24 جون کو پیوٹن نے اپنی 24 سالہ تاریخ میں پہلی بار یہ محسوس کیا کہ ملک پر اُس کی گرفت کمزور اور اقتدار ڈگمگا رہا ہے۔ ہمارے لیے کسی بھی یقینی موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل قریب کی پیشنگوئی کرنا مشکل ہے لیکن یہ واضح ہے کہ پیوٹن کی حکومت میں اوپر سے نیچے تک دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یوکرین پر حملے،قبضے اور طویل سٹر یٹیجک شکست ہے۔ اس حقیقت کی وجہ یوکرین کے شہروں اور دیہی علاقوں کے محنت کش عوام اور مزدوروں پر مشتمل وہ افواج ہیں جنہوں نے مزاحمت کرتے ہوئے روسی فوجی طاقت کی طرف سے نسل کشی اور جارحیت کا بہادری سے جواب دیا ہے۔
سیوتنک / سرگئی بیوواروف 28جون2023
پریگوزن (Prigozhin) ڈکیتی کا ایک سابق مجرم ہے جس نے 1990 کی دہائی میں پہلے ہارٹ ڈاگ (برگرز) بیچنے کا کام شروع کیا اور پھر سینٹ پیٹرز برگ میں ریسٹورنٹ قائم کیا۔ پیوٹن نے اس کے کھانے پکانے کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے ریسٹورنٹ میں معروف غیر ملکی مہمانوں کو لایا۔ یہ دیکھنا توجہ طلب ہے کہ کس طرح پیوٹن حکومت جس کا مرکز فیڈرل سکیورٹی سروسز FSB) (سابق KGB انٹیلی جنس ادارے کے گرد ہے۔ پریگوزن (prigozhin)کو نہ صرف ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات بنانے دیئے بلکہ کریملن کے سرکاری کیڈرز اور روسی فیڈریشن کی مسلح افواج کیلئے خوراک کی فراہمی کے ٹھیکے بھی دیئے گئے۔ یہی سے پریگوزن (Prigozhin) ایک حقیقی مالیات اور میڈیا سلطنیت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوا۔ پرائیویٹ ملٹری کمپنی (PMC) ویگنر پریگوزن کے اولیگارچ گروپ کی کمپنیوں میں سے ایک کمپنی ہے۔ جو جنگ کے آغاز سے لیکر اب تک پیوٹن کے اندرونی یا خاص دائرے کا اہم جز رہی ہے۔ پی ایم سی ویگنر برسوں سے کرائے کے ان فوجیوں کی خدمات حاصل کر رہی ہے جنہوں نے 2014 سے شام، مالی، سوڈان، ڈونباس اور یوکرین سمیت کئی براعظموں میں مختلف فوجی تنازعات میں مداخلت کرتے ہوئے کاروائیاں جاری رکھیں۔ روسی فیڈریشن اور بہت سارے دوسرے ممالک سے مختلف افواج کے سابق فوجی آفیسروں کو بھرتی کیا گیا جو مختلف ممالک کے عوام کے خلاف خانہ جنگیوں،لوٹ مار اور ڈاکہ زنیوں میں ملوث رہے ہیں۔
ریاست اور تشدد کی اجارہ داری
نجی فوجی کمپنیوں کو قائم کرنے کا طریقہ نہ صرف روس اور پیوٹن کی ایف ایس بی (FSB) حکومت کا ہے بلکہ دیگر فوجی طاقتیں بھی نجی کمپنیوں کو استعمال کرتی ہیں۔ سب سے مشہور کیس بلیک واٹر کا ہے جس کے ساتھ امریکی سامراج نے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے دوران ذیلی معاہدہ کیا تھا۔ جو ہزاروں فوجیوں پر مشتمل تھی۔ تشدد اور قتل و غارت گری کے الزام میں اس نے تب سے اپنا نام تبدیل کر لیا لیکن کام جاری ہے۔
پیوٹن کی روس اور دوسری جگہوں پر متعدد ردانقلابی مہمات کیلئے یہ تشکیلات انتہائی حد تک پھیل چکی ہیں۔ یوکرانئی جنگ سے پہلے ہر اولیگرک گروپ نے ہزاروں فوجیوں کے ساتھ اپنی نجی مسلح افواج کی نمائش پر فخر کیا تھا۔ ویگنر سب سے بڑا 50,000 ہزار تک نفری رکھنے والا گروپ تھا۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ باقی گروپس بھی ہیں Gazpromکے ذریعے مالی اعانت لینا والا potok اور patriot بھی ہیں جن کا تعلق وزیر دفاع شوئینکو سے ہے جو تمام پی ایم سیز کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرتا ہے۔ تاہم اگر ہم نجی کمپنیوں کے درمیان تصادم کے جوہر کو دیکھیں تو وہ یوکرین کے عوام کی پر عزم مزاحمت ہے۔ ایسی مزاحمت جس نے دنیا کی عظیم طاقتوں کے توازن کو تبدیل کرتے ہوئے پیوٹن کی فوجی فتوعات کی مہمات کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
مزاحمت کاروں کے حوصلوں نے روسی مسلح افواج اور کرائے کے قاتلوں کے حوصلے اتنے پست کئے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تصادم پر اتر آئے ہیں کیونکہ پیوٹن فوجیوں کو یوکرئنی عوام کے خلاف جنگ کرنے کے حق میں قائل کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔
مالِ غنیمت کیلئے فوجی کمپنیوں کے درمیان تصادم
کئی مہینوں ں سے ہم اس تنازعہ کو بڑھتا ہوا دیکھ رہے تھے جو ویگنر پی ایم سی کے فوجیوں کی بغاوت کی شکل میں سامنے آیا ہے۔باخموت Bakhmut) (سے پریگوزن نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اُسے گولہ بارود نہیں بھیجا جا رہا تھا۔ لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر اس نے وزیر شو ئینگواور فوج سربراہ گیراسیموف پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کے بے ڈھنگے انتظام کی وجہ سے ان ہلاکتوں کے ذمہ دارہیں وہ مزید بے عزتی کرتے ہوئے پیوٹن کا بر اہ راست نام لیے بغیرباربار یہ بات دہرارہا تھا کہ کریملن سے جنگ ایک ناراض دادا کی کمان میں تھی۔
تصویروں اور ویڈیوزسے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ کسی طرح ویگنر کے دستے ماسکو کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ پریگوزن(Prigozhin) ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے باخموت شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس طرح پیوٹن کو مجبورکیا کہ وہ ویگنر کے ساتھ معاملات ٹھیک کرے۔ کرائے کے قاتلوں کا پریگوزن (Prigozhin) پر اعتماد اُس کو یہاں تک لے آیا کہ اس نے بڑے پیمانے پر سامعین کے سامنے دلائل کے ساتھ بات رکھتے ہوئے کہا۔یہ غلط ہے کہ روس نے اس لیے یوکرین پر حملہ کیا کیونکہ زیلنسکی حکومت اور نیٹو پہلے سے جارحیت کی تیاری کر رہے تھے۔
بنیادی طور پر پریگوزن (Progozhin) اور روسی افواج کی اعلی کمان کے درمیان تنازعے کا پس منظر ویگنر نے لوٹ مار کی کاروائیوں کو مزید جاری رکھنے کیلئے وزارت دفاع کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے تھے جو کہ اچھا منافع حاصل کرنے کیلئے مشکل ترین طریقہ کار ہے کیونکہ وزیر دفاع خود کرائے کے فوجیوں پر مشتمل کمپنیوں کی ملکیتی رکھتا ہے۔ اس لیے وہ ویگنر سے معاہدہ اپنی شراط پر کرنا چاہتا تھا جو کہ پریگوزن کو منظور نہیں تھا۔
پریگوزن (Progozhin)کی کمپنی کی خودمختاری کو ختم کرتے ہوئے اس حد تک مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ مقامی حکومتوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرے اور اپنی کمپنی کی بھاگ دوڑ مسلح افواج کی چین آف کمانڈ کے حوالا کرے۔
پریگوزن (Progozhin) اس فیصلہ کو لیکر یہ سمجھ رہا ہے کہ اسے سیاسی اور عسکری کھیل سے باہر کیا جا رہا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ان فیصلوں کو ماننے کا مطلب اپنے بلین ڈالرز کے کاروبار کو تحلیل کرنا ہے۔ چند ہفتے پہلے کریملن کی طرف سے یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ یکم جولائی سے تمام فوجی خدمات کے معاہدے وزیر دفاع شوئینگوکے کنٹرول میں چلے جائیں گے جو اپنی PMC بھی رکھتا ہے۔ اس لیے پریگوزن نے اپنی ویگنر کو یوکرین میں موجود کیمپوں سے نکال کر” انصاف کی خاطر” ماسکو کی طرف مارچ کروایا۔
ویگنر کیمپ پر مبینہ حملہ
پریگوزن نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے اس عمل کی مذمت کی کہ ریگولر روسی فوج کے توپ خانے نے اس کے عقبی گارڈ کو نشانہ بنایا جس سے نہ صرف تباہی ہوئی بلکہ جانی نقصان بھی ہوا۔ اس نے اسی مقام سے کرائے کے فوجیوں کے ساتھ مارچ کا آغاز کیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پریگوزن نے ہوائی اڈے اور روستوو شہر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جہاں روسی فیڈریشن فوج کی جنوبی کمان کام کرتی ہے۔جہاں شوئینگوتشریف لایا تھا پر جب پریگوزن اپنے فوجیوں کے ساتھ وہاں پہنچا تو شوئینگو وہاں سے جا چکا تھا۔ پریگوزن نے وہاں موجود جنوبی ضلع کے بہت سے سربراہوں سے ملاقاتیں کرنے کے باوجود یہ مطالبہ جاری رکھا کہ گیراسموف اورشوئینگو وہاں آ کر اس سے بات کریں۔جب کوئی جواب نہ ملا تو پریگوزن نے روستوف کی ناکہ بندی کرنے کے بعد شمال کی طرف پیش قدمی کی جہاں اُس نے وورونز کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اپنا ” انصاف کیلئے مارچ "ماسکو کی طرف جاری رکھا۔ پہلے لیپٹزک اور بعد میں ٹولا کے علاقے میں ٹھہرا جو ماسکو سے صرف 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
پریگوزن نے باربار جنگ پر سوال اٹھائے کہ جنگ کس لیے تھی۔ کیا جنگ شوئینگو کوبہادری کا تمغہ دینے کیلئے تھی یا روس پر حکمرانی کرنے والے چک قبلے کے امرا کو جنگ کی ضرورت تھی۔اس نے پیوٹن کی تمام دلیلوں کو رد کر دیا ہے کہ روس نے یوکرین کے خلاف جنگ اپنے دفاع کیلئے شروع کی تھی۔پریگوزن نے روسی فوجی قیادت پریوکرین میں ہونے والے نقصانات اور ناکامیوں کے بارے میں عوام سے جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ روسی فوج ہر طرف سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔بہت بڑا جانی نقصان ہو رہا ہے۔ یہ جو روسی عوام کو بتا رہے ہیں سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکوجو پیوٹن کاکٹھ پتلی ہے، اس نے ثالثی کیلئے کریڈٹ لینا کا دعویٰ کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی ہے کہ ویگنر کیلئے ایک ایک قابل ِ قبول اور منافع بخش معاہدہ طے پا گیا ہے اور ہر طرح کی سکیورٹی گارنٹی دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ لوکا شینکو یہ کہتا ہے کہ مسٹر پریگوزن کے یہ اقدام انتہائی خطرناک تھے کیونکہ اس کی وجہ سے جنرل اسٹاف کی چین آف کمانڈ بھی ٹوٹ سکتی تھی۔
جمعہ کی رات سے ہفتہ شام تک پریگوزن نے شوئینگو کے ساتھ جھگڑا مسلسل جاری رکھتے ہوئے بغاوت کا آغاز کیا۔ صدر پیوٹن جو ہفتے کی شام تک پریگوزن اور اپنے وزیر ِ ِ دفاع کے جھگڑے کو دیکھتا رہا۔ آخر کار مداخلت کر کے قوم کے نام ایک پیغام جاری کیا۔ یہ کرائے کے فوجیوں کا سربراہ غدار ہے۔ روسیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔ ہم اس کا سخت ردعمل دیں گے۔بے شک یہ کل تک ہمارے وفاداروں کی لسٹ میں تھا لیکن اب ہم اُسے غداروں کی لسٹ میں ڈال رہے ہیں۔ اب کافی ہو گیا۔ اسے چاہیے کہ شوئینگو، ماسکو اور بیوروکریٹس کے خلاف حملوں سے باز رہے۔ پیوٹن نے کسی بھی طرح شک کی گنجائش نہیں چھوڑی، پریگوزن کا نام لیے بغیر بے شک وہ ویگنر کا ذکر خاص کریملن انداز میں کرتے ہوئے اس ہفتے کی بغاوت کا 1917 کے انقلاب سے موازنہ کررہا تھا کہ کس طرح روسی سلطنت کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ جب ملک پہلی جنگ عظیم لڑ رہا تھا اُس سے فتح چھین لی گئی تھی۔ ہم ایسے کسی بھی عمل کو دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم اندرونی غداری
سمیت تمام خطرات کے خلاف اپنے عوام اور ریاست کا دفاع کریں گے۔ بے لگام عزائم اور ذاتی مفادات نے ہمارے ملک اور ہمارے لوگوں کے ساتھ غداری کی ہے۔
آخر کار ہفتے کے روز ہی پریگوزن نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر نشر ہونے والے ایک آڈیو پیغام میں چیختے ہوئے کہا کہ پیوٹن گہری اور بڑی غلطی کر رہاہے۔ ویگنر کے لوگ غدار نہیں ہیں بلکہ روس کے سچے محب و وطن ہیں۔ پہلے پریگوزن نے ویگنر کے تما م فوجیوں سے کہا کہ کوئی ہتھیار نہیں ڈالے گا کیونکہ ہم کبھی نہیں چاہتے کہ ملک دھوکا دہی، بدعنوانی اور کرپٹ بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ پریگوزن نے دستبرداری سے کچھ گھنٹے پہلے فوجی اشرافیہ کے خلاف بیان دیتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ اشرافیہ بغیر ٹرانگ کے لوگوں کوجنگ میں داخل کر رہی ہے جس کی وجہ سے بے حساب لوگ مارے جا رہے ہیں پر یہ سارے ٹھیکدار مالامال ہو رہے ہیں۔
ایک اختتام جو آغاز ہو سکتا ہے
ویگنر کرائے کے فوجیوں کی بغاوت یوکرین پرحملے کے6 1 ماہ بعد ہوئی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگا جا سکتا ہے کہ کس طرح روسی فوج یوکرنئی مزاحمت کو شکست دینے میں ناکام ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ ویگنر گروپ کو روسی جنگی کوششوں میں اُس وقت شامل کیا گیا تھا جب کیف کے اردگرد روسی فوج کو شکست ہورہی تھی۔ اس کو فوجی سرگرمیوں میں شامل کرنے کا مقصد شکست اور فوجی تعطل کی صورتحال کو تبدیل کرنا تھا۔ سازو سامان سے لیس ویگنرکے 50,000 ہزار کرائے کے فوجی جن کا بڑا حصہ روسی جیلوں سے بھرتی کیا گیا تھا۔ اس تعداد کے باوجود اگر وقت کاؤنٹ کی جائے تو ویگنر گروپ کو خالی بخموت شہر کو مکمل طور پر تباہ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کیلئے اٹھ مہینے لگے۔جس کے دوران یوکرنئی عوام کے بڑے نقصان کے ساتھ تیس ہزار کرائے کے فوجیوں کی بھی بلی دی گئی۔ یوکرین کی مزاحمت نے پریگوزن کی قیادت اور فوجی کمان کی اہلیت پر بے شمار سوال اٹھائے ہیں۔ جس کی وجہ سے پریگوزن بخموت سے دستبرداری کی دھمکی دینے پر مجبور ہوا۔
میدان جنگ میں ہونے والی ناکامیوں کی وجہ سے روسی افواج کو ہر صورت مرکزیت کی ضرورت پر رہی ہے۔ جس کے تحت کرائے کے فوجیوں کو باقاعدہ طور پر ریگولر فوج کا حصہ بناناشامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پریگوزن نے مرکزیت کو قبول نہیں کیا بلکہ بغاوت کر کے جنوبی کمان کے روسٹو آن۔ڈان پر قبضہ اور کریملن کے ساتھ اپنے معاہدوں پر بات بات چیت کیلئے ماسکو کی طرف انصاف کیلئے مارچ کیا۔یہ مارچ روسی فوجی کمان میں تبدیلی کو بھڑکانے کا بحث بن رہی تھی۔ بے شک یہ بغاوت فوجی درجہ بندی کے ایک حصے کی خوشنودی ہی کیوں نہ تھی،6 3گھنٹوں کے بعد پریگوزن اور بیلا روس کے آمر لوکا شینکو کے درمیاں خفیہ معاہدے کے ذریعے ختم کر دی گئی۔ یہ بغاوت پوری طرح سے روسی فوجی کمان میں ہل چل کو ظاہر کرتی ہے۔ خفیہ مذاکرات نے پوٹن کی کمزوری کو بے نکاب کیا ہے۔ جس نے بغاوت کے شروع میں بغاوت کرنے والوں کیلئے بڑے بڑے بول لولتے ہوئے کچلنے کا وعدہ کیا تھا۔
اس بغاوت نے روسی فوج کی مشکلات کو بے نقاب کرتے ہوئے پیوٹن کی سیاسی ساکھ کو مجروح کیاہے۔ یہ سب کچھ روسی عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ہمارے مطابق فوجی ناکامیوں نے ہمیشہ تاریخی طورپر سیاسی حکومتوں کے بحران میں اضافہ کیا ہے بلکہ یہ عمل پیوٹن کے زوال کا بحث بھی بن رہا ہے۔ یہی حال5 190 کی روسی چاپانی جنگ، پہلی جنگ عظیم، افغان جنگ اور پہلی چیچن جنگ کا تھا۔ یوکرین میں فوجی ناکامی پیوٹن اور ایف ایس بی اور امرا کی حکومت کے مستقبل پر مہر لگا سکتی ہے۔
یوکرینی جوابی کاروائی کی صورتحال
یوکرینی جوابی کاروائی جو 5 جون کو شروع کی گئی تھی۔ ابھی تک روسی خندقوں، بارودی سرنگوں اور دفاعی لائن کے میکانزم کی شاخت کرنے کے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ اس سے پہلے روسی سر زمین پر یوکرینی فوج کی کاروائیوں کی ایک لمبی لسٹ ہے۔ خاص کر کے بیلگوروڈکے علاقے میں جہاں انہوں نے روسی فوجیوں اور ان کی سپلائی لائنوں کو اپنے کنٹرول میں لیا یا تباہ کیا تھا۔ اب تک یوکرینی افواج زپورنیرہیا کے علاقے کے اٹھ دیہادتوں پر دوبارہ قبضہ کر چکے ہیں اور ساتھ ہی ڈونیٹسک صوبے میں باخموت کا محاصرہ کر رہے ہیں۔ تاہم یہ جلدی سے ہونا ناممکن ہے کیونکہ یوکرینی افواج کے پاس نہ ہی اتنی فضائی طاقت ہے اور نہ ہی جدید جنگی لڑاکا ہتھیار۔
روسی افواج کمزور ہو چکی ہیں۔ بہت سارے فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہتھیاروں و گولہ بارود کو دوبارہ ذخیرہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ان کے پاس فوجی کاروائیوں کو فروغ دینے کیلئے حالات قطعی طور پر سازگار نہیں۔ دفاعی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود یوکرینی عوام کو شکست دینے میں ناکام ہیں۔ روسی فوجیں باقاعدگی سے یوکرین کے بڑے شہروں کو گولہ باری کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ 6 جون کو روسی افواج نے نیو کاخوو کے ڈیم کو اندر سے تباہ کردیا تھاجس کے نیتجے میں سیلاب نے پر تشدد تباہی کی اور اب دیوہیکل ڈیم بالکل خالی ہے۔ جس سے زراعت اور شہروں کیلئے پانی کی فراہمی متاثر ہوئی ہے اور ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ zaporizhzhia جوہری باور پلانٹ پر روسی قبضے نے پورے یوکرائنی اور یہاں تک کہ یورپین آبادی کو بھی حملہ آوروں کے ہاتھوں یرغمال بنائے رکھا ہے۔
نیٹو کی منافقت
نیٹو نے 13 سے 23 جون تک 0 25 F16 لڑاکا طیارے یورپ میں جمع کر کے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فضائی فوجی مشق کی۔15 اور16جون کو برسلز میں نیٹو ممالک کے دفاعی وزرا کی میٹنگ ہوئی جس میں طے پایا کہ یوکرین کو F16 طیاروں کی فراہمی نہیں کی جائے گی۔
یہ فیصلہ امریکی اور یورپی یونین کی اس حکمت ِعملی سے مطابقت رکھتا ہے کہ پیوٹن کی حکومت کو گرانا نہیں بلکہ کمزور کرنا ہے۔ ویگنر سے تعلق رکھنے والے کرائے کے فوجیوں کی بغاوت نے بھی پیوٹن کو جواز فراہم کیا کہ کس طرح اس نے کرائے کے جنگجو کو اقتدار پر قبضہ کرنے سیروک دیا۔
21 اور 22 جون کو لندن میں سامراجی طاقتوں نے یوکرین کی تعمیر نو کیلئے ایک کانفرنس بلائی۔جس کا مقصد بڑی مغربی کارپوریشنوں کو لیکر یوکرین کی معیشت اور دولت کو کنٹرول کرنے کی تیاری ہے۔ ایسی پالیسی کے ساتھ زیلنسکی کی حکومت پوری طرح سے ہم آہنگ ہے۔ اس کی ایک مثال اس طرح ہے کہ جب نیو کاخوو کے ڈیم پھٹنے کی وجہ سے پانی کی کمی شروع ہوئی تو kryvyi Rih کی آبادی نے اپنی کوشش سے پانی کے کنویں کھود نا شروع کئے تو ریلنسکی حکومت نے لوگوں کو منع کیا جس کی بنیادی وجہ ریلنسکی پانی کے کنوؤں تک کی اجارہ داری کو کنڑول کرتے ہوئے نجی شعبے کے لیے راستہ کھول رہا ہے۔
یوکرینی مزدوروں کی مزاحمت کو ہر طرح کی حمایت دو!
یقینی طور پر یوکرین کے عوام پر مسلط کردہ مصائب ناقابل ِ بیان ہیں۔ لیکن یوکرینی عوام روسی افواج کے خلاف جنگی کوششوں میں حصہ لے رہے ہیں چاہے وہ اگلی صفوں میں ہوں یا پچھلی۔ وہ ریلنسکی حکومت کی نیو لبرل پالیسیوں کے باوجود روسی افواج کی فتوہات کو روک رہے ہیں۔ مزدوروں کی اس مزاحمت کیلئے ضروری ہے کہ دنیا بھر کے مزدوروں کے اندر یوکرین کے دفاع کیلئے مہم چلائی جائے۔ ہمیں بین الاقوامی یکجہتی اور جدوجہد کے پلیٹ فارم کو طاقت دیتے ہوئے یوکرین کے عوام سے یکجہتی کرنی چاہیے۔ یہ وہ نیٹ ورک ہے جس نے حال ہی میں یوکرینی عوام کیلئے اپناتیسرا قافلہ ر وانہ کیا۔ جہاں تک روسی عوام کا تعلق ہے وہ خانہ جنگی سے نہیں بلکہ پیوٹن جیسے بدمعاش کے اقتدار سے ڈرتے ہیں جو لوگوں کو خطر ناک ہتھیاروں سے مارتا ہے۔
ہم دنیا بھر کے محنت کش طبقے اور روسی عوام کو جنگ کے خلاف، مافیا اور امرا کے خلاف، پیوٹن کی آمریت کے خاتمے کیلئے منظم اور متحد ہونے کی اپیل کرتے ہیں۔
ہم یوکرینی مزاحمت کیلئے ہتھیاروں کی مانگ کرتے ہیں!
ہم روس میں جنگ مخالف کاروائیوں کی حمایت کرتے ہیں!
پیوٹن کی جیلوں میں قید سیاسی قیدیوں کو آزاد کرو!
الحاق اور امن کے بغیر ڈونبساس اور کریمیا سمیت یوکرین کے تمام علاقوں سے روسی فوجیوں کا انخلا کیا جائے!
یوکرین کے عوام کی تعمیرنو، پانی، اور باقی بنیادی ضروریات کی فراہمی فوری ممکن بنائی جائے!
ایک آزاد یوکرین کیلئے!
محنت کش عوام کی حکومت کیلئے!