Home Special جارج فلائیڈ کا قتل: امریکہ اور دنیا بھر میں نسل پرستی کے...

جارج فلائیڈ کا قتل: امریکہ اور دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف جنگ کا آغاز!

SHARE

مینیپولیس (متحدہ ہائے امریکہ مینیسوٹا کا سب سے بڑا شہر ہے جو پڑوسی ریاست کے دارالحکومت سینٹ پال کے ساتھ ”جڑواں شہر” تشکیل دیتا ہے) جل رہا ہے۔ 25 مئی کو مینیپولیس میں جارج فلائیڈ کے پولیس قتل کے بعد لوگ مشتعل ہیں غم و غصے اور شدت پسندی کے نئے احساس کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں مظاہروں کو بے دردی سے دبایا جا رہا ہے۔ ریاستی پولیس اشتعال انگیزوں کی طرف سے ہونے والے مظاہروں کو بدنام کرنے اور فوج میں اضافے کی حوصلہ افزائی کے لئے، املاک کو تباہ کرنے کی خبروں میں غلط قیاس آرائیاں کرتے ہوئے اس بغاوت کو روکنے کے لئے اپنے تمام پُرتشدد ہتھکنڈوں اور دھمکیوں کا استعمال کررہی ہے۔

’ورکرز وائس ‘کا بیان

جارج کو ہتھکڑیوں میں دکھایا گیا تھا، اس کا چہرہ زمین پر تھا، ایک پولیس اہلکار اس کی گردن پر گھٹنوں کے ساتھ تھا۔ پولیس اہلکار کے تشدد کا شکار ہو کر، جارج نے اپنی زندگی تک لڑتے ہوئے، مسلسل کہا ”کہ وہ سانس نہیں لے سکتا“ I CAN’T BREATHE، لیکن پولیس اہلکار جو اس کا گلا گھونٹ رہا تھا، اور ساتھ ہی دیگر افراد جو آپریشن کر رہے تھے، نے جارج کی اپیل کو نظرانداز کیا۔
ویڈیو ریکارڈ کرنے والے لوگوں نے پولیس کو روکنے کی کوشش کی، جبکہ موقع پر موجود ایک اور افسر نے مبصرین کواس سے دور رکھااور جارج کی موت تک پولیس تشدد جاری رہا۔
یہ واقعہ افسوسناک طور پر ایک سیاہ فام آدمی ایرک گارنر کے قتل سے ملتا جلتا ہے جس پر چھ سال قبل سگریٹ کی غیر قانونی فروخت کے شبہ میں نیویارک شہر کے متعدد پولیس اہلکاروں نے حملہ کیا تھا اور اسے ماردیا تھا۔ پولیس افسر جس نے اس کا گلا دبا کر قتل کیا اسے امریکی بورژواکی نام نہاد انصاف پر مبنی عدالت نے بری کردیا تھا۔ ایرک گارنر کے آخری الفاظ جارج فلائیڈ کے جیسے تھے: ”میں سانس نہیں لے سکتا”۔
جارج ایک اور سیاہ فام آدمی تھا جسے امریکہ میں، دن بھر کی روشنی میں اور سیل فون کے کیمروں کے سامنے قتل کیا گیا۔ پولیس نے بلا کسی ہچکچاہٹ کے، پھر بھی لوگوں کو ڈرایا، جو اس پُرتشدد اور قاتلانہ کارروائی سے مشتعل تھے۔ امریکی سامراجی پولیس کالے،مزدور طبقے کے ایشیائی باشندوں پر کوویڈ 19 کے وبائی امراض کے دوران بھی تشدد کا استعمال کرنے سے باز نہیں آئی۔
لیکن مینیسوٹا میں فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کا جواب دھماکہ خیز بغاوت کی صورت میں دیا گیا۔سینکڑوں افراد اس نسل پرستانہ قتل کے احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئے۔۔۔
ہماری یونینز، دیگر کارکنان اور مقبول تنظیموں کو جارج فلائیڈ، بریونا ٹیلر، احمد آرمیری اور پولیس قتل کے دیگر تمام متاثرین کے لئے انصاف کی اپیل کرنے اوران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے کھڑے ہونیکی ضرورت ہے۔ ہمیں Amalgamated Transit Union امیلیگمیٹڈ ٹرانزٹ یونین کی مثال پر عمل کرنا چاہئے جس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ان قتلوں کی سرزنش کی اور اُن پولیس ممبران کی حوصلہ افزائی کی جنہوں نے ان مظاہروں کے خلاف پولیس جبر میں حصہ لینے سے انکار کیا۔
ہمیں پولیس تشدد کی وبا کو ختم کرنے، قومی محافظوں کی تعیناتی اور ریاستی تشدد کے دیگر طریقوں کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے جو مظاہروں کو دبانے کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس دوران، ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی یونینوں اور ورکنگ کلاس تنظیموں کے ممبران کے ساتھ ان مظاہروں میں شامل ہوں اور باہمی امداد، یکجہتی، اور جدوجہد کے لئے منصوبہ بندی کمیٹی تیار کریں جو بورژوا سیاسی جماعتوں کی مداخلت سے آزادانہ طور پر منظم ہوں (ڈیموکریٹس اور ریپبلکن)۔ہم ان مظاہروں کے لئے گہری یکجہتی کی حمایت کی اپیل کرتے ہیں۔
منیپولس پولیس کے ہاتھوں مارے گئے ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے پولیس قتل کے بعد ڈینورDenver، این وائی سی NYC، ایل اے NYC، آکلینڈ Oakland اور ملک کے دیگر حصوں میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ یہ حالیہ ہلاکت مارچ کے بعد سے اب تک کے سیاہ فام کئی قتلوں کی ایک کڑی ہے جس میں، کینٹکیKentucky کے شہر لوئس ول میں ”ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن“ بریونا ٹیلرBreonna Taylor کے پولیس قتل اور اس کے بعد پولیس کے ایک سابق جاسوس کی جانب سے 25 سالہ احمد اربری Ahmaud Arbery کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا اور ایک ماہ پہلے فروری میں اس کا بیٹے کو بھی جارجیا میں مارا گیا۔ پولیس تشدد کی ان کڑیوں سے سرمایہ داری میں مبتلانسل پرستی کی گہری نفرت کی جڑ کا انکشاف ہوتا ہے۔ جب پولیس افسران نے جارج فلائیڈ کو 9 منٹ تک گھٹنے ٹیکتے ہوئے موت کا نشانہ بنایا، فلائیڈ کو بار بار یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ، ”میں سانس نہیں لے سکتا“، یہ الفاظ 2014میں نیویارک شہر کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ا فسر ڈینیئل پینٹالیو Daniel Pantaleoکے گلا گھونٹ کے مارنے کے بعد Black Lives Matter movement کا پھیلتا ہوا ایک عام نعرہ ہے۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں، مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور فلائیڈ کے لئے انصاف کے مطالبے کے لئے شاہراہوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ گارنر Garner’sکے قتل نے بلیک لائفس تحریک کو متحرک کردیا تھا، اور حالیہ فلائیڈ قتل نے مظاہروں کو مزید بھڑکا دیا ہے، منیپولس میں ایک بغاوت کی سی فضا پھیل چکی ہے، اور امریکہ میں پولیس اور ریاستی نفرت کے خلاف ایک نئی تحریک کا آغازہو چکا ہے۔
COVID-19کے بحران کے نتیجے میں نسل پرستی کے شکار لوگ غیر متناسب طور پر بڑی تعداد میں وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں، جیسا کہ شکاگو اور لوزیانا جیسے مقامات میں ہوا۔نیو یارک کے میئر ڈی بلیسیو کی طرف سے سیاہ فام لوگوں کو، سفید فام لوگوں سے زیادہ سخت آرڈرز پر گھروں میں رہنے کی ہدایت کی جا رہی ہے اور خلاف ورزی کرنے پر پولیس سیاہ فام لوگوں کو حراست میں لے رہی ہے اور انہیں ہراساں کررہی ہے۔ یہ مظاہرے پہلی باروبائی بحران کے دوران عوام کی کثیر تعداد کو سڑکوں پر لے آئے ہیں اور اس وبائی مرض کو کارکنوں کے خلاف دباؤ بڑھانے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سفید فام بالادست طبقے کا تشدد، سرمایہ دارانہ قوانین، اور ریاستی جبر کے بارے میں امریکی عدالتی نظام کے ‘انصاف’ یا ‘مساوات’ کی منافقت کا اندازہ، ان دو مختلف اوربڑے پیمانے پر ملک میں ہونے والے مظاہروں ،جن میں ایک جارج فلائیڈ کے پولیس قتل کے خلاف سیاہ فام سمیت مختلف افراد کے مشترکہ مظاہرے اور دوسری طرف Michiginمیں سفید فاموں کا احتجاج جو کہ معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے مطالبے کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور جسے منظم کرنے اور مالی معاونت فراہم کرنے میں دائیں بازو کے سرمایہ داروں نے اہم کردار ادا کیا ہے (جن میں بیٹسی ڈی ووسBetsy DeVos’اور ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے شریک بانی Paul Weyrich جیسے ارب پتی افراد شامل ہیں)۔ پولیس نے ان مظاہرین کے تحفظ کو یقینی بنایا جو مسلح تھے اور بڑی حملہ آور رائفلزلے کرMichiginسٹیٹ ہاؤس میں داخل ہوئے، اور ٹرمپ کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی اور اس نے گورنر وائٹمرWhitmer کو مظاہرین کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے کہا۔ دوسری طرف، پولیس نے مینیسوٹا اور پورے ملک میں فلائیڈ کے لئے انصاف کامطالبہ کرنے والے مظاہرین پر پُرتشدد دباؤ ڈالا ہے، مظاہرین کو ربڑ کی گولیوں کا نشانہ بنانے، فلیش بینگ گرنیٹس اور آنسو گیس پھینکنا اور تشدد آور دھمکیاں دینے جیسے دیگر عسکری طریقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کی ٹرمپ نے کھل کر اپنے ٹویٹ مین حمایت کی ہے کہ، ”جب لوٹ مار شروع ہوتی ہے تو، فائرنگ کا آغاز ہوتا ہے“’اور اس کے ساتھ شہروں میں نیشنل گارڈ بھیجنے کی دھمکیاں بھی شامل تھیں۔ منیاپولیس میں پولیس نے یہاں تک کہ سیاہ فام سی این این CNNکے رپورٹر عمر جیمنیزسمیت دیگر صحافیوں پر بھی حملہ کیا اور انھیں گرفتار کیا جنہوں نے ان مظاہروں کووریج دی یا ان کا احاطہ کیا۔
اس تحریک کی تشکیل کے ساتھ ہی جلد ہی ملک بھر میں مزید مظاہرے سامنے آئیں گے۔ لیکن اس سے یقینا ریاستی تشدد اور جبر کی بڑھتی ہوئی سطح کا سامنا بھی کیا جائے گا۔ پہلے ہی مینیپولیس کے میئر جیکب فری Jacob Frey اور مینیسوٹا کے گورنر ٹم والزTim Walz، دونوں ڈیموکریٹس نے، بغاوت کو روکنے کے لئیریاست سے نیشنل گارڈ ز کا مطالبہ کر دیا ہے۔
Workers Voice اس تازہ ترین پولیس قتل پر غم و غصے کا اظہار کرتی ہے اور تمام مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرتی ہے اور ریاستہائے متحدہ کی ریاست منیسوٹا اور دیگر شہروں میں جدوجہد اور بغاوت کے لئے غیر مشروط تعاون کی پیش کش کرتی ہے، جب تک کہ وہ ہم پر قتل، استحصال اور ظلم و ستم بند نہیں کریں گے، ہم اپنے طبقے کے خلاف نسل پرستی اور اس کے ہر قسم کے تشدد سے لڑنا نہیں چھوڑیں گے۔ جیسا کہ سی ایل آر آر جیمزC.L.R. James نے 1948 میں لکھا:

The Black Struggle”اس جدوجہد کی اپنی طاقت اور جواز ہے… اس کی امریکہ کے ماضی اور موجودہ جدوجہد میں گہری تاریخی جڑیں ہیں۔ اس کا نامیاتی سیاسی نقطہ نظر ہے… اور یہ قوم عمومی، معاشرتی اور سیاسی زندگی پر زبردست طاقت کے ساتھ مداخلت کرنے کے قابل ہے… یہ انقلابی پرولتاریہ پر ایک طاقتور اثر و رسوخ کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہے… ریاستہائے متحدہ میں پرولتاریہ کی ترقی، اور یہ کہ وہ خود ہی سوشلزم کی جدوجہد کا ایک جز ہے“۔

سرمایہ داری: نسل پرستی کا قتل! سرمایہ داری:نسل پرستی کی موت!

قاتل پولیس! جسٹس برائے جارج فلائیڈGeorge Floyd۔ جسٹس برائے اموڈ آربیری Amaud Arbery۔ جسٹس برائے بریونا ٹیلرBreonna Taylor۔

پولیس بجٹ کی کٹوتی کرو اور اسے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے، رہائش، بیروزگاری، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، عوامی فلاح کے لئے استعمال کیا جائے۔

جارج فلائیڈ کے قاتلوں کو انصاف اور مثالی سزا!

SHARE