ہماری سیاست چونکہ محنت کش طبقے کے مسائل کے حل کیلئے ہے اور مسائل کا حل ہر طرح کے استحصال اور جبر کا خاتمہ صرف اور صرف سوشلزم میں ہی ممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہر صورت طبقے کی آزاد پارٹی کی تعمیر کی بات کی جائے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں جبر اور استحصال پر بات کرنی چاہیے،
جبر کا سوال ہمیشہ اقتدار سے پہلے، اقتدار کے دوران اور اقتدار کے بعد انقلابی پروگرام کا لازمی حصہ رہتا ہے۔خاص طور پر طبقاتی جدوجہد کے بڑھنے کے امکانات کے دوران جبر ہماری سیاست سے مطابقت اختیار کرنے لگتا ہے۔اگرچہ جبر کے خلاف جدوجہدایک جمہوری سوال ہے لیکن بعض اوقات وہ مخصوص سیاق و سباق میں انقلاب کیلئے چنگاری ثابت ہوتا ہے۔جس طر ح انقلاب ِ روس جو کہ زرشاہی کے خلاف جبر کا سوال تھا لیکن انقلابیوں نے اُسے جمہوری سوال تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ سوشلسٹ انقلاب تک لے گئے۔
سرمایہ داری کی یہ دلیل کہ وہ تمام جمہوری مسئلوں کا حل کرے گی جیسا کہ جاگیرداری کا خاتمہ، مظلوم قوموں کی آزادی، عورت کی آزادی، بے گھر لوگوں کی آزادی، تقریر او تحریر کی آزاد ی، فوج کی سیاست سے بے دخلی وغیرہ،
کیا عوام سوشلسٹ انقلاب تک یہ سارا جبر برداشت کرتے رہے؟
کیا مظلوم قوموں کے جبر کے خلا ف لڑے بغیر اُن کو سوشلزم یا استحصال کی جدوجہد سے جوڑا جا سکتا ہے؟
کیا بے گھر لوگوں کو انتظار کروائیں کے سوشلزم آئے گا اور آپ کو زمین ملے گی، آپ اپنے گھر کے مسئلے کو چھوڑ کر فیصل آباد کے مزدور کے لیے احتجاج کریں؟
کیا عورت اپنی آزادی کی مانگوں کو لیکر سوشلزم کا انتظار کرے؟
کیا طلبہ یونین کی بحالی کے نعرے سے دستبدار ہو جائیں؟
کیا عوام کو یہ بتائیں کہ اُن کے خلاف جنہوں نے تمام شہروں کے پوش علاقہ، ہل سٹیشنوں،ہر نُکر پر رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں، اُن کے خلاف بات کرنیوالے کسی۔۔ کو بھی سیکورٹی کے نام پر اٹھا لیا جاتا ہے، وہ فوج جو سامراج کے ساتھ ملکر ہر کاروبارکی حصہ دار ہیں، اُن کے خلاف بات کرنے واے محنت کش عوام، مڈل کلاس یا چھوٹے کاروباریوں کو حکمرانوں طبقے سے یرغمال بنیں دیں؟
محنت کش ساتھیو: ہمیں پتہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جمہوری سوالات کو ابھی تک عارضی، نامکمل اور مسخ شدہ طریقوں سے حل کیا ہے۔ ہمیں نے اپنی پوری سیاست میں دیکھا، کہ یہ جمہوری سوالات ہمارے طبقے کو تقسیم کرتے ہیں۔ ان سب کے خلاف لڑے بغیر محنت کش طبقے کو متحد کرنا ناممکن ہے۔
محنت کش طبقے کی پارٹی کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ انقلابی پروگرام کے تحت ان سوالات کیلئے لڑنے والے محنت کشوں، مڈل کلاس اور چھوٹے کاروباریوں کو جواب دیتے ہوئے اُنکے درمیان پھوٹ ڈالتے ہوئے پارٹی کی طرف مائل کرے۔
ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ دار اور اصلاح پسند قیادت نے ہمیشہ ایسے سوالات کا استعمال ہمارے طبقے کو دھوکا دینے یا سرمایہ داری کے دوسرے دھڑے سے مقابلہ کرنے،محنت کشوں کو تقسیم کرنے اور سرمایہ داری کو قائم رکھنے کیلئے استعمال کیا ہے۔جس طرح اس وقت پاکستان کے اندر عمران خان اور کل نواز شریف کر رہا تھا۔
اگر پاکستان میں حکمرانوں کی حصے داری کیلئے کی گئی لڑائی شدت اختیار کرتی ہے اور اسلام تک پہنچ جاتی ہے، ایک،دوسر ے پر حملے ہونے شروع ہوتے ہیں تو یقینی طور پر بائیں بازو اس سے لاتعلق نہیں رہ سکے گا اس لیے ایسی صورتحال کیلئے ہمیں مباحثوں کو پہلے سے اپنی پارٹیوں یا گروپز کے کیڈز تک اتارنا ؤچاہیے۔
ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ جب حکمرانوں کی آپسی لڑائی اتنی شدت اختیار کر جائے تو ہر صورت محنت کش طبقے کو سرمایہ دارانہ نظریات کے چنگل سے آزاد کروانا چاہیے۔ہمیں اس وقت انقلابی پروگرام اور طبقاتی آزادی کے ساتھ قیادت کرنے کی ضرورت ہے۔ایسے پروگرام پیش کریں جو فوجی جبر کے خلاف جدوجہدسے استحصال کے خلاف جدوجہد تک، حکمرانوں کے پروگرام اور تنظیم سے مختلف ہو،اقتدار پر قبضہ کرنے کے مقصد کو لیکر اسٹیبلشمنٹ،قومی سرمایہ داری اور سامراج کا خاتمہ کرے۔اس جدوجہد کے دوران جہان فوج کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے وہاں پر عمران خان اور اُس کے اتحادیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تمام نام نہاد اپوزیشن،موقع پرست اور فرقہ واریت کی مخالفت ضروری ہے۔ یہ عبوری پروگرام ہے جو انقلاب سے ہوتا ہوا سوشلزم کی طرف بڑھے گا۔