خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے مل کر موجودہ اور سابقہ ممبران پارلیمان کی طرز پر اپنے لیے تاحیات مراعات اور بلیو پاسپورٹ کے اجرا کا مطالبہ کرتے ہوئے جمعہ کی سرکاری چھٹی بحال کرنے،صحابہ کرامؓ اوراہل بیتؓ کی توہین روکنے اور شان صحابہ ؓو اہل بیتؓ میں گستاخی پر سزا موت یا عمر قید کی سزادینے اور سرائیکی زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دینے سمیت متعدد قراردادوں کی منظوری دیدی ہے۔
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ریاست جب تعلیم، صحت، روزگار دینے اور مہنگائی کو کم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو لوگوں کا دھیان دوسری طرف لگا دیتی ہے تاکہ وہ اپنے بنیادی مسائل اور انکے حل کے بارے میں سوچنے کے بجائے ان نان ایشوز پر غور کریں۔پاکستان جو کہ پہلے ہی ایک اسلامی ریاست ہے،وہاں مذہب کے حوالے سے قرارداد اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور اب مذہبی رنگ دکھا کر عوام کو اپنی کارکردگی پر سوال نہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بیشک ہر دین کی مقدس شخصیات کا احترام سب پر لازم ہے،پھر وہ چاہے اقلیت سے تعلق ہی کیوں نہ رکھتے ہوں اور یہ امتِ مسلمہ پہلے سے ہی جانتی ہے لہذا اس کیلئے پھر سے قرارداریں منظور کرنا اور موجودہ ہاٹ ایشوز کو اسمبلی ہالز میں نہ لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست ہمیشہ کی طرح مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کر رہی ہے۔جبکہ دوسری طرف ممبران پارلیمان اپنے لیے تاحیات مراعات اور بلیو پاسپورٹ کے اجرا کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ شاید تعلیم، صحت، روزگار اور مہنگائی کے ایشوز سے کہیں ذیادہ نکات ضروری ہیں!





