2020دنیا بھر کے مزدوروں کیلئے خوفناک ثابت ہوا۔ 1918 کے ہسپانوی فُلو اور 1929 کی عالمی کساد بازاری کے بعد سے،یہ بدترین وبائی مرض کا سال ثابت ہوا،جس سے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے (تعداد کا یقیناً زیادہ ہونا لازمی ہے) اور لاکھوں کروڑوں بے روزگار ہوئے۔ تاہم،یہ بڑے سرمایہ داروں کیلئے اتنا تقصان دہ نہیں رہا۔ تاریخی طور پر، مختلف طریقوں سے حکومتی منصوبوں کی مدد سے بیشتر بڑی بڑی کمپنیوں کو دیوالیہ پن سے بچایا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ بحران کے دوران بڑے سرمایہ داروں کی پوزیشنزمزید مضبوط اور مستحکم بنا دی گئی ہے۔ اس سے بھی بدتریہ کہ، سرمایہ داری ایسے رجحانات کومزید ابھار رہی ہے۔ جو بحران سے پہلے موجود تھے، جن سے سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک نئے طریقے سے ابھرنا ممکن ہوسکتا ہے۔
تحریر:ایڈور ڈو المائیڈا(برازیل)
عالمی بحران کی اترتی لہر
ٹراٹسکی کے مطابق:“سرمایہ دارانہ توازن ایک انتہائی پیچیدہ رجحان ہے۔ سرمایہ دارانہ حکومتیں اس توازن کو تیار کرتی ہیں، توڑتی ہیں اوردوبارہ توڑنے کے لئے بحال کرتی ہیں۔ اس طرح اس کے تسلط کی حدود میں توسیع ہوجاتی ہے۔ معاشی میدان میں، یہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور توازن کی بحالی، بحران اور عروج کی شکل اختیار کرتی ہے۔
طبقات کے مابین تعلقات کے میدان میں، توازن کا ٹوٹنا،ہڑتالوں، تالابندی اور انقلابی جدوجہد پر مشتمل ہوتاہے۔ جبکہ ریاستوں کے مابین تعلقات میں توازن کے ٹوٹ جانے کا مطلب جنگ ہوتی ہے، یا زیادہ چھپے انداز میں، ٹیرف وار، معاشی جنگ یا ناکہ بندی۔ لہذا سرمایہ داری میں ایک متحرک توازن موجود ہے، جو ہمیشہ ٹوٹ جانے یا بحال ہونے کے عمل میں رہتا ہے۔ ایک ہی وقت میں، اس طرح کے توازن میں مزاحمت کی بڑی طاقت موجود رہتی ہے۔ ہمارے پاس اس کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اب بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ (عالمی صورتحال، 1921)
ٹراٹسکی کے بیان کردہ توازن کے ان نکات کو سرمایہ دارانہ معیشت کی لمبی، اوپر اور نیچے کی لہروں کی عدم مساوات کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ عالمی بحران کا بنیادی ڈھانچہ جو 2007-2009کے دوران عالمی معیشت کی گرتی ہوئی لہر سے پیدا ہوا تھا اور آج تک موجود ہے۔اس سے قبل پچھلی صدی کی 1980-90 دہائی میں ” عالمگیر سطح پر گراوٹ کی ایک بڑی لہر آئی تھی، جس سے دنیا بھر میں نوآبادیاتی منصوبوں، چین اور مشرقی یورپ میں سرمایہ داری کی بحالی کے حالات سازگار ہوئے اورپرولتاریہ کے حالاتِ زندگی کو ایک بڑا دھچکا لگا۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے عروج کے اس دور میں، چین کو ”دنیا کی فیکٹری” کے طور پر، لیبر کی عالمی تقسیم میں شامل کیا گیا۔
2007-2009 سے شروع ہونے والی عالمی کساد بازاری کی لہر 1929 کی طرح گراوت کا باعث بنی، لیکن بورژوازی نے عوامی پیسے کو بے باکانہ طریقے سے استعمال کرتے ہوئے بڑے کاروبار وں کی مدد کی۔اس سے کچھ دیوالیہ پن کی شکار کمپنیز، جیسے لہمن برادرز Lehman Brothers اور اسی طرح کی دوسری انڈسٹریز (GM) اور دیگر شعبوں کو دوبارہ کھڑا کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر بڑے بینکوں کو بھی بچانے کیلئے حکمتِ عملی تیار کی گئی۔
تاہم، انہی حکومتوں کی مداخلت کو بحران کے بعد انکے سرمائے کی بازیابی کیلئے محدود کر دیا گیا،جنہوں نے بڑے سرمائے کو مشکل وقت میں ڈوبنے سے بچایا تھا۔اور یہی سرمایہ دارانہ معیشت میں پیداواری قوتوں کی تباہی کا معمول ہے۔ بحران کے بعد یہ متحرک ترقی محدود ہو جاتی ہے۔
سرمایہ داری کے عالمی بحران نے ریاستوں کے مابین تنازعہ کو بڑھاوا دیاہے۔ گلوبلائیزیشن کے عروج کے دور میں، عالمی طاقتوں کے مابین تعلقات میں بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کی تشکیل اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائیزیشنWTO جیسے اداروں کی مضبوطی کے لئے زیادہ استحکام قائم ہوا۔ ان میں سے بہت سے معاہدوں پر سوال اٹھائے گئے ہیں (جیسے بریکسٹ)، اور اب خود WTOبھی تقریباً مفلوج ہوچکی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ اور اس سے پیدا ہونے والے تنازعات اس حقیقت کا اظہار ہیں۔ چین کے موجودہ کردار کے بارے میں بحث کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان ”تجارتی جنگ” بڑے سرمائے کے مابین اس عدم توازن کا سب سے اہم اور نمایاں نکتہ ہے۔
چین نے گذشتہ تیس سالوں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے، وہ اب عالمی معیشت کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر کھڑاہے اور سرمائے کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے، یہ اب گلابلائیزیشن سے پہلے والی اپنی مخصوص شناخت پر فٹ نہیں بیٹھتا، اب اس کا ٹکراؤ شکست خوردہ امریکی سامراج کے مفادات کے ساتھ ہے۔ امریکہ اور چین کے مابین تنازعہ اس غیر متوازن عالمی بحران کی لہر کا ایک بنیادی حصہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ طبقاتی جدوجہد میں بھی یہ عدم توازن، متعدد سیاسی بحرانوں اور انقلابی بغاوتوں (چلی، ہانگ کانگ) اور دیگر کے ساتھ ساتھ فوجی بغاوتوں مثال کے طور پر (بولیویا) کی شکل میں خود کو ظاہر کررہا ہے۔
لہذا 2020 کی عالمی کساد بازاری کو سمجھنے کے لئے عالمی بحرا ن کی موجودہ لہر ایک کھلی کتاب کی سی حیثیت رکھتی ہے۔جس سے یقیناً اس کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے، کیونکہ مختصر مدت میں (2007-09 اور 2020)میں دنیا کو دو انتہائی شدید کساد بازاریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ہم صرف اس کے ایک تباہ کن رجحان کی طرف اشارہ نہیں کرسکتے کیونکہ سرمایہ داری کے وار کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہے۔اس وقت سرمایہ داری موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے نئے راستوں کی کھوج کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے جو گلوبلائزیشن کی آخری بار کی طرح ایک نئی ابھرتی لہر کیلئے راستہ کھولے گی۔ جسے ہم اس مضمون میں ظاہرکرنے کی کوشش کریں گے، کہ کیسے وہ اس بحران اور وبائی مرض کو استعمال کرتے ہوئے اپنے منافع کیلئے اسے اپنی مرضی کی سمت دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بحران کے مراحل
سال 2020 کا معاشی بحران کئی مراحل میں طے ہو ا ہے۔وبائی مرض سے پہلے ہی، سرمایہ کاری کی بڑی معیشتوں میں منافع کی گرتی ہوئی شرح کے ساتھ، دنیا میں کساد بازاری کے واضح نشانات موجود تھے اس پر وبائی مرض نے ان تمام عناصر کو مزید بڑھا دیاہے۔
پہلی سہ ماہی میں، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں جی ڈی پی میں کمی 1.3فیصد تھی، یورو زون میں 3.7فیصد، جاپان میں 0.6فیصد۔ چین میں یہ 6.8 فیصد تھی، جو سرمایہ داری کی بحالی کے بعد پہلا درجہ تھا۔دوسری سہ ماہی میں،) اضافی معاشی عنصر(وبائی مرض کی وجہ سے، سے بڑھ کر ڈرامائی شکل اختیار کر گیا۔ جس کی وجہ سے دنیا کی آبادی کا 40 سے 50 فیصد(قرنطین) ہو کر فالج جیسی صورتِحال کا شکار ہو گیا، ایسا عمل جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
امریکی GDP میں زوال 9.5فیصدرہا (جو کہ سالانہ لحاظ سے 32.9ٖفیصد تھا اور 1929کے معاشی زوال کے بعد سب سے زیادہ خراب ہے)۔ یوروپی یونین کے ممالک کی جی ڈی پی میں 11.9فیصد (سالانہ اعتبار سے 14.4 فیصد) کمی واقع ہوئی، جرمنی کی جی ڈی پی 10.1فیصد، فرانس میں 13.8فیصد، اٹلی میں 12.4فیصد، پرتگال میں 14.1فیصد، اور اسپین میں 18.5فیصد (خانہ جنگی کے بعد سب سے بڑی کمی) کی حد تک گر گیا۔ اہم سرمایہ دارانہ معیشتوں میں صرف چین اس گراوٹ سے بچا رہا جس کی GDPدوسری سہ ماہی میں 3.2 فیصد بڑھ گئی۔دوسری سہ ماہی کے اس اچانک زوال سے، سرمایہ دارانہ معیشت کے ارتقاء کے دو بڑے امکانات ظاہر ہوئے: یا تو 1929 کی طرح گراوٹ،بربادی یا پھر بحالی۔
مجموعی طور پر، 2020 کی عالمی کساد بازاری کا مطلب عالمی جی ڈی پی میں 4.3 فیصد کا زوال تھا، جو 2007-09کے بحران میں 1.7 فیصد پسپائی کے مقابلے میں زیادہ سنگین تھا، اور اسی وجہ سے 1929 کے بعد سے یہ سال عالمی بدترین کساد بازاری کے طور پرثابت ہوا۔ امریکہ کیGDP اس سال مجموعی طور پر 3.5فیصد، جرمنی میں 5فیصد، اسپین میں 11 فیصد، انگلینڈ میں 9.9فیصد، اٹلی 8.8فیصد، فرانس 8.3فیصد، جاپان 4.8فیصد اور لاطینی امریکہ کیGDPمیں 7.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔
جبکہ چین کی GDP میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا۔جو کہ 44 سالوں میں سب سے کم شرع نمو تھی، لیکن ترقی کرنے والی بڑی سرمایہ دارانہ معیشتوں میں واحد بہتر GDPرہی۔2020 کے دوسرے نصف حصے میں جو کچھ شروع ہوا وہ معیشت کی بحالی تھی اور جو آج تک جاری ہے۔جس کا آغاز قرنطین کے خاتمے اور دنیا بھر کی حکومتوں کے بڑے بیل آؤٹ پیکجز کے خاتمے سے ممکن ہوا،جس سے عالمی سرمایہ داری کی ایک خطرناک اور ناہموار بحالی شروع ہوئی۔
اس کی تصدیق سال کی چوتھی سہ ماہی میں GDPمیں اضافے کی شرع کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے،جس میں امریکہ (1٪)، جرمنی (0.1٪)، اسپین (0.4٪)، فرانس (-1.3)، اٹلی (-2.3٪)، پرتگال (0.4٪)، یورو زون مجموعی طور پر (-0.7٪) اور جاپان میں (3٪)رہی۔موجودہ حقیقت سرمایہ دارانہ معیشت کی سست ترقی کے تناظر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ، 2021 سے پہلے، وبائی بحران کے بعد اتنی جلدی اس گرتی ہوئی سطح کے بڑھنے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔
V- ارتقاء؟
دنیا کی بورژوا حکومتوں اور ہیلتھ ممبران نے 2020 کی دہائی کے اوائل میں وبائی مرض اور عالمی معیشت سے جلد بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک پُر زور مہم چلائی۔
لیکن اب وہ وبائی مرض کے فوری خاتمے کے بارے میں اتنی زیادہ بات نہیں کررہے۔ امریکہ میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ اموات کے بعد،یہ ظاہر ہے کہ وبائی مرض ابھی بھی یورپ میں قابو سے باہر ہے، برازیل، ہندوستان اور دنیا کے مختلف حصوں میں بڑھتے ہوئے کیسزکے باوجود اس بارے میں بات کرتے ہوئے ان اداروں کو اپنی گفتگو تبدیل کرنا پڑتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ویکسی نیشن ابھی بھی جاری ہے، جس میں بڑی تاخیر اور دنیا بھر میں عدم تعاون کا عمل جاری ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی اہم سامراجی ممالک میں بھی ویکسی نیشن کا عمل انتہائی ست ہے۔ بہت سے متاثرہ نیم نوآبادیاتی ممالک ابھی تک ضروری ویکسین کے متحمل نہیں ہوسکے ہیں۔ دنیا بھر میں مرض پر قابو پانے کیلئے آئندہ کچھ سال ضروری ہوسکتے ہیں، اور کوئی بھی وائرس کی تناؤ والی نئی لہروں کو مستقل طور پر کنٹرول نہیں کرپا رہا۔اورنہ ہی ہم آنے والے وقت میں عالمی معیشت میں تیزی سے بحالی دیکھ سکتے ہیں۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وبائی مرض کی استقامت سب سے زیادہ معیشت کو ہی متاثر کرتی ہے۔
مزید یہ کہ معیشت کی عمومی رفتار کا دارومدار سرمائے کے ذخیرے کی سطح پر ہوتا ہے، اور اس کو بڑی کمپنیوں کے منافع کی شرح سے منظم کیا جاتا ہے۔ اگر منافع کی شرح اچھی ہو تو، وہاں سرمایہ کاری ہوتی ہے اور معیشت میں ترقی ہوتی ہے، ورنہ بحران جنم لیتاہے۔ 2019 کے اختتام سے پہلے ہی سامراجی ممالک میں منافع کی شرح میں کمی واقع ہوئی، جس سے عالمی کساد بازاری کا آغاز ہوا۔ مائیکل رابرٹس نے پہلے ہی سال 2020 میں سامراجی ممالک کے منافع کی اوسط شرح میں 15 فیصد کی کمی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ظاہر ہے کہ اس میدان میں بہت بڑی عدم مساوات ہے، ایک شعبہ بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں اور بڑے بینکوں سے وابستہ ہے، جس نے اس بحران سے فلکیاتی سطح کا منافع کمایا ہے۔ جس کے بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے۔ لیکن حقیقت میں یہ بڑا منافع مجموعی طور پر صرف بڑی کمپنیوں سے مکمل طور پر جڑا ہوا نہیں ہے اور نہ صرف ان کے منافع کی شرح سے زوال آتاہے۔
تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو، کمپنیوں میں عوامی رقم سے بنائے گئے حکومت کے بڑے منصوبے، اور حتی کہ موجودہ ویکسی نیشن کے انجکشن بھی اس مسئلے کو حل نہیں کرتے۔ عام طور پر، عوامی سرمایہ کاری سے 3 فیصد سرمایہ جمع ہوتا ہے، اور نجی کارپوریٹ 20فیصدسرمایہ کاری کرتی ہے۔اسی طرح جوبائیڈن کے 1.9 ٹریلین ڈالر کے بڑے منصوبہ، امریکہ کی جی ڈی پی کی نمو میں صرف 1 فیصد اضافہ کرسکتے ہیں۔
حکومتیں معیشت میں براہ راست سرمایہ کاری نہیں کرتی بلکہ ان رقوم کو عام طور پر بڑی کمپنیوں اور خاص طور پر بینکوں کے حوالے کردیتی ہیں۔ اور واضح طور پر منافع کی کم شرح کی وجہ سے، اربوں کی رقوم کا اطلاق مالی قیاس آرائیوں پر ہوتا ہے، جو ہم دیکھیں گے کہ اتنی بڑی قیا س آرائیوں کا رواج پہلے کبھی نہیں تھا جتنا آج ہے!
لہذا، منافع کی کم شرح کے ساتھ، زیادہ تر یہی امکان ہے کہ قدر میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا جس سے کم نمو کا تسلسل متوقع ہے اور آگے بھی جاری رہے گا۔ اسی طرح، پرا نے اور نئے سرمائے کی بحالی کا تناسب بھی اسی سمت جارہا ہے۔ جیسا کہ 2007-09 کے بحران میں ہوا، کہ عوامی پیسے نے ان بڑی بڑی کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچایا،جواوسط پیداواری سطح تک نہیں پہنچ سکی تھیں اور دیوالیہ ہوجانے کے قریب تھیں۔ اورجب ایسا نہیں ہوتا ہے تو، منافع کی اوسط شرح جو معیشت کو منظم کرتی ہے نیچے آ جاتی ہے۔
ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں 3000سب سے بڑی پبلک ٹریڈ کمپنیوں میں سے 20فیصد اس وقت ”زومبیز” (غیر منافع بخش)ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی آمدنی ان کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہے (1.36 ٹریلین) اور وہ قائم رہنے کے لئے جاری عوامی امداد پر انحصار کرتی ہیں۔
اس طرح، 2020 کی عالمی کساد بازاری، جو 1929 کے بعد سے شدید ترین تھی، کسی افسردگی کا شکار نہیں ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ ناہموار اور انتہائی اہم تضادات کی صورت میں بحال ہوئی، جس کا اب ہم تجزیہ کریں گے۔
بڑی معاشی اور سماجی پولرائزیشن
یہ سچ نہیں ہے کہ اس بحران میں ”ہر کوئی ہار گیا”۔ اس کے برعکس، حقیقت یہ ہے کہ پہلے سے اوپر والے کہیں زیادہ اوپر آ رہے ہیں اور نیچے والے نیچے گر رہے ہیں۔
جبکہ محنت کشوں کیلئے موت، بدحالی اور بے روزگاری کا ایک بہت بڑا سامان بن گیا ہے، بڑی کمپنیوں کے ایک حصے نے سال 2020 میں بہت بڑا منافع کمایا۔ ماہر معاشیات کے مطابق، 2020 کی دوسری سہ ماہی میں ’سٹی بینک‘ میں گولڈمین سیچسGoldman Sachs اور جے پی مورگنJP Morganکی آمدنی،عالمی مالیاتی بحران کے بعد کسی بھی وقت کے مقابلے میں زیادہ رہی جو کہ، 2019 کے اسی عرصے میں تقریبا ً دوگنا ہو گئی تھی۔گولڈمین سیچس، دو بڑے آزاد سرمایہ کار بینکوں میں سے ایک نے محصول میں 41 فیصد کا اضافہ دیکھا۔اسی طرح ” بڑی ٹیک کمپنیوں، (ایپل، گوگل، فیس بک، مائیکروسافٹ)، ای کامرس (ایمازون، علی بابا) اور ویکسین تیار کرنے والی دوا ساز کمپنیوں نے فلکیاتی منافع کمایا۔
جیف بیزوس (ایمازون)، ایلون مسک (ٹیسلا)، اور مارک زکربرگ (فیس بک) جیسے ارب پتی افراد دنیا کے سب سے امیر آدمی بن گئے۔ بیزوس نے 2020 میں ایک ہی دن میں اپنی دولت میں 12 بلین ڈالر کا اضافہ کیا۔
اسی رجحان کے تناظر میں، ممالک کے مابین بڑھتے ہوئی پولرائزیشن کو بھی دیکھا جاسکتاہے، جس میں بڑی ٹیک کمپنیوں کی امریکہ میں تقویت، یورپ میں جرمنی کی پروڈکٹس کا مستحکم ہونا اور جنوب مشرقی ایشیاء میں چین کو تقویت ملنا شامل ہے۔ نیم نوآبادیاتی ممالک،جیسے برازیل اور ارجنٹائن جو عالمی سطح پر مزدوری کے ساتھ منسلک ہیں،صنعتی انہدام کاری(deindustrialization) کے عمل سے ان کے درجوں کو کم کیا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے یہاں چھوٹے کاروباریوں کے دیوالیہ پن کی لہر شدید تیزہے، جو معاشرتی بحران اور بے روزگاری میں روز بروز اضافہ کررہی ہے۔
امریکی- چین پولرائزیشن کو وسیع کرنے کا پلان ہے!
امریکہ اور چین کے مابین ”تجارتی جنگ” نہ صرف تجارت تک محدود ہے، اور نہ ہی یہ ٹرمپ کے ساتھ ختم ہوئی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ بالادست لیکن زوال پذیر امریکی سامراج اور ایک بڑی معیشت کے حامل سرمایہ دار ملک چین کے مابین تنازعہ ہے،چین جو کہ اب عالمی منڈی میں اپنے پرانے والے کردار کے مطابق نہیں رہا۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، وبائی مرض(کورونا) نے سرمایہ دارانہ دنیا کو غیر مساوی طور پر متاثر کیا۔ لیکن چین اس وبائی مرض اور عالمی بحران، دونوں صورتوں سے، بہت پہلے اور عمدگی سے نکل آیا تھا۔ اس نے اپنی آمرانہ حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، سرمایہ دارانہ ممالک کے اوسط سے زیادہ (دوسرے ممالک کی نسبت تقریبا 40فیصد دُوگنا) سرمایہ جمع کیا،اور چین واحد بڑی معیشتوں میں سے ایک تھی جس نے اتنی تیزی سے منافع میں اضافہ کیا۔ اور اس نے پوری دنیا میں ویکسین، ماسک اور سرنج وغیرہ فروخت کیں۔ بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اس کی نمو کی بحالی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نومبر 2020 میں چین کی قیادت نے، آر سی ای پیRCEP (جامع معاشی شراکت داری) پر دستخط کئے، ایک ایسا تجارتی بلاک جو 2.2 بلین افراد پر محیط ہے، عالمی جی ڈی پی کا ایک تہائی،جس میں جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور بیشتر ایشیائی ممالک شامل ہیں (ماسوائے امریکہ)۔چینی دنیا بھر میں 5 جی ٹیکنالوجی کی منڈیوں کی تیاری اور مقابلہ کرنے میں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اس نے ابھی ملک بھر میں اپنی کریپٹو کرینسی بھی لانچ کی ہے۔
(Comprehensive Economic Partnership)RCEPعلاقائی جامع اقتصادی شراکت داری آسٹریلیا، برونائی، کمبوڈیا، چین، انڈونیشیا، جاپان، لاؤس، ملائشیا، میانمار، نیوزی لینڈ، فلپائن، سنگاپور، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ویتنام کی ایشیا بحر الکاہل ممالک کے مابین ایک آزاد تجارتی معاہدہ ہے۔2020 تک، 15 ممبر ممالک دنیا کی آبادی کا تقریبا 30 فیصد (2.2 بلین افراد) اور عالمی جی ڈی پی کا 30٪ (26.2 ٹریلین ڈالر) بنتے ہیں، جو تاریخ کی سب سے بڑی تجارتی جماعت ہے۔ 10 رکنی آسیان اور اس کے پانچ بڑے تجارتی شراکت داروں کے مابین پہلے سے موجود دوطرفہ معاہدوں کو یکجا کرتے ہوئے، آر سی ای پی پر 15 نومبر 2020 کو ویتنام کے زیر اہتمام ورچوئل آسیان اجلاس میں دستخط ہوئے۔
اس کا واضع مطلب یہ ہے کہ جو بائڈن کے عہدے پر رہنے کے باوجود، چین کاامریکہ کے ساتھ تنازعہ جاری رہے گا بلکہ وسیع تر ہوگا۔
قرض کا ایک نیا بحران پھیل رہا ہے
دنیا بھر کی حکومتوں نے نیو لبرل نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے عوامی اخراجات سے بڑے کاروباروں کو بحران سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مائیکل رابرٹس کے مطابق اس عمل کے نتیجے میں، ”توقع کی جاتی ہے کہ عوامی شعبے کے قرضوں کی سطح گذشتہ 150 برسوں میں حاصل کردہ کسی بھی حد سے تجاوز کرے گی۔ اس میں پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم بھی شامل ہے۔”
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس (IIF) نے حال ہی میں بتایا ہے کہ عالمی قرضوں کا مجموعی ملکی پیداوار میں تناسب 2019 میں 320 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں ریکارڈ 365 فیصد ہو ا۔اس وبائی مرض کے دوران امریکی سرکاری شعبے کے قرض کی شرح نے آسمانوں کو چھو ا جو امریکی جی ڈی پیGDPکے110فیصد سے بھی زیادہ تھے۔
لازمی طور پر، وبائی مرض کے بعد، ان خساروں اور عوامی قرضوں کا سارا بوجھ محنت کشوں پر ہوگا، عوامی تعلیم، صحت، پنشن وغیرہ پر اس سے بھی زیادہ وحشیانہ حملوں کے ساتھ! دوسرے لفظوں میں، اب بڑی بڑی کارپوریشنوں کو بچایا جا رہا ہے جس کی قیمت مزدوروں کے استحصال سے ادا کی جائے گی۔
اس کے علاوہ، اعلی مقروضیت، کمپنیوں، بڑے سرمایہ داروں اور اس سے بھی زیادہ چھوٹے کاروباری افراد کو متاثر کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ، ”زومبیز”(غیر منافع بخش) کمپنیوں میں اضافہ ہوا ہے، جو منصوبوں کے خاتمے کے ساتھ ہی براہ راست دیوالیہ ہوسکتی ہیں۔ اور چھوٹی کمپنیوں کا ایک اچھا خاصہ حصہ پہلے ہی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکا ہے۔
بڑا فرضی مالیاتی بلبلہ
عالمی معیشت میں انتہائی ناگوار،خلافِ معمول تضادات،حقیقی معیشت کے ارتقا اور دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں کے مابین ہے۔ جہاں 2020 میں پیداوار، سرمایہ کاری اور روزگار کی تاریخی گراوٹ ہوئی، وہیں امریکہ اور بیشتر سامراجی ممالک میں اسٹاک مارکیٹ میں تاریخی عروج رہا۔
اس کی وضاحت بہت آسان ہے۔جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ حکومتوں کے منصوبوں سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک اچھا خاصہ حصہ بجائے پیداوار میں لگانے کے بینکوں اور بڑی کمپنیوں کے حوالے کیا گیا بلکہ فرضی منصوبوں کو لیکر خانہ پوری کی گئی۔ صفر یا منفی کے قریب شرح سود کے ساتھ، کمپنیاں زیادہ سے زیادہ منافع کماتے ہوئے، اسٹاک، بانڈز اور کرنسیوں میں مفت میں وصول کی جانے والی رقموں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔قیاس آرائی (اس امید کے ساتھ کسی ایسے اثاثے کی خریداری کہ جو مستقبل قریب میں مزید قیمتی ہو جائے گا) ایک ایسا بخارہ ہے جس کی حد تک پہنچنا محنت کشوں کے لئے تقریبا ناقابل تصور ہے۔
مارکس نے اسے قیاس آرائی(سٹایاجوئے) کا سرمایہ کہا ہے۔ اصل سرمایہ وہ ہے جو پیداوار میں لگایا جاتا ہے اور جو قدر ِ زائد پیدا کرتا ہے۔ جو امریکہ اور چین میں آٹوموبائل فیکٹریوں میں لگا ہے، اے بی سی پولسٹا(اے بی سی ریجن کی اصطلاح برازیل کے گریٹر ساؤ پالو میں ایک صنعتی خطہ ہے۔ اس نام سے برازیل کی اسی ریاست کے دارالحکومت، ساؤ پالو کے جنوب میں تین چھوٹے شہر ہیں۔ اصل میں، یہ تینوں شہر سینٹو آندرے، ساؤ برنارڈو ڈو کیمپو، اور ساؤ کیٹانو ڈو سُول ہیں) کے علاقے میں، اسی طرح ہیٹی، بنگلہ دیش وغیرہ میں ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں لگا ہوا ہے یا فیصل آباد کی صنعتکاری میں لیکن اب کمپنیاں ا سٹاک اور بانڈز کولے کر سرمایہ کاری کے لئے فنڈز اکٹھے کرتی ہیں اور مستقبل کے منافع کو یقینی بناتی ہیں۔ مارکیٹ ان شیئرز کے آس پاس گھومتی ہے، جس سے منافع کا عمل شروع ہوتا ہے، جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، سرمایہ کاروں کے اپنے حساب کتاب(اعدادو شمار) پر مبنی مستقبل پر ایک شرط لگ جاتی ہے جو ان اعدادو شمارپر یقین رکھنے والے دوسرے سرمایہ کاروں پر منحصر ہوتی ہے جنہیں یہ اعدادوشمار پیش کیے جاتے ہیں۔ اس طرح اسٹاک میں واضع طور پرسرمایہ کاری کی لہریں پیدا ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں چھوٹے سرمایہ کاروں اور یہاں تک کہ دیوالیہ مالی گروپوں کو بھی ارب پتیوں سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے، جیسے 1929 میں ہوا اور پھر 2008سے لے کر حالیہ بحران میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بڑے پیمانے پر قیاس آرائیاں (specculator) کرنے والے، ان مالیاتی اثاثوں کی خرید و فروخت کرتے ہیں جس سے قیمتیں بڑھتی اور کم ہوتی ہیں۔ چونکہ پیسہ وافر ہوتا ہے،اسلئے اسٹاک اور بانڈ کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔
بلومبرگ Bloomberg کے اعدادو شمار کے مطابق، 2020 میں عالمی بڑی کمپنیوں کے منافعوں میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ عالمی اسٹاک مارکیٹ میں 18 فیصد اضافہ ہوا، اور ٹیکنالوجی سے وابسطہ کمپنیوں کا نیس ڈیک Nasdaq انڈیکس 51 فیصد بڑھ گیا۔(سکیورٹریز خریدو فروخت کیلئے نیس ڈیک ایک عالمی الیکڑانک مارکیٹ ہے)
مووی تھیٹرز کی سب سے بڑی عالمی چین AMC نے،2020میں خالی اور بند تھیٹر ز کے ساتھ مارکیٹ سے 600 ملین کمائے۔ آج تک کے اسٹاک مارکیٹ کے مقابلے میں یہ نمبر سب سے زیادہ ہے، حتی کہ تب جب تھیٹر بھرا ہوا تھا۔ کارنیول کروزCarnival Cruise، جو کروز جہاز چلاتا ہے، تقریباًمکمل طور پر مفلوج ہو چکاتھا، نے نئے حصص میں 4.5 بلین ڈالر کا اضافہ کیا۔
اس تناظر میں ٹیسلاTesla کی ایک الگ مثال ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی فیکٹری ہے جو ایک عظیم مستقبل کے ساتھ، بجلی کی کاروں کے علاوہ شمسی توانائی کے پینلز کی تیاری کے لئے بھی اہم ہے۔ جسے بڑی کامیابی حاصل ہورہی ہے، 2019 میں اس نے 367,000کاریں بنائیں، 2020 میں,000 500، اور اب 2021کے آخر تک 800,000 تک پہنچنے کا منصوبہ ہے۔
تاہم، ٹیسلا کا اسٹاک نہ صرف مستقبل کی بڑی کامیاب کمپنی کی حیثیت سے بڑھ رہا ہے، بلکہ جاری قیاس آرائی(speculation) پر مبنی عمل کی وجہ سے بھی اس میں بڑی بے رحمی سے اضافہ ہوا ہے۔صرف 2020 میں اس کے شیئرز میں 743.4 فیصد کا اضافہ ہوا۔ جو جی ایم، فورڈ، ٹویوٹا، فیاٹ کرسلر، ڈیملر جیسی دیگر کار ساز کمپنیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ دیکھنے کیلئے کہ صرف ریاستہائے متحدہ میں،اس کی اصل پیداوار کتنی رہی ٹیسلاکے ساتھ اسکا موازنہ کریں،، فورڈ نے 2020 میں 2.41 ملین کاریں، جی ایم نے2.9 ملین، اور فیاٹ کرسلر نے 2.89 ملین فروخت کیں۔ یہ اعدادوشمار دنیا بھر میں ٹیسلا سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ سب بورژوازی کے وہ اشارے ہیں جو خودحقیقی پیداوار اور منافع سے اسٹاک کے منقطع ہونے کی سطح کی پیمائش کرتے ہیں۔ یہ سب، جیسے Schiller’s cape، Tobin’s Q، Citibank’s Euphoria-Panic، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹوں میں موجودہ صورتحال اُسی طرح کی ہے جو 1929، اور 2007-09 کے بحرانات سے بالکل پہلے تھی۔
موجودہ قیاس آرائیspeculation کا ایک اور اظہار ہمیں کرنسیوں میں قیاس آرائی speculatiion کی صورت میں نظر آتا ہے، خاص طور پر بِٹ کوائن جیسی کریپٹو کرنسیوں میں۔
بٹ کوائن کا آغاز 2009 میں ہوا تھا، جسے پروگرامرز کے ایک گروپ نے تشکیل دیا تھا۔ یہ ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے، ایک خفیہ فائل کی شکل میں، جس کی کسی استعمال ہونے والی کرنسی میں کوئی پشت پناہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قیمت کا استعمال ہے۔ یہ کسی سرکاری ادارے میں،یا کسی مرکزی بینک میں دوسری ظاہری کرنسیوں کی طرح گردش نہیں کرتی۔ اس میں سونے کی غیر تولیدی نوعیت کی نقالی کرنے کیلئے ایک محدود تعداد (21 ملین) ہے، دوسری ظاہری کرنسیوں کے برعکس جن کو چھپائی یا ٹکسال(ٹھپا لگانا) کی اجازت ہو سکتی ہے۔
پہلے تو، بٹ کوائن بیکارتھی۔ لیکن یہ 2007-09 کے بحران سے کرنسیوں پر بے اعتمادی کی وجہ سے اس کی قدر میں اضافہ ہوا۔ 2017 میں، بٹ کوائن کو ہر ایک 19,000ڈالر کی نسبت 1880فیصد سراہا گیا۔ 2018 میں، یہ 85فیصدگر گیا۔ 2020 میں، عالمی کسادبازاری(گراوٹ) کے وسط میں، ایک دوسری لہر شروع ہوگئی، کیونکہ بڑے فنڈرز نے بٹ کوائنز میں سرمایہ کاری کرنا شروع کی، جس سے یہ 276فیصدسے بڑھ کر,000 27 ڈالرتک چڑھ گیا۔ یہ بڑھوتری 2021 میں بھی جاری رہی،اور دو مہینوں میں 80 فیصد اضافے کے ساتھ شرح 50,000 ڈالر کے قریب پہنچ گئی۔
اکثر، ہم محنت کش (مزدور) بڑی رقم کے اصل معنی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ عام طور پر، ہم اپنی ماہیت یا حیثیت کے مطابق اپنے حوالوں سے شروع کرتے ہیں، جیسے کہ ہم اپنی تنخواہوں سے کیا کیا خرید سکتے ہیں۔ہمارے لئے بڑی رقوم کا تصور کرنا مشکل ہوتاہے، بالکل ایسے جیسا کہ خوردبین سے دیکھی جانے والی اشیاء ننگی آنکھ کیلئے پوشیدہ ہوتی ہیں۔ آپ ایک ہی دن میں 100 ملین ڈالر جیتنے کا تصور کیسے کرسکتے ہیں؟ جو تقریبا ًپانچ میگا سینا جیک پاٹس کے مساوی ہے؟ اس میں بِٹ کوائن کے ساتھ انسوٹ کرنے والے ایلون مسکElon Musk کا ہی بڑا فائدہ تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ، جیف بیزوس Jeff Bezos کی طرح،جو ایمازونAmazon کی بڑھتی ہوئی اسٹاک کی قیمتوں کے ذریعہ ایک دن میں 12بلین ڈالر کما سکتا ہے،ہم میں سے کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔
کسے چیز کی قدر speculation میں پیدا نہیں ہوتی ہے۔ فوائد، جو اکثر و بیشتر ہوتے ہیں، دراصل فیکٹریوں میں پیدا ہونے والی قدرِزائد کی منتقلی کا ایک ڈنگ ہے جو کچھ سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے دوسرے بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی ہے۔ ایک ایسا speculativeچکر تیار کیا جاتا ہے جو ایک بہت بڑا مالی پیرامیڈpyramidسے ملتا جلتا ہے، جس کو حقیقی معاشی فائدے کے مطابق سیٹ کرنے کیلئے پہلے کچھ دن گرایا جاتا ہے۔اور جو2007 میں، رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں ضمنی بحران کے وقت کافی متحرک تھا۔ اور یہ کسی بھی وقت پھر سے متحرک ہوسکتا ہے۔
موجودہ بحران کی حرکیات کیا ہیں؟
ہم نے اب تک جو کچھ کہا ہے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا خلاصہ کرسکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معیشت 2020 کی کساد بازاری سے آہستہ آہستہ اور ناہموار ترقی کے ساتھ نمو پارہی ہے، جس سے بڑے سرمائے کے مختلف شعبوں اور مجموعی طور سرمائے اورورکرز کے مابین پولرائزیشن میں اضافے کو دیکھا جا رہا ہے۔ ایسی سرمایہ داری جو سرکاری اور نجی قرضوں کا بہت زیادہ بوجھ لئے،speculationکی صورت لئے سفاک سمت کی طرف گامزن ہے۔
یہ رحجان آئندہ چند سالوں میں ایک نئی اور زیادہ سنگین مندی کا سبب بن سکتا ہے، جو اس عالمی معاشی گراوٹ کی تیسری لہر ہوگی۔
لیکن، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے، کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک نئی اُوپری لہر تک پہنچنے کیلئے اپنے آپ میں بھی تجدید کرنا چاہتا ہے۔ اس نئے اوپر والے مرحلے کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے، سرمایہ داری کو ایک نئی ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر اسے پیداوار میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور چین تنازعہ کو کسی حد تک حل کرتے ہوئے، پرولتاریہ کی زندگی کے حالات پر نئے سنگین وار کرنے پڑیں گے۔
بڑے سرمائے کی یہ جدوجہد(جستجو) بھی ایک عمل ہے، جس میں اسے ٹیکنالوجی اور اقتصادیات کو لیکر ریاستوں اور طبقاتی کشمکش کے مابین تعلقات، ترقی، پسپائی، فتح اور شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہماری نظر میں، موجودہ حقیقت کے پیشِ نظر، سرمایہ داری اب اس سمت کی طرف گامزن ہے کہ وہ وبائی مرض اور اس آخری کساد بازاری کو استعمال کرسکے۔
سب سے پہلے، تکنیکی نقطہ نظر سے دیکھیں تو، پہلے ہی ایسی پیش رفتیں ہو رہی ہیں جن کو ایک نیا اڈہ تیار کرنے کے لئے پیداوار میں شامل کیا جاسکتا ہے، جس طرح کہ آٹوموبائل صنعتیں۔ 5 جی ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ کا چیزوں سے باہمی ربط، الیکٹرک اور خود مختار (بغیر ڈرائیوکے) کاریں (، 4.0 انڈسٹری، ایک نئی انرجی میٹرکس، یہ سب بہت اہم تکنیکی پیشرفت ہے جو اگر پیداوار میں شامل ہوجائیں تومعیاری ترقی کا باعث ہوسکتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ محنت کشوں کے معیارِ زندگی کو پہلے ہی سفاکانہ دھچکے لگ چکے ہیں، جو 2020 میں وبائی بیماری اور کساد بازاری کے ساتھ مزید بدتر ہوچکے ہیں۔ مزدور تعلقات کی غیر یقینی صورتحال میں انتہائی مضبوط پیش قدمی، اجرتوں میں کمی اوربے روزگار عوام کے ساتھ محنت کشوں کی ایک بہت بڑی ریزرو فوج کا قیام،یہ سب مزدوروں کی فتوحات میں ایک صدی سے زیادہ کے دھچکے کا عندیہ دے رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے شعبوں میں، یہ عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کی ایک مثال برقی کاریں ہیں۔ ٹیسلا اسکی سب سے بہترین مثال ہے،برلن اور شنگھائی میں بھی نئی بڑی فیکٹریاں کھولی جا رہی ہیں۔ نئے، زیادہ موثر اور سستے ماڈلز میں اربوں ڈالر کے منصوبوں کے ساتھ، تمام بڑی کار ساز کمپنیاں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ایپل الیکٹرک کار تیار کرنے کے لئے، جی ایمGM اور ہنڈائیHyundai کے ساتھ شراکت پر بات چیت کررہی ہے۔ GM نے اعلان کیا ہے کہ 2035 تک وہ صرف برقی کاریں ہی تیار کرے گی۔
یہ محض تکنیکی مسئلہ نہیں ہے، اس میں نئے اور پرانے سرمائے کے مابین ایک مقابلہ شامل ہے۔جس میں سرمایہ تیل کی پیداوار، تطہیر اور تقسیم کے ساتھ ساتھ دہن کاروں کی تیاری میں بھی لگایا جاتا ہے۔ اس سے معیشت کے اعلی شعبوں، جیسے آٹوموبائل اور تیل کی صنعت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ کچھ شعبوں میں، وہی بڑی کمپنیاں ہیں جنہیں دوبارہ سے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف،وہ بورژوازی جو الگ الگ حصے میں بٹی ہوئی ہے،ان کے درمیان جھڑپیں ہوتی ہیں، اور یہ اپنے اپنے انداز میں دنیا بھر کی پارٹیوں اور حکومتوں کے ساتھ طویل عرصے سے قائم سیاسی تعلقات رکھتی ہیں۔
مثال کے طور پر، ٹرمپ کو ہمیشہ تیل کی کمپنیوں کے شعبے سے جوڑا جاتا رہا ہے جو نئی توانائی کے میٹرکس سے انکار کرتا رہا، اور اسی وجہ سے وہ پیرس معاہدوں کی تردید سے انکاری رہا تھا۔اس کے برعکس بائڈن نے اپنا اقتدار سنبھالتے ہی اپنے نئے منصوبوں میں، تیل کمپنیوں کے نئے منصوبوں کو قبول کیا اور ان میں سرمایہ کاری کا بھی اشارہ دیا۔
اسی طرح حقیقی ماحولیاتی تبدیلی کے لئے کوئی سامراجی حکمتِ عملی موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اس ایشو پر انکے کوئی ”ماحولیاتی مفادات” نہیں ہیں، وہ سرمایہ دارانہ مفادات، جو نظریات کے بھیس میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے پیدا ہوتے ہیں۔
پہلے ہی ایسی نشانیاں مل چکی ہیں کہ آنے والے دنوں میں برقی کار منصوبوں میں نمایاں توسیع ہونے والی ہے۔ گذشتہ نومبر میں انگلینڈ میں، بورس جانسن نے ایک قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت 2030 سے پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی نئی کاروں کی فروخت پر پابندی ہوگی۔
5G ٹیکنالوجی اور صنعت 4.0 پہلے ہی آنے والے برسوں میں بورژوا حکومتوں کے منصوبوں کا ایک اہم حصہ ہیں۔
آہستہ آہستہ، صارفین کی نئی عادات بڑے پیمانے پر انسانیت کی ضروریات بن جاتی ہیں۔ آج، اسمارٹ فونز دنیا بھر میں لوگوں کی روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں، جو نہ صرف مواصلات، بلکہ استعمال کے نئے نمونوں کا تعین بھی کرتے ہیں، اگرچہ یہ اسی طرح سے متوسط یا غریب طبقے تک نہیں پہنچتے،کیونکہ ہر ماڈل اور اسکے نئے ایڈوانس فیچرز تک رسائی انکے لئے ممکن نہیں ہوتی۔ بہت سارے نوجوان اب کاریں نہیں خریدنا چاہتے، جو پچھلی نسلوں کے بڑے خوابوں میں سے ایک تھا۔اب جب ضرورت ہو تو وہuber یا کرایہ پر گاڑی لے لیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر خریدے گئے کھانے کی کھپت وبائی بیماری کی وجہ سے وسیع پیمانے پر پھیل گئی ہے جس سے ریسٹورنٹس میں حاضری کم ہوگئی، پھرموٹرسائیکلوں اور سائیکلوں پر فوڈ ایپ ٹرانسپورٹرز کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تشکیل دیا جا چکا ہے جہاں عام طور پر بیروزگار محنت کشوں نے بہت کم اجرت پر دن رات کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
اسی تناظر میں،محنت کشوں کیلئے نئی نوکریاں انتہائی غیر مستحکم ہیں،ان میں تعطیلات اور ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن کی رقم بھی شامل نہیں۔ بڑی فیکٹریوں میں، آؤٹ سورس(ٹھیکے پر کام کرنے والے) ورکرز کے لشکر موجود ہیں جو افرادی قوت کو تقسیم کرتے ہیں۔ جن خدمات کے شعبوں میں توسیع ہو رہی ہے اور ملازمت کی جگہ بن رہی ہے، ان میں بھی حالات تقریبا ً پہلے جیسے یا اس سے بھی خراب ہیں۔ یہ ایک ایسا سو کالڈ رجحان ہے۔ جس میں اگر آپ کام کرتے ہیں تو، آپ کھاتے ہیں۔ اگر نہیں، تو آپ بھوکے رہتے ہیں۔ محنت کشوں کی ایک بہت بڑی ریزرو فوج انہی حالات یا اس سے بھی بدتر حالات کے ساتھ نئی ملازمتوں کا انتظار کر رہی ہے۔
حقیقت پر مبنی یہ سارا ڈیٹا،وبائی بیماری اور عالمی کساد بازاری کے بعد سے، بڑی حد تک ہر جگہ موجود ہے۔ ہم اس کو سرمایہ دارانہ بربریت کی علامت کی حیثیت سے بیان کررہے ہیں جو اب مزید تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد سرمایہ دارانہ توسیع کے ایک نئے دور کی بنیادیں پہلے ہی سے موجود ہیں؟ ہمارے خیال میں ابھی نہیں۔منافع کی شرح اور سیاسی عدم استحکام،فی الحال ابھی بورژوازی کو ان نئی ٹیکنالوجیز اور محنت کشوں کے حالات کو بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں نئے پیداواری پلانٹوں میں تھوپنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
موجودہ بورژوازی اس صورتحال پر کوئی سوچ و بچار نہیں کررہی، کیونکہ یہ ”ناکام بورژوازی” ہے نا کہ ایک کامیاب ”پیداواری بورژوازی”۔ یہ سب اس کے وہی شعبے ہیں جس کے ذریعے اس پورے سیارے پر غلبہ حاصل کرنے والے خواہش مند،بڑے انوسٹرز بے پناہ سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اوراگر آج وہ اس پر کوئی سوچ و بچار یا غورو غوض کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو، اس کی وجہ یہ ہو گی کہ شاید انکے لئے منافع کی شرح اب بھی پیداوار سے کم ہے!
نئے اور پرانے سرمائے کے مختلف شعبوں کے مابین بحران ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ امریکہ اور چین کے مابین تنازعہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔
لیکن ایک ممکنہ تبدیلی یہ ہے کہ معیشت کی یہ سست بحالی، مزدوروں پر حملوں کی گہرائی میں اضافے اور بربریت کے عناصر پر مبنی ہو سکتی ہے،ایسی سیکشنل سرمایہ کاری جس کیلئے حالات پہلے سے ہی موجود ہیں۔
سب سے اہم عنصر جو اس معاشی گراوٹ پر وزن ڈالے گا وہ ہے طبقاتی جدوجہد۔ مزدوروں کی اجرتوں اور حقوق پر ان انتہائی پر تشدد حملوں کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام، انقلاب اور رد عمل کے مابین محاذ آرائیوں میں اضافہ ہوگا۔
یہ اتفاقیہ طور پر نہیں ہوا کہ یہ بغاوت امریکہ جیسے سامراجی ممالک تک پہنچی ہے، جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد کی جدوجہد کے ساتھ، اب میانمار سے ہیٹی اور چلی تک مختلف ممالک تک پھیل چکی ہے۔ یہاں تک کہ ان متحرک عوامل کے باوجود، یہ بات واضح ہے کہ دنیا بھر میں دیکھے جانے والے محنت کشوں کے اس رد عمل کی سطح ابھی بھی بہت پیچھے ہے۔ وبائی مرض کے مفلوج عناصر، اصلاح پسند قیادت کی طرف سے، ابھی بھی بہت سارے ممالک میں موت اور بقا کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ابھرتے رد عمل کی روک تھام کے لئے محنت کشوں پردباؤ ڈال رہے ہیں۔
اب،بورژوازی کو نئے صنعتی پلانٹوں میں طویل مدتی سرمایہ کاری کرنے،ایسے حالات پیدا کرنے اور اپنا مضبوط تسلط قائم کرنے کیلئے محنت کشوں کی جدوجہد کو شکست دینے کی ضرورت ہے۔
جبکہ اب دنیا بھر کے مزدوروں کو اس موجودہ بربریت کی توسیع کو روکنے، بورژوازی منصوبوں اور ناکارہ سوشلزم کو شکست دینی ہوگی،جوبہت مضبوطی سے قائم ہے،کے خلاف مضبوطی سے متحد ہو کر لڑنا ہو گا اور عالمی معیشت کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو فیصلہ کن حد تک للکارنا ہو گا!
IWL – FI | International Workers League – Fourth International





