ر پورٹ:سارہ خالد
آج راولپنڈی بار، اسحاق ہال میں لیبر قومی موومنٹ اور محنت کش تحریک کے زیراہتمام خواتین حقوق کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین و حضرات نے شرکت کی۔کانفرنس کا آغاز سارہ خالد سیکرٹری ماحولیات(لیبر قومی موومنٹ) نے ایک انقلابی نظم سے کیا جس میں عورتوں کی تاریخی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا،مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8 مارچ محنت کش خواتین کو توانائی اور عزم کے ساتھ جدوجہد کابینر اٹھانے کے اسباق مہیا کرتا ہے۔ یہ دن خواتین کو تشدد، عدم مساوات اور استحصال کو چینلج کرنے کی ترغیب دتیا ہے۔ آج خواتین ہر شعبہ ِ زندگی بشمول جنگ و جدل میں بھی محنت کش مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔
آج معاشی کردار کے حوالے سے،ہم اسے کھیتی باڑی، اینٹوں کے بھٹوں،فیکٹریوں، ملوں،سکولوں،ہسپتالوں اور تمام پیداواری اور خدماتی شعبوں میں کام کرتا دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ پاکستان کے سماج میں عورت کوہم گھر کے کام کاج، بچوں کی پرورش، صفائی ستھرائی، کپڑوں کی دھلائی اور دیگر امور خانہ داری میں مصروف عمل پاتے ہیں۔ ہمعورت کو طبقاتی حیثیت سے کاٹ کر الگ طبقہ نہیں سمجھتے، جاگیردار کی عورت جاگیردار، سرمایہ دار کی عورت سرمایہ دار،اور بیورو کریٹ کی عورت بیورو کریٹ ہے اور وہ محنت کشوں کے استحصال میں وہی کردار وہی نفسیات رکھتی ہے جو ایک سرمایہ دار رکھتا ہے۔
آج اس سرمایہ دارانہ دور میں عورت دہرے جبر کا شکار ہے، اس سے مراد ایک طرف توسرمایہ داری کا استحصالی جبر ہے جس میں گھر کا معاشی نظام،مہنگائی،بیروزگاری اور بہت زیادہ کام کی مصروفیت ہے اور دوسری طرف سماجی جبر ہے جس میں وہ کام کی جگہ پر جنسی ہراسانگی کا شکار ہے۔کم عمر کی شادی، بچوں کی زیادہ پیدائش اور پسند کے بغیر شادی جیسے جبر کے علاوہ گھریلو تشدد سر فہرست ہے۔ عائلی زندگی کی پیچیدگیاں، معاشی پریشانیوں،وراثت کے حقوق سے محرومی اور سماجی روایات میں پستی عورت آج بھی بے بسی کی تصویر ہے۔ ایسے معاشرے میں،ذاتی اور معاشی عدم تحفظ کا شکار عورت لازمی طور پر کسی کی مرہون منت زندگی گزارنے پر مجبور رہتی ہے اور یہی عدم تحفظ اس بربریت سے بھرے ظالم نظام میں اسے جسم فروشی تک مجبور کرتا ہے۔وہ بھیک مانگنے، خیرات اور زکو ۃ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
آج یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے ایک سال بعد بھی خواتین اپنے ساتھی مزاحمت کار جنگجوؤں کے ساتھ پوٹن کے ظالمانہ حملے اور روسی فوج کے قبضے کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہی ہیں، وہ جابر دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھا اور چلا رہی ہیں۔ ایران کی خواتین نے ایک نوجوان کرد خاتون ’م ہسا امینی‘کا نام نہاد اخلاقی پولیس کے ہاتھوں قتل کے خلاف آزادی اور باقی حاصلات کیلئے بغاوت کی قیادت کی،بڑے پیمانے پر آیت اللہ اور رئیسی حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز کیا۔مذہب کی آڑ لیکر خواتین کا جو استحصال اور مصائب ڈھائے جاتے تھے اُن کا پردہ فاش کیا۔ ایران کی خواتین، مردوں کو یہ دکھانے میں مثال بنیں کہ کس طرح جدوجہد اور مزاحمت کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ اور گزشتہ سال انڈیا میں بھی مختلف شعبوں کی خواتین نے مثالی ہرتالیں کیں جو ہمیں حوصلہ دیتی ہیں۔
1917 میں روسی محنت کش خواتین نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پرغیر مساوی تنخواہوں،محنت کرنے کے اوقات میں ذیادتی،بے روزگاری، بھوک و ننگ کے خلاف احتجاج اور ہڑتال کو انقلاب کی چنگاری میں تبدیل کر دیا۔ جس کا تجربہ محنت کش طبقے نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔آج بھی یہ ہم خواتین پر منحصر ہے کہ ہم کیسے اس جدوجہد کو آگے بھی جاری و ساری رکھیں۔دنیا بھر کی خواتین کو چاہیے کہ 8 مارچ کو عورتوں کا عالمی دن تاریخی سوشلسٹ ورثے پر قائم رہتے ہوئے جبرو تشدد اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خاتمے کیلئے اپنے حقوق و آزادی کیلئے طبقاتی جدوجہد کے طریقوں کو فروغ دیتے ہوئے بین الاقوامی جدوجہد کا حصہ بننا چاہیے۔ محنت کش مردوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے، مزدوروں کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کے بندھن کو مضبوط کرنا چاہیے۔
اب ہمارا یہ نعرہ ہونا چاہیے کہ محنت کش خواتین سرمایہ دارانہ بحران کی قیمت ادا نہیں کر یں گی۔
محنت کش خواتین سرمایہ دارانہ بحران جو وبائی مرض کے دوران اور گہراہوا سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ سامراج کی اپنی بین الاقوامی ایجنسیوں کے مطابق بھی عدم مساوات اب مضحکہ خیز حد تک پہنچ چکی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت 207 ملین افراد بے روزگار ہیں اور دنیا کی ایک تہائی آبادی خوراک کی عدم دستیابی کا شکار ہے،جس میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہم وہ ہستیاں ہیں جو غیر معمولی ملازمت، غیر رسمی کام اور کم اجرت پر سب سے زیادہ متاثر ہوتیں ہیں۔ اس میں بنااجرت گھر کی اضافی مزدوری کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ذیادتی ہو گی!
اس صورت ِحال میں سب سے زیادہ متاثر انتہائی غریب خواتین ہوتی ہیں جو بھٹوں یا جاگیرداروں کی زمینوں پر کام کرتی ہیں، جہاں انھیں نسل پرستی، مزید ذلت، زیادہ غربت، زیادہ عدم مساوات اور زیادہ تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔ معاشی عدم مساوات کی وجہ سے خواتین کیلئے بد سلوکی اور تیزاب گری اور قتل جیسے عمل سے بچنا مشکل اور بعض صورتوں میں نا ممکن ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی سامراجی مفادات کا تحفظ کرنے والی حکومتیں خواہ وہ دائیں بازو کی ہوں یا ترقی پسند اور خود ساختہ بائیں بازو کی سب عوامی اخراجات میں کٹوتی کر رہی ہیں، جس سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں۔
پروگرام میں شامل باقی مقررین،جن میں پاکستان کی پہلی لیڈی ٹیکسی ڈرائیور محترمہ زاہدہ کاظمی،ڈاکٹر ثناء سلیم،ڈاکٹر حرا رباب،ثناء محبوب,زرقا میر،بشری آصف،خدیجہ،کرن خان،فوریہ فاطمہ اور دیگر نے اس دن کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا, پروگرام میں محترمہ پروفیسر لالہ رخ بخاری صاحبہ نے لاہور اور محترمہ نسرین تاج صاحبہ نے کوئٹہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے دن کی مناسبت سے محنت کش خواتین کیلئے پیغامات بھیجے۔ ،اور کہا کہ 8 مارچ کو ہمیں زور و شور سے آگے بڑھتے ہوئے یہ کہنا چاہیے کہ ہم سرمایہ دارانہ بحران کی قیمت ادا نہیں کریں گے۔ ہم روزگار، مساوی کام کیلئے مساوی تنخواہ،میڈیکل سہولیات اور گھریلو کام کا خاتمہ کرتے ہوئے پبلک لانڈریز، سرکاری ریسٹورنٹس، ڈے کیئر سینٹرز اور کل وقتی سکولوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تشدد سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے، تعلیمی کمپیئز، خواتین پر حملے کرنے والوں کو سخت سزائیں اور متاثرخواتین کیلئے بھاری امداد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم عوامی وسائل کو بڑھانے کیلئے سیاسی تنظیموں کی بنیاد رکھیں۔
آئیں اپنی جدوجہد اور سوشلزم دفاع کے بینرز لیکر سڑکوں پر نکلیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صرف عوامی تحریک کو منظم کرنے سے ہی ہم اپنے حاصل کردہ حقوق برقرار رکھتے ہوئے نئے حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ اس عمل یا جدوجہد کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی قوتوں اور محنت کش طبقے پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی سیاسی اور طبقاتی آزادی برقرار رکھیں، کیونکہ امرا کی عورتیں خواہ وہ جبر کے خلاف ہماری شریک ہی کیوں نہ ہوں لیکن کبھی بھی اپنی طبقاتی مراعات کو ختم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھیں گی۔ اس لیے ہمیں ہر سال محنت کش خواتین پر مشتمل ایک الگ ’خواتین حقوق مارچ‘ کو آگنائز کرنا چاہیے۔ہماری تزویراتی جدوجہداستحصال اور جبر کے اس نظام کے خلاف ہے،اس لئے جو جبر کو برقر ار رکھتا ہے، تمام عدم مساوات کا ذمہ دار ہے۔
8 مارچ کو ہم محنت کش خواتین کو سڑکوں پر آنے اور اپنے حقوق کیلئے لڑنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آئیں محنت کش تحریک کا حصہ بنیں اور اسے مضبوط کریں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ مرد شاونزم (بالادستی) کے خلاف اور حقوق کیلئے فوری جدوجہد کو سوشلزم کی تزویراتی جنگ کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ سرمایہ داری نظام کے خاتمے سے ہی محنت کش خواتین حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکتی ہیں۔
پروگرام کے آخر میں خواتین کے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل قرارداد یں منظور کی گئیں:
صنفی تفریق صنفی تعصب نامنظور!
عورت کو تعلیم روزگار اور سیاست میں برابر مواقع دو!
جنسی تفریق پر مبنی تمام رجعتی قوانین کا خاتمہ کیا جائے!
برابر معاشی سیاسی سماجی حقوق دو!
عورت کو سوشل سیکیورٹی فراہم کرو!
بیوہ بے روزگار عورتوں کو خیرات نہیں الاونس دو!
تمام شعبوں کی خواتین ورکرز کو ریگولر کرو!
عورت کو ہنر مند بناو فیکٹریز اور کارخانے لگاؤملکی پیداور بڑھاؤ!
جبری اور کم عمر شادی کے سدباب کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں!
غیرت کے نام پر قتل اور تیزاب گردی کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں!
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانگی کے خلاف طالبات پر مبنی کمیٹیاں بنائی جائیں!
بھٹوں، کھیتوں،تعمیراتی اور جسمانی مزدوری کرنے والی خواتین کی ای او بی آئی رجسٹریشن کی جائے!
ایران میں خواتین کی شخصی آزادی پر حملے،ملائیت اور ریاست کا جبر نا منظور!
افغانستان میں خواتین دشمن پالیسیاں نا منظور!
نام نہاد آزاد کشمیر میں طالبات اور اساتذہ کی شخصی آزادی کے خلاف قانون نا منظور!
پدر شاہی پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو منظم کرتے ہوئے غیر طبقاتی نظام کے قیام تک جدوجہد جاری رہے گی۔