نومبر 29بروز جمعہ،ہزاروں طلباء اپنے حقوق کے مطالبے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ طلباء یکجہتی مارچ نے طلباء ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام ملک بھر کے 40 سے ذیادہ شہروں میں ریلیاں نکالیں،جس میں ہزاروں کی تعداد میں طلباء،اساتذہ،وکلاء،صحافیوں کے علاوہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ جس میں طلبہ یونینز کی بحالی، تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے خاتمے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور یونیورسٹیوں کے کیمپس میں نسلی، صنفی اور مذہبی امتیاز کے خاتمے کے مطالبوں کو سامنے رکھا گیا۔
در حقیقت، حالیہ اور ماضی کے متعدد واقعات جیسے مردان میں مشال خان کا قتل اور یونیورسٹی آف بلوچستان کی انتظامیہ کا طلباء کو بلیک میل کرنا،یہ تمام واقعات یہ ثابت کر چکے ہیں کہ طلبا کی سیاست میں موثر نمائندگی کی عدم موجودگی نے ان تمام بڑھتے ہوئے مسائل کے لئے مذید راہ ہموار کردی ہے۔ غیر فطری عناصرکا یونیورسٹی کیمپسز میں غالب آنا، تعلیمی اور انتظامی امور میں خلل ڈالنا،اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اب طلبا کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے اور اپنی مطالبات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے سڑکوں پر نکلنا ہو گا۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ مارچ طلبا کی سیاست میں نمائندگی اور یونینوں کی بحالی کے اہم مسئلے پرایک مثبت قدم باعث ہوگا۔
اس مارچ کے بنیادی مطالبات میں شامل سب سے بنیادی نکتہ کہ ہر طالب علم کوکالج و یونیورسٹی میں داخلے سے قبل ا یڈمیشن فارم میں موجود اس کالم میں سائن کرنا پڑتا ہے کہ وہ دورانِ تعلیم کسی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا یا کیمپس میں کسی طرح کا کوئی احتجاج نہیں کرے گا،شامل ہے۔
ان کا یہ مارچ، کیمپسز میں انتظامیہ کی آمریت کے مخالف ہونے پر طلباء کو سلاخوں کے پیچھے رکھا جانا، کیمپسز میں صاف پانی کا مطالبہ کرنے پر انہیں ”دہشت گرد” کے لیبل سے نوازنے کے خلاف تھا۔اسٹوڈنٹ یکجہتی مارچ کے شرکاء کا ایک اور مطالبہ ”سیکیورٹی فورسز کی غیر ضروری مداخلت اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث تمام گرفتار طلبہ کی رہائی کا خاتمہ” کرنا ہے۔
شرکا نے طلباء کے ہاسٹل کی طرف سے اختیار کی جانے والی کرفیو پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ مرد اور خواتین طالب علموں میں امتیازی سلوک کرتے ہیں۔
مارچ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ذریعہ اعلان کردہ فیسوں میں اضافے اور بجٹ میں کٹوتی کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ طلباء کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ یونیورسٹیوں اور ہاسٹل کو تعلیمی سہولیات کو آسان بنانے کے لئے بنیادی سہولیات جیسے ٹرانسپورٹ، لائبریریوں، کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ وغیرہ سے آراستہ کیا جانا چاہئے۔
مطالبات میں کیمپس میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے امور کو موثر طریقے سے روکنے کے لئے، ایچ ای سی کی پالیسی کے مطابق، اینٹی ہراساں کرنے والی عملی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔
ایک اور مطالبہ طبقاتی تعلیمی نظام کا خاتمہ ہے جس میں تمام طبقے کے طلبا کو مستقبل میں مساوی تعلیمی مواقع میسر ہوں۔ اس کے علاوہ بے روزگار طلباء کو جب تک ملازمتیں نہیں دی جاتیں انہیں بے روزگاری الاؤنس دئیے جائیں۔
مزید بہت ساری طلبہ تنظیموں نے نجکاری اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے مزدور طبقے کے ساتھ اجتماعی جدوجہد کرنے پر زور دیا۔





