دا ؤد خاندان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیامیں اپنے سرمائے کی بنیاد اور طاقت کی وجہ سے ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کے ساتھ حادثہ ہونے کا مطلب دینا کی معاشی اور سیاسی صورتحال، اسٹاک ایکسچینج سے لیے کر اقوام متحدہ تک سب کا ہل جانا ہے۔یہی سرمایہ دارانہ نظام کا جال ہے جس کو پوری دنیا کے سرمایہ داروں نے اپنی مقابلہ بازی کے باوجو د اجتماعیت کے ساتھ عالمی سطح پر تھامے رکھا ہے۔
محنت کش تحریک
داؤد کا کاروباری تعارف
جب بھی داؤد کا کاروباری روپ دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اُس کا و ہ بھیانک چہرہ سامنے آجاتا ہے جب اُس نے اپنے داؤد کاٹن ملز اور گل احمد ٹیکسٹائل ملز کے ورکرز کے حقوق کو مسخ کرنے کیلئے 1972 میں ایک خونی کھیلا۔یا د رکھا جانا چاہیے کہ اس خونی حملے میں بھٹو حکومت کا پورا عمل دخل تھا۔ یہی وقت تھا جب بھٹو حکومت کا اصل کردار پوری طرح سے بے نقاب ہو کر کراچی کے عوام کے سامنے آنا شروع ہوا اورنیچے سے کچھ حلقوں کا اتنا پریشرآیا کہ بہت سارے پیپلز پارٹی کے قائدین اور ہمدردوں کو پارٹی سے الگ ہوناپڑا۔پارٹی کی ایک داؤد خاندان کے ساتھ ہمدردی اور دوسری طرف پارٹی ورکرزکا پارٹی کو چھوڑنے کی وجہ سے حکومت نے اپنی بچت کیلئے پورے طریقے سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کرتے ہوئے ان ملز ورکرز کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کی۔ صورتحال کو مزید اچھے طریقے سے سمجھنے کیلئے داؤد خاندان کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔
بیوپاری سے لے کر نمبر ون کے اجارہ داروں تک
1972میں احمدداؤد پاکستان کے سرمایہ دار خاندانوں میں پہلے نمبر پر تھا۔ خاندان کا سرکردہ رکن احمد داؤد خود تھا۔قبیلے کے دیگر افراد میں صدیق، سلیمان، ڈاکٹر فاروق، یعقوب سلیمان، علی محمد، یوسف اور باقی عزیز شامل تھے۔داؤد ہلائی میمن برادری سے تھاور اس کا تعلق مغربی ہندوستان کے کاٹھیاواڑ(ہندستان کے مغربی ساحل کے قریب ریاست گجرات پر واقع جزیرہ نما) سے تھا۔
ہندوستان کی تقسیم سے پہلے داؤد کپاس کا ایک عام تاجر تھا،جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔وہ اپنے سرمائے کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گیا جہاں اس کے لئے ٹاٹا، برلاس اور ہندوستان کے دیگر سرمایہ داروں کی غیر موجودگی میں کاروبار کے مواقع بہت منافع بخش تھے۔احمدداؤد نے اپنی پہلی صنعت1952کراچی میں، داؤد کاٹن ملز، لانڈھی کے علاقے میں قائم کی۔جب یہ فرم 1953 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں درج ہوئی تو اس کا ظاہر شدہ سرمایہ صرف پچاس لاکھ روپے تھا۔لیکن داؤد نے اس مل سے بہت زیادہ منافع کمایا، اور نہ صرف اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا بلکہ دوسری صنعتوں میں بھی قدم جمائے۔1957 میں اس نے ملتان ضلع میں عوامی ملکیت کی بورے والا ٹیکسٹائل ملز انتہائی سازگار شرائط پر خریدی۔جب ایوب خان نے1958 میں کُو کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت داؤد کا کل سرمایہ 22.5 ملین روپے تھا۔لیکن ایوب خان کے دور میں لبرل اقتصادی پالیسیوں سے داؤد کو ملکی اورغیر ملکی قرضوں، صنعتی اجازت ناموں، ٹیکس کی چھوٹ، ’سرمائے کی ارتداد‘ اور ’صنعتی استحکام‘ کی پالیسیوں کی وجہ سے بیشمار فائدہ ہوا۔
کرنافولی پیپر ملز، جو کہ عوامی خرچ پر شروع کی گئی تھی بعد میں داؤد ی سرمائے میں اضافے کا سبب بنی،اسے داؤد کی ملکیت میں ”بغیر انویسٹ” کے دے دیا گیا۔ایوب نے اپنی ربڑ سٹیمپ قومی اسمبلی میں بیٹھنے کے لیے بھی احمد داؤد کا انتخاب کیا۔ایوب آمریت او ر سرمایہ دار داؤد کے درمیان اعتماد کی حد ایسی تھی کہ جب ایوب خان نے میاں افتخار الدین سے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ(پاکستان ٹائمز 1947-1996 تک ایک پاکستانی اخبار تھا،جسے میاں افتخار الدین اور فیض احمد فیض نے بائیں بازو کی پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے ذریعے لاہور میں قائم کیا تھا)کو زبردستی داؤد کے قبضے میں دے دیا گیا۔اس طرح داؤد کی خواہشات کے برعکس بہت سارے ا ثاثے خریدنے کو کہا گیا،ورنہ بائیں بازو کے اخبارات کے ساتھ، داؤد کا کسی قسم کا کاروبار نہیں تھا۔داؤ د بس اس طرح کے اخبارات کو اپنے بازوؤں کے نیچے لانا چاہتا تھا۔احمد داؤد نے روزنامہ امروز کے کراچی ایڈیشن کی گرتی ہوئی سرکولیشن کو دیکھتے ہوئے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
”میں ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ آپ اپنے پیپر میں کیا لکھتے ہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ہمیں ہر ماہ 10,000 روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔لہذا مارکیٹ میں اپنی قیمت کے بارے میں سوچیں۔“
پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کو پھر ایک اور سرمایہ دار خاندان کے ہاتھوں بیچا گیا جس سے داؤد کواور منافع حاصل ہوا۔
1969 میں جب ایوب خان نے اقتدار چھوڑا تو داؤد کے پاس کل سات فرموں کا اسٹاک کنٹرول تھا۔190 ملین روپے کا ادا شدہ سرمایہ (1966 میں کل اثاثوں کی مالیت 460 ملین روپے تھی)۔یہ فرمیں اپنے 1969 کے سرمائے کے ساتھ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔داؤد کاٹن ملز (کراچی) : 40ملین روپے
2۔بورے والا ٹیکسٹائل ملز: 27ملین روپے
3۔کرنا فولی پیپر ملز (چندر گونا): 46 ملین روپے
4۔سینٹرل انشورنس کمپنی: 2.5 ملین روپے
5۔لارنس پور وولن اور کاٹن ملز: 9.5ملین روپے
6۔کرنا فولی ریون اینڈ کیمیکل: 45ملین روپے
7۔داؤد پٹرولیم (کراچی اور چٹاگانگ): 20ملین روپے
ٹوٹل : 190 ملین روپے
داؤد بھی نام نہاد سبز انقلاب کے ثمرات حاصل کرنے میں پیچھے نہیں رہا، سامراجی سرمائے کے ساتھ مل کر اُس نے بہت بڑی داؤد ہرکولیس فرٹیلائزر فیکٹری قائم کی۔اس کے اثاثوں یا ادا شدہ سرمائے کے اعداد و شمار اس وقت دستیاب نہیں ہیں، لیکن ان ’غیر نفع بخش‘ سالوں میں اس کے دس روپے کے شیئرز کے لیے 13.60روپے کی مارکیٹ ویلیواس کی کامیابی کا اشارہ تھی۔
1971 کی خانہ جنگی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے داؤد کو بری طرح متاثر کیا،جس میں دو سب سے بڑے نقصانات، کرنا فولی پیپر ملز (چندر گونا) اور کرنا فولی ریون اینڈ کیمیکل، جو مشرقی پاکستان میں واقع تھے، کو بنگلہ دیش حکومت نے ضبط کر لیا۔چٹاگانگ داؤد پیٹرولیم کا ٹرمینل (خالص اثاثے= 17 ملین روپے) بھی قبضے میں لئے گئے۔تاہم،داؤد اپنے ہمدرد فوجی افسروں کے مشوروں اور مدد سے،اپنے بنگالی پلانٹس سے کچھ مشینری کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔بھارت کے ساتھ جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے مغربی پاکستان میں بھی داؤد کو بہت نقصان پہنچایا۔جنگی نقصانات کی انشورنس متعارف کروانے سے پہلے،نہ صرف کراچی میں ان کے تیل کے ٹینکوں بلکہ شیخو پورہ میں ان کی کھاد کی فیکٹری کو بھارتی طیاروں نے بمباری سے نشانہ بنایا بلکہ ان کی ٹیکسٹائل کی منافع بخش مشرقی بنگالی مارکیٹ بھی کھو گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سرمایہ داری کے خلاف نو روزہ عجوبہ کے ایک حصے کے طور پر، احمد داؤد کو یکم جنوری 1972 کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ اپنی غیر ملکی ہولڈنگز واپس لے آئیں،اور پھر24 جنوری کو،صرف 23دن بعد ہی اسے بناء کسی شرط اور ایک پیسہ بھی واپس دیئے بغیر ہی رہا کر دیا گیا۔
داؤد کاٹن ملز میں مزدوروں کی جدوجہد
داؤد نے ہمیشہ سے اپنے ملازمین کو آہنی ہاتھوں لیا،اس کی ان چالوں کو سمجھتے ہوئے 1953 تک مزدوروں نے خود کو منظم کر لیا تھا۔ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے داؤد پر دباؤ ڈالنے کے لیے انہوں نے دو ماہ کی طویل ہڑتال بھی کی۔تاہم ریاستی چالیں اورطاقت اس ہڑتال کو بلا آخر توڑنے میں کامیاب ہو گئی۔
ایوب خان کی مارشل لاء حکومت کے ٹریڈ یونین مخالف قوانین کی مدد سے، داؤد ورکرز کو نشانہ بنانے کے لیے آگے بڑھا، اور مزدوروں کی اجرتوں میں سے کٹوتی’مزدوروں کی یونین کو توڑنے کیلئے ایک پاکٹ یونین قائم کی۔ اس پاکٹ یونین نے 1963میں اس وقت تک داؤد کے لیے ”امن” برقرار رکھا جب تک کراچی ملز کے مزدوروں نے اپنی جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز نہیں کیا۔ ملزکے مزدوروں نے اپنی نمائندہ یونین کو منظم کیا اورپھر سے ہڑتال کی۔اس ہڑتال کو بھی دبا دیا گیا اور بڑی تعداد میں مزدوروں کو کام سے نکال دیا گیا۔
1968 میں جب ایوب حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک شروع ہوئی تو داؤد کاٹن ملز کے مزدوروں نے دوسرے مزدوروں کے ساتھ ان کی جدوجہد میں شمولیت اختیار کی اور اپنے مطالبات کی تجدید کی۔کامیاب پڑتال کے نتیجے میں انتظامیہ نے عید کے لئے مزدوروں کو 30روپے ایڈوانس دیئے اور باقی دو مطالبات پر عید کے بعد مذاکرات کرنے کا وعدہ کیا۔لیکن عید کے بعد انتظامیہ نے بات چیت سے انکار کرتے ہوئے دسمبر 1969 کی اجرت سے ایڈوانس رقم ایک ساتھ کاٹ لی۔کارکنوں نے کام میں رکاوٹ کے بغیر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ لیکن انتظامیہ نے مزدوروں پر گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا الزام لگاتے ہوئے غیر قانونی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر یحییٰ حکومت کے مقامی فوجی منتظم نے مداخلت کی اور داؤد سے کہا کہ وہ کٹوتی کی رقم واپس کر دیں جب تک مزدوروں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہو جاتا۔
1968-69 کی سیاسی جدوجہد نے محنت کشوں کو اپنے اتحاد میں ایک نیا اعتماد دیا۔ ایوب دور میں اور اس سے پہلے جو پاکٹ یونینز قائم کی گئی تھیں ان کوبھا گنے پر مجبور کیا اور نمائندہ یونینز کو محنت کشوں کے بارگینگ ایجنٹ کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔اس رجحان سے آگاہ ہونے اور مزدوروں کی طرف سے ٹریڈ یونینز کے رجسٹرار کو داؤد کاٹن ملز میں ریفرنڈم کرانے کے نوٹس کے بارے میں، داؤد نے ایک نیا کھیل کھیلنے کی کوشش کی۔اس نے ایک متبادل پاکٹ یونین کو منظم کرنے کے لیے جماعت اسلامی کی خدمات حاصل کیں۔ 12 فروری 1970 کی صبح ریفرنڈم کے دن،اصل پاکٹ یونین اپنے انتخاب میں آسانی کے لیے جماعت اسلامی کی یونین کے حق میں دستبردار ہو گئی۔لیکن ملز کے محنت کش داؤد اور اس کے کارندوں کی ان چالوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے جائز اتحاد کے حق میں 92% ووٹ ڈالے اور داؤد کے ایجنٹوں کو عبرتناک شکست دی۔
یونین نے اپنے مطالبات پر بات چیت کے لیے انتظامیہ کو انڈسٹریل ریلیشنز آرڈیننس کے سیکشن 46 کے تحت نوٹس دیا۔انتظامیہ کی جانب سے مذاکرات میں ناکامی پر، یونین نے 21 دن کی قانونی ہڑتال کا نوٹس جاری کیا اور اس دوران تنازعہ کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی۔لیکن داؤد تنازعات کے حل کا صرف ایک طریقہ جانتاتھا: مزدوروں کو ڈرانا اور دہشتگردی!
اس نے صوبائی منافرت پھیلانے کیلئے اپنے غنڈوں کے ذریعے مزدوروں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے 55 لاکھ روپے خرچ کئے۔ لیکن یہ اس کے باوجود مزدوروں کو ان کے مقصد سے نہیں روک سکا۔ ہڑتال کی ڈیڈ لائن 24 مارچ گزر گئی۔ جب فیکٹری سے مزدوروں کی آخری کھیپ نکل رہی تھی تو پولیس نے انہیں گرفتار کر کے فیکٹری کے احاطے میں ہی نظر بند کر دیا۔اس کے بعد مل کے مزدوروں اور علاقے کے مکینوں کے خلاف دہشت کا راج شروع کر دیا گیا۔ مل کو ہی پولیس کیمپ اور جیل کے طور پر استعمال کیا گیا۔ 2 ہزارمزدوروں کو گرفتار کیا گیااور کئی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، مزدور تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے، اور کئی ہزار روپے اور بہت ساقیمتی سامان پولیس نے لوٹ لیا۔13 اپریل کو پولیس نے مل کا محاصرہ کیا، اس کی ایک دیوار توڑ دی اور علاقے میں مزدوروں کے خلاف حملہ شروع کر دیا۔تین مزدوروں کو گولی مار دی گئی،درجنوں زخمی ہوئے اور 300سے زائد مزدوروں کو گرفتار کرلیا گیا۔لانڈھی کورنگی کا علاقہ مہینوں تک پولیس سٹیٹ کی طرح نظر آتا رہا۔۔۔
ُاُس سال کا حملہ، جسے اس وقت پاکستان فورم میں بیان کیا گیا تھا، لانڈھی کورنگی کے علاقے کے 80,000 مزدوروں کی کامیاب ہڑتالوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو آج بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔
اس کے بعد داؤد خاندان نے خوب پیسہ کمایا، اور اس جیسے بہت سے آمروں اور سرمایہ داروں نے تب سے آج تک پاکستان کی ریاستی افواج اور حکومتی پالیسیوں کے ساتھ اتحاد کر کے ایسی صورت حال پیدا کر دی جہاں آج غریب مزدور اور بے روزگار ملک سے بھاگنے پر مجبور ہیں۔ لالچ اور حرص کی یہ اتنی طویل تاریخ ہے کہ نہ صرف ملکی حکمرانوں نے بلکہ برطانوی اور امریکی سامراج کے گماشتوں نے بھی پاکستان میں سستی مزدوری اور جابرانہ پالیسی سے فائدہ اٹھایا۔
آج بمقابلہ ماضی
1972میں داؤد ملز کے محنت کشوں کے جائز مطالبات پر سرمایہ دارانہ ریاستی حملہ اور ان کی اُس وقت کی گئی جدوجہد کی یاد آج پھر سے تازہ ہو گئی کہ جب ایک ظالم و جابر فیکٹری مالک داؤد کا پوتا ’شہزادہ داؤ د اور اس کا بیٹا ’سلیمان داؤد‘ ایک ڈوبے ہوئے جہاز کی باقیات کو محض شوق کی خاطر دیکھنے کے لئے سمندر کے اندر جاتے ہیں اور ان کی آبدوز حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔
عالمی سطح پر اس واقعے کی کوریج اوراس پر ہونے والے تبصرے ایک طرف تو1970میں اسی خاندان کے جبر کا شکار ہونے والے محنت کشوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی یاد کو زندہ کرتے ہیں تودوسری طرف ساری توجہ بحیرہ روم میں ہونے والاسانحہ کی طرف دلاتے ہیں کہ جس میں ایک کشتی کے ڈوبنے سے 300سے زائد پاکستانی تارکینِ وطن جان سے گئے۔ قریب قریب ہونے والے دو واقعات کی رپوٹنگ اور مرنے والوں کی باقیات ڈھونڈنے میں ریاستی حکمتِ وعملی کو دیکھتے ہوئے واضع فرق نظر آتا ہے۔
اس حوالے سے کچھ اہم سوالات جنم لیتے ہیں کہ وہ کشتی جو سینکڑوں لوگوں کو لے کر جا رہی تھی جس میں مجبور،بے روزگار اور غربت سے تنگ افراد سوارتھے، اس خوفناک سانحے کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا؟اور ایک بحر اوقیانوس کی وہ چھوٹی سی آبدوز کہ جس میں محض پانچ افرادسوار تھے اور جنہوں نے ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے محض مہم جوئی میں حصہ لینے کے لیے انفرادی طور پر 250,000 پاؤنڈ ادا کیے تھے۔
وہاں سینکڑوں پاکستانی مرد عورتیں اور بچے تھے جن کے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ وہ کشتی کے اندر زبردستی چھپائے گئے تھے۔ جب کہ آبدوز پھنس گئی تو کئی دنوں تک تلاش کی ایک بڑی کوشش کی گئی جس پر بھاری رقم خرچ کی گئی اور پھرانکی باقیات کو تلاش کرنے کے لیے سمندر کی تہہ میں پھر سے سینکڑوں ڈالر خرچ کئے گئے۔ مطلب کہ ظالم، جابر، سرمایہ دار، امیر اور ان کی باقیات کو تلاش کرتے وقت پیسہ یا وسائل کوئی چیز نہیں ہیں! بہت امیر اور بہت غریب مظلوم میں کتنا فرق ہے۔ایسا کیوں؟
داؤد کی پاکستان میں ٹیکسٹائل کی مد میں سرمائے کی پیداوار اور مزدوروں پر جبر کی ایک طویل تاریخ ہے، اس نے اور ریاستی افواج نے مزدوروں پر تشدد کے پہاڑ توڑے،سزائیں دیں،گولیاں ماریں،مظالم ڈھائے جو آج تک جاری ہیں۔ آبدوز کے ڈوبنے پر اتنا واویلا اور ان غریبوں کے مرنے پر کوئی بیان نہ کوئی لائحہ عمل!
اس سے ایک چیز مزید واضح ہو جاتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام طبقات پر مبنی نظام ہے جہاں صر ف سرمایہ داروں کی تکالیف کا خیال رکھا جاتا دوسری طرف محنت کش طبقہ جو پیداوار کرنے کے باوجود مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکا رہے۔ ایسے میں ضروری اور اخلاقی فر ض بنتاہے کہ سرمایہ داروں کے مرنے پر رونے کے بجائے اُن کے جرائم کو سامنے رکھتے ہوئے ڈوب جانے والے محنت کشوں کیلئے احتجاج کر کے ان کے لواحقین کیلئے معاوضوں کی مانگ کی جائے اور یہ کمپین اُس وقت تک رکنی نہیں چاہیے جب تک معاوضے ادا نہیں ہوجاتے اور ساتھ ساتھ محنت کش عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کی مکمل خیر خواہی اسی میں ہے کہ وہ پیداواری قوتوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی بات کریں اب کرہ ارض کو کوئی طاقت بچا سکتی ہے تو وہ محنت کش ہی ہیں بس ان کا منظم ہوکر ورکرز کنڑول کی بات کر نا ہی کامیابی ہے۔یہی راستہ ایک نئے سماج کی طرف جاتا ہے جو سوشلزم کہلائے گا۔جہاں محنت کش خود منصوبہ بندی کریں گے اورجہاں کوئی بلاوجہ اپنی زندگیوں کو ہجرت کی مشکلات میں نہیں ڈالے گا۔
ٓٓآؤ اپنی خاطر، اپنے بچوں کی خاطر، اپنے وقار و عزت کی خاطر ایک نئے سماج سوشلزم کی بنیاد رکھیں!