Home Special یروشلم مزاحمت، تیسرے انتفادہ کی طرف قدم

یروشلم مزاحمت، تیسرے انتفادہ کی طرف قدم

SHARE

یروشلم میں فلسطینیوں کی موجودہ مزاحمت، جو اب سارے مقبوضہ فلسطین میں پھیل چکی ہے۔مزاحمت، جو صیہونی افواج کے منصوبے کے خلاف ہے،جس کا مقصد شیخ جرح کے مکینوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا اور مذیدصیہونی آباد کاروں کی رہائش گاہ کو ممکن بناناہے۔
اس عوامی مزاحمت کی اہمیت خود کو تین بڑے نکات میں ظاہر کرتی ہے۔
پہلا: اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوام سامراجی منصوبے کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کے قابل ہیں، وہ منصوبہ جس کا مقصد یروشلم کو اس کے اصل باشندوں سے چھین کر اس پر ناجائز قبضہ کر کے پھر اس قبضے کو قانونی حیثیت دینا ہے، اور جاری ناکبہ کے تناظر میں مغربی کنارے کے ساتھ االحاق کرنا ہے۔
دوسرا: اس مزاحمت نے فلسطینی عوام کے اتحاد اور فلسطینی کاز پر دوبارہ روشنی ڈالی ہے، کہ فلسطینیوں نے کیسے 1948سے اب تک تمام مقبوضہ مقامات جیسے ہیفا،جعفا،نصار اور لوڈ میں اپنی موجودگی کو قائم رکھا اور اس کے علاوہ مغربی کنارے اور محصور زدہ غزہ کی پٹی پر بھی اپنی مزاحمت جاری رکھی۔
تیسرا: یروشلم کے لئے فلسطینی بغاوت نے عرب عوام کو اور مشرق وسطی میں صیہونی سامراجی منصوبے کے خلاف خطے کے عوام کو متحد کردیا ہے،وہ خطے جو نام نہاد ”اسرائیل” میں شامل ہیں۔لبنان، اردن، ترکی اور یہاں تک کہ یمن (وہ ملک جو اب بھی اس ظالمانہ جنگ کا سامنا کر رہا ہے جو رجعت پسند عربوں کی حکومتوں کی فوجوں نے اس کے خلاف برپا کیا ہے) اپنے فلسطینی بہنوں اور بھائیوں کے حق میں،بڑی تعداد میں اپنے اپنے دارالحکومتوں میں سڑکوں پر نکل آئے۔
صہیونی ریاست ابھی بھی 1948 سے جاری ناکبہ کے تناظر میں فلسطین میں اپنی مجرمانہ درندگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یروشلم میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اس قبضے کے نظریے کا واضح اظہار ہے، جو ابتداء ہی سے مقامی لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنا، ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے، مزید غیر قانونی آباد کاروں کو وہاں لا کر بسانے اور انکی آبادی میں وسعت لانے جیسے منصوبے پر پر مبنی ہے۔ تاکہ عالمی سامراج کو ایک فوجی دستہ کی حیثیت سے اس خطے میں وسعت دی جاسکے۔
انتفادہ کیا ہے؟
انتفادہ بغاوت یا مزاحمتی تحریک ہے۔ یہ عربی اصطلاح میں یہ ایک کلیدی تصور ہے جس کا مطلب ظلم کے خلاف جائز بغاوت ہے۔
تصوراتی انتفاضہ کو پہلی بار جدید دور میں 1952 میں مملکتِ عراق کے اندر استعمال کیا گیا، جب سوشلسٹ اور کمیونسٹ جماعتیں 1952 کے مصری انقلاب کی تحریک کے ذریعہ ہاشم بادشاہت کے خلاف احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل گئیں۔
پہلا انتفادہ:فلسطین کے سیاق و سباق میں، پہلا فلسطینی انتفادہ، مغربی کنارے پر غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے اندر فلسطینی مظاہروں اور پرتشدد فسادات کا ایک مستقل سلسلہ تھا۔ یہ مظاہرے مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیلی قبضے کے خلاف تھے جو سن 1967 میں بیس سال قبل شروع ہوا تھا۔یہ انتفادہ دسمبر 1987 سے لے کر 1991 میں میڈرڈ کانفرنس تک جاری رہا، جبکہ اس کا اختتام اوسلو معاہدوں پر دستخط کے ساتھ 1993 میں ہوا۔
اسرائیلی دفاعی دستوں کے (آئی ڈی ایف) ٹرک کے سویلین کار سے ٹکرا جانے کے بعد جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں 9 دسمبر 1987 کو یہ انتفادہ شروع ہوا، جس میں چار فلسطینی مزدور ہلاک ہوگئے، جن میں سے تین کا تعلق جبالیہ پناہ گزین کیمپ سے تھا۔
دوسرا انتفادہ: جسے اقصیٰ انتفادہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسرائیل کے خلاف فلسطینی بغاوت تھی۔جو 28ستمبر2000کو شروع ہوئی اور 8فروری 2005تک جاری رہی۔جس میں شہریوں کے ساتھ ساتھ جنگجوؤں کی بھی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک اندازے کے مطابق قریب 3000فلسطینی،ایک ہزار اسرائیلی، اور 64 غیر ملکی اموات ہوئیں۔
فلسطین اسرائیل تنازعہ
مسجد اقصی مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔ دنیا میں اس وقت رائج بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ علاقہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ اسرائیل اس علاقے پر قابض ہے اور اقوام متحدہ نے اس قبضے کو صرف کاغذی حدود تک ناجائز اور غاصبانہ قرار دے رکھا ہے۔صرف دکھاوے اور مختلف ٹاک شوز کی حد تک اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون ساز ادارے اس علاقے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کرتے لیکن آج بھی اسرائیل کی ہر جارہیت اور بربریت کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔جیسا کہ کل کی تاریخ میں امریکہ نے اسرائیل کو مذید 735ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے ہیں اور حالیہ امریکن اسلحے کی فروخت اسرائیل کو فلسطین پر مذید تشدد آمیز حملوں میں مدد کرے گی۔(link 1)

امریکن خارجہ اور امور کمیٹی کے ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ،اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے دباؤ ڈالنے کے بجائے جوبائیڈن انتظامیہ کا اسرائیل کو مجوزہ بموں اور اسلحہ کی فروخت کی اجازت دینا خطے میں مزید قتلِ عام کو بڑھانا ہے۔
اسرائیل نے آج تک تمام طے پائے گئے معاہدوں اور قراردوں کو پامال کرتے ہوئے،فلسطین پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھا ہے۔اور جب 1980 میں اسرائیل نے اپنا دارالحکومت یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو سلامتی کونسل نے دو مزید قراردادوں (قرارداد نمبر 476 اور قرارداد نمبر 478) میں اسرائیل کے اس ااقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیا کہ جو شہر اسرائیل کو علاقہ ہی نہیں ہے وہ اس شہر میں دارالحکومت کیسے منتقل کر سکتا ہے۔
سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ جنرل اسمبلی نے بھی اس اقدام کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیا۔ جنرل اسمبلی نے اسے چوتھے جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی قرار دیا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 672 میں ایک بار پھر واضح کیا گیا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے اور یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز اور غیر قانونی ہے۔
بیت المقدس کی اہمیت
بیت المقدس دنیا کا وہ واحد شہر ہے جسے یہودی، مسیحی اور مسلمان تینوں مقدس مانتے ہیں۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہیں پیغمبر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی کی تیاری کی تھی۔ مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو یہیں مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کا سب سے مقدس کلیسا واقع ہے۔ مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق پیغمبر اسلام نے معراج پر جانے سے قبل اسی شہر میں واقع مسجدِ اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار برس تک اس شہر پر قبضے کے لیے آپس میں برسرِ پیکار رہے ہیں۔
آج پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمان فلسطین سے یک جہتی کیلئے اپنے اپنے ممالک کے حکمرانوں پر زور ڈال رہے ہیں کہ اس مشکل وقت میں فلسطینی عوام کا ساتھ دیا جائے۔OICکے پلیٹ فارم سے اُن مظلوموں کیلئے مل کر آواز اٹھائی جائے،مگر وہ بھول گئے ہیں کہ دنیا میں اسلامی کانفرنس کی طرح کی لاتعداد علاقائی تنظیمیں موجود ہیں۔ ان میں کئی علاقائی تنظیموں کا پاکستان رُکن بھی ہے۔ کبھی کسی نے پوچھا کہ”سارک” جس کے ممبران بھارت اور پاکستان ہیں، وہ کشمیر میں ظلم کیوں نہیں رکواتے؟ شنگھائی کارپوریشن میں بھی تو بھارت اور پاکستان دونوں شامل ہیں، وہ آج تک کشمیر پر ہونے والے مظالم کیوں نہیں رکوا سکے؟ کیونکہ ایسی ساری تنظیمیں صرف خطے میں کاغذی امن کی بات کرتی ہیں۔ان کا اصل مقصد صرف اپنے ذاتی مفادات کیلئے امن کو تاتار کرنا اور طے شدہ بین الاقوامی منصوبوں اور اگریمنٹس کے مطابق اسلحے کی فروخت ہوتا ہے۔ یہ طبقہ ہمیشہ ان ظالم عالمی طاقتوں کی حمایت میں کھڑاہوتا رہا ہے،۔
فلسطینی گذشتہ ستر سال سے یہ جنگ لڑتے چلے آرہے ہیں۔ ان ستر سالوں میں کم از کم پچاس سال، فلسطینیوں کی یہ جنگ صرف ایک قوم پرست جنگ کے طور پر لڑی جس میں جارج بش جیسے عیسائی رہنمابھی شریک تھے، لیکن مسلمان ا کثریتی ممالک کے سیکولر حکمرانوں نے اس وقت بھی انکا کھل کر ساتھ نہیں دیا تھا، کیونکہ یہ حکمران امریکہ اور سوویت یونین کی جھولیوں میں بیٹھے مصلحت کی نیند سو رہے تھے، اور آج بھی ان کا یہی عالم ہے۔ترکی جو اس وقت فلسطین
اسرائیل تنازعے میں فلسطینیوں کے حق میں سب سے پیش پیش ہے،آج بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہے۔یہی وہ اسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعدبظاہر دونوں ممالک کے مابین نظر آنے والی سنگین صورتحال حقیقت میں قطعی مختلف ہے۔ Mezopotamya نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ موجودہ صورتحال سے قطع نظر دونوں ممالک کے مابین تجارت میں اضافہ پوری شدت سے جاری ہے۔(link 2)

اس رپورٹ میں ترک اعدادوشمار کے انسٹی ٹیوٹ (TÜIK) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آج، دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم 6.5 بلین ڈالر ہے جب کہ ترک صدر رجب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) برسر اقتدار آئی تو اس وقت یہ 1.4 بلین ڈالر تھا۔اس رپورٹ کے مطابق، سن 2020 میں ترکی کے سامان اور خدمات کے درآمد کنندگان میں اسرائیل تیسرے نمبر پر ہے، اوراس سال اس کی درآمدات 7.7 بلین ڈالر ہیں۔ یہ 2019 کی ایک چھلانگ ہے جب اسرائیل ترکی برآمدات کے صارفین کی فہرست میں نویں نمبر پر تھا۔
اسرائیلی اندھے قانون
صہیونی قبضہ، مقبوضہ بیت المقدس میں اپنے عمل کے ذریعے،ایک واضح مقصد کے ساتھ نسیٹ Knessetکے قائم کردہ قوانین کے ایک سیٹ کوجائز قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں Judicial and Administrative Systems Law عدالتی اور انتظامی لاسسٹم (1970)قابلِ ذکر ہے جو1967 میں شہر پر قبضے کے بعد تیار کیا گیا تھا اور 1973 میں اس میں ترمیم کی گئی تھی۔ اس قانون کا مقصد، دوسری چیزوں کے علاوہ، فلسطینی املاک کی لوٹ مار کو منظم کرنا اور اس پر ریاست کا کنٹرول مسلط کرنا ہے، جو 1950 کے“Absentees’Property Law”پر مبنی ہے جو صرف یروشلم کے لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ان اسرائیلی قوانین نے یہودیوں کی ”جائیداد” ”واپس” کرنے کے لئے بھی ایک میکانزم قائم کیا جو مشرقی یروشلم میں رہتے تھے اور 1948 کی جنگ کے دوران علاقے کو چھوڑ گئے تھے۔
تاہم، اعدادوشمار سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس وقت شہر میں مشرقی طراف میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد دو ہزار تھی جو نا کبہ سے پہلے اس شہر کے مغربی محلوں جیسے طلبیہ، قاطمون اور بقاع میں مقیم تھے اورتقریبا ساٹھ ہزار فلسطینیوں کے مقابلہ میں انکی تعداد دو ہزار تھی۔ جسے اب مغربی یروشلم کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے اور 1948 میں جو بے گھر ہوئے تھے، انھیں واپس جانے سے روکا گیا تھا اور ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرکے انہیں ’غیر حاضر افراد کی جائیداد‘قرار دے کر یہودیوں کی تحویل میں دے دی گئیں۔
مقبوضہ عدالتوں کے ذریعہ مشرقی یروشلم میں املاک کے معاملات کو دیکھنے کے لئے اسرائیلی قانون کے مطابق، جائیداد کی بحالی کا قانون صرف مشرقی یروشلم پر لاگو ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں کہ صرف یہودیوں پر۔ ایسی صورت میں جب یہ معاملہ کسی فلسطینی کا ہے جو اسرائیلی شہریت رکھتا ہے اور اس کی ملکیت مغربی یروشلم میں ہے اور اس کی جائیداد ضبط ہوگئی ہے تو، اس پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ“1950 Absentee Property Law”” کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے۔ 1948 کے بعد سے مقبوضہ اراضی کے ہزاروں فلسطینیوں بے گھر افراد کا یہ معاملہ ہے جنہوں نے نہ ملک چھوڑا تھا اورنہ وہ اسرائیلی شہریت رکھتے تھے اور وہ اپنی جائیداد کی بحالی سے محروم ہوگئے تھے۔
مزید برآں، شیخ جرح کے قرب و جوار میں مکانات، اردن کی حکومت نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے بنائے تھے، جنھیں جنگ کے دوران اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اردن کی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کو یہ ثابت کرنے والی تمام دستاویزات بھی جمع کروا دی ہیں، جبکہ صہیونی قبضے کا اب بھی دعوی ہے کہ یہ مکانات اصل میں یہودیوں کے ہیں جو واقعتا ایک اور کھلا اور بے بنیادجھوٹ ہے۔
تاہم، فلسطینی عوام کی جدوجہد،جس کوعلاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مزدور محنت کش طبقے کی یکجہتی کی مکمل حمایت حاصل ہے، اب صہیونی منصوبے کا مقابلہ کرنے،زیادہ سے زیادہ اراضی پر قبضہ کی خواہش، فلسطینی باشندوں کو ملک بدر کرنے اور مزید آباد کاروں کو وہاں لاکر بسانے،اور سب سے بڑھ کرسامراج کے توسیع پسندانہ بازو کی حیثیت سے خطے میں وسعت کا مقصد لئے ان تمام بے بنیاد ارادوں کو شکست دینے کا واحد راستہ اب یک جہتی کی بنیاد پر ہے۔
یہ جدوجہد جس نے مقبوضہ اراضی میں تمام فلسطینی عوام کو متحد کیا اور اس خطے کے محنت کش طبقے کی غیر مشروط حمایت حاصل کی، اس سے ایک بار پھر نام نہاد“two-state” حل کی ناکامی ثابت ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطین کو دریا سے سمندر تک آزاد کرانے کا واحد راستہ جاری انسداد نسل پرست، اینٹی سرمایہ دارانہ، اور اینٹی سامراجی انقلاب ہے۔
مزید برآں، تاریخی طور پر فلسطینی مزاحمتی طبقے کی مسلح شمولیت نے 1948 کے بعد سے مقبوضہ علاقوں کے تقریبا ہر فلسطینی شہر میں صہیونی پولیس اور مسلح افواج کا مقابلہ ڈٹ کر کیا ہے۔ یہ مزاحمت اب مذید طاقتور ہوتی چلی جا رہی ہے اور ان ساری علامتوں سے مراد تیسرا فلسطینی انتفادہ ہے جو دریا سے لے کر سمندر تک پھیل سکتا ہے!
موجودہ صورتحال
اب تک تقریباً 245سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں سے 61 بچے،35خواتین اور16بزرگ شامل ہیں۔ اور 1400سے زیادہ کی حالت سنگین ہے، بہت سے فلسطینی سیاسی قیدی بن چکے ہیں۔ 500سے زیادہ گھر تباہ کر دیئے گئے ہیں اور 72ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔لیکن فلسطینیوں کی مزاحمت کی ایک لہر جو پھر سے ابھر چکی ہے اور جو اس بار ملک کے کونے کونے سے آرہی ہے۔اور فلسطینی جن پرصیہونیت کا بھاری ہاتھ ہے لیکن وہ جھک نہیں رہے۔
COVID-19 کے خلاف ویکسین توکہیں نظر نہیں آتی، لیکن بموں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ in Data Our Worldکے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں، قبضے میں رہنے والے 50 لاکھ فلسطینیوں میں سے صرف 43000 افراد کو ویکسین ملی ہے، جو کہ آبادی کا محض 0.9فیصد ہے۔ ان کے لئے نسلی امتیاز بھی طبی امتیاز بن گیا ہے۔
اس بار، اسرائیل کی کوشش تھی کہ وہ یروشلم میں فلسطینیوں کے شہر شیخ جرح میں نسلی صفائی کو جاری رکھے۔جس کے لئے اسرائیل کی طرف سے آنسو گیس بھی استعمال کی گئی، یہاں تک کہ خود مسجد اقصیٰ کے اندر بھی، توپوں سے گٹر کا پانی نمازیوں پر پھینکا گیا۔کچھ کے نزدیک یہ وحشیانہ تشدد کفر کو متاثر کرتا ہے۔ لیکن یہ ناکبہ کے آغاز کے بعد سے ہی نوآبادیاتی، نسل پرست صہیونی ریاست کے لئے معیاری عمل ہے۔ 15 مئی 1948 کو تاریخی طور پرفلسطین کے 78فیصد علاقے میں ریاست اسرائیل کی تشکیل ہوئی۔ اس کو نسلی صفائی کی ایک ابتدائی مہم کے ذریعہ انجام دیا گیا، جس میں دو تہائی مقامی آبادی (800,000 فلسطینی) پرتشدد طریقے سے بے دخل اور 500 کے قریب دیہات کو تباہ کردیا گیا۔ 1967 میں، اسرائیل نے بقیہ 22 فیصد فلسطینی اراضی پر قبضہ کیا(غزہ، مغربی کنارے، اور مشرقی یروشلم)
احتجاج جاری ہے، یہ انتفادہ (مقبول بغاوت) کا ایک مقدمہ ہے جو کھلنے کے لئے تیار ہے
ایک بکھرا ہوا معاشرہ اس وقت مزاحمت کے لئے متحد ہو رہا ہے تاکہ نسلی صفائی کے ایک اور باب کو فلسطینیوں کے خون سے تحریر ہونے سے روکا جاسکے۔ یروشلم میں، دنیا کی چوتھی سب سے طاقتور فوج کے خلاف پتھراؤ جاری ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں گرفتار نوجوانوں، مردوں اور خواتین کے چہروں پر طنزیہ مسکراہٹیں ہیں۔ فلسطینیوں نے برازیلین اداکار پالو گستااو Paulo Gustavoکے ایک قول کو ذہن میں لایا، جو بولسنارو کی نسل کشی CoVID-19 کی پالیسیوں کا اذیت ناک شکار ہیں، کہ”ہنسی مزاحمت کی ایک حرکت ہے”!
جافاJaffa جیسے شہروں سے، 1948 سے مقبوضہ علاقوں کا ایک حصہ، جو دنیا میں ”اسرائیل” کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں 15 لاکھ افراد نسل پرستانہ قوانین کے تحت رہتے ہیں، سڑکوں پر سے ان کی چیخیں سوشل میڈیا پر سنائی ہیں کہ ”شیخ جارح کو بچائیں!”
مزاحمت نے پڑوسی ممالک میں بھی فلسطینیوں اور عربوں کو متحد کردیا ہے۔ اردن میں، 9 مئی کو اسرائیلی سفارت خانے کے قریب ایک مظاہرے کا انعقاد کیا گیا اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو توڑنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اردن، جو فلسطینی اکثریتی آبادی کا گھر ہے، نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس سے ان کے مابین تعلقات معمول پر آ گئے تھے۔ الاربیا Alarabiyaمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، تقریبا 1500 مظاہرین نے یہ کہتے ہوئے بینر اٹھائے کہ ”کوئی سفارت خانہ نہیں، کوئی سفیر نہیں ”، ”جو طاقت کے ذریعے لیا گیا تھا وہ صرف طاقت کے ذریعے ہی واپس کیا جاسکتا ہے”، اور ”1948 سے ہم سانس نہیں لے سکتے ہیں ”۔
اسرائیلی منصوبوں کا ردِعمل
اسرائیل اپنے عمل سے خود کو زیادہ سے زیادہ تنہا کررہا ہے۔ اس کا اندرونی بحران مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔ پوری دنیا میں، مشرق وسطی اور یورپ سمیت صیہونیت کے خلاف مظاہروں میں اس کے کٹر حلیفوں نے بھی، انسانیت کے خلاف اس کے جرائم پر ایک بار مذمت کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے(صرف دکھاوے کے طور پر)۔ہیومن رائٹس واچHuman Rights Watch جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے آخر کار اسرائیلی NGO بی ٹی سیلمB’Tselem اور ایمنسٹی انٹرنیشنل پر تنقید کرتے ہوئے اسرائیل کی ایک نسلی امتیاز بردارحکومت کے طور پر مذمت کرنا شروع کردی ہے، جس نے ویکسین کی تعیناتی کے منصوبوں میں بھی فلسطینی آبادی کونسل پرستی کا نشانہ بنایا ہے۔
اگر مزاحمت ختم نہ ہوئی تو شیخ جارح کے فلسطینی فتح کا دعوی کریں گے۔ صیہونی وزیر اعظم، بینجمن نیتن یاہوBenjamin Netanyahu، نوآبادیات سے متعلق اپنی لوہے کی مٹھی میں نرمی کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اور وہ پہلے زیادہ فلسطینیوں کا خون بہائے بغیر یہ نہیں کرے گا۔ بہر حال، ہمیں اس امکان کو بھی درگزر نہیں کرنا چاہئے کہ اسرائیل، پہلے کی طرح، بین الاقوامی دباؤ اور مذمتوں کے بعد فلسطینیوں کی نسلی صفائی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ لیکن صرف یہی کافی نہیں ہے۔ اس سے فلسطینیوں کی ہمت اور بلند ہوگی اور انہیں صیہونی نوآبادیاتی منصوبے کوشکست دینے کی امید پیدا ہوگی۔،کیونکہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ”جو کچھ طاقت کے ذریعہ لیا گیا تھا وہ صرف طاقت کے ذریعے ہی واپس کیا جاسکتا ہے۔”
سامراجیت، صہیونیت، عرب حکومتیں اور فلسطینی بورژوازی،فلسطین کی مزاحمت اور جدوجہد کے طاقتوردشمن ہیں، اور امید ہے کہ صہیونی پسپائی پر مجبور ہوکر انفتادہ میں رکاوٹ ڈالیں گے جو تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ خطے کی صورتحال میں کسی بھی طرح کی تبدیلیوں سے وہ حیثیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے جس کا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
لیکن بہادری کے ساتھ تاریخی مزاحمت، جس میں پتھر ٹینکوں پر پھینکے گئے، اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ کسی کو بھی اپنی زنجیروں کے سوا کھونے کے لئے شکست دینا ناممکن ہے۔ ”شیخ جارح کو بچائیں ” وہ پیغام ہے جس نے پوری دنیا کو متحد کردیا ہے۔ فلسطینی عوام جو ایک اور انتفادہ اکیلے بھی شروع کرسکتے ہیں۔ پھر بھی، ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔
استحصال زدہ اورمظلوموں کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ جدوجہدبھی ان کی آزادی کی جدوجہد ہے، چاہے وہ کولمبیا میں ہو یا برازیل کے غریب اور سیاہ فام لوگوں کی نسل کشی ہو۔
فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے لئے ایک نئی، انقلابی، سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ چاہے قوم پرست ہو، بائیں بازو ہوں یا اسلام پسند، موجودہ تنظیموں کے پاس کوئی سیاسی پروگرام نہیں ہے۔یہ نئی سیاسی قیادت فلسطینی مزدور طبقے، کسانوں اور نوجوان کارکنوں پر مبنی ہوگی جو ریاست اسرائیل کو شکست دینے، اسے ختم کرنے اور دریا سے بحر تک ایک آزاد، سیکولر اور جمہوری فلسطین کی تعمیر کے اسٹریٹجک مفاد کے ساتھ معاشرتی کلاس تشکیل دیں گے۔
چنانچہ بین الاقوامی یکجہتی کے ساتھ ہر طرح کے ظلم اور بربریت کا جواب دینا اور فلسطینی عوام کی مزاحمت میں شامل ہونا سامراجیت کے خلاف لڑنے کی طرف ایک اہم قدم ہے اور اس کے ساتھ ہی سرمایہ داری بھی ہے جہاں نسل پرستی ہی حکمرانی ہے۔ لاکھوں پناہ گزینوں کی اپنی سرزمین پر واپسی کے ساتھ یہ مشترکہ جدوجہد ہی ’دریا سے سمندر تک‘ آزاد فلسطین کی سمت ایک قدم ہے۔
ہم اسرائیلی بربریت، امریکہ، نیٹو اور یوروپی یونین کی منافقت کی مذمت کرتے ہیں جو متاثرین کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے انسانی حقوق کی بے دردی سے پامالی کرنے والوں کی برابری کرتے ہیں۔

ہم محنت کش طبقے کی تنظیموں کی عالمی یکجہتی اور بین الاقوامی تنظیموں سے اسرائیلی بربریت کے خلاف فوری مداخلت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم اپنی پوری طاقت سے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں:
اسرائیل کے قتل عام کے خاتمے کے لئے!
1967 سے سرحدوں پر قابض اسرئیلی افواج سے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے!
مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت ماننے کے طور پر!
سرائیلی جیلوں سے تمام فلسطینی سیاسی قیدیوں کی آزادی کیلئے!
فلسطین پراسرائیل کے سامراجی جرائم بند کرو!
غزہ میں اسرائیلی قتل عام کا خاتمہ!
غزہ کے عوام کو ہونے والے تمام تر نقصان کی تلافی!
فلسطینی مزاحمت کے ساتھ غیر مشروط تعاون!
اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کیلئے حماس اور تمام فلسطینی تنظیموں کے ساتھ فوجی اتحاد!
جاری نسلی صفائی میں فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی اور ان کے مکانات کے انہدام کے خاتمے کے لئے!
مغربی کنارے، القدس اور تمام فلسطینی شہروں اور محلوں سے اسرائیلی قبضہ کرنے والی تمام قوتوں کی فوری واپسی!
فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین کے خاتمے کے لئے!
فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق کے لئے!
فلسطین کی آزادی کے لئے ایک نئی انقلابی سیاسی قیادت کے لئے!
اسرائیل کی نسل پرستانہ ریاست کا خاتمہ اور اس کی نسل پرست اور نسلی صفائی کی پالیسیاں نا منظور!
ایک آزاد، سیکولر اور جمہوری فلسطین کے لئے، آزادی دریا سے لے کر سمندر تک!

1.https://www.aljazeera.com/news/2021/5/17/us-legislators-question-735-million-arms-sale-to-israel-report

2.https://ahvalnews.com/turkey-israel/turkey-israel-trade-increases-relations-worsen-report

 

SHARE