قوموں کے حقِ خود مختاری کا مطلب صرف سیاسی معنوں میں حقِ خود مختاری ہے۔اس کا مطلب ہے ظالم و جابر قوم سے آزاد،سیاسی علیحدگی کا حق۔ٹھوس معنوں میں ،سیاسی جمہوریت کے اس مطالبے کا مطلب ہے علیحدگی کے حق میں ایجی ٹیشن کرنے کی مکمل آزادی، علیحدگی چاہنے والی قوم کی ریفرنڈم کے ذریعہ علیحدگی کے سوال کو طے کرنے کی آزادی ۔نتیجے کے طور پر، یہ مطالبہ اور علیحدگی ، بٹوارے اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرنے کا مطالبہ ،دونوں ایک نہیں ہیں۔یہ مطالبہ محض منطقی اظہار ہے کسی بھی شکل میں قومی ظلم و جبر کے خلاف جدو جہد کا۔ریاست کا جمہوری نظام علیحدگی کی مکمل آزادی سے جتنا قریب آئے گاعملی طور پر علیحدگی کے لیے جدو جہد اتنی ہی کمزور اور کم ہوتی جائے گی۔کیونکہ اس میں کوئی شُبہ نہیں ہو سکتا کہ اقتصادی ترقی اور عوام کے مفاد،دونوں نقطہء نظر سے ،بڑی ریاستوں کے بڑے فائدے ہیں۔اور یہ فائدے سرمایہ داری کی نشوو نما کے ساتھ بڑھتے جاتے ہیں۔حقِ خود اختیاری کو تسلیم کرنا اور فیڈریشن کو ایک اصول کی حیثیت سے تسلیم کرنا، ایک شخص اس اصول کا کٹر دشمن اور جمہوری مرکزیت کا طرف دار ہو سکتا ہے اور پھر بھی قومی نا برابری پر فیڈریشن کو ترجیح دے سکتا ہے کہ یہی مکمل جمہوری مرکزیت کا واحد راستہ ہے۔اسی نقطہء نظر سے مارکس نے مرکزیت پسند ہونے کے با وجود انگریزوں کے ہاتھوں آئر لینڈ کی جبریہ محکومی پر آئر لینڈ اور انگلستان کی فیڈریشن کو ترجیح دی تھی۔
سوشلزم کا مقصد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بنی نوع انسان کے بٹوارے اور قوموں کی تمام الگ الگ خانہ بندیوں کو ختم کرنااورقوموں کو ایک دوسرے کے ساتھ لانا ہی نہیں بلکہ ان کو شیرو شکر کر دیناہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک طرف تو
’’تہذیبی قومی خود مختاری‘‘(97)سے متعلق ریز اور باؤیر کے خیالات کی رجعت پسند نوعیت عام لوگوں کو بتائیں اور دوسری طرف ،محض عمومی طور پر نہیں ،مبہم انداز میں نہیں،بے مغز لن ترانیوں سے نہیں،سوشلزم کے قائم ہونے تک اسے اُٹھا رکھنے کی بات کر کے نہیں،بلکہ صاف صاف اور جچے تُلے انداز میں سیاسی پروگرام مرتب کر کے مظلوم و محکوم قوموں کی آزادی کا مطالبہ کریں،ایک ایسا پروگرام مرتب کریں جو ظالم و جابر قوموں کے سوشلسٹوں کی ریا کاری اور بزدلی کو بھی خاص طور پہ نظر میں رکھے۔ جس طرح بنی نوع انسان مظلوم ومحکوم طبقے کی ڈکٹیٹر شپ کے عبوری دور سے گزر کر ہی طبقوں کا خاتمہ کر سکتا ہے ٹھیک اُسی طرح بنی نوع انسانی قوموں کے شیروشکر ہو جانے کی نا گزیر منزل تک تمام مظلوم و محکوم قوموں کی مکمل آزادی یعنی اُن کی آزادی علیحدگی کی عبوری دور سے گزر کر ہی پہنچ سکتا ہے۔
قوموں کی خود اختیاری کے سوال کی پرولتاری،انقلابی ترتیب
قوموں کی خود اختیاری کا مطالبہ ہی نہیں بلکہ ہمارے کم سے کم جمہوری پروگرام کے تمام نکتے ،بہت پہلے ہی ،سترھویں اٹھارویں صدی میں پیٹی بورژوازی نے پیش کئے تھے۔پیٹی بورژوازی آج تک ان تمام مطالبوں کو خیالی جنت کے باسیوں کے انداز میں اُٹھا رہی ہے۔وہ طبقاتی جدو جہد کو نہیں دیکھتی۔ اس کی آنکھیں اس حقیقت کی طرف سے بھی بند ہیں کہ طبقاتی جدو جہد جمہوریت کے سائے میں اور تند و تیز ہوتی ہے۔وہ ’’پُرامن‘‘ سرمایہ داری پر یقین رکھتی ہے۔سامراج کے سائے میں برابر قوموں کے ایک پُر امن اتحاد کے خیالی جنت والے تصور کی نوعیت بس یہی ہے جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتی ہے اور کاؤ تسکی وادی جس کی وکالت کرتے ہیں۔ضروری ہے کہ اس کم نظر اور موقع پرستانہ خیالی جنت کے بجائے سوشل ڈیموکریسی کا پروگرام یہ نظریہ پیش کرے کہ سامراج کے سائے میں قوموں کی بنیادی ،اصلی اور نا گزیر تقسیم وہ ہے جو صرف ظالم و جابر اور مظلوم و محکوم قوموں کے درمیان ہوتی ہے۔
ظالم و جابر قوموں کا پرولتاریہ عمومی قسم کے گھسے پٹے جملوں اور فقروں تک خود کو محدود نہیں رکھ سکتا جو کوئی بھی صلح پسند بورژوا جبری الحاق کے خلاف اور قوموں کے برابر حقوق کے بارے میں عام طور پر کہہ سکتا ہے۔پرولتاریہ اس سوال سے نگاہیں نہیں چُرا سکتاجو سامراجی بورژوازی کے لئے خاص طور پر ’’نا خوشگوار ‘‘ ہے یعنی ایسی ریاست کی سرحدوں کا سوال جو قومی ظلم و جبر پر مبنی ہیں۔پرولتاریہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا کہ مظلوم و محکوم قوموں کو ایک خاص ریاست کی سرحدوں کے اندر زبردستی بند رکھنے کے خلاف جنگ کرے اور یہی مطلب ہے حقِ خود اختیاری کے لئے جدو جہد کا ۔پرولتاریہ کا فرض ہے کہ ان نو آبادیوں اور ان قوموں کی سیاسی علیحدگی کی آزادی کا مطالبہ کرے جن کو پروتاریہ کی ’’اپنی‘‘ قوم مظلوم و محکومی کا شکار بنائے ہوئے ہے۔جب تک کہ پرولتاریہ ایسا نہیں کرتا پرولتاری بین الاقوامیت محض بے معنی اصطلاح رہے گی۔اس کے بغیر ظالم و جابر اور مظلوم و محکوم قوموں کے مزدوروں کے درمیان باہمی اعتماد ممکن نہیں ہو گا اور طبقاتی یک جہتی ، نہ حقِ خوداختیاری کے سدھار وادی اور کاؤتسکی وادی وکیلوں کی ریاکاری کی کنجی کھلے گی جو ان قوموں کے بارے میں ہونٹوں پہ گوند چپکائے بیٹھے رہتے ہیں جن کو ان کی ’’اپنی‘‘ قوم ظلم و محکومی کا شکار بناتی ہے اور زبردستی ان کو’’اپنی‘‘ ریاست کی سرحدوں کے اندر بند کر کے رکھتی ہے۔
دوسری طرف ،مظلوم و محکوم قوموں کے سوشلسٹوں کو چاہیئے کہ وہ مظلوم و محکوم قوموں کے مزدوروں اور ظالم و جابر قوموں کے مزدوروں کے درمیان مکمل اور بھرپورایکتا کے لئے جس میں تنظیمی ایکتا بھی شامل ہے، لڑیں اور اس کو عملی جامہ پہنائیں ورنہ پرولتاریہ کی آزاد پالیسی کے لئے لڑنا اور بورژوازی کے تمام چور دروازوں، دغا بازیوں اور دھوکے فریب کی موجودگی میں دوسرے ملکوں کے پرولتاریہ کے ساتھ طبقاتی یک جہتی کا پرچم لہرانا نا ممکن ہو جائے گا۔کیونکہ مظلوم و محکوم قوموں کا بورژوا طبقہ قومی آزادی کے نعروں کو مستقل مزدوروں کو جل دینے والے ہتھکنڈوں میں بدلتا رہتا ہے۔اندرونی سیاست میں بورژوازی ان نعروں کو حکمران قوموں کی بورژوازی کے ساتھ رجعت پسندانہ معاہدے کرنے میں استعمال کرتی ہے(مثال کے طور پر روس اور آسٹریا میں پولش جنہوں نے رجعت سے معاہدے کئے تا کہ یہودیوں اور یوکرینیوں کو اپنے ظلم و جبر کا شکار بنا سکیں)۔بورژوازی خارجہ سیاست کے میدان میں حریف سامراجی طاقتوں میں سے کسی ایک سے معاہدے کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اپنی غاصبانہ مرادیں حاصل کر سکے۔(جیسے بلقان میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی پالیسی وغیرہ)۔
ہو سکتا ہے کہ ایک سامراجی طاقت کے خلاف قومی آزادی کی جد جہد کو دوسری ’’بڑی‘‘ طاقت خاص حالات میں اپنے یکساں سامراجی مفاد کی خاطر استعمال کرے ۔ اس حقیقت کی بنیاد پر سوشل ڈیموکریٹ قوموں کے حقِ خود اختیاری کو تسلیم کرنے سے اسی طرح انکار نہیں کر سکتے جس طرح اس حقیقت کے باوجود کہ بورواژی نے کئی بار ریپبلکن نعروں کو سیاسی فریب اور مالی لوٹ کے لئے استعمال کیاہے۔(جیسے لاطینی الاصل زبانوں والے ملکوں میں)، پھر بھی سوشل ڈیموکریٹوں کو ریپبلکن ازم سے ہاتھ دھو لینے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔
یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ حقِ خود اختیاری کی مخالفت محض اس بناء پر کرنا کہ اس کا مطلب ہے’’مادرِوطن کی حفاظت‘‘اور بھی مضحکہ خیز ہو گا۔1914-16ء کے سوشل شاونسٹ اسی زور دار منطق کے ساتھ یعنی اسی چھچھلے پن کے ساتھ، اس دلیل کو جمہوریت کے تمام مطالبوں (مثلاََرپبلکن ازم)پر اور قومی ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے ہر فارمولے پر لاگو کرتے ہیں۔اور یہ سب ’’مادرِوطن کی حفاظت‘‘کا جواز حاصل کرنے کی خاطر مارکس ازم مادرِوطن کی حفاظت کے خیال کو تسلیم کرتے ہیں۔مگر مارکس ازم اس خیال تک ،بعض ’’عام اصول‘‘ یا پروگرام کے بعض الگ نکتوں کی بناء پر نہیں بلکہ ہر الگ الگ جنگ کے خاص تاریخی تجزیئے کی بناء پرپہنچا ہے ۔مثال کے طور پر عظیم فراسیسی انقلاب کی جنگوں اور یورپ میں گاریبالدی کی جنگوں میں مارکس ازم وطن کی حفاظت کی اہمیت تسلیم کرتا ہے ۔لیکن مارکسزم نے 1914-16 کی سامراجی جنگ میں ’’مادرِ وطن کی حفاظت‘‘کے نعرے کی مخالفت کی ہے۔




