہ شروع کریں کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے ٹریڈ یونیز پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ایکٹ 2016اور آڈرنینس 2023کا مقصد ورکرز کوہڑتال کے حق سے محروم کرنا، سروسز سٹرکچر اور پنشن میں رددوبدل کرنا اور مختلف رائٹ سائزنگ اور ڈاؤن سائزنگ جیسے ہتھکنڈے شامل ہیں۔یہ قوانین لانے کا واحد مقصد ورکرز کی شعبہ جاتی اور احتماعی طاقت کو توڑنا ہے کیونکہ وہ آسانی کے
ساتھ منظم ہو کر اپنے مفادات واگذارکرو ا سکتے ہیں۔ جو حکمرانوں کی پریشانیوں بڑھانے اور چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے ہمارے جیسے نوآبادیاتی خطے پر بھی ورکرز پرمستقل حملے کیے جا رہے ہیں۔ تاکہ آسانی کے ساتھ جو تھوری بہت حاصلات موجود ہیں ان کو بھی نیو لبر ل پالیسوں کے تحت چھین لیا جائے۔ہمیں کئی دفعہ یہ گفتگو سننے کو ملتی ہے کہ تعلیم کی نجکاری کی جا رہی ہے اور یہ سچ بھی ہے اگر پاکستان میں تعلیم کی نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ نجکاری کے خلاف اساتذہ کی ہڑتالوں پر ریاستی تشدد کیا جا رہا ہے تو کیا کشمیر کے اندر یہ نہیں ہو گا؟
موجودہ حملوں کو دیکھ کے لگ رہا ہے کہ جموں کشمیر کے حکمران بھی اپنی شرکت داری کیلئے تعلیم، صحت اور برقیات وغیرہ کی نجکاری کے خلاف بڑھیں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ ورکرز ان حملوں کو سمجھیں اور اپنے اپنے اداروں کے مفادات کو انفردی طور محفوظ کرنے کے بجائے مشترکہ لڑائی کا آغاز کریں۔ بے شک پچھلے دونوں تمام شعبوں نے ملا کر فیڈریشن کیلئے ایک کونسل کا انتخاب کیا ہے لیکن ضرورت اس عمل کی ہے کہ مل کر کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے حکمران کے ورکرز دشمن قوانین کے خاتمے اور مزید مانگیں رکھی جائیں۔ورکرز کو چاہیے کہ اپنی قیادت پر نیچے سے پریشر بنائیں تاکہ جن تنظیموں کی قیادت فیڈریشن کی کوشش کر رہی ہے ان کی مدد ہو سکے۔کیونکہ ورکرز کا وہی اتحاد ہی قابل ِ ذکر ہو سکتا ہے جس میں ورکرز کی شمولیت ہو جو زیادہ جمہوری ہو۔بے شک اتحاد کی سیاست میں ہمیشہ لوگوں کی سوچیں۔ طریقہ کار مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی ذمہ داروں کی نوعیت مختلف ہے، قیادت کی اپنی وابسطگیاں مختلف ہیں۔کچھ ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشن کی زیادہ تر قیادت اس چکر میں ہوتی ہے کہ اپنے شعبوں کے اندر سے کچھ مخصوض ورکرز کے چھوٹے موٹے مسائل کو حل کر کے اپنی قیادت پربراجمان رہے۔دنیا بھر کی ٹریڈ یونینز اپنے ورکرز کی مفادات کا خیال رکھتی ہیں پر ہمارے ہاں ورکرز کے مفادات کیلئے سرکاری ایلکاروں اور وزرا کا سہارا لی جاتا ہے۔ کچھ سالوں سے نوجوان ورکرز اور چند دیانتدار سینئر قیادت نے
ورکرز کی سیاست کو تیز کیا جس کی وجہ سے ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشن پر حملوں کے ساتھ ورکرز پر بھی ریاستی حملے جاری ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ایک لڑاکا، جمہوری اور پاپولر فیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے جس کے پرورگرام میں تمام اداروں کے ورکرز کے مفادات کے ساتھ ہر طرح کے استحصال اور جبر کو بھی شامل کیا جائے۔
عوامی ایکشن کمیٹیز کی سیاست
عوامی ایکشن کمیٹیز کی سیاست کے پس منظر میں جائے بغیر دیہاتوں سے لیکر شہروں تک ساری محنت کش عوام چاہیے اُن کا تعلق کس بھی پرت سے ہو مبارک باد کے مستحق ہیں اور لگتا ہے شاہد یہی ٹھیک طریقہ کار تھا جس کی وجہ سے عوامی ایکشن کمیٹیز کی تحریک اور قیادت یہاں تک پہنچی ہے۔ ہم ان مزحمتکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے جہاں پر روایتی قیادت سے کنٹرول چھینا وہاں قوم پرست قیادت کو بھی یہ باور کروانے پر مجبور کیا کہ تمہاری حکمت عملی، طریقہ کار اور مرکزیت متروک ہو چکی ہے۔ کچھ مزحمتکاروں نے عام عوام کو اس طرح جاگایاکہ آج تقربیا 90فیصد عوام سمجھ چکے ہیں کہ سیاست میں ان کی براہ راست مداخلت ہی ا ن کے مفادات کا خیال رکھ سکتی ہے۔جوں جوں تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ اُسی تناسب سے عام عوام کے حوصلے بھی بلند ہو رہے ہیں۔نوجوان نئے نئے رنگ ڈھنگ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹیز کی کمزوریاں
ہم سب خود تنقید ی ہو کر یہ جانتے ہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹیز کی مروجہ قیادت کے اندر بے حد کمزوریاں ہیں۔ زیادہ تر مزحمتکاراپنی قوم پرست پارٹیوں سے ٹوٹنے کے باوجود فرقہ واریت کا شکار ہیں۔ مختلف پس منظر ہونے کی وجہ سے ابھی تک ایک دوسرے سے کھل کر پرورگرام پہ بحث کرنے سے اجتناب کرتے رہے۔قیادت کی طرف سے پولرائزیشن کے ڈر سے نعروں کو ایڈوانس نہیں کیا گیا جو اب عوام
خود کر رہے ہیں۔عوامی ایکشن کمیٹیز کے پلیٹ فارم سے بار بار اپیل کی جاتی ہے کہ پرورگرام کی مسلمہ حقیقت کو چھوڑ کر صرف مانگوں تک محدود رہا جائے۔ دہائیوں سے اس ساری بے بسی کے ذمہ داروں کے خلاف متبادل کی بات نہ کی جائے۔ یہ کوئی سمجھداری نہیں کہ حکمرانوں کے بے اثر ہونے پر بھی متبادل نہ دیا جائے۔
کیا کیا جائے۔
اس وقت ضروری ہے کہ اس "کیا کیا جائے” کے سوال کو عام کیا جائے کیونکہ ہر تحریک کے دوران اس سوال کی شدت موجود رہتی ہے۔ تحریک کو کیسے اور کس کے ساتھ مل کرمزید آگے بڑھایا جائے۔عوام کی تعلیم اور تنظیم کا اہتمام کیسے ہو۔ اس وقت ضروری ہے کہ حکمرانوں کی بے اثر ی کو استعمال کرتے ہوے پاکستان زیرانتظام جموں کشمیر کے اندر آئین ساز اسمبلی کال کرنے کیلئے عارضی انقلابی حکومت کا نعرہ دیا جائے۔
عارضی انقلابی حکومت اس لیے کہ موجودہ حکمرانوں کی کرپشن اوربے پناہ دولت کے سامنے آنے کی وجہ سے،عوام کا ان سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔عوام سمجھ چکے ہیں کہ یہ پاکستانی حکمرانوں کے وفادار اور کٹھ پتلیاں ہیں۔ان کا اٹھنا، بیٹھنا،کھانا، پینا، گھر، گاڑی ہر چیز عام عوام سے مختلف ہے۔ ان کی ذات اور قبیلہ مختلف ہے۔ ان کی وجہ سے کتنی ماؤں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر میں پاکستان یا بیرونی ممالک کام کرنے بھیج دیتی ہیں۔ کتنے گھروں کی تنگ دستی سے بھاگے ہوئے نوجوان ڈنکی روٹس کا استعمال کرتے ہوئے قدرت کو پیارے ہو چکے ہیں۔ کتنے خاندان اپنے بچوں کیلئے بہتر تعلیم اور صحت میسرنہ ہونے کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں چلے جاتے ہیں۔ 70فیصد لوگ ملک سے باہر ہیں جن میں 20 سے 25فیصد پاکستان میں اور 40 سے 45 فیصد یورت، امریکہ اور خلیجی ممالک میں نوکریاں کرتے ہیں۔ ان غلیظ حکمرانوں اور ان کے آقاؤں کو شرم نہیں آتی جب یہ اُن پردیسویوں کے رقوم کی ترسیل سے زرمبادلہ
بناتے ہیں جنہیں یہ یہاں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کر سکے۔ان دکھوں، تکالیف اور ذہنی دباؤ کو دیکھ کر! فریڈرک نطشے! کا وہ قول یاد آتا ہے کہ امیروں نے غریبوں کے لیے خدا کے سوا کچھ نہیں چھوڑا!
اس لیے ان پر اعتماد کیے بغیر جدوجہد کی جائے۔ جو مسلسل آگے کی طرف بڑھے۔حکمران آیا روز عوام سے کہتے ہیں کہ پاکستان ان سے ناانصافی کر تا ہے اپنے وعدوں کے مطابق کو ئی بھی شَے پوری مہیا نہیں کی جاتی وغیرہ، مطلب جب شکاری خود جال میں پھنسا تو اُسے جال کے ہونے پر اعتراض ہونے لگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے بے ساختہ پن کا فائدہ اٹھایا جائے۔عوام ان کی بااختیاری کیلئے کچھ نہ کرے بلکہ اب ضروری ہے کہ نہ صرف اکیلے انہیں بلکہ تمام ریاستی اسٹیک ہولڈرز جن میں عام عوام کے نمائندے، ورکنگ کلاس کی قیادت،مڈل کلاس (وکلاء پروفیسر، تاجراور ٹرانسپوٹرز) خواتین، کچی آبادیوں کے مقیم اور طلبہ کی قیادت کو شامل کر کے عارضی انقلابی حکومت بنائی جائے جو آئین سازی کے فرائض سرانجام دیکر آئین ساز اسمبلی کا ل کرے۔

 

SHARE