12جون کو تقریباً 750 تارکین وطن کو لے کر اوور لوڈڈ فشنگ ٹرالر اٹلی جاتے ہوئے یونان کے کھلے سمندر میں ڈوب گیا۔
اس المناک سانحہ نے پاکستان، افغانستان، شام، لیبیا اور فلسطین سے آنے والے تارکین وطن کی حالت زار کی طرف بڑے پیمانے پر توجہ مبذول کرائی ہے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو کس چیز نے اپنے آبائی ملک کو چھوڑ کر اتنے خطرناک انداز میں سفر کرنے پر مجبور کیا؟
محنت کش تحریک
پاکستان میں معاشی ترقی اس وقت مکمل طور پر رک چکی ہے اور ملک اس وقت دہائیوں کے بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ بے روزگاری میں سنگین حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔بجلی،گیس،پٹرول کی قیمتیں اس حد تک پڑھ چکی ہیں کہ عوام اب مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں۔ فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے لاکھوں نوجوان مرد وخواتین بے روزگاری کی دلدل میں گر چکے ہیں۔
ملک کی سنگین معاشی حالت کی وجہ سے، غربت زدہ خاندانوں کے ہزاروں افراد،ہر سال یورپی ممالک جانے کیلئے انسانی سمگلروں کو بھاری رقم ادا کرتے ہیں۔پاکستان سے براستہ ایران، ترکی، لیبیا اوریونان، یورپ جانے کا عمل ’ڈنکی‘کہلاتاہے۔گزشتہ کچھ دہائیوں سے پاکستان میں،خلاص طور پر پنجاب کے کچھ اضلاع میں ڈنکی لگانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤ الدین، کھاریاں،سیالکوٹ کے لوگ باقی پاکستان کی نسبت زیادہ ہیں۔ ایجنٹ اور انسانی سمگلرز چند پیسوں کی خاطر بے روزگار نوجوانوں کو موت کے حوالے کردیتے ہیں۔یہ لوگ اکثر سفر کے دوران کشتی حادثے، سردی، بھوک، کئی کئی روز پیدل چلنے اور کبھی کبھاربے رحم ایجنٹ کی گولی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستان گزشتہ ایک سال سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ غیر معمولی اقتصادی اور سیاسی بحران کے بعد اب تک 800,000 سے زیادہ نوجوان ملک چھوڑ چکے ہیں۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا نیٹ ورک بہت وسیع اور پیچیدہ ہے۔ جس میں کچھ اہم اور طاقتورافراد شامل ہیں جو مبینہ طور پر لیبیا کے کچھ گروپس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ان افراد کے پاکستان میں تقریباً ہر شہر میں ایجنٹس موجودہیں، بنیادی طور پر صوبہ پنجاب میں، جو یورپ کے سفر کی سہولت کے لیے بڑی رقم وصول کرتے ہیں۔ اسمگلنگ کے راستے میں عام طور پر متحدہ عرب امارات کے لیے قانونی پروازیں شامل ہوتی ہیں، اس کے بعد مصر اور لیبیا کی طرف منتقلی ہوتی ہے اور پھرلیبیا سے بحیرہ روم کے پار خطرناک سفر شروع ہوتا ہے۔
اس المناک واقعے میں ایڈریانا نامی کشتی تین دن تک سفر کر رہی تھی کہ اس کے انجن فیل ہو گئے اور وہ تین دن اسی خراب حالت میں بنا کسی امداد کے یونان کے قریب سمندر میں الٹ گئی، جس سے حالیہ برسوں میں یورپ کی سب سے مہلک جہاز رانی کی تباہی دیکھنے میں آئی۔
750 تارکین میں سے تقریباً 300 کا تعلق پاکستان سے تھا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ جولوگ اس حادثے کا شکار ہوئے ان میں سے کچھ لوگوں کا تعلق گوجرنوالہ، سیالکوٹ، اوکاڑہ،گجرات اورزیادہ تر نوجوانوں کا تعلق کشمیر سے تھا۔
یہ سفر ایک جہاز سے شروع ہونے کے بعد پیدل مختلف جنگلات پہاڑوں اور خطرناک باڈروں کو طے کرتا ہوا ایک کشتی تک پہنچتا ہے جس میں گنجائش 50 لوگوں کی ہوتی ہے لیکن سوار 100 سے زائد کو کر دیا جاتا ہے جو عموماً اسی طرح حادثے کا باعث بنتا ہے۔
نو جوانوں کی موت کے ذمہ دار کون؟
ایسا ہی ایک واقعہ آج سے کچھ ماہ پہلے مارچ میں بھی دیکھنے کو آیا،جس میں ایک مشہور پاکستانی خاتون کھلاڑی، شاہدہ رضا سمیت تقریباً 150 افراد اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گئے تھے جن میں سے پیشتر کا تعلق پاکستان، ایران اور افغانستان سے تھا۔
اس سب کے ذمہ داران وہ حکمران ہیں جو اپنے اپنے اقتدار کی ہوس،ایک دوسرے سے ذیادہ دولت،رقبے اور جریرے خریدنے کے دوڑمیں اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں ملکی موجودہ گہری اور سنگین ہوتی معاشی صورتحال سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑرہا!
اس سب کے ذمہ داران وہ اشرافیہ اور سیاستدان ہیں کہ جن کی اپنی اولادیں بلکہ ان کے پالتو کتے، بلیاں بھی جو امپورٹڈ فوڈ اور امپورٹڈ پانی پیتے ہیں،مگرانہیں ان ماؤں کے لخت جگروں، بہنوں کے بھائیوں،ننھے پھولوں کے باپ،جو اس طرح سمندر کی بے رحم اور یخ بستہ لہروں کی نظر ہو کر سمندر کی تہہ میں آبی حیات کا نوالہ بن گئے،چار دن گزر جانے کے بعد بھی ان کے پاس چند تعزیتی الفاظ بھی نہیں تھے جب پوری دنیا اس واقعے پر شور مچا رہی تھی!
اس سب کا ذمہ داروہ نظام جو اب نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس قدد مفلوج اور ناکارہ ہو چکا ہے کہ تمام سامراجی پالیسیاں اب اسے حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں!
آخرحل کیا ہے؟
ایسے نظام کی جدوجہد جس میں عام آدمی کے حق میں قانون سازی ہو، ورنہ یہ ارب، کھرب پتی اشرافیہ جو صرف دس فیصد ہے، نوے فیصد عام آدمی کے حق میں کبھی کوئی قانون سازی نہیں کرے گی۔
پاکستان کے صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹرمیں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے بلین ڈالرز لگے ہیں۔جن کی لاگت تقریباً 300 بلین ڈالرز ہے۔اگر یہی ڈالرزمیڈیم، سمال یا گھریلو انڈسٹری میں لگا ہوتا تو پاکستان سے بڑی حد تک بے روزگاری ختم ہو سکتی تھی۔
یہاں یہ بات نہایت قابلِ غور ہے کہ آخر ہمارے نوجوان کیوں موت کو گلے لگا کر بھی یورپ جانا چاہتے ہیں۔جب اپنے ملک، اپنی سرزمین میں نوجوانوں کے لئے روزگار کے، عدل ہے، انصاف کے، میرٹ کے، کاروبار کے، نوکری کے جائز معاوضے کے، کاروبار کے جائز منافع کے، خالص خوراک کے،معیاری تعلیم کے مواقع ختم ہو جائیں تو اسی طرح کے دلخراش واقعات جنم لیتے ہیں۔
ملک کو 2025 تک 73 بلین ڈالر کا بہت بڑا قرض ادا کرنے میں بہت چیلنجزکا سامنا ہے، یہ سب کچھ ایک غیر مستحکم سیاسی منظر نامے اور غیر متوقع قرض لینے والی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ان تمام عوامل کے نتیجے میں عام لوگوں کا معیار زندگی کم ہوتا جا رہاہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کروڑوں پاکستانیوں کو ایک کنارے پر دھکیل رہی ہے اور 2023 کے آخر تک حالات بد سے بدتر ہوتے نظر آرہےہیں۔
پی ڈی ایم کو وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں برسراقتدار آئے ایک سال بعد بھی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور موجودہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ لاکھوں محنت کشوں کو مزید کچل دے گا۔لہذا، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بہت سے نوجوان ہر سال بہتر زندگی اور روزگارکی امید میں یورپ کے خطرناک سفر کا خطرہ مول لیتے ہیں۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ:
اس سانحے کے تناظر میں ملکی سطح پر بڑے پیمانے پرنوجوانوں کی نقل مکانی کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کے طور پر فوڈ سبسڈی، کاروبار کے لیے چھوٹے قرضے، مہنگائی کو کم کرنے اور صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں!
روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک جانے والے نوجوانوں کی گرفتاریاں نا منظور!
تارکینِ وطن کے لیے یورپی ریاستوں کی سرحدیں آسان شرائط پر کھولی جائیں!
یونانی حکمران طبقے اور حکومت کے انسان دشمن اور مہاجر دشمن اقدامات نامنظور!
تارکینِ وطن کو بہتر روزگار کے مکمل مواقع فراہم کئے جائیں کیوں کہ وہ پہلے ہی سے تشدد، سرمایہ دارانہ استحصال اور جبر کا شکار ہیں!
انہیں روزگار، رہائش،خوراک،صحت اور سماجی انضمام میں مدد فراہم کی جائے!
اس وقت ہرمزدور تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد،عام عوام،طلبہ،اساتذہ، صحافیوں،مزدوروں اور محکوموں کا فرض ہے کہ وہ روزگار کی تلاش میں بھٹکے ہوئے تارکین ِوطن کے لیے کھڑے ہوں۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی عوامی تنظیموں کی طرف سے اس مسئلے کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔اوریقینا موجودہ انتشار اور بحران زدہ سیاسی،ریاستی،سماجی اور معاشی صورتحال سے نوجوانوں کو نکالنے کا واحد راستہ اس ٹوٹ پھوٹ کے شکار نظام کا متبادل نظام’سوشلزم‘ کا قیام ہے۔کیوں کہ اب آج کے عہد میں یہ کوئی ماضی کی ناکامیوں کا بوجھ اٹھائے تھکا ہارا شکست خوردہ محنت کش طبقہ نہیں بلکہ ایک ایسا جوشیلا اور تروتازہ شعور رکھنے والا طبقہ بن چکا ہے جس کے دل و دماغ میں پچھلی کئی دہائیوں کے تلخ تجربات سے اخذ کئے گئے ایسے نتائج نقش ہیں کہ جو اب آتش فشاں کا روپ دھار چکے ہیں۔
اور اب ایک ایسا انقلاب ہو گا جس کے ذریعے محنت کش طبقہ یہاں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت تعمیر کرے گا جس میں تمام ذرائع پیداوار یہاں کے نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں ہوں گے اور پیداوار کا مقصد منافع خوری نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہو گا۔یہی ہماری منزل ہے اور یہی ہمارا مقصد ہے!