Home Special قومی اور نوآبادیاتی جبر کے خلاف جدوجہد اور مارکسزم

قومی اور نوآبادیاتی جبر کے خلاف جدوجہد اور مارکسزم

SHARE

نوآبادیاتی اور نیم نوآبادیاتی ممالک پر سامراجی تسلط کے مسائل کے ساتھ بے وطن قومیتیوں اور قومی اقلیتوں پر مظالم عالمی انقلاب کی جدوجہد کا ایک مرکزی جز ہے۔
تحریر: ساجد کاشر
دنیا کے بہت سے ممالک کے مظلوم نہ صرف نیم نوآبادیات کا شکار ہیں بلکہ ان میں زیادہ تر اقلیتیں قومی جبر کے سنگین مسائل سے دو چار ہیں اور یہ جبر سامراجی ممالک میں بھی قومی جبر کے نام سے منسوب ہے۔ یہ جبر اُن مرکزی عناصر میں سے ایک ہے جو محنت کشوں کو نیم نوآبادیاتی ممالک کے اندر بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں تقسیم کرتا ہے۔
یہی جبر ریاستوں کو کثیر القومی ریاستوں میں تقسیم کرتاہے۔قومی جبر کی ان خونی مثالوں میں مشرق ِوسطی میں فلسطین اور کردستان، جنوبی ایشا میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر، سری لنکا میں تامل، جنوب مشرقی ایشا میں موجود انڈونیشیا کا آچے پر تسلط،میانمارکا روہنگیا پر،افریقہ میں بہت ساری ریاستوں کی سرحدیں نوآبادیات سے متعین ہیں جن میں زیادہ تر محکوم ومظلوم ممالک کے مقامی باشندے قومی اقلیتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔کئی افریقی ریاستیں درحقیقت فرانس کی نوآبادیات،مستقل فوجی دستوں، بڑے شہروں یا دارالحکومتوں کی کٹھ پتلی سرکاروں کے زیر سایہ ہیں۔
چین ہانگ کانگ اور تایؤان پر بالواسطہ، تبت اور سنکیانگ کو بلاواسطہ اپنے قبضے میں رکھے بیٹھنا۔روس نے یوکرین، چیچنیا،داغستان کو زیر سایہ رکھا ہوا ہے۔ لاطینی امریکہ اور وسطی امریکہ میں سیاہ فام لوگوں اور مقامی لوگوں پر ظلم ایک وسیع تر حقیقت ہے۔امریکہ میں سیاہ فارم لوگوں اور لاطینیوں کو بڑے پیمانے پر جبر کا سامنا ہے۔ پورٹوریکوکا نو آبادیاتی مسئلہ،یورپ میں ہمیں ہسپانوی ریاست کے اندر کیٹالونیا،باسکی،گیلیسیا کے مسائل،فرانس نے کارسیکا کے جزیروں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔برطانیہ میں شمالی آئرلینڈ کا زخم ابھی تک نہیں بھرا، قوم پرست ابھی بھی سکاٹ لینڈ اور ویلز کی یکجا کرنے کی تحریکوں میں موجود ہیں،مشرقی یورپ میں سابقہ یوگوسلاویہ یا بالٹک ریاستوں میں قومی اقلیتوں کے مسائل موجود ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ابھی تک انیسوی صدی کے اُن مسائل کو گھسیٹتا چلا آرہا ہے۔جن کی وجہ سے دو عالمی جنگیں ہو چکی ہیں۔
مذکورہ بالاتمام کہا گیا ادھو را رہے گا جب تک ہم سامراجی ممالک اور نیم نوآبادیاتی ممالک کے اندر تارکین وطن کی آبادی پر ہونے والے سنگین جبر کا تذکرہ نہ کریں۔ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور تارکین وطن پر مشتمل آبادی ان ممالک کے محنت کش طبقے کا اہم حصہ ہے لیکن اس کے باوجود سفاکانہ سماجی اور سیاسی امتیاز کا شکار ہے اور وسیع پیمانے پر غیر انسانی اور نسل پرستانہ حملوں کے نشانے پر ہے۔ اس شعبے کے محنت کش مستقل خطرے میں کم سے کم حقوق کے ساتھ جلاوطنی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔
مظلوم و محکوم قومیتوں پر جبر کے خلاف جدوجہد کرنا ہی واحد اور بہترین مارکسی پروگرام اور اصل میں ایک طریقہ کار ہے!

SHARE