پاکستان میں صرف 2020 میں اسلام آباد، جموں و کشمیر، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں بچوں سے منسلک2,960 بڑے جرائم کی اطلاع منظر عام پر آئی جن میں معصوم،کم سن بچوں کے ساتھ ذیادتی،بدسلوکی،زیادتی کے بعد قتل وغیرہ کے واقعات شامل تھے۔اور یقیناًہزاروں کے قریب واقعات ایسے ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں کئے گئے ہوں گے یا جن کا ذکر خاندانی عزت،اثرو رسوخ رکھنے والے افراد کے خوف یا رشتوں کی بقا کیلئے گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلا ہو گا۔
وہ عوامل جو ہمارے معاشرے میں بچوں کے خلاف ہونے والے تشدد میں معاون ہیں انہیں ہم سب جانتے ہوئے بھی یکسر درگزر کر دیتے ہیں یا کہیں نہ کہیں اس کے بارے میں اپنی دوغلی رائے دے کر خود کو اس جرم کا حصہ بھی بنا دیتے ہیں۔اس کی کیا وجوہات ہیں،اور ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسے سب سولات کا جواب ہمیں مل کر ڈھونڈنا ہے اور سب کے سامنے لانا ہے۔کیونکہ اس سنجیدہ مسئلے کے حل کیلئے اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا،اس سے پہلے کہ اگلا شکار ہم میں سے کسی کا اپنا جگر کا ٹکڑا ہو!
تحریر: سارہ خالد
ایک رپورٹ کے مطابق، 2019 کے مقابلے میں 2020 میں بچوں سے بدسلوکی اور زیادتی کے واقعات میں چار فیصد اضافہ دیکھا گیا۔اس اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں زیادتی کی جاتی ہے۔ جبکہ متاثرہ بچوں میں 51 فیصد لڑکیاں اور 49 فیصد لڑکے ہوتے ہیں۔
زیادتی کا سب سے زیادہ شکار بچوں کا تعلق 6سے15 سال کی عمر سے ہے۔ مزید یہ کہ 0-5 سال کی عمر کے بچوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ زیادتی کرنے والوں میں 80 فیصد سے زیادہ ملزم ایسے تھے جنہیں بچے پہلے سے جانتے تھے۔ جو یا تو رشتہ دار تھے یا تو جاننے والے یا خدمات مہیا کرنے والے جیسے اساتذہ، دکاندار اور ڈرائیور وغیرہ۔ کئی واقعات میں پڑوسی ملوث تھے جبکہ صرف 468 واقعات میں، اجنبی لوگوں نے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی۔اس کے علاوہ کل مقدمات میں سے 65فیصد دیہی علاقوں سے اور35فیصد شہری علاقوں میں رپورٹ ہوئے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق:
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بچوں کے خلاف ہونے والے تشدد کو عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے مسئلے کے طور پر شناخت کیا ہے۔اوراس حوالے سے ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے ساتھ ہونے والے تشدد کو زیادہ واضع کیا ہے۔اس سلسلے میں اعدادوشمار جانچنے کیلئے پاکستان کو کیس اسٹڈی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بچوں کے خلاف تشدد سے متعلق موجودہ تحقیق اور وجوہات کا منظم جائزہ لینے کے بعد اس چیلنج کی وسعت اور موجودہ پالیسیوں پر غور کیا گیا۔ پاکستان میں کی جانے والی زیادہ تر تحقیق مشاہداتی، وضاحتی بیٹھک اور مضامین پر مشتمل رہی جس میں سروے کے طریقوں اور چھوٹے نمونوں کے سائز کے انٹرویوز کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ حاصل ہونے والے نتائج سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میکرو خطرے والے عوامل جیسے کہ غربت، ناقص قانونی تحفظات، ناخواندگی، بڑھتی آبادی اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا سنگم، بچوں کے خلاف تشدد کے قابل ماحول بناتا ہے۔مختصراًیہ سارے عوامل مل کر اس وقت معصوم بچوں کی زندگیوں اور انکے مستقبل سے بے دردی سے کھیل رہے ہیں۔
دینی مدارس:مدارس میں ہم جنسی استحصال کے بارے میں خاموشی کیوں؟
کچھ دن پہلے ایک سینئر مسلمان عالم دین سے متعلق ایک شاگرد کوجنسی طور پر ہراساں کرنے کی واضح ویڈیو منظر عام پر آئی۔پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں اعلی اسلامی اداروں میں سے ایک ادارے کے اسکالر، ستر سالہ عزیز الرحمٰن نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے ایک طالب علم کو زبردستی جنسی عمل کرنے پر مجبور کیا۔(جس کے بعد اب وہ پولیس کی تحویل میں ہے)
عزیز الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما بھی ہیں، جوپاکستان کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت ہے۔جس کی سربراہی بااثر عالم دین مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے۔ان کی گرفتاری کے بعد عزیز الرحمن کی پارٹی سے وابستگی معطل کردی گئی اور ان کے ہر طرح کے فعل سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا۔
اس ایک وائرل ویڈیو کے بعد دینی مدارس میں بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں پر ایک بڑا سوال اُٹھ کھڑا ہواہے۔ جس کے بارے میں اس وقت ملک کے باقی بڑے علما بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔مگر ہمیں ان تمام بچوں کی بھی فکر ہے جو اب بھی اس مدرسے (یا ایسے دوسرے مدرسوں) میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کتنے سوں کے ساتھ ایک ہی یامختلف اطراف کی طرف سے کتنی بار زیادتی کی گئی ہو گی۔
اس وقت ہنگامی بنیادوں پراعلی حکام کو چاہیے کہ تمام طلباء کی فوری طور پر اسکریننگ کی جائے۔ ہم پہلے ہی یہ دیکھ چکے ہیں کہ اس مفتی کے بہت سے حامی اس کے دفاع میں آگے آرہے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہی کسی جرم میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
جامعہ منظور الاسلامیہ، جہاں عزیز الرحمٰن کئی سالوں سے ایک استاد رہے، اس جامعہ میں 8 سے 25 سال کی عمر کے 500 سے زائد بچے رہائش پزیر ہیں جو غریب خاندانوں اور دور دراز شہروں اور دیہاتوں سے آتے ہیں۔اعدادوشمار کو دیکھنے سے پتا چلا کہ گذشتہ سال بچوں میں جنسی زیادتی کے جوواقعات پیش آئے تھے ان میں 10 سے 20 فیصد کے درمیان مدارس کے بچے شامل ہیں۔
بہت سارے دینی علما جو ایسے مدارس چلاتے ہیں یا بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ اپنے علاقوں میں بہت طاقت اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ لہذا، ان پر یا ان کے ادارے کے خلاف لگائے گئے الزامات کا حملہ اکثر الٹا ملزم کے بجائے متاثرہ بندے پر ہوتا ہے۔ اور عموماً اس طرح کے درست واقعات کوالزامات بنا کر اسلام پر حملہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اور یہ دعوی کرنا کہ کسی مذہبی مولوی پر جنسی استحصال کا الزام لگانا کسی نہ کسی طرح مذہب کو داغدار کرنا ہے،یہ ایک الگ المیہ ہے۔
پاکستان میں مدرسے خیراتی اداروں کے تحت چلنے والے بورڈنگ ہاؤسز ہیں، جو زیادہ تر غریب ترین اور بے سہارا بچوں کو مفت کھانا، رہائش اور تعلیم فراہم کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے اداروں کے منتظمین ان بچوں پر اپنا ہر طرح کا جائز نا جائز حق تصور کرتے ہیں۔اور پھر اس طرح کے واقعات تسلسل سے روزمرہ کی بنیاد پر واقع ہوتے ہیں۔مگر چونکہ اب ٹیکنالوجی اتنی عام ہو چکی ہے کہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت،آڈیو یاویڈیو ریکاڈنگ آزادانہ یا خفیہ طور پر ریکارڈ کی جا سکتی ہے۔جس کی وجہ سے اب حقائق چھپانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف والدین کا خیال ہوتاہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر جگہ تعلیم کیلئے بھیج رہے ہیں۔چونکہ معاشرے میں مذہبی اسکالرز کو ایک خاص مقام حاصل ہے جس کی وجہ سے والدین اساتذہ اور وہاں کے منتظمین پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کو دینی مدارس میں بھیجتے ہیں۔
مولوی کے ہاتھوں اپنے شاگر پر حملہ کوئی ایسی نئی بات بھی نہیں ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے میں نہ صرف پاکستان(ساؤتھ ایشیا)بلکہ یورپ، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا میں کیتھولک گرجا گھروں کو کاہنوں کے ہاتھوں منظم زیادتی چھپانے کی کوشش کرنے پر تنقید کے ایک طوفان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بنگلہ دیش، ہندوستان اور نائیجیریا کے دینی مدارس بھی اسی پریشانی سے دوچار ہیں۔
مذہبی اداروں کو اپنے پیروکاروں کیلئے محفوظ جگہ ثابت کر کے والدین کا اعتبار جیتنے کی ریت اب پرانی ہو چکی۔کسی بھی معاشرے میں جب بچہ کا ذہنی اور جسمانی رویہ والدین کی سمجھ سے بڑھنے لگے تو وہ اس کیلئے مذہبی تعلیمی مرکز ہی منتخب کرتے ہیں۔عموماً ایسے والدین جو خطِ غربت سے نیچے کی زندگی کزار رہے ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی اور لباس بھی مہیا کرنے کے قابل نہیں ہوتے تو وہ ایسے مدارس کا رخ کرتے ہیں جہاں کم از کم انہیں یہ بنیادی ضروریات تو میسر ہوتی ہیں،پھر چاہے ایسے واقعات کا علم رکھنے کے باوجود وہ اس پر کوئی آواز اٹھاتے ہیں اور نہ کسی ایسے مجرم کی پرسو کرتے ہیں۔مختصراً غربت،مہنگائی،بے روزگاری، والدین کو اپنے جگر گوشوں کے ساتھ ایسے گھناؤنے فعل پر بھی چُپ سادھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔معاشی مجبوریوں اور مالیاتی انحصار کی وجہ سے، بہت سے والدین خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے آج یہ زخم ناسوز بن کر ہمارے معاشرے کوشدیدا اور شامناک حد تک نقصان پہنچا رہا ہے۔
واضح طور پر، کوئی بھی مذہب ان غلط کاموں میں سے کسی کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن جب تک ان مجرموں کو،مذہب سے مستثنی کر کے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا ہم اس ملک میں معصوم بچوں کی زندگیوں کو بنیادی طور پر تباہ کرتے رہیں گے۔ یہ ضروری ہے کہ نہ صرف ہمیں بحیثیت قوم اجتماعی طور پر اس طرح کی کارروائیوں کی مذمت کرنی چاہئے بلکہ ریاست کو بھی مجبور کرنا ہو گا کہ وہ اس مسئلے کا فوری حل تلاش کرے۔کیونکہ زیادہ تر استحصال کا شکار غریب کا بچہ ہوتا ہے جس کے والدین اسے سیکورٹی گارڈ مہیا کر سکتے ہیں نہ اسے تعلیم کسی ایسے بڑے ادارے میں دلوا سکتے ہیں جہاں اسکی کڑی نگرانی کی جائے،کیونکہ کسی رئیس یا سرمایہ دار کا بچہ کبھی اس طرح کے واقع کا شکار نہیں ہوا۔ اگر ہمیں اس بحران کا ازالہ کرنا ہے تو یہ بہت ضروری ہے کہ ملک میں مذہبی علما باہر آکر اس طرح کے طرز عمل پرکھل کر اعلان کریں کہ مدرسوں میں ہونے والی اس طرح کی قابل مذمت حرکتوں کا نوٹس لیا جانا چاہئے۔ مزید برآں، جنسی ہراسانی اور بدسلوکی کے گرد مبنی ایک بیداری مہم وقت کی اہم ضرورت ہے، جو بچوں اور والدین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے میں مدد کرسکتی ہے کہ اس طرح کے واقعات کو درگزر نہیں کرنا چاہئے۔
مگرابھی حال ہی میں ایسی ویڈیوز وائرل ہونے کے ساتھ ہی، بہت سارے طلبہ اپنی اپنی کہانیوں کو بانٹنے کے لئے آگے آرہے ہیں۔اور یہ ایک بہت اچھا نشانی ہے۔ورنہ اکثر اگر ایک مدرسہ میں کوئی بچہ زیادتی کی شکایت کرنے کے لئے آگے آنے کی ہمت کرتا ہے تو، اسے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا منہ بند رکھے اور کسی سے اس پر گفتگو نہ کرے۔اور عجیب بات یہ ہے کہ بڑے علما بھی اس خاموشی کو جواز بنانے کے لئے ایک اسلامی تصوراتی موڑ دیتے ہیں کہ آپ کو دوسرے لوگوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنا چاہیے اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو اللہ بھی اسی طرح آپ کے گناہوں کو سفید کردے گا اور اُن پر پردہ ڈالے گا۔
مفتی عزیز الرحمن سے منسلک پیش آنے والے واقع پرایک سینئر پولیس عہدیدار نے کہا،کہ پاکستانی عدالتیں ویڈیو کو قابل اعتناء ثبوت کے طور پر نہیں مانتی ہیں، اور جب کسی مجرم کو سزا دینے کی بات آتی ہے تو ایسے ثبوتوں کو ریجکٹ کر دیا جاتا ہے اور مجرم بآسانی رہا ہو جاتا ہے۔اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں پر تشدد کے واقعات میں سزا کی شرح کم ہے کیونکہ اکثر واقعات میں گواہ اپنے بیانات کو تبدیل کردیتے ہیں، کیس واپس لے لیتے ہیں یا آپس میں صلح کر لیتے ہیں۔ جن کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں! یقیناً یہاں پر ناقص قانونی تحفظات انصاف کے آڑے آ جاتے ہیں۔جن پر نہایت منظم طریقے سے اولین بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ اب ہمارے نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کا وقت آگیا ہے!
یہاں تک کہ سینئر عالم دین عزیز الرحمن کے معاملے میں بھی، پولیس افسران اور دیگر کو خوف ہے کہ لڑکے کے اہل خانہ جلد ہی مولوی کو معاف کردیں گے۔
پولیس کے ایک سینئر افسرنے کہا، جو تحقیقات کا حصہ ہیں، ”کہ یہ عالم واقعی پراعتماد تھا کہ اگر اسے گرفتار نہ کیا گیا اور اسے تھوڑا سا زیادہ وقت مل جاتا تو وہ طالب علم کے اہل خانہ کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے معاہدہ کر سکتا تھا۔”یہاں تک کہ مفتی نے طالب علم کے والدین کو مقامی عمائدین اور علمائے کرام (جسے مقامی طور پر جرگہ کے نام سے جانا جاتا ہے) کا وفد بھیجا تھا تاکہ وہ اس سے معافی مانگے۔ ”
چائیلڈ پروٹیکشن ایکٹ
2019 میں، قصور نامی ایک شہر میں زینب(ایک چھ سال کی بچی)کے ساتھ زیادتی اور قتل کر دینے کے واقع کے بعد عوامی دباؤ نے حکومت کو”زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ“ اپنانے پر مجبور کیا۔ یہ بچوں کے ساتھ زیادتی اوران کی بازیابی کے خلاف ایک قانون ہے جس کا نام ایک کم سن لڑکی (زینب)کے نام پر رکھا گیا ہے جس کو بے دردی سے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔مگر افسوس۔۔۔ قانونی طور پر مینڈیٹ ہونے والی تنظیم، زارا ZARRAکی تشکیل کو بھی آج تک جان بوجھ کر موخر کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب قوانین منظور ہوچکے ہیں اور بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خاتمے کے لئے متعدد سرکاری اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے،تو پھر آج بھی ہر گلی،ہر کوچے اور ہر محلے میں زینب جیسے کتنے ہی معصوم بچے اور بچیاں کیوں درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں؟؟؟
جب مفتی کی جنسی زیادتی کی ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیلی توعوام میں دو بڑے ٹرینڈز کا سبب بنی۔ پہلا،کہ وہ پکڑا گیا یا نہیں۔ اور دوسرا، اس کو فوری طور پر پھانسی دینے کی ضرورت ہے یا آئندہ جنسی مجرموں کیلئے نمونے کے طور پر مینار پاکستان سے نیچے پھینک دیا جائے۔
یاد رکھیں!اس طرح کے ردعمل،جنسی استحصال کے واقعات کو کم کرنے پر بہت کم اثر ڈالتے ہیں۔ اس کے برعکس، ایسے بیانات اور کمینٹس اصل مسئلے کو کم کرنے اور معاملات کو اتنا ہی خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کم فہم اور سطحی سوچ کیساتھ شہری یہ سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پسندیدگیوں، ٹویٹس یا ناپسندیدگی کے اظہار کی تعداد سے حالات تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ وہ صرف ان کے اسباب کو سمجھنے،ان کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے اور ان کو حل کرنے کی مناسب اور طویل مدتی حکمتِ عملی اور ہماری رضامندی سے ہی تبدیل ہوتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ کہ کیا ہمارے ادارہ جاتی میکانزم، انفراسٹرکچر اور پالیسیاں بالعموم بچوں کے جنسی استحصال کے جرم کے لئے پرورش کا ماحول مہیا نہیں کرتی ہیں؟
یہاں پر چند بنیادی وجوہات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے، کیونکہ اس گھناؤنے جرم میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ہر روز کوئی سینہ افروز واقع دل کو چیرتا ہوا اندر تک ایک گہری صدا چھوڑ جاتا ہے کہ۔۔۔۔۔آخر ہم سب خاموش کیوں؟
سب سے پہلے، حکومت کے پاس 6 سال سے کم عمر کے 60فیصدبچوں کی تعداد، نام اور مقام کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ اس میں مدرسوں کی تعداد یا اساتذہ اور طلبہ کے داخلے کے بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ اور نہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی تعداد کا کوئی اعداد و شمار موجود ہے، ریاست صرف نجی این جی او زکے ذریعہ ریسرچ کئے گئے مواد پر ہی اکتفا کرتی ہے۔
دوسرا، پورے پاکستان میں ابھی تک اسکولوں اور مدرسوں میں بچوں سے بدسلوکی سے بچاؤ کی باقاعدہ پالیسی نافذ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
تیسرا، اسکول سے باہر 25 ملین سے زیادہ بچوں کا ہونا،گلیوں، ہوٹلوں،گھروں اور فیکٹریوں میں لاکھوں کی تعداد میں مزدور کی حیثیت سے کام کرنے والے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے بہترین حالات اور مواقع پیدا کیے ہوئے ہے۔ انتہائی غربت لوگوں کو اپنے بچوں کو گھریلو، تجارتی یا کان کنی جیسے سخت مشقت والے کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔اس پرسب سے بڑا المیہ یہ کہ نہ ہی ایسے بچوں کی تعلیم،رہائش اور تربیت کا کوئی ریاستی منصوبہ آج تک منظر عام پر آیا ہے۔وہ بچے جوایسے نظام میں غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں۔
چوتھا،پاکستان میں ملازمت کے قوانین اور آئین دراصل 14 سال سے کم عمر کے بچوں کو ’فرد‘ کے طور پر پیش کر کے چائلڈ لیبر کو براہ راست سپورٹ کرتے ہیں۔
پانچویں، پاکستان میں بچوں کی حفاظت کرنے والی تنظیمیں، کمیشن اور اتھارٹیز نہایت پیچیدہ اور self-consuming بیوروکریٹک ڈھانچے ہیں۔جو وسائل اور رسائی ہونے کے باوجود اس ایشو پر کوئی خاطر خواہ پروگرامز یا قوانین لاگو نہیں کرتے۔
چھٹا، یہ مسئلہ حقیقتاً اور بھی زیادہ خراب ہے کہ پاکستان میں بہت سے مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں، اس طرح ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا بہت مشکل ہے۔ جب تک ریاستی یا بنیادی مذہبی اتھارٹیز ان مدارس کا انتظام اپنے ہاتھ میں نہیں لیتیں، طلباء کے ساتھ بدسلوکیوں کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔اور یہ حقیقت ایسے ہی گمنام رہے گی کہ کیسے اور کتنے شکاری بغیر کسی ریکارڈ کے بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اگرچہ یہ ان مسائل کو حل کرنے کی تکنیک سے خوب واقف ہیں۔ تاہم اس موضوع کو دانستہ طور پرمستقل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔اور اب جس کے نتائج نہایت بھیانک انداز کے ساتھ،روز کسے نئے اور دلخراش واقع کے ساتھ ہمارے سامنے آرہے ہیں۔
کیا حکمتِ عملی ضروری ہے؟
عالمی سطح پربچوں کے خلاف ہونے والے تشدد میں پاکستان ٹاپ لسٹ پر ہے۔باوجود اسکے کہ اس ایشو پر کوئی پالیسی وضع کی جائے، ریاست یہ کھکم کھلا اعلان کرتی ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی اجازت نہیں ہے۔ایسے جھوٹے دعوے کرکے ڈونرز کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کو بھی گمراہ کیا جاتا ہے۔مگر اب دیر سے سہی، پاکستان میں بہت سارے افراد نے بالآخر بچوں کی جنسی ہراسانی کے سنجیدہ اور طویل تنازعے کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا ہے، اور کئی جرات مند متاثرین اس طرح کے اعترافات کے ساتھ، اپنی پریشانیوں اور مصائب نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کے معاملات پر کھلم کھلا بات کر رہے ہیں۔ ہراساں اور بدسلوکی، چاہے کام کی جگہ پر ہو، اسکول میں،مدرسے میں یا اپنے گھر میں، اس سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے۔پھر بھی، بحیثیت قوم ہم ابھی بھی بڑے پیمانے پر ان معاملات کو کھلے دل سے تسلیم کرنے اور ان پر تبادلہ خیال کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ برسوں سے، خاموشی سے یہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں بہت سارے مدارس (دینی مدارس) جنسی استحصال کا مرکز ہیں، جہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجے گئے بچوں کو اساتذہ کے ذریعہ،انکی عمر،معصومیت اور ذہنی ٹوٹ پھوٹ کی پرواہ کئے بغیر، بری طرح ہراساں کیا جاتاہے۔ اس معاملے میں واضع شواہد ہونے کے باوجود آج تک قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا رہا۔
یہاں چند بنیادی نکات کاذکر کرنا ضروری ہے جو کم سن اور معصوم بچوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کوغیر معمولی طور پر کم کر سکتے ہیں۔
نصابی جسمانی تعلیم
جنسی تعلیم کیا ہے؟
جنسی تعلیم،جسمانی نشوونمااورجنسی تعلقات کے بارے میں معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں کو ان کی جنسی صحت سے متعلق ذمہ دار فیصلے کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
اس میں انسانی جنس کے بارے میں جامع تعلیم شامل ہوتی ہے، جس میں انسانی جنسی اناٹومی، جنسی افزائش نسل، جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں، جنسی رجحان، صنفی شناخت، پرہیز، مانع حمل کے ساتھ ساتھ تولیدی حقوق اور ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔
جنسی تعلیم بچوں کو اپنی پوری زندگی میں جنسی اور جنسی تعلقات کے بارے میں صحت مند فیصلے کرنے کیلئے معلومات، صلاحیتیں اور سیلف پروٹکشن میں مدد کرتی ہے۔ بچوں کے ماہرین نفسیات، اساتذہ، دوسرے پیشہ ور افراد، اور والدین کے ذریعہ فراہم کردہ وقت کے ساتھ، جنسی نشوونما کے بارے میں موزوں اور شواہد پر مبنی تعلیم بچوں اور نوعمروں کو ذمہ دار جنسی سرگرمیوں، اور ان کی تولیدی صحت کے بارے میں محفوظ انتخاب کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
اس کے علاوہ، جنسی تعلیم کے ایک جامع منصوبے سے بہت سارے دوسرے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔اس سے وہ تمام جنسی جرائم،جن میں بچوں کے ساتھ ذیادتی کے کیسز ذیادہ ہیں انکی شرح کم کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں جنسی تعلیم:
جنسی تعلیم پاکستان جیسے ممالک میں ایک انتہائی متنازعہ موضوع ہے جہاں جنسی طریقوں سے متعلق کسی بھی مکالمے کو ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں اسقاط حمل اور جنسی بیماریوں (ایس ٹی آء) کا زیادہ پھیلاؤ ہے۔ عام لوگوں میں ایسے امور کے بارے میں موجودہ معلومات بھی بہت کم ہیں۔ لہذا، پاکستان میں جنسی تعلیم کے پروگرامات رکھنے کے فوائد پر تبادلہ خیال کرنا اور اس طرح کے پروگراموں اور عوامی بیداری مہموں کی عدم موجودگی کے موجودہ اثرات کا تجزیہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان میں جنسی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ بچوں سے زیادتی کے واقعات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے کے ریشو سے لگایا جا سکتا ہے۔ بچوں کو ناپسندیدہ حالات یا کسی بھی طرح کی بدسلوکی سے بچانے کے طریقوں کی تعلیم دینا اب بہت ضروری ہو چکا ہے۔پاکستان میں بچوں سے بدسلوکی کے متعدد واقعات میں قریبی خاندان کے ا فراد شامل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، بچے اپنے والدین یا ان پر اعتماد کرنے والے کسی اور فرد کو بھی اس مسئلے کی اطلاع دینے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے اور وہ اس صدمے کی آواز اٹھانے میں پہل کرنے سے شدید ڈرتے یا شرماتے ہیں۔اس کی وجہ ہمارے آس پاس بے جا شرم میں لپٹا ہوا ایسا سسٹم ہے جہاں جسمانی
موضوع پر بات کرنے کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔جس کہ وجہ سے ایسے بے شرم لوگوں کا حوصلہ اور بڑھتا ہے اور وہ سالہا سال تک ایک ہی گھر میں،کسی بھی رشتے کی آڑ میں ایک ہی انسان کا جنسی استحصال بنا خوف و خطر کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی جنسی زیادتی کے واقع کے بعد متاثرہ افراد کے گھر والے الزام تراشی اور معاشرتی بدنامی کی وجہ سے اپنے والدین، دوستوں، ساتھیوں یا جنسی صحت کے ماہرین سے اپنے منفی تجربات بانٹنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ دوسرے لوگوں کے غیر فطری رویوں اور بے جا وضاحت سے ڈرتے ہیں۔
جنسی مسئلے اکثر اس معاملے میں آگے جا کر نفسیاتی ہوجاتے ہیں اور یہ کسی فرد کی صحت مند رشتوں کی تشکیل کرنے اور بعد کے مراحل میں ایک اطمینان بخش جنسی اور ازدواجی زندگی گزارنے کی صلاحیت کو متاثر کرسکتے ہیں۔اس لئے بروقت ایسے مسائل کا حل ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔معصوم ذہنوں کو کم سنی میں ہی ایسے صدمات سے نکال لینا اُن کے اور انکے والدین کیلئے مثبت اشارہ ہوسکتاہے۔
جب بچہ بلوغت کو ٹکراتا ہے تو اس کے جسم میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں تو اس وقت اوائل میں بچوں کو عمر اور ضرورت کے مطابق جسمانی اعضاء کے بارے میں آگاہی نصاب کا حصہ ہونی چاہیے۔ اس طرح جب بچہ بڑا ہوگا اور وہ اپنے جسم میں تبدیلیوں کا تجربہ کرے گا،تو اپنی جنسی صحت کے لئے معلومات کسی اور ذرائع سے نہیں کھوجے گا، اور بالآخر غیر صحتمند جنسی عمل اور کسی کے ہاتھوں غلط استعمال ہونے سے محفوظ رہے گا۔
اسی طرح بچوں کی ٹوائلٹ ٹریننگ ڈھائی سال کی عمر تک کی جانی چاہئے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جو بچے دیر سے ٹوائلٹ ٹریننگ یا پاٹی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں، ان کو مختلف جنسی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے غیر معمولی جنسی خیالوں کو فروغ دینا یا غیر معمولی جنسی حرکتوں کی طرف راغب ہونا وغیرہ۔
عمر کے لحاظ سے مناسب جنسی تعلیم اہم ہے اور یہ بچے کی زندگی کے ابتدائی مراحل سے شروع ہوتی ہے۔ 1.5 سال سے 5 سال تک کا بچہ جسمانی اعضاء کے بارے میں حساس ہوجاتا ہے۔تب سے لے کر بلوغت تک کا مرحلہ اکثر اپنے ساتھ بہت ساری جسمانی، ہارمونل، اور جذباتی تبدیلیاں لاتا ہے اور ساتھ ہی مرد اور خواتین دونوں میں بدلاؤ آتا ہے جس میں کسی بھی جنسی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے دونوں صنفوں کو مناسب طریقے سے تعلیم دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح جب کوئی بچہ 12 یا 13 سال کی عمر تک پہنچتاہے تو، والدین، اساتذہ اور ماہر نفسیات کو ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جہاں بچہ اپنے جذبات کو بانٹ سکے اور اپنے تمام خیالات کا مکمل اظہار کرسکتا ہو۔ اس سے آپ کو اپنے بچوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملے گی اور زندگی کے ہر مرحلے میں یہ تعلیم ان کی مدد کرے گی۔خاص طور پر جب کوئی انہیں غلط مقصد کیلئے بلائے گا یا زبردستی کرے گا تو وہ اپنا دفاع
بخوبی کر سکیں گے۔
یاد رکھیں یہ بہت ضروری ہے کہ ہر بچہ اپنی جنسیت کو سمجھے اور اپنے جسم کے بارے میں پراعتماد ہو کیونکہ یہ نفسیاتی غذائیت انھیں معاشرے کا صحت مند فرد بنانے اور انہیں خود سے محبت کا احساس پیدا کرنے میں معاون ہوگی۔
پاکستان میں جنسی تعلیم کو لاگو کرنے کے مابین حائل مسائل:
۱۔سماجی، معاشرتی اور مذہبی رکاوٹیں جو عام لوگوں تک معلومات کے بہاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
۲۔والدین اور اساتذہ میں علم کی کمی، کیوں کہ وہ بچوں میں جنسی تعلیم کی اہمیت سے خود بھی واقف نہیں ہیں۔
۳۔ معاشرے میں مختلف دقیانوسی تصورات جو اس موضوع پر بحث کرنے کو ایک انتہائی سنگین اخلاقی مسئلہ سمجھتے ہیں۔
۴۔جامع حکمت عملی کی عدم دستیابی اور مختلف اداروں میں جنسی تعلیم کو یقینی بنانے کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ مختلف پلیٹ فارمز کی عدم فراہمی جو پاکستان میں جنسی تعلیم کو فروغ دینے میں معاون ہیں۔
۵۔مختلف ثقافتی اصول جو جنسی تعلیم پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے معاشرتی طور پر ناقابل قبول فعل قرار دیتے ہیں۔
۶۔ناقص مالی حالات،جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کے پاس کسی بھی ناخوشگوار واقع کی صورت میں کسی ماہر سے مشورہ کرنے کے وسائل نہیں ہوتے ہیں۔
۷۔روایتی مکتبہ فکر، جو جدید دنیا میں فرسودہ ہوچکے ہیں وہ اب بھی پاکستان میں غالب ہیں!
نتیجہ:
گویا کہ جنسی تعلیم کی فراہمی سے،صحیح طریقے سے بچے کی پرورش میں،اور انھیں پوری زندگی گزارنے میں مدد ملے گی اور مطلوبہ مثبت نتائج کی فراہمی میں یہ بہت کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنسی تعلیم،جنسی طور پر صحت مند زندگی گزارنے کا ایک بنیادی پہلو ہے، جو ہر فرد کا بنیادی حق ہے، لہذا، ہمیں ہر نو عمر بچے، نوجوان کویہ بنیادی مہارت مہیا کرنے کا ارادہ کرنا ہو گاتاکہ وہ کسی بھی ناگہانی وقت میں مشکل حالات پر قابو پا سکیں۔ سوچ سمجھ کر اور ذمہ دارانہ انداز میں اپنی جنسی صحت کو سمجھتے ہوئے بھر پور زندگی گزار سکیں۔اور کسی بھی مجرم کو اس کے جرم کے آغاز میں ہی کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔
کچھ آسان اقدامات کرنے اور زیادہ توجہ دینے سے، ہم دنیا کو آئندہ نسلوں کے لئے ایک بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔
لہذا،موجودہ حالات میں عام جنسی سلوک کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کیلئے، نوعمر بچوں میں، اسکولوں میں یا عوامی آگاہی مہم کے طور پر، جنسی تعلیم کی بہترین شکل اپنانا ہوگی۔سیکس ایجوکیشن کی اہمیت اس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان، جو اس وقت 190 ملین سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، وہاں خوراک اور بجلی جیسے بنیادی وسائل کی بڑی قلت ہے، جہاں دن بدن مہنگائی،بے روزگاری بڑھ رہی ہے، افراطِ زر کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں،جہاں ہر بارہ میں سے ایک فرد روز غربت سے تنگ آ کر خود
کشی کرتا ہے۔ جہاں آبادی میں اضافے کی شرح کو مناسب طور پر برقرار رکھنے میں ریاست ابھی تک ناکام ہے۔
آبادی کی منصوبہ بندی یا مانع حمل پر بات
آبادی میں عدم توازن اور غربت، یہ دو حقائق،بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے جڑے ہوئے ہیں۔حکومتی یا انفرادی سطح پر کوئی بھی آبادی کی منصوبہ بندی یا مانع حمل کے بارے میں کھلے عام بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔اور آج انہی ریاستی کمزوریوں اور کوہتائیوں کا خمیازہ معصوم جانیں ادا کر رہی ہیں۔ آبادی کی منصوبہ بندی یا مانع حمل سے متعلق معلومات اور مناسب حکمتِ عملی کو گلیوں،محلوں اور کام کی جگہوں پر مختلف سیمیناز کے ذریعے پھیلانا ہو گا۔
مانیٹر ڈیوائیسز (ٹیکنالوجی)کا استعمال
آج نہ صرف نصابی طور پرہمیں جسمانی تعلیم کو اپنے سلیبس میں شامل کرنا ضروری ہے بلکہ اس مکروہ فعل کو مانیٹر کرنے کیلئے ایسی ٹیکنالوجیز کو اسکولوں،مدارس اور ایسے تمام اداروں اور مقامات میں استعمال کرنا ضروری ہے جہاں کم سن بچے اپنا عماماً وقت گزارتے ہیں تاکہ ایسے جرائم پر قابو پایا جا سکے۔
چائلڈ تحفظ کمیٹیاں
ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اسکولوں اور مدرسوں میں شکایات سننے کے لئے چائلڈتحفظ کمیٹیوں کی بنیاد رکھنی ہو گی۔تاکہ بروقت ایسے کسی بھی واقع کا نوٹس لیا جائے۔کمیٹیوں کے ممبران کو مونیٹر کرنے کیلئے بھی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو اُن کی کارکردگی کا شفافیت کے ساتھ جائزہ لے۔اداروں میں بنا نام اور شناخت کو ظاہر کئے بچوں میں ہر ماہ سروے کروایا جائے جس میں استاد کا انکے ساتھ رویے کا پوچھا
جائے۔ان کمیٹیوں کا کام بچوں کی کونسلنگ کرنا ہو تاکہ وہ کسی بھی طرح کا خوف محسوس کئے بغیر ضرورت پڑنے پر اپنا بھرپور دفاع کر سکیں۔
سیمینارز
ہمیں بچوں اور والدین کیلئے، بدسلوکی،بے جا چھیڑ چھاڑ،جسمانی اور نفیساتی ہراسانی اور اس سے بچنے کے بارے میں تعلیم دینے کے سلسلے میں سیمینارز منعقد کرنے ہوں گے۔ایک ایسا بچی/بچہ جو کسی جسمانی تشدد کا شکار ہوا ہو،جب تھوڑا زندگی میں آگے بڑھتا ہے تو یہ معاشرہ اسے اس کا ماضی بھلانے نہیں دیتا۔اُس کے رہنے،پڑھنے کی جگہ اور اس کے خاندان والے اسکی نفسیاتی حالت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اسے پرانی گھناؤنی یادوں کو کسی نہ کسی بہانے کریدتے رہتے ہیں۔ایسے سیمیناز ہر محلے،ہر اسکول اور مرد و خواتین کے مجمع کی جگہ پر منعقد کروائے جائیں جہاں بچوں کی نفسیاتی حالت،اورمراحل پر روشنی ڈالی جائے اور موجودہ معاشرے کی سوچ اور نظریات کو مثبت انداز میں بدلنے کیلئے سیشن دیئے جائیں۔
لہذا اب ضرورت ایسے نظام کی ہے کہ جو ایسی حکمتِ عملی وضع کرے جو مذہب اور اثرورسوخ کے دائرہ کار سے نکل کراُن وجوہات کا منظم جائزہ لینے کے بعدایسے تمام جرائم کو واضع طور پر کنٹرول کر ے جو معاشرے میں کم سن کے ساتھ بد فعلی اور انکے قتل کا موجب بنتے ہیں۔ایسا معاشرہ جو طبقاتی بنیادوں میں بٹا ہوا ہو، جہاں قانون صرف غریب کیلئے ہو،اورجہاں عدالتوں میں معمولی نوعیت کے کیسز بھی سالہا سال تک التوا میں پڑے رہیں اور کوئی اس نظام کو سدھارنے والا نہ ہو،وہاں اپنے حقوق اوراصولوں کی جنگ خود عوام کو لڑنی پڑتی ہے کیونکہ ایک ایسا نظام جو مظلوم اور کمزوروں کا خون چوس کر معرض وجود میں آیا ہو ایسے منافقانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ایک منصفانہ نظام لانا ہی انسانیت کی اولین ترجیح ہے۔





