اسلام آباد میں میٹرو بس کے ڈرائیوروں نے جمعہ 21جنوری کو تنخواہوں پر کی جانے والی کٹوتیوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔جس کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں بس سروس معطل رہی اور مسافروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
میٹرو بس کے ڈرائیوروں کے مطا بق گزشتہ تین ماہ سے انہیں پوری تنخواہیں نہیں دی جارہیں،تنخواہوں پر کئی طرح کے غیر ضروری جرمانے عائد کر کے کٹوتیاں کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے انہیں شدیدمعاشی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی کئی بار ڈرائیورز اور میٹرو بس کا عملہ اس ایشو پر احتجاج کر چکا ہے اور اس احتجاج کی مد میں بس سروس معطل کرنے سے جڑواں شہروں کے مسافروں کو پریشانی جھیلنی پڑی مگر انہیں کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
ڈرائیوروں نے مطالبہ کیا کہ انہیں بنا کٹوتی اُن کی پوری تنخواہیں دی جائیں اوراس کے ساتھ ساتھ انہوں نے آپریشن مینیجر افتخار(ریٹائرڈ میجر)کے مستعفی ہو نے کا مطالبہ بھی کیا۔ جو گزشتہ کئی ماہ سے اُن کے ساتھ ہونے والی تنخواہوں میں کٹوتیوں کا ذمہ دار ہے۔
میٹرو بس ڈرائیوروں کا تنخواہوں میں کٹوتیوں کے حوالے سے احتجاج نومبر 2020سے جاری ہے،جس میں احتجاج کرنے والوں نے میٹرو سٹیشنز کے ٹکٹ گھر بند کر دیے اور روڈ پر لیٹ کر،حکومت خلاف نعرے لگا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا،جس کے بعد کئی بار میٹرو بس اتھارٹی کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی کہ جلد ان کے مسائل کو حل کر دیا جائے گا مگر ہر بار ایک تو تنخواہیں مقررہ تاریخ سے لیٹ دی جاتی رہیں،دوسرا ہر بار کئی طرح کے جرمانے ڈال کر کٹوتیاں کی جاتی رہیں،جن میں بسوں کے ٹائر پنچر ہونے سے لے کر باقی کسی بھی طرح کی مرمت کا خرچہ بھی ڈرائیور پر ڈالا جاتا ہے،جو کہ کسی بھی طرح قابلِ قبول عمل نہیں۔
انہوں نے مذید کہا کہ ہمیں مہینے میں دو شارٹ لیوز کی اجازت ہے،جس میں اگر کوئی ملازم کسی ضروری کام کے لئے چلا جائے تو اُس کی چھٹی لگا دی جاتی ہے اور تنخواہ میں کٹوتی کی جاتی ہے،اور اب اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ملازم کسی کی وفات پر شارٹ لیوپر جاتا ہے تو اُس سے اتھارٹی (آپریشن مینیجر افتخار)ڈیتھ سرٹیفیکیٹ مانگتی ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے اور جو کسی بھی قانون کا حصہ نہیں۔
اس کے علاوہ بھرتی کے وقت یہ بتایا گیا تھا کہ ہر سال کمپنی کی طرف سے ملازمین کو بونس دیا جائے گا مگر ہمیں دو دو سال گزر جانے کے بعد بھی بونسز نہیں دیے گئے۔بھرتی کے وقت سالانہ تنخواہوں میں 20فیصد اضافے کا بھی کہا گیا جس کے بعد پہلے سال میں صرف 12فیصد تنخواہیں بڑھائی گئیں جب کہ اس سال بالکل بھی ایک پیسہ کا اضافہ نہیں کیا گیا،جبکہ مہنگائی 50فیصد تک بڑھ چکی ہے مگر کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔کرونا پیریڈ میں جو تنخواہیں انہوں نے ہمیں دیں اُس سے تین گنا زیادہ یہ اب ہماری تنخواہوں سے کاٹ چکے ہیں۔اگر کوئی ملازم کوئی ایمرجنسی فون کال سٹیشن پر کھڑے ہو کر بھی سنے کہ جب وہ ڈیوٹی پر نہیں ہوتا تو تب بھی پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔یہ سب ہیلے بہانے صرف تنخواہوں میں ناجائز کٹوتیوں کے لئے اپنائے گئے ہیں۔ایک 25ہزار تنخواہ لینے والا ملازم18ہزار سے زیادہ تنخواہ نہیں لے سکتا۔باقی سب جرمانوں میں کاٹ لی جاتی ہے۔
آٹھ گھنٹے ڈیوٹی ٹائم کی جگہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کروا کر اُس کی بھی تنخواہ نہیں دی جاتی اس کے علاوہ بسوں کے ہیٹر بھی بند کر دیے گئے ہیں،شدید سردی میں ڈرائیورز کے لئے گاڑی چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ایک ڈرائیور ایک چکرکے لئے دو گھنٹے لگا کر آتا ہے اُس بیچ میں وہ نہ بس سے اتر سکتا ہے نہ کسی ایمرجنسی میں بس کو بیچ میں چھوڑ سکتا ہے پھر بھی ان تمام حالات میں ایک ڈرائیور اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہا ہے پھر بھی اُسے اس کی محنت کے مطابق تنخواہ نہیں دی جا رہی۔ریٹائرڈ فوجی افسر کے خود ساختہ بنائے گئے مزدور دشمن اصولوں نے محنت کشوں کے ناک میں دم کر دیا ہے۔انتظامیہ میں بیٹھے ہوئے افسر ترکی کی ہائیرنگ کمپنی سے بھاری کمیشن لے رہے ہیں اور بونس اور اوور ٹائم کی رقم اپنی جیبوں میں بھر رہے ہیں۔کمپنی نے تمام ملازمین کو 500ڈالر پر بھرتی کیا تھا جب کہ ملازمین کو تنخواہیں اُس سے کہیں زیادہ کم دی جارہی ہیں۔
ٓانہوں نے مذید بتایا کہ ڈھائی ارب کی سبسڈی حکومتی خزانے سے ان کو کس لئے دی جا رہی کہ جب یہاں ڈرائیور روز بسوں میں چڑ ھنے سے پہلے اپنی ٹکٹ بھی اپنے پیسوں سے خرید تے ہیں اور 24ہزار تنخواہ لینے والا ملازم روز گھر سے آنے جانے کا12ہزار کا خرچہ بھی خوداپنی جیب سے کرتا ہے۔کمپنی کوئی اس میں ریائت نہیں دیتی۔سال میں دو یونیفارم کمپنی کی طرف سے دینے کا کہا گیا تھا جبکہ ملازمین دو دو سال سے پرانے یونیفارم میں ہی گزارہ کر رہے ہیں۔اب اس صورتحال میں ایک مزدور کس طرح اپنے روز مرہ کے اخراجات پورے کرے؟
یاد رہے کہ لاہور میٹرو بس کے ملازمین بھی تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے گزشتہ چار ماہ سے احتجاج پر ہیں۔





