Home Pakistan اشرافیہ کی بوناپارٹسٹ حکمرانی اور جنوبی ایشیا میں پیدا کردہ عدم استحکام

اشرافیہ کی بوناپارٹسٹ حکمرانی اور جنوبی ایشیا میں پیدا کردہ عدم استحکام

SHARE
اشرافیہ کی بوناپارٹسٹ حکمرانی اور جنوبی ایشیا میں پیدا کردہ عدم استحکام

محنت کش تحریک

پاکستان کے آئین میں 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم دہائیوں میں ہونے والی سب سے اہم سیاسی تنظیمِ نو میں سے ایک ہیں، لیکن یہ عوامی رائے یا جمہوری اتفاقِ رائے سے منظور نہیں ہوئیں۔ بلکہ یہ بالائی سطح پر ایک فوجی وسول بلاک کے ذریعے تیار کی گئیں، جو تقریباً پاکستان کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں حکمرانی کرتا آ رہا ہے۔ اس وقت بھی یہی حکمتِ عملی ہے کہ ایک بوناپارٹسٹ رجیم کو مستحکم کیا جائے۔ یہ ریاستی نظام، جو بہت سوں کو ثالث کی طرح دکھائی دیتا ہے، خود کو غیر جانبدار ظاہر کرتا ہے، مگر مسلسل اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے، غیر ملکی سرمائے کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اور نیچے سے جمہوری قوتوں کو دباتا ہے۔

یہ ترامیم صدر اور خصوصاً فوجی اعلیٰ قیادت کو بے مثال استثنیٰ دیتی ہیں۔ آئینی تحفظات کے ذریعے اشرافیہ نے نہ صرف ماضی کے اقدامات کے لیے خود کو غیر ذمہ دار بنوایا بلکہ مستقبل میں کسی بھی قانونی یا عدالتی چیلنج سے محفوظ رہنے کی ضمانت بھی حاصل کر لی۔ یہ استثنیٰ تاریخی طور پر پہلے بھی دیکھا گیا ہے، جیسے صدر آصف علی زرداری کو فراہم کیا گیا تحفظ، مگر موجودہ ترامیم نے اسے کہیں زیادہ وسیع بنا دیا ہے۔ اس سے ریاست، معیشت اور سیکیورٹی قیادت کرنے والوں کے گرد ایک آئینی قلعہ تعمیر کیا گیا ہے، جو کسی بھی شہری یا عدالتی چیلنج کو مؤثر طور پراس آئین کے اندر رہتے ہوئے  کسی قسم کے اقدامات کرنے سے روکتا ہے۔

ان اصلاحات کے ذریعے سب سے اہم ساختی تبدیلی آئینی عدالت کا قیام ہے، جو موجودہ سپریم کورٹ سے علیحدہ ہے۔ بظاہر یہ آئینی تشریح کو آسان بنانے اور عدالتی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ایک انتظامی بہتری کے طور پر پیش کی گئی، لیکن سیاسی حقیقت یہ ہے کہ مقصد سپریم کورٹ کو غیر مؤثر بنانا ہے، جو کبھی کبھار اشرافیہ کے سیاسی اور اقتصادی منصوبوں میں رکاوٹ بنتی تھی۔ نئی عدالت کو سیاسی لحاظ سے تابع بنایا گیا ہے، اور اس کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں انتظامیہ اور بالواسطہ فوجی اثر و رسوخ پہلے سے زیادہ غالب رکھا گیا ہے۔ یہ عمل ایک کنٹرول شدہ عدلیہ کی طرف تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے، جو نجکاری، وسائل کے حصول، غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاہدوں یا حکمران بلاک کی سیاسی خواہشات میں مداخلت نہیں کرے گی۔

دنیا اور پاکستان کا اقتصادی پس منظر واضح کرتا ہے کہ یہ ترامیم کیوں لائی گئیں۔ پاکستان ایک بے رحم نجکاری اور ریاستی تنظیمِ نو کے مرحلے سے گزر رہا ہے، جو عالمی مالیاتی اداروں، مغربی حکومتوں، خلیجی سرمایہ کاروں اور چینی سرمایہ کاری کے زیرِ اثر ہے۔ یہ سب ادارے اور حکومتیں پیش گوئی، معاہدوں کی غیر متنازع ضمانت، انتظامی فیصلوں میں قانونی رکاوٹ سے آزادی اور سیاسی ماحول میں عوامی احتجاج کو قابو میں رکھنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ یہ ترامیم انہی شرائط کو پورا کرتی ہیں۔ ان  کے ذریعے اشرافیہ عوامی اثاثے,زمین، معدنیات، بندرگاہیں، توانائی کے گرڈز اور صنعتی زون ,غیر ملکی سرمایہ کاری کو بغیر کسی عوامی، پارلیمانی یا عدالتی چیلنج کے حوالے کر سکتی ہے۔

اس آئینی انجینئرنگ کے ذریعے پاکستان کو موجودہ عالمی سرمایہ داری کی ضروریات کے مطابق ترتیب دیا جا رہا ہے۔ بوناپارٹسٹ نظام مقامی اشرافیہ اور بین الاقوامی سرمائے کے درمیان ایک انتظامی پل کے طور پر کام کرے گا، تاکہ نہ جمہوری دباؤ اور نہ ہی عوامی تحریکیں منافع کی وصولی میں رکاوٹ ڈال سکیں۔ یہ ڈھانچہ استحکام نہیں بلکہ انحصار پیدا کرے گا، اور پاکستان کو عالمی مالیاتی نظام اور بڑی طاقتوں کی جغرافیائی سیاسی خواہشات کے تابع مزید جکڑ دے گا۔

جبکہ اشرافیہ اقتدار اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھائے گی، اس کے نتائج مزدور طبقے، بے روزگار افراد، درمیانے طبقے اور مظلوم قومیتوں پر پڑیں گے۔ نجکاری کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نوکریاں ختم ہوں گی، سماجی خدمات میں کمی آئے گی، بجلی اور ایندھن کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، اور مزدور کے حقوق متاثر ہوں گے۔ متوسط طبقے کے پیشہ ور افراد کو عوامی شعبے میں زوال اور اقتصادی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چھوٹے سرمایہ دار اور مقامی کاروبار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دباؤ میں آ جائیں گے، جو ریاست کی پشت پناہی سے مضبوط ہوتے ہیں۔ اسی دوران بلوچستان، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا جیسے وسائل سے مالا مال خطے مزید غیر خودمختار ہو جائیں گے، کیونکہ رجیم  زمینوں پر قبضہ کرنے، سرحدوں کو کنٹرول کرنے اور احتجاج پر نظر رکھنے کے لیے آئینی اختیارات کو مضبوط کر رہی ہے۔ یہ اشرافیہ کی مرکزیت کبھی بھی امن نہیں لائے گی، بلکہ عدم استحکام بڑھائے گی۔

 پورا خطہ تشدد اور سیاسی ہلچل کا شکار ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں دھماکہ، وزیرستان میں حملے، اور دہلی میں ہلاکت خیز دھماکہ دونوں ریاستوں کی جانب سے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں اور حریف ہمسایوں پر ڈالے جارہے ہیں۔ پاکستان بھارت کو، بھارت پاکستان کو، اور افغانستان دونوں کو الزام دیتا آیا ہے۔ تاہم، یہ دھماکے صرف الزام تراشی سے نہیں سمجھے جا سکتے۔ یہ دہائیوں کی فوجی عسکریت، پراکسی جنگ، خفیہ ایجنسیوں کی مسابقت، اور ریاستی فرقہ وارانہ سیاست کا نتیجہ ہیں۔

سالوں سے پاکستان اور بھارت نے متوازی سیکورٹی ڈوکٹرینز قائم کی ہیں جو باہمی دشمنی پر مبنی ہیں۔ دونوں نے غیر ریاستی عناصر کو حکمتِ عملی کے آلے کے طور پر پروان چڑھایا، اور سرحدی علاقوں میں اثر ڈالنے کے لیے عسکری پراکسیز استعمال کیں۔ افغانستان اس دوران کئی علاقائی اور عالمی طاقتوں کا محاذ رہا، جہاں ہر طاقت اپنے مفادات کے لیے گروہوں کا استعمال کرتی رہی۔ ایسے ماحول میں تشدد حادثاتی نہیں بلکہ نظامی ہے۔ یہ خطے کی طاقت کی ساخت میں جڑ پکڑ چکا ہے۔

تینوں ریاستوں کی حاکم اشرافیہ اس عدم استحکام کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ نتائج میں فوجی بجٹ میں اضافہ، اختیارات کی مرکزیت، سیاسی مخالفین پر دباؤ اور سول سوسائٹی پر جبر جیسے طریقہ کار شامل ہیں۔ جب کوئی دھماکہ ہوتا ہے، اشرافیہ اپنا کنٹرول بڑھاتی ہے۔ جب کشیدگی بڑھتی ہے، اشرافیہ اپنی کہانی مضبوط کرتی ہے۔ جب سرحدی جھڑپیں بڑھتی ہیں، عوام سے اطاعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس عدم استحکام کے ذریعے حکمران طبقہ اپنا اقتدار قائم رکھتا ہے، اور عام لوگ :مزدور، کسان، طلبہ، خواتین اور پناہ گزین،اس کی قیمت چکاتے ہیں جبکہ ریاستی حکمران اور کارپوریٹ دونوں شراکت دار دولت اکٹھی کرتے ہیں۔

پاکستان میں آئینی ترامیم نے تقریباً تمام جمہوری راستوں کو بند کر دیا ہے۔ انتخابات کنٹرول میں ہیں، سیاسی جماعتیں یا تو قابو میں لائی گئی ہیں یا دبائی گئی ہیں، یونینیں کمزور ہو گئی ہیں، اور عدلیہ کو غیر متوقع فیصلوں سے ہٹایا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری، معاشی عدم مساوات، مہنگائی، صوبائی شکایات اور سیاسی دباؤ سے پیدا شدہ سماجی کشمکش کا کوئی جمہوری راستہ باقی نہیں رہا۔ وہ نظام جو عوام کی آواز نہیں سن رہا، خود اپنی کشمکش اور لڑائی کو تیز کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ اس عمل کے دوران ضروری ہے کہ بڑے شہری مظاہروں یا دیہی بغاوتوں کو سمت دی جائے۔اسی تاریخی پس منظر میں انقلابی آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ محض آئینی اصلاح کا نہیں بلکہ سماجی تبدیلی کا پروگرام ہے۔ یہ اس وقت کی ضرورت ہے کہ موجودہ نظام کے متبادل جمہوری توڑ پیش کیا جائے، جو مزدوروں، کسانوں، طلبہ، خواتین، محکوم قومیتوں، اور رسمی و غیر رسمی مزدور طبقے کی قیادت میں ہو، نہ کہ پہلے سے قائم شدہ اشرافیہ کی۔ ایسی اسمبلی کو حقیقی طور پر خودمختار ہونا چاہیے: جو فوجی مداخلت اور عالمی مالیاتی اداروں سے آزاد ہو، اور عوامی شراکت پر مبنی ہو۔

صرف ایسی عوامی اسمبلی ہی اشرافیہ کے استثنیٰ کو ختم کر سکتی ہے، فوجی سرمائے کو جمہوری کنٹرول میں لا سکتی ہے، اسٹریٹجک شعبوں کی عوامی ملکیت بحال کر سکتی ہے، وسائل کی محکوم قومیتوں میں منصفانہ تقسیم کر سکتی ہے، اور ایسی اقتصادی سیاست تشکیل دے سکتی ہے جو ایک چھوٹی اولیگارکی کے بجائے اکثریت کی خدمت کرے۔ سامراجی غلبے، بوناپارٹسٹ آمریت اور علاقائی جنگی نظام کے خلاف یہ اسمبلی وہ سیاسی افق ہے جس کے ذریعے محنت کش طبقہ اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں میں لے  سکتا ہے۔

SHARE