پچھلے کچھ ہفتوں سے، مصنوعی ذہانت (AI) کے خطرات کے بارے میں بہت سی باتیں ہورہی ہیں، خاص طور پر ChatGPT کے لانچ کے بعد اسکے اثرات کے موضوع پر، ایک مصنوعی ذہانت والا چیٹ بوٹ(ایک کمپیوٹر پروگرام جو انسانی صارفین کے ساتھ بات چیت کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے،خاص طور پر انٹر نیٹ پر)جسے OpenAI کمپنی نے تیار کیا ور اسے گزشتہ سال نومبر میں لانچ کیا گیا تھا۔
ایپلی کیشن AI کی نئی نسل سے تعلق رکھتی ہے، جو مشین لرننگ سسٹمز اور بڑے لینگویج ماڈلز (LLM) سے ٹیکسٹ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مختصراً، ایپلیکیشن صارف کے پیدا کردہ محرکات کا تجزیہ کرکے پھر اسے کھلے ڈیٹابیس میں سرچ کرتی ہے۔ ChatGPT کے معاملے میں، ایپلی کیشن صارف کو اس طرح جواب دیتی ہے جیسے وہ ایک حقیقی شخص ہواور کسی بھی موضوع پر مکالمہ کر رہا ہو۔
کچھ دن پہلے OpenAIکمپنی نے اپنے چیٹ بوٹ(Chatbots) کا ایک نیا ورژن ChatGPT-4لانچ کیا جو اب مزید مکمل جوابات پیدا کر سکتا ہے، جو انسانوں کے لکھے ہوئے متن سے زیادہ مشابہت رکھتا ہیں اور تصاویر کا تجزیہ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ورژن اس وقت صرف پیڈ فارم میں میسر ہے۔
دیگر تصویری پلیٹ فارمز بھی مصنوعی ذہانت سے منسلک ہیں، جیسے کہ Dall-e، Midjourney، اور Stable Difusion، جو صارف کی جمع کردہ تعریفوں سے حقیقت پسندانہ مناظر تیار کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پوپ فرانسس کی پفر جیکٹ پہنے تصاویر وائرل ہوگئیں۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس نے ایک اسٹائلسٹ کی خدمات حاصل کی ہیں، لیکن یہ تصویر Midjourney AI کی طرف سے بنائی گئی رینڈرنگ (وہ عمل جو ایپلیکشن پروگرامز کے ذریعے دو یا سہ جہتی تصاویر بنانے میں مدددیتا ہے) سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ یسوع مسیح، نپولین بوناپارٹ اور کلیوپیٹرا جیسی تاریخی شخصیات کی لی گئی سیلفیز بھی شائع کی گئیں۔ یہ سب مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی تھیں۔
اس نئی ٹیکنالوجی (AI) کے ارد گرد پھیلے ہوئے خوف کے علاوہ اور بھی بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں۔اٹلی کی ڈیٹا پروٹیکشن ایجنسی نے ملک بھر میں چیٹ جی پی ٹی پلیٹ فارم کے استعمال کو عارضی طور پر بلاک کر دیا ہے۔جس میں کسی بھی قانونی بنیاد کی عدم موجودگی کا حوالہ دیا گیا ہے،جو کہ ”پلیٹ فرم کے آپریشن کی ضمانت دینے والے الگورتھم کو ‘تربیت’ دینے کے لیے ذاتی ڈیٹا کے بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرنے کا جواز پیش کرتا ہے۔“
اسی سے جڑاایک اور متنازعہ واقعہ جو کہ ایک کھلے خط کی صورت میں ہے کہ جس میں AI تحقیق پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس دستاویز پر، جس پر کاروباری افراد، ماہرین تعلیم اور محققین کے ایک گروپ نے دستخط کیے ہیں اورخبردار کیا ہے کہ AI کی ترقی ”معاشرے اور انسانیت کے لیے گہرے خطرات لا سکتی ہے اور یہ کہ”ٹیکنالوجی کومتعلقہ نگرانی اور وسائل کے ساتھ منصوبہ بندی کرتے ہوئے منظم کیا جانا چاہیے۔“
خط پر دستخط کرنے والوں میں سے ایکTesla ٹیسلا کے مالک اور دنیا کے امیر ترین آدمی ایلون مسک بھی ہیں۔ اس نے خود تنازعات کا کافی پورٹ فولیو اکٹھا کیا ہے، جیسے کہ Tesla کی الیکٹرک کاروں کے لیے بیٹریاں بنانے کے لیے ایک اہم دھات لیتھیم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بولیویا میں بغاوت کا دفاع کرنا۔
یہ یقین کرنا آسان ہے کہ مسک واقعی AI تحقیق کی ترقی میں ”اخلاقیات اور احتساب” کے بارے میں فکر مند ہے۔ دراصل ایسا کرنے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ 2018 میں، مسک ’مائیکروسافٹ‘کمپنی کا کنٹرول سنبھالنے میں ناکام رہا۔ اور آج OpenAI کی زیادہ تر تحقیق کیلئے ’مائیکروسافٹ‘کی طرف سے فنڈ ز فراہم کئے جاتے ہیں، ایک کمپنی جو اس وقت الیکٹرک گاڑیاں بنانے اور جدید ٹیکنالوجیز تیار کرنے میں مسک کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے۔ مائیکروسافٹ نے OpenAI کو GPT- 4 تک خصوصی رسائی کے لیے 10بلین ڈالرکی سرمایہ کاری فراہم کی، جو اس کی سرچ سائٹ Bing کے لیے اس کے اپنے Prometheus (عام طور پر 24/7 چلنے والی خدمات سے عددی میٹرکس جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور میٹرک ڈیٹا کو HTTP اینڈ پوائنٹس کے ذریعے رسائی کی اجازت دیتا ہے)ماڈل کو طاقتور بنائے گی۔
کیا AI انسانیت کے لیے خطرہ ہے؟
اس وقت مصنوعی ذہانت AIکی موجودگی کچھ سنگین سوالات کو جنم رہی ہے۔ ان تمام خدشات کے ساتھ، معاشرے پر AI کے ممکنہ اثرات کیا ہیں؟ کیا اس سے انسانیت کو خطرہ ہے؟ ہالی ووڈ کی فلموں کی طرح، کیا مشینیں انسانیت کے خلاف بغاوت کر کے اقتدار سنبھال سکتی ہیں؟
اس مضمون کی حدود میں، اس نئے تکنیکی ٹول کے اثرات کا پوری حد تک تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم، سائنس فکشن کو چھوڑ کر، یہ مصنوعی ذہانت(AI)کی تحقیق کی ترقی کا سب سے بڑا خطرہ نہیں ہے۔ بہر حال، جیسا کہ AI کے سب سے اہم محققین میں سے ایک مارگریٹ مچل ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں، ”مشینیں طوطوں کی طرح ہوتی ہیں جو اپنے مالکان کی طرف سے سکھائی گئی بکواس کو دہراتی ہیں ”۔
لہذا مسئلہ یہ ہے کہ مشینوں کو یہ واہیات ڈائیلاگ دہرانا کون اور کیسے سکھاتا ہے۔ آج تمام AI تحقیق چند نجی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے، جیسے کہ مائیکروسافٹ، گوگل، آئی بی ایم، ایمیزون، ایپل، فیس بک، چین کی بیدو (Baidu)اور علی بابا، اور ہندوستان کی (Infosys)۔AIمصنوعات کے اطلاق کا دائرہ لامحدود ہے۔ یہ گیمنگ ٹیکنالوجیز سے لے کر ای- کامرس، ڈیٹا اینالیٹکس، اور چہرے اور آواز کی شناخت تک پھیلا ہواہے۔ اور یقیناً، چیٹ بوٹس(Chatbots) غلط معلومات اور یہاں تک کہ جعلی خبروں کے پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ سائبر حملوں کو فروغ دینے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ChatGPT خود متعدد غلطیاں کرتا ہے جب وہ معلومات کو ”ڈھونڈ کر پیش” کرتا ہے۔اورہم اس بات کی ضمانت کیسے دے سکتے ہیں کہ مستقبل میں چیٹ بوٹس سماجی حقائق اور تاریخ کے اکاؤنٹس میں ہیرا پھیری نہیں کریں گے، جیسا کہ جارج آرویل نے اپنے ڈسٹوپین ناول ”1984” میں بیان کیا ہے؟ درحقیقت، یہ پہلے ہی سے آمرانہ حکومتوں کے ما تحت آنے والی سرچ سائٹس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ چین میں، گوگل سرچز کو سنسر کیا جاتا ہے اور سیاسی طور پر حساس سمجھی جانے والی یا پھر ریاست کے مفادات کے خلاف معلومات رکھنے والی سائٹس تک رسائی کو روک دیا جاتا ہے۔ 2018 میں، یہ انکشاف ہوا تھاکہ گوگل خود اپنے سرچ انجن کا ایک ایسا ورژن تیار کر رہا ہے جو چین کی سنسر شپ کے مطابق ہے۔ یہ ثبوت کا صرف ایک چھوٹا ٹکڑا ہے کہ کمپنی منافع کمانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے!
یہاں تک کہ نام نہاد ”جمہوری” ممالک میں، مخصوص قسم کی سرچزکے جوابات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کون اسپانسرشپ اور اشتہارات پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے، جو انٹرنیٹ پر سرچز کے نتائج کی درجہ بندی کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ مالی طاقت والی کمپنیاں اپنے فائدے کی سرچز کے نتائج میں زیادہ گہری رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ اس شعبے کو کیسے اعتدال میں لایا جا سکتا ہے؟ ان کارپوریشنز کے طاقتور مفادات کے سامنے قوانین کو کون نافذ کرے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ ڈرپوک ریگولیٹری اقدامات کے باوجود، انٹرنیٹ پر سرمایہ داری کا اثر پہلے سے ہی ایک تلخ حقیقت ہے۔
تکنیکی ترقی اور سرمایہ داری
ہمیں اختراعات/ایجادات کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے جو افرادی قوت کی جگہ مشینوں سے بے مثال رفتار سے کام لے رہی ہے۔ یہ خطرناک رحجان انتہائی متنوع سرگرمیوں میں بڑھتی ہوئی آٹومیشن کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے علاوہ، انڈسٹری 4.0 کی ترقی، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، 3D پرنٹنگ، اور خود مختار گاڑیوں کی ترقی آنے والے سالوں میں ایک ناگزیر حقیقت ہوگی، جس کا اطلاق ممکنہ طورکاغذ کی انتہائی نازک شیٹ کی تیاری سے لے کر ایک سادہ سینڈوچ پر،گویا ہر چیز پر کیا جائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 50 ملین سے زیادہ ملازمتوں کو آٹومیشن میں اضافے سے براہ راست خطرہ لاحق ہے۔ باقی دنیا میں بھی اندازہ ہے کہ اگلے دس سالوں میں 400 سے 750 ملین ملازمتیں مصنوعی ذہانت AIکی جگہ لے لیں گی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سماجی تعلقات کی پیداوار ہے۔اور اس کا ایک واضح مقصد ”سرمایہ داری کی بڑھوتری“میں اسکی مدکرنا ہے۔ سرمایہ داری محنت کے عمل کی سماجی اور تکنیکی حالات میں مستقل طور پر انقلاب لانے کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ اضافی قدر کی زیادہ سے زیادہ تخصیص کی ضمانت دی جا سکے۔ لیکن اس نظام کے تحت، ٹیکنالوجی ایپلی کیشنز کے وسیع پیمانے پر استعمال کے ذریعے بے روزگاری پیدا کرنے، ملازمتوں اور سرمایہ داروں کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کا کام کرتی ہے جس کے نتیجے میں غیر یقینی اور عدم توازن کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
سب سے عجیب بات، بلا شبہ یہ ہے کہ موجودہ تکنیکی ترقی پہلے سے ہی کام کے دن میں زبردست کمی، سخت محنت سے تقریباً مکمل آزادی، اور تمام بے روزگار لوگوں کی پیداواری عمل میں شمولیت کی ممکنہ مداخلت بھی مکمل ختم کر دے گی۔ تاہم، اس کے لیے پورے معاشرے اور اس کے پیداواری ڈھانچے کی بنیادی تبدیلی ہی لمحہ فکریہ ہے،اوراب ایک ایسے سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر کی ضرورت ہے جو اس منطق کو مکمل طور پر الٹ دے۔
سوشلسٹ معاشرے میں، تکنیکی اور سائنسی ترقی ایک انتہائی اہم ذریعہ بن جائے گی جس کا اطلاق کام کے اوقات میں کمی اور معلومات کے مکمل پھیلاؤ کے لئے کیا جائیگا۔ جس میں مکمل اختیار کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی فیصلوں میں عام عوام کومکمل شرکت کی اجازت ہو گی۔یہ تکنیکی ترقی طے شدہ اہداف کے نفاذ کی منصوبہ بندی اور نگرانی میں سہولت فراہم کرے گی۔ تصور کریں، مثال کے طور پر، پیداوار کے بارے میں معلومات کے بہاؤ کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا۔ کام یقیناً ایک باہمی تعاون اور اشتراکی ماحول میں ہوگا، جو اب صرف چھوٹی جگہوں پر اور نجی کمپنیوں کے فائدے کے لیے ہوتا ہے۔ انڈسٹری 4.0 یا AI نظام کے فوائد کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود پر لاگو ہوتے ہیں۔
مارکس کے الفاظ میں، یہ ”ایک ہی معمولی کارروائی/عمل (یعنی سوشلزم کا قیام) زندگی بھر کی تکرار کو ختم کر دے گا،۔سوشلزم،ایسے طبقاتی نظام کا متبادل جو آدمی کو محض ایک ٹکڑے تک محدود کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ انسانوں کو گہری مشقت اور ثقافتی پسماندگی کی بربریت سے نجات دلائے گا، کیونکہ ان کی ترقی، ان کی تفریح، اور ان کی سرگرمیوں کی آفاقیت/کلیت وقت کی معیشت پر منحصر ہے۔
اوروقت کی معیشت: ہر معیشت آخر کار اسی پر ابلتی ہے!