Home Pakistan کیا موسمیاتی تبدیلی مزید زلزلے اور آتش فشاں پھٹنے کا سبب بن...

کیا موسمیاتی تبدیلی مزید زلزلے اور آتش فشاں پھٹنے کا سبب بن سکتی ہے؟

SHARE

پاکستان میں اورعالمی سطح پر آئے روز رونما ہونے والی قدرتی آفات،سیلاب،سونامی اور زلزلے یقینی طور پر تیزی سے بڑ ھتے ہوئے ماحولیاتی بدلاؤ کی طرف ایک سنگین اشارہ ہیں۔

تحریر: سارہ خالد

موسمیاتی تبدیلیوں اور تیزی سے بڑھتے ہوئے شدید موسمی حالات نے پاکستان میں قدرتی آفات میں اضافہ کیا ہے۔ اندرون ملک سیلاب، طوفان، زلزلے، لینڈ سلائیڈنگ، خشک سالی، طوفان اور سونامی جیسے بڑے خطرات عام عوام اور ملک کی معیشت کوبڑے پیمانے پر نقصان پہنچارہے ہیں۔ آفات کا اثر ایک ملک سے دوسرے ملک میں نمایاں طور پر مختلف ہوتا ہے اور بنیادی طور پر اس کا تعین کمیونٹی کی سماجی و اقتصادی طاقت سے ہوتا ہے۔ ایسے واقعات کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات ترقی پذیر ممالک کے مقابلے ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ رونما ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، پاکستان کو موسمی واقعات اور زلزلوں کی تعدد اور شدت میں خاطر خواہ اضافے کا سامنا ہے۔ ان قدرتی آفات کے نتیجے میں پسماندہ علاقوں میں رہنے والے لوگ زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ جرمن واچ رپورٹ 2019 کے مطابق پاکستان مسلسل ماحولیاتی تباہی اور قدرتی خطرات کی وجہ سے انسانی اموات سے متعلق سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں 1998 سے 2022 کے درمیان سالانہ تقریباًبنا کسی بڑی آفت کے 1200سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی براہ راست زلزلوں کا سبب نہیں بنتی، لیکن گزشتہ برسوں میں شدید موسمی حالات کی خرابی نے ملک میں قدرتی آفات کے نزول کی راہ ہموار کی ہے۔ اور موسمیاتی تبدیلی کی یہی شدت زلزلوں کو بھی متحرک کر تی ہے۔ماحولیاتی بدلاؤ سے براہِ راست فالٹ لائنز پر دباؤ بڑھتاہے، جو زلزلوں کے آنے کا باعث بنتا ہے۔بڑے پیمانے پرجنگلات کا کٹاؤ بھی زلزلوں کے زیادہ وقوع پزیر ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
پگھلتے ہوئے گلیشیئرز اور آب و ہوا کی تبدیلی سے سمندری پھیلاؤ بھی زلزلوں سے جڑے ایک اور خطرے میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ ابھرتے ہوئے سمندر دنیا کے بہت سے مقامات پر پانی کی سطح کو بڑھا رہے ہیں، جو زلزلوں کے دوران مائعات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو تقویت دے رہے ہیں۔زلزلے کے نتیجے میں زمین لرزنا، مٹی کی لیکویفیکیشن، لینڈ سلائیڈنگ، دراڑیں، برفانی تودے اور سونامی ہو سکتے ہیں۔ زلزلے سے ہونے والی تباہی اور نقصان کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی شدت اور گہرائی کتنی ہے۔
ہم یقینی طور پر نہیں جانتے کہ زلزلے جیسی خوفناک قدرتی آفت کو کس چیز کی حصہ داری نے زیادہ متاثر کیا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسے بڑھتے ہوئے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ کرہ ارض پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلی، سونامی اور آتش فشاں پھٹنے کے ساتھ ساتھ زلزلوں کے جھٹکوں کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔
ناسا کے سائنسدانوں نے تسلیم کیا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پیچھے ہٹنے والے گلیشیئرز الاسکا میں پچھلی دہائیوں میں زلزلے کا باعث بن رہے ہیں۔اوراثر صرف کسی ایک خطے تک محدود نہیں ہے۔ جیسے جیسے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز زمین کی پرت میں وزن کی تقسیم کو تبدیل کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ”گلیشیل آئسوسٹیٹک ایڈجسٹمنٹ” پلیٹ ٹیکٹونکس میں تبدیلیاں لاتی ہے جو مزید زلزلوں، آتش فشاں کو بیدار کرنے اور یہاں تک کہ زمین کے محور کی حرکت کو بھی متاثر کر سکتی ہے،جو کہ اب ہو بھی رہی ہے!
ایک حالیہ مطالعہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کا ایک خاص مرحلہ ”ہمیں زلزلہ سےمتعلق ہنگامہ خیز مستقبل سے خبردار کرتا ہے۔”
بدقسمتی سے، یہ صرف زلزلے نہیں ہیں! گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات میں پانچ گنا اضافہ ہوا، جن میں سے 91 فیصد ہلاکتیں ترقی پذیر ممالک میں ہوئیں۔

DHA:لینڈ مافیااور موسمیاتی تبدیلی

نام نہادسستی‘ ہاؤسنگ سوسائٹیز‘ کے لیبل تلے لینڈ مافیاز پورے پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں ایک بیماری کی طرح پھیل رہے ہیں۔ جنرل (ر) مشرف کے 10 سالہ دور حکومت میں وژن اور سمت کی کمی نے پورے پاکستان میں غیر منظم جائیدادوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو عروج پر پہنچا دیا۔ اس پر سونے پرسہاگہ یہ ہواکہ مشرف نے اپنے دورِ حکمرانی میں پیشہ ور فوجیوں کو باقی سیکٹرز میں معاشی مداخلت کی طرح،زمین کے پیاسے پراپرٹی ڈیلروں میں بھی تبدیل کر دیا۔
اور المیہ یہ ہے کہ اس وقت غیر منظم اور غیر منصوبہ بند ہاؤسنگ سوسائٹیز اور لینڈ مافیا کا عروج ملک میں شدیدماحولیاتی خدشات کا باعث بن رہا ہے۔ ایک تو ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر مفت سواری کرتے ہیں۔ حکومت سڑکوں، پلوں، بجلی اور پانی کا جال فراہم کرتی ہے لیکن حقیقی فائدہ اٹھانے والے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان ہوتے ہیں جو بعض اوقات بھاری کک بیکس کے ساتھ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ایک سرکاری سڑک ان کی زمین سے گزرے جس سے زمین کی قیمت زیادہ سے زیادہ ہو جائے۔ اور دوسری طرف ملک میں بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی زرخیز زمینوں کو یہ لینڈ مافیاز خصوصاً DHAہاؤسنگ سوسائیٹیز میں تبدیل کرتے جا رہے ہیں۔
اس میں ایک سب سے اہم عنصر یہ بھی ہے کہ کس طرح چھوٹے کسانوں کو ان کی زمینیں، اکثر زبردستی، ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان کو بیچنے کے لیے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ وہ زمیندار جو پہلے چھوٹے کسانوں کو گندم اور دیگر غذائی فصلیں اگانے کے لیے اپنی زمین کرائے پر دیتے تھے، انہیں یہ جھانسہ دیا جاتا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیزمیں اپنی زمین شامل کر کے وہ زیادہ منافع کماسکتے ہیں۔ حکومتی ترقیاتی منصوبوں کی معلومات سے ڈویلپرز منافع بخش علاقوں میں زمین حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ غریب کسان یا چھوٹا زمیندار عموماً بڑی تصویر سے بے خبر ہوتا ہے اور معمولی قیمت پر زمین بیچ دیتا ہے۔یا اگر نہیں بیچنا چاہتا تو زبردستی اسے اسکی زرخیز زمین بیچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اور پھر وہی زمین دو تین سالوں میں سرکاری منصوبوں کے ذریعے، بہت زیادہ قیمتی اثاثہ بن جاتی ہے۔جس کا سب سے بڑا نقصان پہلے تو اس زمیندار کو ہوتا ہے اور دوسرا ملکی سطح پر اجناس کی کاشت کی زمین کم ہو جانے کے باعث مسلسل کچھ سالوں سے اب ملک میں خوراک کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔اس طرح ایگریکلچرزمین کی کمی اور جنگلات کے بے بہا کٹاؤ کی وجہ سے براہ راست ملک ایک طرف خطرناک حد تک موسمیاتی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا ہے،جس کی واضع مثال بے وقت آنے والے سیلاب اور زلزلوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
لہذاپاکستان جیسی زراعت پر مبنی معیشت میں ہم زرعی زمین کو کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
ہمیں ہاؤسنگ سکیموں کے دن بدن پھیلتے ہوئے مافیا،خاص طور پر DHAجو اب ملک کے بیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کو بڑے اور دیر پا منافع کیلئے مختص کر چکے ہیں،اور زرخیز زاور جنگلات سے بھری زمینوں کو نہایت بے دردی سے بنجر بنا رہے ہیں،پر پابندی اور سخت رکاوٹیں ڈالنے کیلئے مناسب حکمتِ عملی بنانی ہو گی۔
کیونکہ اب اگر اس زمین اور ملک کو قدرتی آفات اور ماحولیاتی آلودگی سے بچانا ہے تو ایسے مافیاز کے خلاف اقدام کرنے کے سوا اور کوئی حل نظر نہیں آتا!

ہمارا سوال آپ سب سے یہ ہے کہ۔۔۔۔زیادہ اہم کیا ہے: چند لوگوں کے مفادات، یا ہمارا سیارہ اور اس کے لوگ؟

SHARE