غزہ میں چھ ماہ سے اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ اس نسل کشی کے ساتھ بڑے پیمانے پر تباہ کن بمباری کے ذریعے غزہ کی 70% عمارتیں بشمول سڑکیں، گھر، سکول،ہسپتال، پینے کے پانی کا نیٹ ورک، بجلی اور صفائی ستھرائی کا نظام تباہ کیا گیا۔فوجی قبضے نے خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی سمیت انسانی امدادی سرگرمیوں کے داخلے کو روکے رکھا ہے۔ جس نے غزہ کے 2.3ملین باشندوں کو بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے موت کے نزدیک لا کھڑا کیا ہے۔ متاثرین میں بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اب تک اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 33ہزار فلسطینیوں کوقتل کیا جا چکا ہے۔جن میں اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ ہزاروں افراد ایسے ہیں جو عمارتوں کے ملبے تلے دب کر لاپتہ ہو چکے ہیں۔
1۔ اسرائیلی جارحیت مغربی کنارے میں بھی جاری ہے، جہاں اسرائیلی فوجی دستوں اور صیہونی آباد کاروں کی پرتشدد مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں 400 کے قریب فلسطینیوں کے قتل اور 8000 سے زائد فلسطینی مردوں، عورتوں، اور بچوں کو اغوا کیا جا چکا ہے۔مقبوضہ فلسطین میں (جسے اقوام متحدہ نے ریاستِ اسرائیل کہا ہے)، صہیونی پولیس فورسز نے فلسطینیوں کے محلوں اور شہروں پر پرتشدد جبر مسلط کر رکھا ہے، گھروں پر چھاپے، فلسطینیوں کی گرفتاریاں اور غزہ میں نسل کشی کے خلاف کسی بھی قسم کے مظاہرے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی مکمل بندش ہے۔(یروشلم) شہر القدس میں اسرائیلی فوجی دستوں نے 10 اپریل کو ختم ہونے والے رمضان المبارک سے قبل اور اس کے دوران مسجد اقصیٰ تک کی تمام مفت رسائی کو روک دیا تھا۔اسرائیلی فوجی دستوں نے پڑوسی ممالک لبنان اور شام کے شہروں پر باقاعدگی سے حملے کیے ہیں۔ جن کے جواب میں حزب اللہ نے متناسب ردعمل تک کا اظہار نہیں کیا۔
نیتن یاہو اور صیہونیت ذمہ دار ہیں۔
14 مارچ کو، امریکی سینیٹر چک شومر، جو کہ یہودی نژاد صہیونی سیاست دانوں میں سے ایک ہے، نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی برطرفی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیاہے۔اس نے دعویٰ کیا کہ نیتن یاہو امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اس بیان میں ایک سچ اور ایک جھوٹ ہے۔ یہ سچ ہے کہ غزہ میں ہونے والی نسل کشی نے دنیا میں تقریباً ہر جگہ اسرائیل کے مثبت امیج کوبے نقاب کر دیا ہے (اہم ممالک روس اور ہندوستان اب بھی ایک قسم کی غیر جانبداری کا ڈرامہ کر رہے ہیں) امریکہ،مغربی یورپ اور دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے صہیونی ریاست اپنے بسترِ مرگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
2۔دوسری طرف، نیتن یاہو کی نسل کشی کے اقدام کو صہیونی ریاست کی نسل کشی کی نوعیت سے الگ کرنا خیالی بات ہے۔بے شک نیتن یاہو کے بغیربھی اسرائیلی ریاست ایک ایسی ریاست رہے گی جو فلسطینی عوام کے خلاف نسلی تطہیر اور نسل پرستی کی پالیسیوں کا اطلاق کرتی رہے گی۔
3۔مقبوضہ فلسطین کے اندر نیتن یاہو کے خلاف حزب اختلاف کے اہم شعبوں کی طرف سے صیہونی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں اسرائیلی سرمایہ دار اپنے کاروبار پر نسل کشی کے اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں، تل ابیب میں یورپی نژاد متوسط طبقہ، غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیکورٹی ایجنسیوں موساد اور شن بیٹ سے لیکر یہاں تک کہ بائیں بازو کے صیہونیوں کی طرف سے بھی دباؤ موجود ہے۔
4۔اس وقت اسرائیلی یہودی آبادی کی اکثریت ریاستی نسل کشی کی پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے۔ تقربیا 94 فیصد اسرائیلی آبادی نے غزہ پر تباہ کن بم دھماکوں کی حمایت کی ہے۔ انسانی امداد کی بندش کو 72 فیصد اسرائیلی یہودیوں کی حمایت حاصل ہے۔
5۔بینی گانٹز جو اسرائیلیوں میں سب سے زیادہ مقبول صیہونی سیاست دان اور نیتن یاہو کی جگہ لینے کے لیے تیار بیٹھا ہے،یہ بائیڈن انتظامیہ کے پاس ایک آپشن کے طور پر موجود ہے۔اس کے بیان کے مطابق جب تک حماس تمام اسرائیلی قیدیوں کو ان کے حوالے نہیں کر دیتی، تمام انسانی امداد بند کرنے کا حامی ہے۔ نیتن یاہو اپنے آپ کو واحد اسرائیلی سیاست دان کے طور پر پیش کر کے اپنی سیاسی بقا کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے مطابق یہی وہ واحد لیڈر ہے جو امریکہ اور یورپی ممالک کے دباؤ کی مخالفت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، او ر نہ صرف فوری جنگ بندی کو تاخیر میں ڈال سکتا ہے بلکہ غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل فلسطینی منی ریاست کے قیام کو بھی روک سکتا ہے۔
نسل کشی جو۔۔۔۔۔۔۔۔بائیڈن
امریکی صدر جو بائیڈن کی پالیسیوں کی بہترین تعریف ان مظاہرین نے کی جنہوں نے ”نسل کشی جو!” کے نعرے لگاتے ہوئے اس کی انتخابی سرگرمیوں میں خلل ڈالا۔نسل کشی کے آغاز کے بعد سے، بائیڈن نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی 100 کھیپیں بھیجی ہیں (جن کا تناسب ہر دو دن کے بعد ایک)اس نے کانگریس سے 14 بلین ڈالر کی اضافی فوجی امداد کا مطالبہ کیا ہے جو ہر سال بھیجے جانے والے 3.8 بلین ہتھیاروں کے علاوہ ہے۔ تازہ ترین لوڈ میں 25 Fاور35A جیٹ طیارے (دنیا میں سب سے زیادہ جدید ترین)، 925 کلوگرام وزنی 1800 84 MKبمs، اور 227 کلوگرام وزنی 500 82 MK بمs شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بائیڈن نے اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی امدادی ایجنسی (UNRWA) کو دی جانے والی فنڈنگ معطل کر دی، جو فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد کا بنیادی ذریعہ ہے، اور اپنے اتحادیوں کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز، سوئٹزرلینڈ، فن لینڈ، ایسٹونیا، جاپان، آسٹریا اور رومانیہ کو بھی ایسے عمل کی حمایت کا کہا جا رہا ہے۔
سلامتی کونسل میں، بائیڈن نے جنگ بندی کی 4 قراردادوں کو ویٹو کیااور حال ہی میں جنگ بندی کی قرارداد سے اجتناب کرتے ہوئے کہا ہم اپنے آپ کو ایسی قراردادوں کے پابند نہیں سمجھتے۔
امریکہ کے اندر اور باہر رائے عامہ کی طرف سے تنقید کا سامنا کرتے ہوئے، بائیڈن اس وقت صرف اسرائیل کی ساکھ کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کو مکمل طور پر محفوظ کرنے کیلئے کام کر رہاہے۔ بائیڈن اسرائیلی فوجی جارحیت کا مخالف نہیں لیکن وہ سمجھتا ہے کہ رائے عامہ کو ایسے ہموار کیا جائے تاکہ نسلی کشی کے خلاف بین الاقوامی تحریک کو الجھا کراس کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ خاص طور پر امریکہ، یورپ اور عرب ممالک میں موجود تحریک کو مزید ایڈوانس نہ ہونے دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے، بائیڈن نیتن یاہو پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ فوجی کارروائیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے فلسطینیوں کو کم تعداد میں ہلاک کروائے اور فلسطینیوں کی بھوک سے ہونے والی اموات کو کم کرنے کیلئے انسانی امداد کو داخلے کی اجازت دے۔ مزید برآں، بائیڈن چاہتا ہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ امن اور دو ریاستی حل کے حق میں تعاون کرنے والی فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات شروع کر کے ایک منی فلسطینی ریاست کا اعلان کرے۔
نیتن یاہو امریکہ سامراج کے صدر کے ان اقدام کی مخالفت کرتے نظر آتا ہے۔اس لیے بائیڈن کی یہ تقریریں اور اقدامات محض علامتی ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے اتحادیوں آسریلیا، کینیڈا اور جاپان نے UNRWA سے فنڈز کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ دو ریاستوں کے خیالی حل کو لیکر امریکہ 25 مارچ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے غیر حاضر رہا۔اس طرح امریکہ کی طرف سے غزہ میں ایک چھوٹی دیسی طرزبندرگاہ کی تعمیر کا اعلان کیا گیا، جو دراصل امریکی توانائی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہے۔
6۔غزہ میں نسل کشی کی حمایت بائیڈن کے قومی انتخابات میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔ اس کا مخالف ڈونلڈ ٹرمپ خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کر رہا ہے جو نہ صرف جنگ کو ختم کروا سکتا ہے بلکہ حماس کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کا عہد کرتا نظر آتا ہے۔۔ حال ہی میں ٹرمپ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اپنی جنگ بند کرے اس سے پہلے کہ وہ اپنی بین الاقوامی ساکھ کھو دے۔
سامراجی ممالک اسرائیل کیلئے اپنی حمایت چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی نسل کشی نے اہم یورپی ممالک کی پوزیشن کو متاثر کیا ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی حکومتوں نے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت جاری رکھی لیکن عوامی دباؤ کی وجہ سے غزہ میں جاری نسل کشی سے خود کو اس نسلی کشی سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ اہم اور تیز ترین تبدیلی جرمنی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں کی 69 فیصد عوامی رائے عامہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کو جائز نہیں سمجھتی۔ جس کی وجہ سے جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک کو کہنا پڑا کہ غزہ کی صورتحال جہنم کی طرح ہے اس کو ختم کروانے کیلئے بین الاقوامی انسانی قانون پر عمل کیا جانا چاہیے۔ اس کے باوجود، جرمن حکومت نے ہتھیاروں کی برآمدات جاری رکھی ہیں (یہ امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی برآمد کنندہ ہے)جو UNRWA کی فنڈنگ میں کٹوتی، اور عرب پناہ گزینوں پر ظلم ڈھا رہی ہے۔
7۔پیوٹن اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے اور ابھی تک نیتن یاہو کے ساتھ ایک معاہدہ برقرار رکھے ہوئے ہے جس کے تحت اسرائیل شام میں موجود دو روسی اڈوں اور ان کی طیارہ شکن بیٹریوں سے بغیر کسی رکاوٹ کے ہر ہفتے شامی سرزمین پر بمباری کر سکتا ہے۔ لیکن پوٹن نے بائیڈن کے موقف کی منافقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نیچا دکھانے اور اس نسل کشی کو چھپانے کیلئے جو وہ خود یوکرین میں کر رہا ہے،غزہ کی نسل کشی پر ڈرامہ بازی کرتے نظر آتا ہے۔
چین نے جنگ بندی کا دفاع کیا ہے لیکن اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام معاہدوں کو برقرار رکھا ہے اور یمنی حوتیوں کی کارروائیوں کی مخالفت کی ہے جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آبنائے باب المندب کو بحیرہ احمر کے داخلی راستے بند کر دہے ہیں۔
فرانسسکا البانی اور بین الاقوامی عدالت انصاف
26 مارچ 1967 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی جنگجو خصوصی نمائندے فرانسسکا البانی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کا نام ہے ”نسل کشی کی اناٹومی” جس میں اُس نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی ریاست کی کارروائیاں نسل کشی سے تعبیر کی جائیں۔ اس نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے 1948 میں اقوام متحدہ کے ذریعہ اختیار کردہ نسل کشی کے جرم کی روک تھام کے کنونشن سے ویٹو ہو چکا ہے جس کی مثال دلائل کے ساتھ تین اقدامات کے حوالہ سے دی جا سکتی ہے۔ ایک گروپ کے ارکان کو قتل کرنا،گروپ کے اراکین کو شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچنا،جان بوجھ کر گروپ پر تباہ کن حالاتِ زندگی مسلط کرنا تاکہ متعلقہ گروپ کی جزوی یا مکمل جسمانی اور معاشی تباہی ممکن ہوسکے۔ البانی نے انسانی امداد پر پابندی اور اسرائیلی حکام کی جانب سے عوامی تقاریرپر قدغن کا بھی حوالہ دیا جو فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہی اقدامات نسل کشی کی خصوصیت کیلئے بنیاد ہیں لیکن اسرائیلی ریاست اس سے تجاوز کر چکی ہے اس نے مزید کہا کہ اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف جاری نسل کشی سات دہائیوں سے ہونے والی نسل کشی اور نسل پرستی کے عمل کا حصہ ہے۔البانی نے اپنی رپورٹ میں بین الاقوامی قانون کے رہنما اصولوں پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر دیگر پابندیوں کے اطلاق کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر ہتھیاروں کے استعمال کی پابندی لگائی جائے۔
8۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو مخاطب کی گئی اس خوفناک رپورٹ کے باوجود دو دن بعد بین الاقوامی عدالت ِانصاف کی طرف سے وہ اقدامات کئے گئے جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف غزہ کی پٹی میں مزید داخلی راستے کھولنے، انسانی امداد کے غیر محدود داخلے کی اجازت اور اسرائیلی افواج سے نسل کشی کی کارروائیوں سے باز رہنے کے مطالبات شامل ہیں۔
ایسے اقدامات جو انسانی مدد کے لیے قابل عمل بنانا ضروری ہے، جس طرح جنگ بندی،غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا فوری انخلا اور اسرائیلی ہتھیاروں پر پابندی اس پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
عرب حکومتیں اور عوامی مزاحمت
9۔عرب حکومتوں کا یہ اصول رہا ہے کہ ”اپنے عوام کو توڑ دو، لیکن رسمی طور پر فلسطین کی بات کرو“۔ غزہ میں نسل کشی سے پہلے عرب لیگ کے صرف تین ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں نہیں تھے: کویت، تیونس اور الجزائر۔7 اکتوبر کو حماس کی جوابی کارروائی کے بعد سے، اسرائیل نے معمول کے عمل کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، لیکن عرب حکومتوں نے خود کو جنگ بندی اور مسئلہ فلسطین کے دیرپا حل کے مطالبے تک ہی محدود رکھا، ساتھ ہی انہوں نے بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ مصری حکومت نے ایک فلسطینی سے غزہ چھوڑنے اور مصری میں داخل ہونے کیلئے 5,000 سے 10,000 ڈالرز کے درمیان چارج کیے ہیں۔ سعودی عرب نے امریکا سے سیکیورٹی معاہدے اور جوہری ٹیکنالوجی کا مطالبہ کیا ہے۔
شامی اور لبنانی حکومتوں نے اپنے ممالک پر اسرائیلی حملوں پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
مارچ کے آخری ہفتے کے دوران اسرائیلی فورسز نے دمشق کے جنوب میں سیدہ زینب اور شام کے سب سے بڑے شہر حلب پر گولہ باری کی جس میں 40 سے زائد افراد مارے گئے۔ یکم اپریل کو دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر بمباری کی گئی اور ہلاک ہونے والوں میں پاسداران انقلاب اسلامی کے جنرل محمد رضا زاہدی اور محمد ہادی حاجی رحیمی بھی شامل تھے۔ شامی حکومت نے اپنے آپ کو سفارتی مظاہروں تک محدود رکھا جب کے روس جس کے شام میں دو فوجی اڈے ہیں اور شام کا اتحادی ہے اسرائیلی بمباری کا جواب دینے میں نا کام رہا۔ ایرانی حکومت نے ایران سے منسلک علاقائی ملیشیا کے ساتھ ایک مشترکہ پیغام میں ہلاکتوں کا بدلہ لینے کا وعدہ کیااور آخر کار 13اپریل کو ایران کی طرف سے جوابی حملہ کیا گیا۔
لبنان میں، اسرائیلی حملے روزانہ ہوتے رہتے ہیں اور پہلے ہی ملک کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، جنوب میں سور (طائر)، نقورہ اور نباطیہ سے لے کر بیروت (جہاں جنوری کے اوائل میں حماس کے ایک اہم رہنما کو قتل کیا گیا) اور بیکا وادی میں بعلبیک تک۔ حزب اللہ نے سرحدی علاقے میں محدود حملوں کا جواب دیا ہے۔ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے فلسطینیوں کے لیے اپنی اخلاقی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ وہ اسرائیل پر صرف اس صورت میں حملہ کریگا جب اسرائیل لبنان پر حملہ کرے گا۔
فلسطینی اتھارٹی بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ غزہ میں نسل کشی اور مغربی کنارے پر پرتشدد قبضے کے باوجود، محمود عباس نے صہیونی ریاست کے ساتھ سیکورٹی تعاون کو برقرار رکھا اور غزہ کی پٹی کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کرنے کے لیے امریکی سامراج کو اعتماد میں لیکر ایک نیا وزیراعظم مقرر کیا ہے۔
واحد عرب طاقت جوموثر طریقے سے فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہے وہ یمنی حوتی ہیں، جو یمن کے سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں حقیقی طاقت ہیں، جنہوں نے دنیا کے اہم تجارتی راستوں میں سے ایک آبنائے باب المندب کے ذریعے جہازوں کی آمدورفت کو روکے رکھا ہے۔.
اس کے برعکس عرب عوام فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس وقت سب سے آگے اردنی لوگ ہیں جو عمان میں اسرائیلی سفارت خانے کے گرد روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کرتے ہیں اور بادشاہی حکومت پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔
فلسطینی مزاحمت
غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت بدستور متحرک ہے۔ حماس کے جنگجو اور اس کی اتحادی تنظیمیں صیہونی افواج کے خلاف باقاعدگی سے کارروائیاں کرتی ہیں، باوجود اس کے کہ اسرائیل کے پاس وسیع فوجی برتری کے علاوہ مغربی سامراجی ممالک بالخصوص امریکہ کے ذریعے بھیجے گئے ہتھیاروں کی بڑی ترسیل موجود ہے۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کا ایک اور باب اس کی آبادی ہے، جس کوہر قسم کے فوجی تشدد، خوراک، ادویات اور رہائش کی کمی کا سامنا ہے، اس کے باوجود فلسطینی مزاحمت کے اقدامات کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مغربی کنارے میں، فلسطینی عوام اسرائیلی فوج اور صیہونی آباد کاروں کے پرتشدد جبر کے باوجود مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فلسطین کے اس حصے میں جس پر 1948 میں قبضہ کیا گیا تھا، وہاں چھوٹی چھوٹی تحریکیں موجود تھیں جنہیں سختی سے دبایا گیا۔ القدس (یروشلم) میں مسجد الاقصی کے ارد گرد کی صورتحال دھماکہ خیز ہے جس کی آزادانہ رسائی اسرائیلی فوجی دستوں کی وجہ سے ناممکن ہے۔ڈاسپورا فلسطینی (جو مقبوضہ فلسطین سے باہر پناہ گزینوں کے طور پر رہتے ہیں) نے پوری دنیا میں یکجہتی کی تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا ہے۔
اس انتہائی مشکل صورتحال کے دران، فلسطینی آبادی سیاست میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے نتائج اخذ کر رہی ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں میں رائے عامہ کے جائزوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ ایک طرف 83% فلسطینی یمنی حوتیوں سے اور 56% قطر سے مطمئن ہیں۔ دوسری طرف (48%)حزب اللہ، (30%) ایران، (22%) اردن اور (12%) مصر کے ردعمل سے مطمئن ہیں۔
10۔اسی سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 7 اکتوبر کی جوابی کارروائی کے حق میں (71٪) نے رائے دی اور (52٪) نے حماس کی حمایت کی، جب کہ فلسطینیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ محمود عباس مستعفی ہو جائیں جو (84٪)ہیں اور فلسطینی نیشنل اتھارٹی کو تحلیل کرنے کے حق میں (58%) نے ؤرائے دی ہے۔
دو ریاستی حل کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے (مجموعی طور پر 45%، غزہ میں 62% اور مغربی کنارے میں 34%) لیکن ابھی بھی 52% فلسطینی دو ریاستی حل کی مخالفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 24% اسرائیلیوں اور فلسطینیوں نے مساوی حقوق کے ساتھ ایک جمہوری ریاست کے قیام کی حمایت کی ہے۔ 33% سمجھتے ہیں اور ترجیح دی ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کا حق ہے کہ وہ اپنے گھروں کو واپس آئیں جہاں سے انہیں 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے بعد سے نکال دیا گیا تھا۔ 0 %) اسرائیل کے ساتھ مذاکرات (25%)پرُ امن مزاحمت اور (18%) اس کے برعکس مسلح جدوجہد کی حمایت کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کے عوام فتح کے منتظر
پوری دنیا میں، خاص طور پر امریکہ، یورپ اور عرب ممالک میں فلسطین کے لیے مضبوط تحریکیں، آزادی کی جدوجہد میں فلسطینیوں کے لیے بنیادی حمایت کا مرکز بن رہی ہیں۔فلسطینی مزاحمت اور بین الاقوامی یکجہتی نے دنیا بھر کے عوام کے دل و دماغ جیت لیے ہیں جس سے اسرائیل کی تنہائی میں اضافہ ہواہے۔ اس دباؤ نے کئی ممالک کو جنگ بندی اور انسانی امداد کے غیر محدود داخلے کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔
اسرائیل کی ریاست کے خاتمے کا آغاز؟
کئی عناصر اسرائیل کی ریاست میں ایک تاریخی بحران کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔غزہ میں اسرائیلی نسل کشی، یوکرین پر روس کی جارحیت، عالمی نظام کے بحران میں انجن کا کام کر رہے ہیں کیونکہ یہ عناصرامریکی سامراج کو مزید کمزور کرنے اور بین سامراجی تنازعات میں اضافے کا بحث بینے ہیں۔
یورپی سامراج کی طرف سے اسرائیلی ریاست کی غیر مشروط حمایت اور پھر عوامی دباؤ کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف جزوی اقدامات جیسے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، ہتھیاروں کی برآمدات کی معطلی، اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ پر سخت سوالیہ نشان لگا ہے۔
اسرائیل نسلی تطہیر اور نسل پرستی کے اقدامات کی وجہ سے دنیا بھر کے عوام کی اکثریت کی حمایت سے محروم ہونے کے ساتھ، فلسطین کے تاریخی علاقے میں نو آبادیاتی بالادستی کا نقصان محسوس کر رہا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کے خاتمے کے آغاز کا پہلا قدم اٹھایا جا چکا ہے۔
11۔ تسلط پسند سامراج اور زیادہ باشعور صہیونی شعبے نیتن یاہو کو ہٹا کر اسرائیلی ریاست کی ساکھ کوبچانا چاہتے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ نسل پرستانہ نوعیت کے مواد میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں۔ مزید برآں، سامراجی ممالک کی طرف سے ہتھیاروں کی غیر محدود فراہمی صیہونیوں کو وسیع فوجی برتری کی ضمانت دیتی ہے۔اس کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کیلئے سامراجی سفارتی حمایت عرب حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
دوسری طرف نیتن یاہو بے شک دینا سے الگ تھلک اور اسرائیل میں غیر مقبول ہوا ہے لیکن اس کے باوجود وہ غزہ میں نسل کشی اور مغربی کنارے میں رووزانہ قتل و غارت گری کر نے کیلئے یہودی انتہا پسند عوام پر انحصار کر رہاہے۔ وہ روز انہ کی بنیاد پر ایرانی حکومت کے خلاف براہ راست اشتعال انگیزی کے ساتھ لبنان اور شام پر حملوں کو فروغ دے کر جنگ کو علاقائی بنانے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اس لیے حتمی نتیجہ کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ فلسطینی جدوجہد کے مزاحمت کاروں کو تین دشمنوں کا سامنا ہے: ریاست اسرائیل اور اس کے سامراجی سرپرست، عرب حکومتیں؛ اور فلسطینی بورژوازی جو فلسطینی نیشنل اتھارٹی کی شکل میں موجود ہے یہ بے شک کمزوراور بدنام ہے لیکن تمام معاملات میں متحرک ہے۔
اسرائیل کی فوجی شکست اور صہیونی ریاست کے خاتمے کی طرف بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے فلسطین (غزہ، مغربی کنارے، القدس/یروشلم اور 1948 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں) میں تیسرے فلسطینی انتفادہ کا آغازکیا جائے۔ عرب دنیا میں انقلابات کی لہر اور دنیا بھر میں یکجہتی کی تحریکوں کی بحالی اور توسیع کی جائے۔ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی مزاحمت، اردن کی مضبوط تحریک کو مزید متحرک اور منظم کیا جائے، یمنی حوتیوں کی طرف سے بحیرہ احمر کی ناکہ بندی کو قائم رکھا جائے، یورپ اور امریکہ میں یکجہتی کی تحریکوں کو بڑے پیمانے پر متحرک کیا جائے اور صیہونی مخالف ایک فعال نیٹ ورک جو زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہو،کا آغاز کیا جائے۔ اس لیے اس سمت بڑھنا ضروری ہے۔
دوسری طرف، ایک فلسطینی انقلابی پارٹی جو اسرائیل اور عرب حکومتوں کے خلاف پورے خطے میں مزدور اور عوامی انقلاب کی باز گشت کرے۔ اس کیلئے فلسطینی بائیں بازو کی ترک کردہ حکمت عملی کو بحال کو کیا جائے۔ جس کا اظہار اس نعرے سے کیا جائے کہ ”القدس/یروشلم کا راستہ عمان سے شروع ہوتا ہے۔ بیروت، قاہرہ اور دمشق” ابھی تک غائب ہیں۔ اس جماعت کو فلسطینی مزاحمت کی سر گرمی کے دوران تعمیر کرنا ضروری ہے۔
جو فلسطینی مزاحمت، عرب انقلابات، بین الاقوامی یکجہتی اور صیہونیت مخالف یہودیوں کی حمایت سے، دریا سے سمندر تک ایک آزاد، سیکولر اور جمہوری فلسطین حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کرے تاکہ مستقبل میں عربوں کی ایک فیڈریشن۔ سوشلسٹ جمہوریہ کا قیام ممکن ہوسکے۔