Home Pakistan ریاستی جبر اور پشتون تحفظ تحریک

ریاستی جبر اور پشتون تحفظ تحریک

SHARE

تحریر :ساجدخان
ہماری غلط بنائی گئی تصویرکو تبدیل کرو پشتون تحفظ تحریک کا بیانیہ
پشتون تحفظ تحریک کی طرف سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ تاریخی طور پر ریاست کی پشتونوں کے حوالے سے بنائی گئی غلط تصویرکو تبدیل کیا جا سکے۔پچھلے چار مہینوں سے ہونے والی تحریک میں شد ت آنے کی وجہ سے پاکستان ملٹری اور سول قیادت کی آنکھیں کھل گئی ہیں جو قبائلی علاقوں کو فیڈرل انتظام کے تابع رکھ کرلوگوں کے حقوق پورے کرنے سے زیادہ حکمتِ عملی کی رو سے دیکھتے تھے۔یہ قبائلی علاقے پچھلے سترہ سالوں سے حالتِ جنگ میں گرے ہوئے ہیں۔قبائلی علاقوں میں تعلیم کا ریشو پاکستان میں سب سے کم ہے کوئی روزگار کی سہولتیں نہیں۔صحت ، باقی انفراسٹرکچر اور کمیونیکیشن سسٹم نہایت نحیف ہے۔ پاکستان کا ریگولر عدالتوں کا نظام قبائلی علاقوں پر لاگو نہیں ہوتااور لوگوں کو انصاف کے لیے برطانیہ کے وقت کے نو آبادیاتی نظام پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کے ذریعے سیاسی ایجنٹ رکھ کر تعفن زدہ جرگہ سسٹم چلایا جا رہا ہے۔اس کے تحت قبائلی سردار لڑائی جھگڑوں اورخون خرابے کی صورت میں اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں۔جرگے کے نظامِ نصاف کو استعمال کرتے ہوئے انتہائی وحشت سے عزت کے نام پر قتل و غارت گری ،خون کے بدلے (سوارہ ) جیسے گھٹیا قوانین کا استعمال کر کے لڑکیوں کی عمروں کو مدِنظر رکھے بغیر قتل کے بدلے متعلقہ خاندان سے خون کے معاملات کو سلجھایا جاتا ہے۔ پاکستان کی ریاست کے لیے قبائلی علاقے اور اُن کے باشندے صر ف اُس وقت زیادہ عزیز تھے جب ان کوپہلے1948 میں پاکستان کی جنگ لڑنے کے لئے کشمیر میں اورپھر1990میں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے لئے استعمال کیا گیا۔دہائیوں پر مشتمل جنگ نے بالعموم 9/11کے بعداور بالخصوص امریکہ کی قیادت میں شروع کی گئی نام نہاددہشت گردی کے خلاف جنگ نے ان علاقوں کے لو گوں کی زندگیوں کو اجیرن بناکر رکھ دیاہے۔2001سے پاکستان ملٹری کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف اس وقت تک دس آپریشنز شروع کیے گئے جن کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔سکولوں ،ہسپتالوں کو بری طرح سے تباہ کیا گیا۔
موجودہ پشتون تحفظ تحریک جو پہلے محسود تحفظ تحریک کے نام سے جانی جا تی رہی ،یہ پاکستان کی دوسری بڑی قوم کی طرف سے شروع کی گئی جس نے جنوری 2018میں اُس وقت زیادہ شدت اختیار کی جب ستائیس سالہ دکاندار نقیب اللہ محسود کوجعلی حملے میں کراچی پولیس نے قتل کیا اور بعد میں کہا گیا کہ اس کا تعلق دہشت گردوں کی تنظیم تحریکِ طالبان سے تھا ۔یہ پشتونوں کے خلاف پاکستان اتھارٹیز کی طرف سے نسل پرستی کا ایک ایساباب ہے جو کافی عرصے سے جاری و ساری ہے۔
26جنوری 2018پشتون تحریک کے مظاہروں کا ایک سلسلہ ڈیرہ اسمائیل خان، لکی مروت ،بنوں کرک،کوہاٹ اور ڈیرہ سدام خیل سے شروع ہوتا ہوا 28جنوری کو پشاور پہنچا اس کے بعد چارسدہ،مردان،صوابی اور ترنول سے ہوتا ہوا اسلام آبادپریس کلب تک آیا،جس کے مطالبات یہ تھے : تقیب اللہ اور باقی پشتون جو ماورائے عدالت پولیس کے جعلی مقابلوں میں قتل کئے گئے ان کی عدالتی تفتیش کروائی جائے اور نسل پرستی کے نام پر پشتونوں کے خلاف تمام کیسسز کو بند کیا جائے۔بتیس ہزار اٹھا ئے گئے پشتونوں کو عدالتوں میں پیش کروپاکستان آرمی کو یہ عندیہ دیا گیا کہ قبائلی علاقوں کے معصوم لوگوں پر سرِعام گولی چلانا اور اغواکرنا بند کرو۔اجتماعی طور پر قبائلز اور دیہاتوں میں سزا دینا بند کرو۔چھوٹے سے چھوٹے وقوع پذیر ہونے والے حادثے کے بعد تمھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کرفیو کو لوگوں پر مسلط کرو۔تمام بارودی سرنگیں اور فوج کی چیک پوسٹیں ختم کروکیوں کہ ان چیک پوسٹوں پر کسی بھی وقت سیکورٹی کے نام پر بے قصوروں کو مرغابنا دیا جاتا ہے جو انسانی اقدارقطعی منافی ہے۔ان احتجاجوں کے دوران لوگوں کے بیچ پمفلٹ تقسیم کئے گئے جس میں یہ سوال رکھا گیا کہ اگر طالبان سے سارے علاقے واگزارکرا لئے گئے جس طرح باقی پاکستان کی عوام کو بتایا جا رہا ہے تو پھر کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ لوگوں کو ان کے گاؤں میں داخل ہونے سے روکا جائے۔نتیجتاً اس تحریک نے بہت سے دوسرے احداف کے ساتھ سپریم کورٹ کے حکم پر تقیب اللہ کے قاتل پولیس افسر راؤ انوار کو گرفتار کروایا۔
احتجاج کرنے والوں نے تمام مارچز اور جلسوں میں نعرے اور تقریریں کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں کے باسیوں کو وہ حقوق دو جس کی ذمہ داری لی گئی ہے اسی دوران دوسرے بہت سے احتجاجیوں نے ڈیرہ اسمائیل خان میں موجود طالبان کے ایک آفس کو جلایا جس کی وجہ طالبان کی طرف سے ایک بے گناہ نوجوان کو قتل کرنا تھی۔گرم جوشی کے ساتھ ان سوالات کو عوام کے سامنے رکھا گیا کہ اچھے طالبان کا خاتمہ کرو جو پاکستان کی ریاست نے پالے ہیں۔ اس تحریک کی طرف سے انصاف اور بنیادی حقوق کے لئے کئے گئے احتجاجوں نے ایک طرف بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو آگا ہی دی تو دوسری طرف قبائلیوں کے لئے کھینچی گئی تصویر جو جہاد ،طالبان اور مذہبی بنیاد پرستی تک محدود تھی کا خاتمہ کیا گیا اور پاکستان کے دوسرے علاقوں اور دنیا کو بتایا گیا کہ قبائلی علاقوں کی عام عوام کسی کی دشمن نہیں۔جیسا کہ بتایا جاتا رہا کہ وہ دہشت گردوں کی حمایتی ہے حا لا نکہ سچائی یہ ہے کہ وہ لمبے عرصے سے دہشت گردی کے براہِ راست متاثرین میں سے ہیں ۔
پی ٹی ایم اور سیاسی پارٹیاں:
پاکستان میں پشتونوں کی مزاحمتی تحریک جس میں قبائلی علاقوں سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان کے نوجوان ہر وہ تبدیلی لا رہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔
عام طور پرپاکستان اورخیبر پختون خواہ میں جو بھی سیاسی ریلیاں نکالی جاتی رہیں تمام کی تمام پارٹیاں خانوں جاگیرداروں اور ٹھیکیداروں پر انحصار کرتی رہیں جو اپنے اپنے علاقوں سے لوگوں کو سیاسی جلسوں میں شرکت کے لئے ٹرانسپورٹ مہیا کرتے ہیں لیکن پی۔ ٹی۔ ایم نے کامیابی کے ساتھ جاگیرداروں اور ٹھیکیداروں پر انحصار کئے بغیر جھولی فنڈ کر کے نوجوانوں اور پروفیشنل کلاس کو ساتھ ملاتے ہوئے کامیاب ریلیوں کا اہتمام کیا۔کافی عرصے سے مایوس اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا پختون خواتین و حضرات کو اپنی طرف متوجہ کیا جو ملک اور بیرونِ ممالک عوامی نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کا حصہ تھے۔اس کے علاوہ یہ تحریک بہت بڑے پیمانے پر پروفیشنل اور مڈل کلاس پشتونوں میں مقبول ہو چکی ہے۔حتی کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی سرِعام یہ کہتی پھرتی ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ ایک غیرقانونی تحریک کا روپ دھارے گی جس کی قیادت منظور پشتین کرے گا،ان سیاسی پارٹیوں نے مقامی سطح پر اپنے لوگوں کی ذمہ داریاں لگائی ہیں کہ عوام کو پی۔ ٹی۔ ایم کے جلوسوں اور جلسوں میں شرکت سے روکا جائے حالانکہ بہت ساری جگہوں پر بہت ساری سیاسی پارٹیاں جن میں اے۔ این ۔پی اور پی ۔پی ۔پی شامل ہیں جنہوں نے پی۔ ٹی ۔ایم کی ریلیوں کے خلاف ریلیاں نکالیں لیکن ان پارٹیوں کے بہت سارے سیاسی کارکنان جو عوام کے حقوق کی بات کرتے تھے اپنی پارٹیوں سے اختلاف کر کے اس تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔اور اس طرح بہت سی دوسری پارٹیوں کی قیادت خاموش ہے کیوں کہ وہ کسی بھی صورت میں اس تحریک کی حمایت یا اس کو نظر انداز کر کے اپنا ووٹ بنک کمزور نہیں کرنا چاہتی۔عمران خان اور اس کی بیوی نے کہا کہ ملک میں الیکشن سے پہلے بہت سی تحریکیں جنم لے رہی ہیں اس لئے فوری الیکشن کروائے جائیں۔پی۔ ٹی ۔ایم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تحریک حقیقی معنوں میں پختونوں کی تحریک نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں اور باقی گروپوں نے ان نقطوں کو عوام کے سامنے رکھا ہے ،جن نقطوں پر یہ تحریک واحد پلیٹ فارم مہیا کرنے کی دعوے دار ہے۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ سیاسی دغا بازی ہے جو تمام کی تمام بورژواپارٹیاں عوامی تحریک کے دوران عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
فوجی قیادت کو اندیشہ
چونکہ اس ملک میں سامراج کے بعد دوسرا بڑا آرگنائیزسرمایہ فوج کی قیادت کے کنٹرول میں ہے اس لیے فوج ریاستی اداروں پر اپنا مضبو ط تسلط رکھتی ہے۔ جس کی جھلک زیادہ نمایاں ہو کر اُس وقت ہمارے سامنے آئی جب آرمی چیف نے پشتون تحفظ تحریک کے حوالے سے بیان دیا، جس سے لگا کہ ایک تو ملکی میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کو خاموشی اختیار کرنے کو کہا گیا اوراگر اب اجازت دی جا رہی ہے تو ضروری ہے کہ ہماری بنائی ہوئی صورت گری میں گفتگو ہو ۔
دوسرا ، چیف کی تقریر سے پاکستان آرمی کا دوہرا چہرہ جو ایک طرف کہتے ہیں کہ پشتون تحفظ تحریک قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور دوسری طرف اُن کی مانگوں کو منظور کرتے ہوئے 200لوگوں کو رہا کیاگیا،جنوبی وزیرستان سے بارودی سورنگوں کو ہٹایا گیا ،لوگوں کو نادرہ کاڑد کی فراہمی اور ملٹری چیک پوسٹوں پر ڈھیل دی گئی ہے بلکہ بہت ساری چیک پوسٹیں تو سول حکومت کے حوالے کی جا چکی ہیں اورجو فوج کے زیرِ سایہ ہیں اُن پر آنے جانے والوں کا مختلف مشروبات سے والہلانہ استقبال کیا جا رہا ہے۔
اسی دوران فوج کے ساتھ میٹنگ میں PTMکی قیادت نے کہا کہ ہم حق اور سچ کی بات کرتے ہیں ،ہمارے ہزاروں لوگوں کواغوا کیا گیا ، لاکھوں کو بے گھر کیا گیا، پاکستان کے دوسرے شہروں میں عام لوگ ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔بیرونِ ممالک ہمارے ساتھ ایسے برتاؤ کیا جاتا ہے جیسا کہ دنیامیں دہشت گردی لانے والے ہم ہیں ؟؟
آج ہم اگر اس ظلم،جبر،بربریت اور تعفن زدہ ماحول سے نکلنا چاہتے ہیں اور اس کو قبول کرنے سے انکاری ہیں تو یہ ہمارا انسان ہونے کے ناطے حق ہے ۔اگر آج PTMاپنے حقوق کی خاطر باہر سڑکوں پر آئی ہے تو اُس کی ذمہ دارپاکستان کی سول اور ملٹری قیادت ہے ، اگر کوئی ہمیں ملکی سلامتی کے لیے خطرہ یا کسی کا ایجنٹ سمجھتا ہے تو پچھلے کئی سالوں سے پاکستان تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ہر چھ ماہ بعد لانگ مارچوں اور دھرنوں کا اہتمام کرتے رہے ، حالیہ دنوں خادم حسین رضوی نے پاکستان کے دارالحکومت کو بند رکھا ۔راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کیں ، بہت ساری ریاستی تنصیبات کو تباہ کیا گیا،ملک کو مالیاتی نقصان ہوا۔اُن کی مانگیں نہ صرف تسلیم کی گئیں بلکہ اُن کو فوج نے گھر کے لیے واپسی کا کرایہ بھی دیا ۔پھر ہم کس انصاف کی بات کرتے ہیں جو آپ پر تنقید کرے تو غلط اور آپ کی طرف سے کرے تو ٹھیک؟؟
8اپریل 2018جلسہ میں PTM کی قیادت کاموقف
پاکستان کی فوج ہمارے اہم اداروں میں سے ایک ادارہ ہے اس لیے ہم پوری طرح سے اس کی اہمیت وافکار کو قابلِ احترام سمجھتے ہیں،کیونکہ اس ادارے کی قیادت سماجی،معاشی ،سیاسی اور مذہبی تعلقات میں سب سے زیادہ زورآور ہے ۔ہر سال 14اگست آزادی کے دن پر ہمیں اتنی محنت کے ساتھ تمام دردوتکلیف، غربت ،بے روزگاری،ذلت،دہشت گردوں اور امریکہ کے ڈرون حملوں اور جنگ کا خوف برداشت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے قومی ترانہ یادکرواتی ہے ، گلیوں ،محلوں،دیہاتوں،قصبوں بازاروں،شہروں، صوبوں، اور مرکزی سطح پر تزئین وآرائش کروائی جاتی ہے لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ بھوکا بندہ بھی پیار کرنے کے قابل رہتا ہے ،ہم سے خالی ہمارے آشیانے نہیں چھینے گئے بلکہ آشیانوں میں گوشہ نشین ہونے والوں کی زندگیوں کو بھی چھینا گیااور جو بچ گئے وہ زندہ لاشیں بن چکے ہیں باقی ماندہ ایک دوسرے کے سہارے آج پشاور پہنچے ہیں اور کل پاکستان کے کونے کونے تک پہنچیں گے ۔کبھی بھی کوئی ریاست قومیت اور حب الوطنی کو طاقت کے بلبوتے پر عوام کے ذہن میں نہیں ڈال سکتی اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو مکمل حقوق اور برابری دی جائے ۔
اگراِن حقوق کی مانگوں کے عوض آپ ہمیں ملک کا غدار کہتے ہیں تو پھر ہم بھی پوچھتے ہیں کہ ماضی میںآپ نے امریکہ کے قائم مقام کے طورپر روس کے خلاف جنگ کرتے ہوئے افغانستان کے اند ر جہادی گروپوں کی سرپرستی کیوں کی ،پاکستان میں صوبوں کی سطح پر سیاسی پریشر گروپس کی تشکیل کرکے ہر سول حکومت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا یا کرایاگیا ۔
اِس ملک میں جس نے بھی حق اور سچ کی بات کی اُسی کو دھر لیا گیا کہ یہ ملک غدار ہے چاہے وہ باچا خان ہو یا فیض احمد فیض ،حبیب جالب، حسن ناصر،عاصمہ جہانگیر۔ جبکہ فاطمہ جناح کو بھی غداری کا لقب دیاجا چکا ہے۔ اور یہ عمل خاص اُس وقت دہرایاجاتا ہے جب ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے طریقہ کار اور لوگوں کو بے جا تنگ کرنے کے خلاف آواز اُٹھا ئی جاتی ہے تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں پر غداری کا لیبل لگا دیتی ہے اور میڈیا کے ذریعے زیادہ تشہیرکرواتے ہوئے عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہمیں چھوڑ کر باقی سب جوبھی ہماری دولت،لوٹ مار، سامراج کے ساتھ یاری باشی پر بات کرے گا وہ غدار ٹھہرا ؟؟؟؟؟؟؟
موجودہ PTM کی تحریک اور خاص طور پر 8 اپریل کے جلسے کو دیکھ کر کچھ دانشواروں نے یہاں تک کہ دیا ہے کہ پاکستان کی 1971میں تقسیم کے بعد یہ وہ تحریک ہے جو پورے معاشرے میں جوالامکھی کی طرح پھیل چکی ہے۔ اس وقت فوج کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی آباد کاری کے لیے عربوں روپے خرچ کر رہی ہے تاکہ اُن کو بہتر رہائش دی جا سکے لیکن لوگوں کا موقف مختلف ہے وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک اُن کے گھروں پر فوج کا قبضہ ہے اور ہشت گرد سرِ عام دندناتے پھر رہے ہیں ۔
میڈیا کا کردار
چونکہ سرمایہ داری کے اندر میڈیا کا کردار ہمیشہ روپے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اس لیے اس ملک کے محنت کشوں کو میڈیا کے حوالے سے اپنے اندر کی تمام خوش فہمیوں کو نکالنا ہو گا کہ میڈیا اُن کی جدوجہد میں کوئی کردار ادا کرے گی ،ہاں ! اِن میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے محنت کش ہمارے ساتھی اور ہمدرد ہو سکتے ہیں۔
یہاں پر تو اگرحکمران مرغے یا کتے لڑانے کے لیے میلے کا اہتمام کریں تو تب بھی میڈیا اچھل اچھل کر خبریں چلاتا ہے ۔پتہ نہیں وہ نئی نسل کو اِس خون خوار میلے سے کیا سبق دیناچا ہ رہے ہوتے ہیں ۔لیکن چار ماہ سے پشتون تحفظ تحریک ہزاروں کی تعدد میں سڑکوں پرعوام کے جینے کا حق مانگ رہی ہے پر میڈیا نے نا ہونے کے برابراس تحریک کی کورج کی ہے بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہ دیا کہ یہ بھارتی ایجنٹ ہیں ۔
اس وقت میڈیا انتہائی دائیں طر ف جھکاؤمیں ہے تمام وضاحتیں فاٹا میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بجائے ریاست کے خلاف نعرہ ڈھونے پر لگا رہی ہے یہ وہ طریقہ کار ہے جو تحریک کی پاپولرٹی کوختم کر کے اجتماعی جدوجہد کوروکنا ہے جو نہ اب یہ میڈیا کر سکتا ہے اور نہ ہی یہ ریاست۔۔۔۔
کچھ میڈیا پر بیٹھے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ اس پشتون تحریک کی بناوٹ صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے ،جو صورت حال کو زیادہ بھڑکنے کی طرف لے کر جارہے ہیں ۔آج فاٹا کا ہر باشندہ یہ پوچھ رہا کہ ہم نے پچھلے 70سالوں تک بہت بڑے پیمانے پر مسائل ہونے کے باوجود بھی پُراعتماد طریقے سے اپیلیں کی ہیں اِن مسائل کو حل کرو ،پُر امن طریقے سے عدم تشدد کے اصولوں پر کار بند ررہتے ہوئے اپنے لیے دادرسی مانگتے رہے ، کبھی ملٹری پر تنقید نہیں کی لیکن آج تک کچھ بھی نہیں بدلا ۔
اس وقت اگر PTMکو سب سے زیادہ نمایا ں اہمیت اور وقار حاصل ہے تو اُس کی بنیادی وجہ قیادت کا غیر معذرت خواہانہ موقف ہے جس میں عام لوگوں کی خود داری کو فوج کی طرف سے مجروح کیا جاتا رہاہے ،ساری پارٹیاں جماعت اسلامی،جمیعت علمائے اسلام ،پی۔ ٹی۔ آئی،پی۔ پی ۔پی اور حتی کہ عوامی نیشنل پارٹی فاٹا کے مسائل پر بات کرتی رہی لیکن آج تک جو سب سے زیادہ حالات کو خراب کرنے والا ایشو ہے وہ جبری گمشدگیاں ہیں جس میں براہِ راست سکیورٹی فورسزملوث ہیں پر کسی بھی پارٹی نے بات نہیں کی اور یہی موقف PTM بڑی دلیری کے ساتھ سکیورٹی فورسز پر تنقید رکھتے ہوئے آگے لیکر کر جا رہی ہے جسکی وجہ سے تحریک کو عوام کے درمیان زیادہ پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔اور دوسری طرف ریاست کی طرف سے مسلسل دباؤ ،دھونس اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں پر کوئی ظلم کے خلاف آواز اُٹھائے اُس کو پہلے لاپتہ ہونے کا اشتہار اپنے اہلِ خانہ کو مہیا کر دینا چاہیے۔
یہ تحریک اب پشتونوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس نے ثقافتی بندھنوں کو توڑ کر باقی ثقافتوں کی محدودیت کے نصاب پر بھی بات کرتے ہوئے کھلے عام کہا کہ پاکستان میں محنت کشوں کے لیے اقدار اور ہیں سرمایہ داروں کے لیے اور ،مظلوم جہاں پر بھی اپنے حقوق کی بات کریں ،سکیورٹی اور چار دیواری کی بات کریں،اُنھیں بِلا رنگ نسل ملک کا غدار قرار دے دیا جاتاہے۔ اب یہ بیانیہ پاکستان ،کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام محنت کشوں کا ہے جس کی وضاحت بلوچوں ، ہزاریوں ،اردو بولنے والوں، سندھیوں ، سرائیکیوں ،پنجابیوں اور کشمیریوں نے پشتون تحفظ تحریک کا ساتھ دے کر کی۔
پی۔ ٹی۔ ایم متحرک پن عوامی تحریک تک
پی ۔ٹی۔ایم کی قیادت جو کہ پہلے مختلف ناموں اور فرنٹس کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں لوکل ایشوز پر بات کرتی رہی اسکی اتنے چھوٹے پیمانہ پر بات کرنا بھی ریاست کو برداشت نہیں تھی اس لیے مختلف اوقا ت میں انہیں تنگ کیا جاتا رہا یہ لوگوں کو اپنے مظاہروں اور جلوسوں میں بلاتے رہے لیکن عوام اپنی تنگ نظری ،روزمرہ کے مسائل،سکیورٹی فورسز کاڈر، دہشت گردوں کی دھمکیوں کی وجہ سے بمشکل بہت تھوری تعدار میں باہر آتے تھے لیکن اِن ساتھیوں کی ان تھک محنت سے ناانصافی کی لہرکو روکنے کے لیے اب اتنے دوستوں کے جتھوں کا ساتھ ملاہے کہ آج یہ ایک دوسرے کی طاقت سے بلعموم پاکستان اور بلخصوض خبیرپختونخواہ میں حوالے کے طور پر جانے جا رہے ہیں ۔ اب یہ تحریک عوامی تحریک کا روپ دھار چکی ہے جس کی بہت ساری مانگیں پوری ہونے کے باوجود بھی مذید رعایت چاہتی ہے۔ ضروری ہے کہ عوامی تحریک کے دوران تمام مانگوں کی ذمہ داری عوامی کمیٹیوں کے ساتھ مل کر پوری کی جائے جہاں پر کم توانائی لگا کر زیادہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اس عوامی تحریک کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ اُسے جمہوری طریقہ سے آگے بڑھایاجائے اور لڑاکا سیاسی طور پر زیادہ سمجھ بوجھ والے دستوں کو فرنٹ پر رکھتے ہوئے باقی محفوظ دوستوں کی سیاسی تربیت کی جائے تب ہی تحریک کے اس عمل کو انارکی اور شکست سے بچایا جا سکتا ہے۔
بائیں بازو کی غلطیاں اور ضرورت
بہت سارے بائیں بازو کی سرکار جو بہت جلدی میں اپنی بڑی عوامی پارٹیاں بنا کر کر بہت ساری دوسری پارٹیوں سے ریڈی میڈ انقلابی اکھٹے کر کے پورژواپارٹیوں پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اور اِس طرح کی تحریکوں کی تاڑ میں رہتے ہیں کہ اُن کے اندر اگر کوئی انقلابی قیادت میں آجائے تو پھر مداخلت کے اصولوں کو داؤ پر لگا کر آزادانہ پارٹی کی بنیاد رکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔بہت جلدی اس طرح کی تحریکوں میں مخصوص قیادت کو پارٹی پریس اور سوشل میڈیا پر پروجیکشن دلواتے ہیں ۔ہمیں یہ عمل پی ۔ٹی ۔ایم کی اس تحریک میں نظر آتا ہے اس لیے ضروری ہے ہمیں جلد بازی اور اپنی آمریت کے جال سے تحریک کی قیادت کو آزاد کرنا چاہیے وہ چاہے پارٹی کی اہم قیادت ہی کیوں نہ ہو ،اُسے پی ۔ٹی۔ایم کی باقی قیادت کے ساتھ جمہوری مرکزیت کے تحت آگے بڑھنا چاہیے۔ہاں ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم تحریک کو جدلیاتی انداز میں دیکھتے ہوئے تحریک میں موجود انقلابی لڑاکا پن اور سیاسی شعور کے تعلق کو سمجھتے ہوئے قیادت کے ساتھ منسلک باقی متحرک کارکنوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کے عمل کو آگے لیکر جائیں جس کے لیے ضروری ہے کہ تحریک کی اگلی سرگرمیوں میں حصہ لیا جائے اور رضاکارانہ طور پر جہاں جس کام کاج میں مدد ہو سکے کی جائے۔جس طرح بورژوا میڈیا کے وار کا جواب دے کر ۔تمام بایاں بازو غلطی کرے گا اگر وہ اس تحریک کو اپنے تابع لانے یا پارٹی کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کرتا ہے ،اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارے پاس خالی قیادت ہو گی عوام نہیں۔ ہماری اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ پاکستان ،کشمیر ، گلگت بلتستان ،میں موجود تمام تحریکوں کو پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ ملائیں تاکہ دیہاتوں اور شہریوں کی حد تک ریاستی تشدد، بے دخلیوں ،کو شکست دی جا سکے کیونکہ پاکستان کا سماج پاپولر تحریکوں کی مانگ کر رہا ہے جو انقلابی تحریکوں کی ریہرسل ہو گی ۔
پی ۔ٹی۔ایم کے ریاستی پالیسوں پر بات کرتے ہوئے:
.1تمام جبری گمشدگان کو رہا کرو اور اس کے بعد جبری گمشدگی کا مطلب کہ ریاست کی فوجی اور سول قیادت اس ملک کو اپنی جاگیر اور عوام کو مزارع سمجھتی ہے۔پروگرام کے اس نکتے کوعوام نے زیادہ سراہا اور ہر جگہ ہاتھ لہر کرحمایت کی۔
.2 لوگوں کو اصل حقیقت سے اُگاہ کیاہے کہ کس طرح ریا ست اور پاکستان آرمی کی پالیساں فاٹا کے اندر ناکام ہوئی ہیں۔
.3 فاٹا کی امن وامان کی صورت حال جو کہ پچھلے دس سالوں سے بہتر بتائی جا رہی ہے ریاست اور پاکستان آرمی 30فیصدتک لوگوں کی بحالی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
.4اس وقت عام لوگوں کے ذہنوں کے اندر سے خوف ختم ہو چکا ہے وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہتے ہیں۔
پی ۔ٹی۔ایم کی قیادت کو اپیل
ساتھیو:جس طرح آپ نے جاں فشانی کے ساتھ ظلم کے خلاف عَلم بلند کیا ہے اُس کی مثالیں اس خطے کی تاریخ نے بہت کم دیکھی ہیں آپ نے جس طرح تحریک کو جنوبی وزیرستان اور ملک کے چپے چپے تک حرکت دی ہے وہ ناقابلِ ستائیش ہے ضروری ہے کہ پاکستانی عوام سے مزید سیاسی دوستی مضبوط کرتے ہوئے اس وقت کی وہ مانگیں جو زیادہ ترجیح رکھتی ہیں اُن کے لیے متحرک ہوا جائے لیکن ایک چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ متحرک پن کوئی ہدف نہیں بلکہ ہدف تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کا نام ہے۔ ہدف مروجہ نظام کو کو کمزورکرنے اور انقلابی امکانات کو طاقت دینا ہے جو منظم لوگوں کے بغیر ممکن نہیں اس لیے ضروری ہے تحریک کے دوران عام لوگوں کو آرگنائز کیاجائے جو ہر طرح کی صورت حال سے نمٹنا جانتے ہوں ۔
اس وقت آپ کو چاہیے کہ آپ عوام کو کڑوا سچ بتائیں کہ موجودہ معاشی نظامِ سرمایہ داری اپنی آخری منزل سامراجیت تک پہنچ کراپنی اصلاحات کرنے میں ناکام ہے اس لیے ہماری ساری مانگوں کو پورا کرنا اس جبر پر مبنی نظام کے بس کی بات نہیں ،ضروری ہے کہ لوگوں کو ثقافتی طور پر ہم آہنگ کرتے ہوئے برابری و مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کی جائے جس لیے تمام طاقت جرگوں ، سول انتظامیہ کی بجائے عوامی کمیٹیوں کے پاس ہو ،اس کام کے لیے ایسی عوامی تنظیم کی تعمیر کی ضرورت ہے جس کے مقاصد حال اور مستقبل کے لیے حاصلات حاصل کرنا ہوں جو انقلابی صورتِ حال میں ہر طرح کے غلبے، تسلط اور استحصال کے خلاف جدوجہد کا ہتھیار ہو اور انقلابی صورتِِ حال کے بعد سرمایہ داری کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے طاقت کا ہتھیار ہو ۔
ہم یہ کبھی بھی نہیں کہتے کہ عوامی تنظیم کی تشکیل اس طرح کی تحریکوں میں پہلے سے ہوئی ہوتی ہے لیکن اُس کو تحریک کے اس عمل میں تعمیر ہونا چاہیے ۔ جوجمہوری مرکزیت کے تحت جدوجہد اور طاقت کا ہتھیار ہو ۔اپنے آپ کو حکمتِ عملی میں زیاد ہ سے زیادہ لچکدار رکھتے ہوئے زیادہ بہتر تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والوں کو سامنے لاتے ہوئے قابض نظام کو شکست دینے کی طرف بڑھے۔ قیادت اور عوام کے درمیان اعتماد بحال رہنا چاہیے جس کی بنیاد پر عوام زیادہ سے زیادہ آرگنائز کی جا سکتی ہے۔آپ کو چاہیے کہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھیں، بغیر ثبوتوں کے ایک دوسرے پر کسی بھی قسم کے الزمات کی طرف نہ جائیں چونکہ ایسی تحریکوں کو اندر سے زیادہ سے زیادہ توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے جو زیادہ تر کامیاب رہتی ہے اس لیے ضروری ہے اپنے نظریہ کے ساتھ ہر دن کے عمل کا احتساب ہونا چاہیے۔تنقید کرنے اور برداشت کرنے کے عمل کو قبول کرنا چاہیے ۔یہ کھلا خط ہر اُس انقلابی کے لیے ہے جو پشتون تحفظ تحریک کا حصہ ہے اور ہر جگہ اِس کے مطالبات کی تشہیر کرنے کو تیار ہے ۔ جو کہ میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ! !!!!

SHARE