Home Featured World جموں کشمیرکے عوام کی بہادرانہ مزاحمت 

جموں کشمیرکے عوام کی بہادرانہ مزاحمت 

SHARE

 29 ستمبر 2025 سے پاکستان زیر انتظام  جموں کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ اور سخت حفاظتی اقدامات نافذ کیے گئے ۔ مگر عوام نے خاموشی قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ جو آغٖاز2023  میں مہنگائی ، آٹے اور بجلی کی قیمتوں کے خلاف  شروع ہوا تھا وہ سمبتر 2025میں 38 نکاتی ایجنڈے کساتھ ایک وسیع عوامی تحریک میں بدل چکا ہے ۔ جس کو لیکر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نےمانگیں پیش کی۔ جو اختیارات، مراعات اور سیاسی بے دخلی کے خلاف سیدھی اور منظم مانگیں تھی ۔ حکومت نے ہرطرح کے دباؤ ، کٹوتی اور فورسز سے  تشدد کروا کر ردِعمل کا اظہارکیا  ۔ موبائل اور انٹرنیٹ بند کر دیے گئے؛ خبریں منقطع کی گئیں؛ راستے بند کر دئیے گئے۔ پاکستان سے پیرا ملٹری فورسز بھیجی گئیں، جھڑپوں میں کم از کم نو افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ مگر یہ ظلم تحریک کو نہیں دبا سکا — اس نے نظام کی کمزوری اور عوام کے بنیادی حقوق کے مقابلے میں ریاستی بے اعتنائی کو بے نقاب کیا۔

 عوامی تحریک کو توڑنے کی ریاستی چالیں

تحریک کے شروع ہونے کے ساتھ ہی ریاست نے براہِ راست عوام سے ٹکرانے کے بجائے ایک رائٹ ونگ پارٹی (مسلم کانفرنس ٰ) کو میدان میں اتارا۔جس کی بنیادی وجہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ براہ راست لڑنا ریاست کیلئے خطرناک ہو سکتا تھا ۔ لہٰذا ریاستی طاقت پیچھے کھڑی کر کے اپنے پرستار یا کاسہ لیس گروہ کو استعمال کرتے ہوئے تصادم کروایا اور بے گناہ نہتے لوگوں پر گولیں چلوائی گئ۔ اتنی بڑی خونزیزی کروا کربھی ریاست اپنے جرائم کو چھپنا چاہتی ہے۔ ایک طرف کٹٹر دائیں بازو کی جماعت کے غنڈوں کے ذریعے عوام پر حملے کروائے گئے اور جب مظاہرین نے جواب دینے کی کوشش کی تو فوری طور پر مظاہرین کو انتہا پسند یا ملک دشمن قرار دیکر بڑی تعداد میں فورسز کی کاروائی کو جائز قرار دیا جانے لگا۔ یہی وہ فضا تھی جس کو پرکھنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی، ریاستی پراکسیز کے ذریعے دیکھا جا رہا تھا کہ عوام کس حد تک اجتجاجی تحریک کا ساتھ دیتے ہیں اور کتنے ددو تک جبر کو برداشت کرتے ہیں۔ یہ اصل میں مزاحمت کے درجے کو ناپنے کا طریقہ تھا۔اتحاد کو توڑنا کیلئے اپنے پرستار گروہ کو میدان میں اتارنے کے مقاصد تحریک کے اندر پرامن احتجاج کو شدت پسندی کی شکل دیکر عوامی اتحاد کو کمزور کرنا تھا۔کشمیر کے محنت کشوں کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ ایسی انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں دراصل  اسٹیبلشمنٹ کے سہارے زندہ رہتی ہیں۔ ان کا استعمال کر کے ریاست خود کو قانوں اور نظم کی محافظ جبکہ عوام کو فسادی اور انتشار پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

لینن اور ٹراٹسکی نے متفقہ، یک زبان ہو کر کہا تھا کہ ” ریاست مظلوم عوام کی انقلابی مزاحمت یا توانائی کوتوڑنے کیلئے رجعتی اور پُرانی قوتوں کو بطور ڈھال استعمال کرتی ہے”

جب ریاست کی مذکرہ حکمت عملی کا عوام نے ڈٹ کے مقابلہ کرنا شروع کیا تو نہ صرف متعلقہ جماعت کے غنڈوں کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا بلکہ دیگر فورسز کوبھی تیزی سے اپنی اپنی جگہیں چھوڑنی پڑی  ، سپاہی اور آفسرز اپنا اسحلہ تک چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس طرح  نوجوانوں کی مزاحمت کے آگے ریاست کو جھنکنا پڑا اور فوری طور پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو مزکرات کی دعوت دی۔

عوام نے جو حاصل کیا

حکومت پاکستان نے 4 اکتوبر ہفتے کے روز جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (JAAC) کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ گزشتہ چند دنوں سے پاکستان زیرِ انتظام  جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کو ختم کیا جا سکے۔جسکی بعد دونوں فریقیں نے  بات چیت کے بعد بالآخر ایک معاہدے پر اتفاق کیا تاکہ جاری تحریک کو جلدی ختم کیا جا سکے۔

 معاہدے کی اہم شقیں:

ہلاکتوں اور جھڑپوں پر ایف آئی آرز

قانون نافذ کرنے والے اداروں (LEAs) اور مظاہرین کی ہلاکتوں یا زخمی ہونے کے واقعات پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آرز درج ہوں گی، اور جہاں ضرورت ہو وہاں ایک عدالتی کمیشن مقرر کیا جائے گا۔یکم اور 2 اکتوبر 2025 کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے افراد کو وہی مالی معاوضہ دیا جائے گا جو LEAs کے اہلکاروں کو دیا جاتا ہے۔ زخمی ہونے والوں کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا، اور ہر جاں بحق شخص کے خاندان کے ایک فرد کو 20 دن کے اندر سرکاری ملازمت دی جائے گی۔”

مزید کہا گیا کہ بنجوسہ (21 ستمبر)، مظفرآباد (30 ستمبر و 1 اکتوبر)، پلوک (1 اکتوبر)، دھیرکوٹ (1 اکتوبر)، میرپور (2 اکتوبر) اور ریان کوٹلی (1 اکتوبر) کے واقعات کی ایف آئی آرز کے لیے معاملہ ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل عدالتی کمیشن کو بھیجا جائے گا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں 2 اور 3 اکتوبر کے دوران گرفتار ہونے والے کشمیری مظاہرین کو رہا کیا جائے گا۔

 تعلیم اور کابینہ میں اصلاحات

  • مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن کے لیے دو اضافی تعلیمی بورڈز قائم کیے جائیں گے، اور آزاد کشمیر کے تینوں بورڈز کو فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سے منسلک کیا جائے گا۔

  • تعلیمی اداروں میں داخلے اوپن میرٹ پر دیے جائیں گے۔

  • حکومت آزاد کشمیر 15 دن کے اندر صحت کارڈ کے لیے فنڈز جاری کرے گی۔

  • ہر ضلع میں MRI اور CT اسکین مشینیں وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے فراہم کی جائیں گی۔

  • آزاد کشمیر کابینہ کا حجم 20 وزراء/مشیران تک محدود کیا جائے گا، اور انتظامی سیکریٹریز کی تعداد بھی 20 سے زیادہ نہیں ہوگی۔

  • سول ڈیفنس کو اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (SDMA) میں ضم کیا جائے گا۔

  • احتساب بیورو اور انسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک ادارے میں ضم کر کے اس کا قانون نیب آرڈیننس کے مطابق بنایا جائے گا۔

 بجلی اور انفراسٹرکچر کے لیے 10 ارب روپے

وفاقی حکومت آزاد کشمیر کے بجلی کے نظام کی بہتری کے لیے 10 ارب روپے فراہم کرے گی۔

  • نیلم ویلی روڈ پر کہوری/کامسر (3.7 کلومیٹر) اور چپلانی (0.6 کلومیٹر) ٹنلز کی تعمیر کے لیے فیزیبلٹی اسٹڈی ہوگی، جو سعودی ڈیولپمنٹ فنڈ کے تحت ترجیحی بنیادوں پر مکمل ہوگی۔

  • منگلا ڈیم ریزنگ پروجیکٹ کے تحت میرپور کے خاندانوں کی زمینوں کا قبضہ 30 دن میں ریگولرائز کیا جائے گا۔

  • 2019 کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہائیڈل پراجیکٹس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

  • 10 اضلاع میں واٹر سپلائی اسکیم کی فیزیبلٹی اسٹڈی موجودہ مالی سال میں کی جائے گی۔

  • ٹرانسپورٹ پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا، خاص طور پر 1300cc گاڑیوں کے استعمال سے متعلق۔

مہاجرین کی نشستوں کا جائزہ

ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی جائے گی جو آزاد کشمیر اسمبلی کے ان اراکین کے مسئلے پر غور کرے گی جو آزاد کشمیر کے حلقوں سے باہر سے آتے ہیں (یعنی مہاجرین کی 12 نشستیں)۔
یہ کمیٹی وفاق، آزاد کشمیر حکومت اور JAAC کے دو دو قانونی ماہرین پر مشتمل ہوگی۔

"جب تک کمیٹی اپنی حتمی رپورٹ پیش نہیں کرتی، ان نشستوں سے متعلق تمام فنڈز، مراعات اور وزارتوں کی حیثیت معطل رہے گی۔”

بلدیاتی قانون میں ترامیم

موجودہ بلدیاتی قانون کو 1990 کے اصل قانون کی روح کے مطابق اور عدالتِ عالیہ کے فیصلوں کی روشنی میں 90 دن کے اندر ہم آہنگ کیا جائے گا۔

صحت، پانی اور ترقیاتی منصوبے

  • تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتالوں میں آپریشن تھیٹرز اور نرسریاں بنانے کے لیے فنڈز ADP سے فراہم کیے جائیں گے۔

  • گلپور اور رحمان (کوٹلی) کے پلوں کی تعمیر کے لیے فنڈز ADP سے دیے جائیں گے۔

  • دادوپانی (دڈیال) کی کشمیر کالونی کے لیے واٹر سپلائی اسکیم اور ٹرانسمیشن لائن ADP سے فنڈ کی جائے گی۔

  • مندر کالونی (دڈیال) کے مہاجرین کو ملکیتی حقوق دیے جائیں گے۔

  • پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکس کو پنجاب یا خیبر پختونخوا کے برابر لایا جائے گا (3 ماہ میں)۔

  • ایڈوانس ٹیکس میں کمی گلگت بلتستان اور سابق فاٹا کی طرز پر کی جائے گی۔

  • میرپور انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے لیے منصوبے کا ٹائم فریم رواں مالی سال میں طے کیا جائے گا۔

عملدرآمد و نگرانی کمیٹی

معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ایک مانیٹرنگ اینڈ امپلیمنٹیشن کمیٹی بنائی جائے گی، جس میں وفاق، آزاد کشمیر حکومت اور JAAC کے نمائندے شامل ہوں گے۔

کمیٹی کے اہم ارکان میں:

  • وفاقی وزراء طارق فضل چوہدری اور عامر مقام

  • آزاد کشمیر حکومت کے دو نمائندے

  • JAAC کے تین نمائندے

کمیٹی تنازعات کے حل، طریقہ کار کی تشکیل اور ہر فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ٹائم لائنز طے کرے گی۔

"کمیٹی عدلیہ، سرکاری افسران اور وزراء کو دیے گئے موجودہ مراعات اور سہولیات کا بھی جائزہ لے کر ان کو معقول سطح پر لائے گی۔”

پاکستان زیرِ انتظام جموں کشمیر کا آئینی بحران

تاریخی پس منظر

1947 کی تقسیم کے بعد پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر جسے عام طور پر (آزاد جموں کشمیر کہا جاتا ہے وجود میں آئی۔ لیکن ایک خودمختار یا حقیقی جمہوری ریاست کے بجائے یہ خطہ ہمیشہ براہ راست پاکستان کے زیر اثر رہا ۔1974 ء کا عبوری آئین جو ایک ایکٹ کی حیثیت رکھتا ہے اس ریاست کا بنیادی قانونی ڈھانچہ ہے ، مگر اس کے ذریعے کشمیری عوام کی حقیتی خودمختاری اور حق خودارادیت کو مسلسل دبایا جاتا رہا۔

اس ایکٹ کے تحت کشمیر کونسل، جس پر پاکستانی حکام اور پاکستان کے وزیرِاعظم کا غلبہ ہے، مالیات اور انتظامیہ ،  دفاع ، خارجہ امور اور مواصلات وغیرہ پر فیصلہ کن اختیار رکھتی ہے، نام نہاد آزاد اسمبلی محدود ہے اور ان امور پر کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی ۔جو سیاسی قوت یا جماعت پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے کو تسلیم نہیں کرتی، اسے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا ہے۔

موجودہ بحران

29 ستمبرکو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کی 12نشستیوں کے ساتھ دیگر 37 بنیادی حقوق کے گرد لاکھوں لوگوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔ یہ 12نشتیں  پاکستان میں مقیم مہاجرینِ جموں و کشمیر کے لیے مختص کی گئی ہیں ۔ یہی نشتیں جو گزشتہ کئی برسوں سے ایک بڑی سیاسی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ عوامی حلقے اور مختلف تحریکیں بارہا ان نشستوں کے کردار اور جواز پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔چونکہ ان نشستوں پر منتخب نمائندے زیادہ تر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے امیدوار ہوتے ہیں جنکا براہ راست جموں  کشمیر کے مقامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان نشستوں کو پاکستان کی بڑی جماعتیں اسمبلی میں اپنی اکثریت بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔ یہ نشستیں اکثر پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر  کے عوام کے حقِ خود ارادیت اور مقامی خودمختاری پر سوال اٹھاتی ہیں ۔ چند سو ووٹوں پر منتخب ہونے والے اسمبلی نمائندے بھاری بجٹ اپنی اور اپنے آقاؤں کی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو 25 فیصد ریاستی انتظامی کوٹے کا حقداربھی سمجھتے ہیں۔ جس سے  جموں کشمیرکا اسٹیٹ سبجیکٹ رول تبدیل ہو رہا ہے  اورآزادی سے پہلے ہی جموں کشمیر کا ڈیموگرافگ توازن بگاڑ چکا ہے ۔

قیادت پر تنقید

ہم جہاں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کے دفاع میں کھڑے ہیں وہاں وقتاً فوقتاً اس کی مرکزی  قیادت پر تنقید بھی کرتے رہےہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ایک بہترین اور دیانتداری پر مبنی طریقہ کار ہےجو ہر نقطہِ نظر اور  حکمتِ عملی کو پرکھتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق موقف اختیار کرتا ہے ۔ اُس میں چاہیے اس کے اپنے سمجھے گئے اصول ہی کیوں نہ ہوں۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی بنیاد 2023 میں تحصیلوں اوراضلاع کے اندر کئی برسوں سے بنیادی اور جمہوری حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی کمیٹیوں کے متحرک کارکنان نے رکھی۔ جنہیں مشترکہ مسائل پر مشترکہ جدوجہد کیلئے ایک مرکزی اتحاد کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی ۔ اس طرح عجلت میں بغیر کسی کانفرنس کے ہرضلع کے متحرک کارکناں نے مل کر آرگنائزنگ کمیٹی کیلئے اپنے تین سے چار ممبران کوبھیجا تاکہ ذیلی کمیٹیوں کو مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے ۔ طے یہ ہوا تھا کہ اس کے بعد کی حکمت ِعملی کے تحت  مضبوط کمیٹی کی بنیاد کیلئے ہر پرت سے نمائندگی لینی تھی ۔لیکن ہوا کچھ یوں کہ کمیٹی کی قیادت جس پر زیادہ تر تاجروں اور سابق قوم پرست پارٹیوں کے دوسرے درجے کی مرکزیت پسند قیادت کی چھاپ ہے جوعدم یقینی کی کیفیت میں مرکزیت کے ساتھ کمیٹی کی قیادت کر رہے ہیں اور بغیر رینک اورفائل کے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے سڑکچر کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس تحریک سے پہلے تقربیا ڈیرھ سال تک حق حکمرانی اور حق ملکیت کے نام سے پورے جموں کشمیرمیں بغیر قراردادوں کے کانفرنسز کروائی گئی، جن میں پرانی کامیابیوں کا خوب ورد کیا گیااور نئی لڑائی کیلئے کوئی باقاعدہ حکمت عملی نہیں کی گئی ۔ ان کانفرنسز کے دوران جب متحرک اور انقلابی کارکناں کی طرف ( جموں کشمیر کے سوال کوسامنے رکھتے ہوئے، آئینی بحران اور مسائل پر دیہاتوں اور ٹاؤن میں پیپلز اسمبلیاں ، کام کی جگہوں پر ورکرز اسبلیوں کے ذریعے قیادت کا چناؤ ،واپس بلانے کا حق ، اور قیادت کی تنخواہ ایک عام  ورکرکے برابر ) جیسی تجویز سامنے آئی تو قیادت نے عام عوام کے اندر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ ذیلی کمیٹیوں کی قیادت تحریک کو توڑنا چاہتی ہے وغیرہ،اور اس طرح عوام کو منظم کیے بغیر 29 ستمبر 2025 کو مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ۔اس دوران جب ریاست نے مظفرآباد کے مقام پر ایک  انتہائی دائیں بازو  ،جھوٹوں ، مکاروں اور غنڈوں کی پارٹی مسلم کانفرنس کے ذریعے عوام پر حملے کروانا شروع کیے تو پھر عوام کو پُر امن طریقے سے مظفراآباد کی طرف لانگ مارچ کی اپیل کی گئی ۔لیکن ریاست نے ضلع میرپور اور باغ میں بھی یہی حکمتِ عملی برقرار رکھتے ہوئے اپنے پالتواور ریاستی میشنری کا استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کی جان لی اور جب نوجوانوں نے واپس مزاحمت کی تو تمام حملہ آور اپنے اسحلہ چھوڑ کر دم دبا کر بھاگ گئے یا گرفتار کر لیے گئے۔جس صورتحال کو سمجھتے ہوئے ریاست نے فوری طور پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ بیشک مذاکرات کیلئے کمیٹی کی قیادت یہ شرط رکھ چکی تھی کہ مذاکرات براست حکومت پاکستان کے ساتھ ہوں کیونکہ پاکستان زیرانتظام قانون ساز اسمبلی کے نمائندے لاکھوں لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے حکمرانی کا حق کھو چکے تھے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور بالآخرحکومت پاکستان کے ساتھ مذکرہ بالا مطالبات پر مذاکرات طے پا گئے اور لگتا یہی ہے کہ جو قبول کیا گیا اُس کی فراہمی کیلئے پھر عوام کو بار بار نکلنا پڑے گا۔

بعدازتحریک

تحریک کے دوران چونکہ مطالبات پر معاہدہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت پاکستان کے درمیان ہوا ہے  اس معاہدہ پر دستخط کے دوران علامتی طورپر جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے دو ممبران سے شرکت کروائی گئی اور دوسری طرف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے تین ممبران تھے ۔ اس ڈیکورم کے بعد کم از کم  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام  مرکزی ،ضلعی اور تحصیل کے  سیاسی اور انتظامی فیصلوں میں جوائںٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبران کو ایک اسٹیک ہولڈر کے طور شریک رکھا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا جس کی ذمہ دار کمیٹی کی مرکزی قیادت ہے۔ ریاست منظم حکمت ِ عملی کے ساتھ تحریک میں متحرک کردار ادا کرنے والے کارکنان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ تحریک کے بعد بہت سارے نوجوانوں کو فورسز سے چھینے گے اسحلہ کو وجہ بنا کر اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ زیادہ تر وہ نوجوان ہیں جو فورسز کے تشدد سے باقی نوجوانوں کو بچانے اور فورسز کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔ ریاست ان نوجوانوں کو اس لیے اٹھا رہی ہے تاکہ میدان صاف کر تے ہوئے ان متحرک اور ذیلی کمیٹیوں کی قیادت کو صعوبتوں میں ڈالا جائےجو تحریک کو آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت اضلاع اور تحصیلوں کی کمیٹیوں پرمشتمل دفاعی کانفرنسز کال کرے جس میں ہر مقامی کمیٹی کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ عوامی دفاع میں ریاستی جبر کا ہر طرح سے مقابلہ کرے اور باقی کمیٹیاں اُس کی پشت پر کھڑی ہوں۔

 انقلابی/ آئین ساز اسمبلی کی کمپیئن

ہم نے بار بار وضاحت کی ہے کہ محنت کشوں کی جدوجہد میں آئینی مسائل مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ سوشلسٹ نقطۂ نظر کے لیے جدوجہد صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم جمہوری سوال پر انقلابی مؤقف اپنائیں، یعنی تمام جمہوری مطالبات کا مستقل دفاع کریں اور ان مطالبات میں سے زیادہ اہم مطالبے کے انقلابی نفاذ کے لیے لڑیں۔ اس میں آئین کا مسئلہ بھی لازمی طور پر شامل ہے۔

آئین ساز اسمبلی کا نعرہ انقلابی جمہوری جدوجہد میں مرکزی حیثیت رکھتا رہا ہے، حتیٰ کہ بورژوا انقلابات کے عہد میں بھی۔ جیسا کہ فرانسیسی انقلاب-94 1789کے وقت آئین ساز اسمبلی آزادی کی جدوجہد کا مرکز بن گئی تھی۔ یہی صورتحال 1848 کے یورپی انقلابات اور روسی انقلاب 1905 اور 1917 میں بھی تھی۔ اس وقت میں مارکس، اینگلز اور لینن کی تحریریں اس حقیقت کی گواہ ہیں۔ اور اس کے بعد بھی کئی انقلابات میں یہ اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔

اپنی اصل میں آئین ساز اسمبلی ایک ایسا ادارہ ہے جو صرف اس مقصد کے لیے منتخب ہوتا ہے کہ ریاست کے آئین کو مرتب کرے اور اس پر فیصلہ دے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں متضاد طبقات کے نمائندے اپنا اپنا پروگرام پیش کرتے ہیں کہ معاشرے کو کس طرح چلایا جائے۔ اس لیے آئین ساز اسمبلی بورژوا جمہوریت کی سب سے زیادہ "ریڈیکل” شکل ہے کیونکہ یہ عوامی پرتوں کو سماج کے سیاسی و معاشی ڈھانچے پر مباحثے میں شامل کرتی ہے۔

مارکس وادی اس بارے میں کسی وہم میں نہیں ہیں کہ سوشلسٹ نظام محض ایسی کسی اسمبلی کے ذریعے پُرامن طریقے سے نافذ ہو سکتا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی حکومت کا خاتمہ اور اس کی جائیداد کی ضبطی طاقت کا سوال ہے، جو بالآخر حاکم اور محکوم طبقات کے درمیان مسلح تصادم کے ذریعے ہی طے ہوگا۔

تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ مارکس وادی ایسے اداروں کو نظرانداز کریں۔ ہم اس بات کے حامی ہیں کہ ہر ممکن ادارے کو استعمال کیا جائے تاکہ سماج کی انقلابی تبدیلی کے مکمل پروگرام کو پیش کیا جا سکے۔ اس طرح کی جدوجہد عوام کو یہ دکھانے میں مددگار ہو سکتی ہے کہ ایسے ادارے سماج کے بنیادی مسائل حل نہیں کر سکتے۔

ایسی آئین ساز اسمبلی کو زیادہ سے زیادہ جمہوری اور انقلابی بنانے کے لیے مارکس وادی یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ نمائندے مقامی عوامی اسمبلیوں کی بنیاد پر منتخب ہوں؛ وہ اپنے ووٹرز کے ذریعے ہر وقت واپس بلائے جا سکیں؛ اور انہیں صرف ہنر مند مزدور کی اجرت کے برابر تنخواہ ملے۔

دنیا میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات اور اس سے پہلے کے کئی تجربات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ جمہوری نعروں کو، اور خاص طور پر آئین ساز اسمبلی کے نعرے کو، دو طریقوں سے پیش کیا جا سکتا ہے: ایک انقلابی طریقے سے اور دوسرا اصلاح پسند طریقے سے۔ اصلاح پسند جمہوری مطالبات کو بورژوا ریاست سے اپیل کے طور پر اٹھاتے ہیں اور پارلیمانی راستے پر زور دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ محنت کش طبقے اور عوام کو متحرک کریں۔ عام طور پر اصلاح پسند اور سنٹرلسٹ آئین ساز اسمبلی کے نعرے کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حکمران طبقہ ایسی اسمبلی بلائے۔ لیکن ایسی صورت میں آئین ساز اسمبلی صرف حکمران طبقے کا آلہ بن سکتی ہے کیونکہ وہی اس پر قابو پائیں گے۔

اس کے برعکس انقلابی نہ تو مفاہمتی آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کرتے ہیں جو عوام کو محض مطمئن کر دے، بلکہ وہ انقلابی آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ لیکر کمپیئن کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے ایسی آئین ساز اسمبلی جو جدوجہد کرنے والے عوام کے زیرِ کنٹرول ہو، جو ایکشن کمیٹیوں اور مسلح ملیشیا میں منظم ہوں۔ دوسرے الفاظ میں، ایسی اسمبلی انقلابی ابھار کا نتیجہ ہوگی، جہاں محنت کش طبقہ  اقتدار پر قابض ہو یا کم از کم دوہری حکومت کی صورتحال پیدا ہو گئی ہو۔

مارکس وادی کن حالات میں انقلابی آئین ساز اسمبلی کا نعرہ بلند کریں؟ ہمارا ماننا ہے کہ یہ کوئی آفاقی نعرہ نہیں جو ہر ملک یا ہر حالت میں لگایا جا سکے۔ ہم نے اس نعرے کے بارے میں اپنا مؤقف یوں بیان کیا ہے:

"جہاں سیاسی خودمختاری کے بنیادی مسائل ایجنڈے پر ہوں اور عوام میں ابھی یہ شعور موجود نہ ہو کہ ورکرز کی جمہوری کونسل آئین ساز اسمبلی سے برتر ہے، ایسے مخصوص مراحل میں انقلابی آئین ساز اسمبلی کا نعرہ اہم ہو سکتا ہے۔ بالشویک-کمیونسٹ اس بات کے حامی ہیں کہ نمائندے عوام کے قابو میں ہوں اور ہر وقت واپس بلائے جا سکیں۔ ایسی اسمبلی کو آسانی سے حکمران طبقے کا آلہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اسے بورژوا حکومت نہیں بلکہ ورکرز اور عام عوام  کی کمیٹی کی انقلابی حکومت کے ذریعے بلایا جانا چاہیے”۔

اسی لیے ہم یہ تجویز دیتے ہیں کہ یہ نعرہ وہاں بلند کیا جائے جہاں جدوجہد یا سرمایہ دارانہ سیاسی نظام کے حالات بنیادی جمہوری سوالات کو ایجنڈے پر لے آئیں۔ یہ ان ممالک میں ہو سکتا ہے جہاں فوجی آمریت یا بورژوا حکومت کی کسی کم آمرانہ شکل (جیسے بوناپارٹ ازم یا نیم بوناپارٹ ازم) کا راج ہو، یا جہاں محنت کشوں کی جدوجہد ملک کے آئینی ڈھانچے کے بنیادی سوالات کو سامنے لائے  ۔جب تک ورکرز اور عوامی پرتیں بورژوا جمہوریت کے بارے میں وہم رکھتے ہیں، مارکس وادیوں کو چاہیے کہ وہ ان حالات میں انقلابی آئین ساز اسمبلی کا نعرہ بلند کریں۔

عوامی حقوق تحریک کی جرات نے نہ صرف جموں کشمیر کے عوام کو مزید ہمت دی بلکہ پاکستان کے عوام جو جبر اور جمہوری سوالات کیلئے جدوجہد کر رہیے ہیں ان کے اندربھی ایک اجتماعیت کا جذبہ پیدا ہوا ہے کہ اگر مقبول عوام مل کر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کریں تو حکمرانوں کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ عوامی حقوق غصب کر سکیں۔ ہمارے سوشل میڈیا فرینڈز اور جاننے والے، حکمرانوں کے پاکستان دشمن پروپیگنڈے کو ایک طرف رکھتے ہوئے  باربار فتح کی کامیابی پر مبارک باد کے ساتھ عہد کر رہے ہیں کہ جلد وہ پاکستان کے اندر اپنے حقوق کو لیکر تحریک کومزید منظم کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تحریک کی حاصلات کو برقرار رکھنے کیلئے حکمرانوں پر دیہاتوں اور قصبوں کی سطح سے مسلسل مسلسل دباؤ برقرار رکھ جائے۔ تحریک کے دوران جو تحربات ملے ہیں ان کو نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ شئیرکیا جا ئے بلکہ خواتین و حضرات کوبرابر نمائندگی میں، دیہاتوں اور قصبوں کے مسائل کے ساتھ اضلاع کی سطح پرمکمل منڈیوں اور مکمل جنرل ہسپتالوں کی مانگ کی جائے۔یہ عمل تب ممکن ہے جب عوامی کمیٹیوں کو شعوری طور پر سارے عمل کا حصہ بنایا جائے۔جمہوری مرکزیت کے تحت ہر کمپیئن پر ووٹنگ کی جائے۔ ہر ممکن کوشش کی جائے کہ فیصلے اتفاق ِ رائے سے کئے جائیں ورنہ اکثریت کے فیصلے کو اقلیت پراہمیت دی جائے اس عمل میں بے شک آرگنازئرز اقلیت کا حصہ ہی کیوں نہ رہے، یہی بہترین عمل ہے عوام کے درمیان برابری، عاجزی اور اجتماعیت لانےکیلئے۔ اس سارے عمل کو پیپلز اسمبلیوں کے ذریعے کروایا جائے جس کا آغاز دیہاتوں اور قبصوں سے کیا جائے اور ہر جگہ یہ کوشش کی جائے کہ ان عوامی کمیٹیوں میں موجود ورکرز سے ان کے اداروں کے اندر بھی ورکرز کمیٹیوں کی کمپیئن کروائی جائے۔ ہر پیپلز اسمبلی کے اندر مروجہ پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی جس کے جزوی آئین میں حق خودارادیت کے ساتھ الیکشن میں جانے پر پابندی ہے،کے خلاف بھر پور کمپیئن کرتے ہوئے متبادل آئین ساز اسمبلی کی اہمیت پر پروپیگیشن کی جائے۔ یہی طریقہ ہے جس سے تحریک کی کامیابی کو برقرار رکھتے ہوئے حکمرانوں کی عوام کو کنفیوز کرنے کی چالوں کا جواب دی جا سکتا ہے!۔

اس لیے ان حکمرانوں پر اعتماد کیے بغیر جدوجہد کی جائے۔ جو مسلسل آگے کی طرف بڑھے۔ اب یہ نوآبادیاتی حکمران آئے روز عوام سے کہتے ہیں کہ پاکستان ان سے ناانصافی کر تا ہے اپنے وعدوں کے مطابق کو ئی بھی شَے پوری مہیا نہیں کی جاتی وغیرہ، مطلب جب شکاری خود جال میں پھنسا تو اُسے جال کے ہونے پر اعتراض ہونے لگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے بے ساختہ پن کا فائدہ اٹھایا جائے۔عوام ان کی بااختیاری کیلئے کچھ نہ کرے بلکہ اب ضروری ہے تمام ریاستی اسٹیک ہولڈرز جن میں عام عوام کے نمائندے، ورکنگ کلاس کی قیادت،مڈل کلاس (وکلاء پروفیسر،ڈاکٹرز، تاجراور ٹرانسپوٹرز) ، طلبہ اور خواتین کی قیادت کو شامل کر تے ہوئے انقلابی آئین ساز اسمبلی کی کمپیئن کی جائے جو آئین سازی کے فرائض سرانجام دیتے ہوئےانقلابی آئین ساز اسمبلی کا ل کرے۔ جوباقی جموں کشمیر کی آزادی کیلئے خود جدوجہد کرے۔

کشمیر کی یہ تحریک محض علاقائی شورش نہیں بلکہ جبر ،مظلوم قوموں کے وسائل پر قبضہ، نیولبرل پالیسوں کی سختوں ، سیاسی اشرافیہ کی مراحات اوربے روزگاری کے خلاف عالمی جدوجہد کا حصہ ہے ۔ جب عوام کی بنیادی ضروریات ضبط کرتے ہوئے مراعات چند افراد کیلئے مخصوص کی جائیں تو عوام کا ردعمل ناگزیر ہے ۔ پھر اس  ردِعمل کو بلیک آؤٹ اور گولیوں سے روکنا ناممکن بن جاتا ہے ۔ یہی پاکستان زیز انتظام جموں کشمیرمیں ہوا۔

پاکستان زیرِ انتظام کشمیر کا آئینی بحران محض ایک قانونی مسئلہ نہیں بلکہ اقتدار کا سوال ہے۔ معاہدہ کراچی،  1974ء کا ایکٹ اور اس کے گرد قائم ڈھانچے بالادستی کے اوزار ہیں،جن کو عوام مسترد کر چکے ہیں۔ عوام اب خاموش تماشائی بننے پرآمادہ نہیں، ایک انقلابی حل محض آئینی اصلاحات یا مطالبات کی منظورسے پورا نہیں ہو گا۔ بلکہ کشمیر کے محنت کشوں کی متحرک جدوجہد اب انقلابی آئین ساز اسمبلی کا تجربہ کرتے ہوئے ایک جمہوری اور  سوشلسٹ کشمیر کی بنیاد ڈالے گی۔

SHARE