Home Pakistan سموگ -موجودہ ہوائی آلودگی کی ایک خطرناک شک

سموگ -موجودہ ہوائی آلودگی کی ایک خطرناک شک

SHARE

سموگ کیاہے؟لفظ سموگ کا استعمال پہلی دفعہ 1900ء میں دھوئیں اور دھند کے مرکب کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ یہ دھواں کوئلے اور دوسری کیمیکل اشیاء کے جلنے سے بنتا ہے۔ جب سورج کی روشنی نائٹروجن آکسائڈ اور مستحکم نامیاتی کمپاؤنڈ (VOC) کے ساتھ مل کر رد عمل کرتی ہے تو یہ فضائی ذرات آپس میں مل کر زمینی سطح سے اوپر اوزون یادھواں تشکیل دیتے ہیں جو سموگ کہلاتا ہے۔ماحول میں اعلی سطح پر اوزون کی پرت ہمیں سورج کی خطرناک الٹرایویل تابکاری سے محفوظ رکھتی ہے.۔لیکن جب اوزون زمین کے قریب ہوتی ہے، تو یہ انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔اوزون پھیپھڑوں کے ٹشو کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اور یہ دمہ کی طرح سانس کی کئی خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔سموگ ہوائی آلودگی کی ایک سنگین اور انتہائی موضی قسم ہے ۔ صنعتی علاقوں میں سموگ واضح کثرت سے دیکھی جا سکتی ہے مگراب یہ شہروں میں بھی اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔بہت سے ممالک نے سموگ میں کمی کے لئے کئی طرح کے قوانین ترتیب کئے۔ کچھ قوانین فیکٹریوں میں خطرناک اور بے وقت دھواں کے اخراج پر پابندی لگاتے ہیں تو کچھ جگہوں پر فاضل مواد جیسا کہ پلاسٹک،کاغذ اور پتے وغیرہ کوضائع کرنے کے لیے مخصوص جگہیں بنائی گئی ہیں جہاں دھواں کم خطرناک ہو کر ہوا میں خارج ہو جاتا ہے۔لیکن افسوس کہ پاکستان میں ایسے قوانین تو ہیں مگر ان پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا۔ اس لیے آج ایک بار پھر پنجاب بھر میں سموگ کی چادر نے ہر چیز کو ڈھانپ لیاہے۔ صبح اور شام پھیلنے والی سموگ سے حدنگاہ میں کمی ہونے لگی ہے، لاہور میں 200 مائیکرو کیوبک فی میٹر کے حساب سے سموگ پیدا ہورہی ہے۔اگراحتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو نتائج خوفناک ہو سکتے ہیں۔
اس شدید خطرناک ماحولیاتی وباء کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ وہ سرمایہ دار طبقہ ہے جو اپنے سرمائے میں اضافے کے تناسب کو بڑھانے کے لئے آئے دن نئے نئے کارخانے لگا رہا ہے اور اپنی اس لالچ کی ہوس کو مذید پھیلاتے ہوئے کرہ ارض پر موجود جنگلات کو ،جو اس ماحولیاتی آلودگی کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں،بہت بے دردی سے انکے وجود کا خاتمہ کر رہا ہے۔پاکستانی میٹرولوجیکل تحقیقی ادارے کے مطابق ، حال ہی میں انڈیا میں ہزاروں کسانوں نے اپنی چاول کی فصل کو آگ لگا دی تھی جس کے اثرات اب دونوں ممالک کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اگر ناسا کی جاری کردہ رپورٹ دیکھی جائے تو انڈیا اور پاکستان کے حدبندی کے علاقوں پر سرخ نشانات واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔ پچھلے سال کی طرح اس بار بھی دھند نے پنجاب کے بیشتر شہروں کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اہلِ پنجاب دکھائی نہ دینے کیساتھ ساتھ صحت کی پریشانیوں میں بھی مبتلا ہیں۔ پچھلے سال بھی شہری اسی قسم کی دھند کا شکار رہے اور پچھلے سال کی طرح اس سال بھی واضح صحت کے مسائل دیکھنے میں آئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت کی ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال 15سال سے کم عمر کے تقریباً 6لاکھ بچے مرجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او(WHO) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے ایک ارب 80کروڑ 15سال سے کم عمر بچوں میں سے 93فیصد جن میں پانچ سال سے کم عمر 63کروڑ بچے بھی شامل ہیں، زہر آلود فضا سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ آلودگی دمہ، کینسر کا باعث بنتی ہے اور اس سے بچوں کی نشو و نما اور ذہنی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی مذکورہ رپورٹ عام دنوں کے حوالے سے ہے اور اس امر کی شاہد کہ ہماری فضا اس قدر زہریلی ہو چکی کہ اس میں سانس لینا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک وزنی پیلی سرمئی دھند ہے جو فضا میں جم جاتی ہے اور ماہرین کے مطابق فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں اور درختوں کا بیدردی سے کاٹا جانا صورتحال کو مزید تشویشناک بنادیتا ہے۔اس ماحول کی ہلاکت خیزی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہمارے وہ حکمران ہیں جنہوں نے ماحول کو صاف رکھنے کے لیے درخت لگائے نہیں بلکہ جو تھے انہیں بھی کاٹ ڈالا،اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کوئی انتظامات نہیں کیے اور سب سے قابلِ غور بات کہ جن تھرمل بجلی گھروں سے دنیا چھٹکارہ حاصل کر رہی ہے وہی پاکستان میں لگا کر ماحول کو مذیدآلودہ کیا جارہا ہے۔
کچھ سالوں پہلے صبح کے وقت اکثر دھند سے ملاقات ہوتی تھی اور جیسے جیسے سورج کی کرنیں گرم ہوتی جاتیں کہرہ بھی چھٹتا جاتا اور دس گیارہ بجے تک ہر چیز صاف صاف نظر آنے لگتی۔مگر جب سے کارخانوں اور ٹریفک کا دھواں اور فصل کٹنے کے بعد کھیت کے فالتو ڈنٹھل اور کچرے کو تمیز کے ساتھ ٹھکانے لگانے کے بجائے جلانے کا کام بڑھا ہے تو دھند بھی خود کو ترقی گزیدہ دور کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے ہوئے آلودگی سے مصافحہ کر بیٹھی ہے۔ یہ آلودگی بادل کی صورت ٹھنڈی ہو کر شہروں اور قصبات پر چھتری جیسی تن جاتی ہے اور اس کے ذرات سانس کے ذریعے رگوں میں اتر کر لوگوں کو بیمار کر دیتے ہیں۔یعنی صنعتی و زرعی و ٹریفک کی بے لگام آلودگی نے ترقی کو ہمارے لیے پھندہ بنا ڈالا ہے۔
خیر المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ پانچ برس سے سموگ کا دورانیہ اور دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پہلے دو برس تک محکمہ موسمیات کو سمجھ میں ہی نہ آیا کہ دھند کی یہ کون سی صورت ہے، جب سمجھ میں آیا تو یہ آیا کہ اگر بھارتی پنجاب کے کسان اپنے کھیتوں کو فصل کی کٹائی کے بعد صاف کرنے کے لیے آگ نہ لگائیں تو سرحد پار سموگ نہیں بنے گا۔گذشتہ برس یہ رپورٹ آئی کہ بھارتی پنجاب پر ہمارے موسمیاتی سیارے نے تقریباً ایک لاکھ کھیتوں میں آگ لگی دیکھی۔ اور اس برس اکتوبر کے آخری ہفتے میں چھ ہزار کھیتوں میں آگ لگائی گئی اور نومبر کے وسط تک کئی ہزار مزید کھیتوں میں خریف کا فضلہ نذرآتش کیا جائے گا تاکہ ربیع کے لیے زمین صاف ہو سکے۔ پنجاب کا کسان بھلے اس طرف کا ہو یا اس طرف کا اپنے کھیت پیڑھی در پیڑھی اسی طرح صاف کرتا آ رہا ہے۔ کیونکہ ریاست نے اس کا متبادل مہیا ہی نہیں کیا۔ اگر سموگ کا بڑا سبب کھیت کی آگ کا دھواں ہے تو پھر سموگ کی اصطلاح پچھلے پانچ برس سے ہی کیوں سنائی پڑ رہی ہے۔اس کو تو سو برس پہلے ایجاد ہو جانا چاہیے تھا۔اچھا تو پھر دلی میں سموگ کیوں ہے؟ بیجنگ میں سموگ کیوں ہے؟
دنیا کے 195 ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب کے بعد زمین کا درجہ حرارت 2ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ تجاوز نہیں کرنا چاہیے،کیوں کہ اس سے زیادہ درجہ حرارت ماحول کے لئے تباہ کن ہو سکتاہے۔اس وقت بڑھتی ہوئی سموگ کی ذمے دار ایندھن اور صنعتی عمل سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیذ اور دیگر گیسز ہیں اور اس وقت امریکہ اور چین دونوں ہی سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیذ پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔سموگ سے سب سے زیادہ متاثر لاہور تا گجرات جی ٹی روڈ کے دونوں جانب کی گنجان صنعتی پٹی پر شائد ہی کوئی قطعہِ زمین خالی نظر آئے۔ لگتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی صنعتی پٹی پر 122 کلو میٹر تک ایک ہی شہر دوڑے چلا جا رہا ہے۔جبکہ دوسری صنعتی پٹی شیخوپورہ تا فیصل آباد تک چل رہی ہے۔اگر صرف اسی صنعتی پٹی کے کارخانوں کی چمنیاں بدل دی جائیں؟ سڑکوں پر رواں ’ماحول دوست دھواں‘ چھوڑنے والی گاڑیوں کے جعلی فٹنس سرٹیفکیٹس کے معاملے میں قانونی چارہ گوئی دکھائی جائے تو سموگ میں آدھی کمی آ سکتی ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ انفرادی سطح سے لے کر حکومتوں تک ہمیشہ یہ سننے کو ملا ہے کہ اگر فلاں ایسا نہ کرتا تو یہ نہ ہوتا،جبکہ یہ سب کیا دھرا ان سرمایہ داروں کا ہے،جو دن رات دو دو ہاتھوں سے غریب انسانوں کا خون چوس کر اپنی تجوریوں کا پیٹ کو بھر رہے ہیں۔ خود کو ہمیشہ بری الذمہ قرار دینا اور تمام واقعات سے خود کو الگ کرنا انہیں خوب آتا ہے۔ لہذاانفرادی طور پر ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کا ماحول صاف رکھیں، کوڑے کرکٹ کو آگ نہ لگائیں، خاص طور پر پلاسٹک کی بنی اشیاء کو،بے جا گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا استعمال کم کریں، پیدل چلنے کو اپنی عادت بنائیں،زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔
یہ چھوٹی چھوٹی احتیاطی تدابیر کر کے ہی ہم اس انتہائی خطرناک موسمی آلودگی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ورنہ ماحولیات کی ہلاکت خیزی ہم سے اور ہمارے بچوں سے اُن کا مستقبل چھین لے گی۔

SHARE