دنیا کو اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے خطرہ ہے جس کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ 1918کے ہسپانوی(Spanish) فلو کی طرح لاکھوں لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔اموات کے ساتھ بہت بڑے معاشی بحران کا عندیہ بھی ہے۔
انٹرنیشنل ورکرز لیگ (چوتھی انٹرنیشنل)IWL-FI کا بیان:
یہ حاثات کوئی قدرتی مظاہر نہیں بلکہ سرمایہ داری کی پیدوار ہیں۔جن کو برقرار رکھنے کا مقصد صرف بڑی اجارہ داریوں کے منافع میں اضافہ کرنا ہوتا ہے،چاہے اُس کے لیے پھرمحنت کشوں کا جتنی تعداد میں بلیدان دینا پڑے۔
مزیدخوف ناک شکل اختیار کرنے والے اس حادثے کو کسی جنگ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔جس کے لیے فوری معاشی اصلاحات نافذ کرنے کی ضرورت ہے لیکن جیسے جیسے یہ وبا پھیل رہی ہے اُس کو کنٹرول کرنے کی کوئی واضح پالیساں سامنے نہیں آ رہیں۔
دنیا کی حکومتیں لاکھوں محنت کشوں کی زندگیاں محفوظ کرنے کی بجائے بڑی اور اہم کارپوریشنز کے منافعوں میں اضافے کو ترجیح دے رہی ہیں۔یہ سرمایہ داری ہے جو قتل کرتی ہے جسے اب کوروناوائرس منافع بڑھانے میں مدد کر رہا ہے۔
کورونا وائرس محنت کشوں کے لیے ایک خطرناک وباہے:
حکومتیں اس خطرناک مرض کونظر انداز کر رہی ہیں۔جیسے ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک کولڈ فلو ہے جو خو د بخود کچھ مہینوں تک غائب ہو جائے گا۔کچھ دوسرے حکمران جیسا کہ بالسنورو اس وبا کو ایک کہانی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔بد قسمتی سے کچھ محنت کش اس تناظرسے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ بائیں بازو کے بہت سارے لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کورونا کی اس وبا کو بڑھ چڑھ کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ وبا سے ہٹ کر روز بھوک و افلاس سے زیادہ لوگ مر جاتے ہیں۔ کچھ محنت کشوں کا یہ خیال ہے کہ کوروناوائرس کی وبا سامراج کا ایک منصوبہ ہے۔
ضروری ہے کہ لوگوں کو سچائی بتائی جائے کہ کورونا وائرس ایک خطرناک وباہے۔ خاص طور پر دنیابھر کے مزدور وں اور غریب عوام کے لیے۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس انفرادی طور پر مڈل کلاس سے پھیلا ہے جو بین اقوامی سفر کی استطاعت رکھتے تھے۔یہ بیماری اتنی طاقتور ہے کہ لاکھوں لوگوں کی جان لے سکتی ہے خاص طور پر زیادہ عمر کے افراد اور غریب لوگوں کی۔ہاں امیر لوگ اپنی مرضی سے نجی ہسپتالوں کی انتہائی طبی نگہداشت حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ Covid-19سے شرح اموات3.4%ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے کروڑوں متاثر ہو سکتے ہیں اور جس طرح کی دنیا میں صحت کی ناقص صورتِ حال کا ہمیں سامنا ہے اُس سے لاکھوں مر سکتے ہیں۔ جو ہم چین اور اٹلی میں ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور دوسرے بہت سارے ممالک میں حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔
فطرت کا بدلہ:
یہ وائرس بھی 2002میں سامنے آنے والے وائرس SARSکی طرح ہے جس نے 8000لوگوں کو متاثر کیا اور تقربیاً 800کے قریب اموات ہوئیں،2012میں ایک اور کورونا وائرس MERSسعودی عرب کے اندر وجود میں آیا تھا جو بین اقوامی وبا بن کر متاثر ہونے والے %35کو موت کے حوالے کر گیا تھا۔
یہ تمام وائرسز صدیوں سے موجود ہیں۔بنیادی طور پر یہ وائرسز ایشا اور افریقہ کے جنگلی حیاتیات جیسے چمگادڑوں اور اونٹوں کو متاثر کرتے تھے لیکن اب اُن کے مسکن میں بدلاؤ کی وجہ سے یہ انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔
یہ بیماریاں وبا کا شکار ہو جاتی ہیں جب سرمایہ داری کی لوٹ مار مزید انسانیت کا استحصال کرنے کیلئے غیر آباد بائیوومز یا حیاتیاتی خطے کو انسانی ترقی دیتی ہے تو قدرتی ماحولیاتی نظام میں خلل آتا ہے جس کی وجہ سے انسان جانوروں کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
یہ کوئی فطری مظہر نہیں بلکہ سرمایہ داری کی فطرت کے خلاف جاری جنگ کا ایک نتیجہ ہے جس کی وجہ سے دنیا کو موسمیاتی تبدیلی،بڑے پیمانے پر جنگلات کا کٹاؤ اور زہریلی آلودگی کا سامنا ہے۔
صاف صاف الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ اس وبائی مرض کے بعد کوئی دوسرا وبائی مرض نہیں آئے گا۔ کیونکہ Covid -19انسانیت کو خطرے میں ڈالنے والا پہلا وائرس نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی کچھ خطر ِناک وائرسز سامنے آ چکے ہیں جس طرح سارس(Sars)،ایچ ون این H1N1)1)،میرس(MERS) اور دیگر شامل ہیں۔
دنیا اس وبا کے لیے تیار نہیں:
اس وقت کورونا وائرس وبائی مرض کے طور پر اُس دنیا کو متاثر کر رہا ہے جو پہلے سے سفاکانہ معاشرتی اور معاشی پولرائزیشن کا شکار ہے۔بڑی اجارہ داریاں سرمایہ داری کی دولت کو ایک مکروہ ڈگری پر مرکوز کرتی ہیں۔مجموعی طور پر 2153 سرمایہ دار پوری دنیا کی آبادی سے زیادہ دولت رکھتے ہیں۔ دنیا کی نصف غریب آبادی دنیاکی 1%سے بھی کم دولت پر کنٹرول رکھتی ہے۔
جہاں نیو لبرل کفایت شعاری کے نفاذ نے لوگوں کی معاشی پریشانی میں شدید اضافہ کیا ہے وہاں تنخواہوں میں کمی اور مزدور تنظیمیں کمزور ہوئی ہیں۔
محنت کش طبقے کے بڑے حصے کے پاس مستقل ملازمتوں نہیں ہیں جو کھانا کھانے کی میز سے لیکر ہر وقت کام کی تلاش میں مصررف رہتے ہیں۔بڑے بڑے شہروں کی بڑی آبادی افسردہ حالت میں رہتی ہے۔متعدد گھروں میں گندے پانی کی نکاسی تک ممکن نہیں ہو رہی۔
کفایت شعاری کے منصوبوں نے صحت عامہ کے بجٹ میں مزید کمی کر دی ہے۔دنیا میں ہسپتالوں کی نجکاری کی وجہ سے صحت کا نظام اور خراب ہوا ہے جو پہلے سے ہی کم بجٹ کی وجہ سے ابتری کا شکار تھا۔
وائرس کے خلاف موجودہ معمولی دفاع سے مزید وبائی افراتفری پھیل رہی ہے۔دنیا میں بہت سارے ممالک میں اشتہار لگا کر صحت عامہ کی نجکاری کی گئی جس طر ح ہمیں چلی Chilie میں نظر آیا۔ آج چلی کے صحت عامہ کی مکمل نجکاری کر دی گئی ہے۔ چلی کے محنت کش اپنے معمول کی دیکھ بھال کے لیے بھی نظام پر بھروسہ نہیں کر سکتے تو پھر ہنگائی صورتحال سے نبٹنے کے لیے کیا یہ نظام کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی تیار نہیں ہے۔امریکہ کے پاس بھی صحت عامہ کاکوئی ٹھوس نظام نہیں ہے جس کا خمیازہ امریکہ کے عوام کو بھگتنا پڑے گا۔اس وقت انسانیت کی رٹ بڑی حد تک غیر محفوظ اور وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارنہیں۔جس کی ذمہ داری پوری طرح سے سرمایہ داری اور اُس کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔
تقریباً 80فیصد کیسز میں Covid-19کی علامات کا تعین سردی اور عام فلو ہے۔20فیصد کیسز زیادہ سنگین ہو جاتے ہیں جبکہ کل کا 3.4فیصد مہلک صورتِ حال میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اموات کی شرح نوجوان لوگوں کے لیے تقریباً 1فیصد اور 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد کے لئے 15فیصد کے قریب تر ہے۔
اس مرض کے زیادہ سنگین کیسز نشوونما کر کے نمونیا میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور زیادہ تشویشناک کیسز کے لیے سانس لینے والے میکانکی معاون آلات کی مداخلت کی ضرورت پڑتی ہے جو صرف انتہائی نگہداشت کے یونٹوں (آئی سی یوز) میں ہی مہیا ہوتے ہیں۔جن کی کمی پوری دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے تین چار مہینوں تک متاثرہ ممالک میں طبی سہولیات مکمل طور پر مبہوم ہو جائیں گی اور متعددعلاقے مکمل طور پر تباہی کا سبب بنیں گئے۔ہسپتالوں میں لمبی لمبی لائنیں،ضروری وسائل کی کمی، جیسے جراثیم کش سرجیکل ماسک،سنیٹائیزرز اور تشخیصی ٹیسٹ کٹس اس نظام کی ناکامی کی منہ بولتی حقیقت بن جائیں گی۔
اس سے بھی زیادہ تکلیف آئی سی یوز میں وینٹیلیٹرز کی کمی اور خاص طور پر سرمایہ دارانہ طبی نظام کی دیکھ بھال میں موجود وسائل میں مزید عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امیروں کو نجی ہسپتالوں سے طبی امداد حاصل کرنے میں کچھ دشواریاں ہوں گی لیکن غریبوں کی دیکھ بھال
کے لیے کوئی سہولتیں نہیں ہوں گی، وہ مر جائیں گے۔
میل جول کے فاصلاتی اقدامات کا نفاذ اور انتہائی نگہداشت کی سہولیات میں توسیع سے ہی اس وبا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ چین کی حکومت نے Covid -19 کے بارے میں معلومات کو دبانے کے بعد اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے۔گیارہ ملین کی آبادی کے شہر وہان میں قرنطینہ یا طبی قید کے اقدمات نافذ کیے۔اٹلی کی حکومت نے بھی اپنے ملک میں اس بیماری کے ڈرامائی دھماکے کے بعد ایسے ہی اقدامات اٹھائے۔ دونوں ممالک میں Covid -19کی ریشو باقی ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔
سرمایہ دارانہ بربریت کی علامتیں:
؎اب جب وبائی مرض کو چھپانا ناممکن ہے تو حکومتیں ایک طرف اس بیماری کو فطری اور دو سری طرف غیر ملکیوں کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے الزام تراشی کر رہی ہیں۔الزام تراشی کی یہ کوشش نسل پرستانہ نظریے کو پروان چڑھا رہی ہے۔حکومتیں عام لوگوں کے رد ِعمل کو دبانے کے لیے زیادہ سے زیادہ آمرانہ اقدامات مسلط کر رہی ہیں۔
موجودہ دائر کار میں یہ حکومتیں نئے ابھرتے ہوئے معاشی بحران کے لیے Covid -19 کو ذمہ دار قرار دے رہی ہیں، حلانکہ یہ وبائی بیماری صرف ایک چنگاری ہی تھی جس نے معاشی بحران کے خوف و ہراس کی فضا کو ختم کر دیا ہے۔ جو 2007-09 کی کسادبازاری کی طرح بدتر ہو چکا ہے یا یہ کہ سکتے ہیں کہ اس سے بھی بدتر ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آئندہ معاشی بحران میں Covid -19 ایسا ہی کردار ادا کر سکتا ہے جیسا لہمان برادرز (Lehman Brothers) کے خاتمے نے 2008-09کے معاشی بحران میں ادا کیا۔یہ بحران کی وجہ نہیں بلکہ اس کی آمد کی علامت ہے۔
بحران کی اس گھڑی میں حکومتیں بڑی کارپوریشنز کو تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات پر عمل پیرا ہیں، لیکن اُنھیں محنت کش طبقے سے کوئی ہمدردی نہیں۔ٹرمپ،یورپ اور پوری دنیا کی حکومتوں نے ادویات سازی اور باقی بڑی کمپنیوں کو مزید مراعات دینے کا وعدہ کیا ہے۔اس وقت تک پوری دنیا کی حکومتوں نے وبائی مرض کے خلاف محدود اقدامات نافذ کیے ہیں حالانکہ ہفتوں میں وہ آنے والے بحران سے بچنے یا اُس سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدمات کر سکتے تھے۔
یہ سمجھنا آسان ہے کہ معاشی اور طبی بحرانوں کا یہ امتزاج پوری دنیا کے مصائب اور ظلم و بربریت کو بڑھا دے گا۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اِس تباہی کا سامنا کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کریں۔
محنت کش طبقے کا بحران سے نمٹنے کیلئے ہنگامی پروگرام:
ہم سمجھتے ہیں کہ کارپوریشنز کے منافعوں سے محنت کشوں کی زندگیاں زیادہ اہم ہیں۔ اس لیے ہم موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے سرمایہ داری مخالف پروگرام کی تجویز پیش کر تے ہیں:
1۔ بے شک وبائی امراض کے پھیلاؤکو محدود کرنے کیلئے ہمارے پاس واحد طریقہ سماجی دوری ہے۔ہر ایک گھر پر رہے،لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
اس وقت لوگ گھروں پررہتے ہوئے اجرتیں وصول کرنے کے حقدار ہیں۔حکومتوں کا فیکٹریاں چلائے رکھنا اور معاشرتی دوری کا مطالبہ کرنا ایک رسمیت سے زیادہ کچھ نہیں۔
جس طرح اٹلی کے مزدوروں نے اپنی قیادت مزدور اشرافیہ کی خواہشات کے خلاف جا کر وائلڈ کیٹ(wildcat) ہڑتال کو کامیاب کیا، جس کی مانگ تنخواہوں کے ساتھ چھٹیوں پر بھیجنا تھا۔یہ ایک ایسی مثال ہے جس پر پوری دنیا کے مزدوروں کو عمل پیرا ہونا چاہیے۔
ہم کام کو روکنے کے حق میں ہیں سوائے اُن کے جو موجودہ بحران سے نمٹنے کیلئے خوراک،ادویات اور دیگر وسائل کی پیدوار اورتقسیم کے لیے وقف فرموں میں کام کر رہے ہیں۔ اُن ورکرز کی جگہوں پر وائرس سے بچاؤ کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کئے جائیں۔
2۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ جو سرکاری نوکریاں نہیں کرتے،کام کرنے کے بغیر دو تین مہینوں تک گزر بسر کر سکتے ہیں؟ہماری مانگ ہے کہ بین الاقوامی طور پر ان کی گزر بسر کے لیے وظیفہ طے کیا جائے اور اس میں ایسے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے جو بے روز گار یا کوئی ذاتی کام کرتے ہیں۔
3۔اِس وبائی مرض کے دوران گھروں میں رہنا اہمیت کا حامل ہے۔لیکن لوگ کون سے گھروں میں رہیں؟کیونکہ پہلے سے محنت کش طبقے کا بڑا حصہ غیر صحت مندانہ حالات میں رہتا ہے۔جہاں بچوں بوڑھوں دونوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اِس وقت وہ تمام اپارٹمنٹس جو استعمال میں نہیں ہیں انہیں استعمال میں لایا جائے۔اِس کے ساتھ ساتھ ہوٹلوں کو بھی ضبط کیا جائے تاکہ مناسب رہائش کی منتقلی کوممکن بنائی جا سکے۔
4۔لوگوں کی طبی ضروریات کو مددِ نظر رکھتے ہوئے غیر مساوی بنیادوں پر صحت کی تمام سہولتیں،جن میں تمام طبی انفراسٹکچر،عمارتیں اور باقی سامان شامل ہے مفت مہیا کیا جائے۔
5۔سب کے لئے مفت ہاتھ صاف کرنے والا سنیٹائیزرSanitizer،ماسک اور ادویات فراہم کی جائیں۔یہ سوچ سے بالاتر ہوگا کہ اگر آبادی کی اکثریت خاص طور پر نچلے طبقے کی اکثریتی عوام کو اِن بنیادی حفاظتی اقدامات تک رسائی دینے سے دُور رکھا گیا۔
6۔تمام طبی مریضوں کے لئے COVID-19ٹیسٹ مفت اور آسانی سے مہیا کئے جائیں۔وہ جن میں بیماری کی علامات ہیں یا نہیں اُن کے ٹیسٹ ہونے چاہیے۔یہ مناسب جانچ ہے جس کے ذریعے بیماری کے پھیلاؤ پر قابوپاتے ہوئے متاثرہ افراد کی تعداد کا تعین کیا جا سکتا ہے۔جنوبی کوریا جیسے سرمایہ دار ملک نے بڑی کامیابی سے اِن اقدامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے COVID-19پر قابو پایا ہے۔
7۔طبی خدمات کے باقی شعبوں کے ساتھ نجی ہسپتالوں اور انتہائی نگہداشت کے مراکز کی ضبطگی کرتے ہوئے قومیایا جائے اور اس کے ساتھ نئے ہسپتالوں اور انتہائی نگہداشت کے یونٹوں کی تعمیر فوری ممکن بنائی جائے۔ہمیں صحت ِعامہ کی دیکھ بھال سے عدم مساوات کے فوری خاتمہ کی ضرورت ہے اور انتہائی نگہداشت والے بیڈز تک رسائی آسان کی جائے۔اگر ایسا نہ ہوا تو ہزاروں غریب لوگوں کی موت واقع ہو گی۔
8۔ادوایات بنانے والی کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ادویات مفت تقسیم کرنے کی ضمانت دیں۔
9۔ہمیں پتہ ہے کہ پوری دنیا کی حکومتیں رونا شروع کر چکی ہیں کہ مذکورہ تقاضوں کی مالی اعانت کے لیے پیسہ دستیاب نہیں ہے۔ یقینا یہ غلط ہے! اگر گزشتہ دہائیوں کی نیو لبرل اصلاحات کو ختم کیا جائے تو موجودہ مرض کو ختم کرنے کے لیے وسائل دستیاب ہو سکتے ہیں۔
ہم بڑی کارپورلیشنز کے بیل آوٹ پیکیجزکو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اب ضروری ہے کہ سرمایہ داروں کے بٹوے بھرنے کو چھوڑ کر محنت کشوں کی زندگیاں بچائی جائیں۔
نوآبادیات اور نیم نو آبادیات کو بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کر دنیا چاہیے اس رقم کو ہنگامی
بنیادوں پر صحت ِعامہ کی نگہداشت کے نظاموں کی مالی اعانت اور حفاظت کے لیے استعمال کے ساتھ، ملکی معیشتوں کی بحالی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
10۔ہر ملک کی معیشت کو بنیادی طور پر تنظیم نو کی ضرورت ہے تاکہ یہ اس وقت کی وبا سے نمٹنے کے قابل ہو۔ہمیں وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہنگامی منصوبہ نافذ کرنے کی ضرورت ہے جس کی قیادت محنت کش طبقہ کرے۔
اگر عالمی معیشت کو بڑے کاروبار کی خواہش کے بجائے محنت کش طبقے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی طرف لایا جائے تو دنیا بالکل مختلف ہو سکتی ہے۔یہی وجہ ہے ہم صحت کے نظام کو ضبط کرنے، منصوبہ بند معیشت اور محنت کشوں کی جمہوریت کے ساتھ ملکر سوشلزم کے لیے کھڑے ہیں۔
ہم تمام عوامی تحریکوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ متحد ہو کر ان مطالبات کو حقیقت بنائیں۔ ہم پوری دنیا کے مزدوروں اور غریب لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی حکومتوں کے خلاف بغاوت کریں!





