بڑی کمپنیاں جو لاک ڈاؤن کے دوران بھی چل رہی ہیں اور سالوں سے منافع کما رہی ہیں نے فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کو بغیر واجبات ادا کیے نوکریوں سے فارغ کردیا ہے۔
کرونا وائرس کی وباء نے دنیا کو ایک نئی صورت حال میں مبتلا کردیا ہے تمام ممالک کے پاس لاک ڈاؤن کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہا۔ جس کے ذریعے لوگوں کوخاص طور پر دیہاڑی دارمحنت کش طبقے کو اپنے گھروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔یوں کارخانہ دار یا بازارِ زندگی کا ہر شعبہ بند ہوگیا۔ روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدور کمانے سے گئے۔ نجی شعبے میں کام کرنے والا ہر فرد عدم تحفظ کا شکار ہے۔ کارخانوں اور دیگر اداروں نے اپنے عملے کی چھانٹی کرنا شروع کردی ہے اور صورتحال بکثرت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ نجی شعبے میں کام کرنے والے ہسپتالوں نے پہلے ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی تنخواہیں آدھی کیں اور اور پھر بہت سے افراد کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکسٹائل سے میں کئی شعبے بند ہوگئے ہیں اور لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہیں وہ تمام بڑی کمپنیاں جو سالوں سے چل رہی ہیں اور بڑے پیمانے پر منافع کما رہی ہیں انہوں نے اپنے ملازمین کے بیک اپ کے لئے انکی انشورنس اور ان کے اچھے مستقبل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ ملک میں ان حالات کی وجہ سے 26 فیصد خواتین اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں جبکہ باقی خواتین کی خدمت کو (غیر معینہ مدت کے لئے)کہنے کی حد تک عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔جن ملازمین کو نکالا گیا ہے ان میں فیکٹری ورکرز،سیلز پرسنز،نجی اسکولوں کی اساتذہ،ہسپتالوں اور دیگر تجارتی اداروں میں کام کرنے والی خواتین شامل ہیں۔جن میں سے 15فیصد کا تعلق سندھ سے جبکہ تین فیصد کا تعلق بلوچستان سے ہے۔برطرف ملازمین کی اکثریت واجبات کی منتظر تھی جبکہ 28فیصد خواتین وفاقی حکومت کے اساس پروگرام میں اپنی درخواستیں جمع کروا کر اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔
برطرف ہونے والی خواتین میں ملک کے آٹھ بڑے شہروں میں جہاں وومن لیبر پارٹیسپیشن بہت زیادہ ہے جن میں کراچی،فیصل آباد،سیالکوٹ، رحیم یارخان، کوئٹہ وغیرہ شامل ہیں وہاں ان کی بڑی تعداد کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر ورکرز جو دس دس پانچ پانچ سالوں تک بغیر کانٹریکٹ کے کام کرتے ہیں جنہیں سوشل سیکورٹی لا ز کے مطابق رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے انہیں ڈیلی ویجرزکے طور پر کام کرنا پڑتا ہے اور جس دن ان کے لئے کام نہیں ہوتا اُس دن ان کا کوئی حق نہیں بنتاکہ وہ تنخواہ مانگیں۔زیادہ تر ٹیکسٹائل سیکٹر کے ورکرزٹھیکے پر کام کرتے ہیں اگر کام ہے تو وہ کام کریں گے ورنہ نہیں ۔
پاکستان میں نوے کی دہائی میں ٹھیکیداری نظام نافذ ہوا Third Party Contract کے ذریعے مزدوروں کو بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ یہ نظام صرف کارخانوں میں نہیں آیا بلکہ سروس فراہم کرنے والے اداروں مثلاً بنیک،ٹرانسپورٹ، میڈیا،نجی شعبے کے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں بھی نافذ ہوا کہ کسی بھی فرد کی ملازمت کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی۔تب ایک عام مزدور سے لے کر اعلی تعلیم یافتہ ورکرہر قسم کی مراعات سے محروم ہوگیا۔
ملک میں معیشت گزشتہ دو برسوں سے پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے اور اب یہ بحران مزید شدید ہوگیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس بحران کے نتیجے میں خط ِغربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد میں مزید لاکھوں افراد شامل ہوجائیں گے۔خوراک کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایف پیWFP کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال دنیا میں 135 ملین افراد خوراک کی کمی کا شکار تھے اب اگلے سال اس میں مزید 83 ملین افراد کا اضافہ ہوگا۔
دنیا میں جو ریاستیں خود کوسوشل ویلفیئر سٹیٹس کہتی ہیں وہ بھی اب اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے قاصر ہو چکی ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان ایک نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہے یہاں عام آدمی ریاست کی بنیادی ترجیح نہیں ہے۔ پاکستانی ریاست عوام کو تعلیم،صحت اور روزگار دینے کی پابند نہیں۔تبھی وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں سخت لاک ڈاؤن اس لئے نافذ نہیں ہو سکتا کیونکہ ریاست ہر فرد کو کھانا نہیں فراہم کر سکتی۔ پاکستان اگر اپنے بجٹ کا 70 فیصد حصہ تعلیم،صحت اور روزگار کی فراہمی اور وسائل کی ترقی پر خرچ کرے تو ایک دن میں یہ ملک سوشل ویلفیئر سٹیٹ میں تبدیل ہوسکتا ہے جو کہ سرمایہ داری کے اس بحران میں ممکن نہیں اس لیے ضروری ہے کہ تما م پیداواری عمل کی منصوبہ بندی میں محنت کرنے والوں کو شریک کیا جائے۔ محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول ہی صیح معنوں میں زندگی کی ضمانت ہے۔
ہم پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں سے اس تاریخی بحران میں متحد ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اب محنت کشوں کا بین الاقوامی اتحاد ہی اس بحران سے نکلنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔





