Home Featured World شام میں انقلاب اور جنگ کے سات سال

شام میں انقلاب اور جنگ کے سات سال

SHARE

تحریر : فابیو بوسکو
18 مارچ، 2011 کو، شام کے جنوب میں واقع شہر ڈیرہ میں نوجوانوں کے ایک گروہ نے اپنے اسکول کی دیواروں پرلکھا کہ”ملک کے عوام موجودہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں” ۔ جنہیں بعد میں بشارالاسد کی آمریت کے اشاروں پر پولیس نے گرفتار کرکے تشدد کرتے ہوئے قتل کیا ۔ریاست کی طرف سے اس عمل کی لاکھوں شامیوں نے نہ صرف مزامت کی بلکہ اپنے آپ کو گلیوں و کوچوں میں انقلاب کے نعرے کے ساتھ منظم کیا۔
1970 ،کے بعد بشارالاسد آمریت کے خلاف یہ سب سے بڑی انقلابی جدوجہد ہے جو اس وقت جاری ہے ۔یہ جدوجہد بے روزگاری اور بہتر حالاتِ زندگی کے حصول کے لیے ہے ۔جس کے لیے عوام نے سینکڑوں کی تعدارمیں اپنے آپ کو مقامی ہم آہنگ کمیٹیوں میں ملک گیر منظم کیا۔اور پُرامن مظاہروں کے خلاف حکومت کی طرف سے کئے جانے والے سفاکانہ ظلم کے چھ مہینے کے اندرسرگرم کارکنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنا دفاع کرتے ہوئے باقی ماندہ عوام کو اپیل کی اور بدلے میں ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر سے فوجیوں اور رضاکاروں نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ مسلح ملیشیا ؤں کی شکل اختیار کی تاکہ حکومت کا خاتمہ کیا جا سکے۔یہی مسلح عوامی ملیشیا بعد میں فری سیرین آرمی کے نام سے مشہور ہوئی ۔جنہیں بعد میں باغیوں کا نام دیا گیا۔
2013 میں،ان باغیوں نے خود کو (شام میں) زیادہ بہتر اور بلند پیمانے پر منظم کیاتاکہ آمریت کو گرانے میں جو رکاوٹیں ہیں ان کے خلاف محاذ آرائی کی جائے۔اور اس طرح جہاں اِن باغی ملیشاؤں کے خلاف شام ،ایران اور روس کی افواج کے کاروائیاں شروع کیں وہاں لبنان کی مزاحمت کار جماعت ’’حزب اللہ‘‘ کو بھی وقتی طور پر اسرائیل کے خلاف مزاحمت روک کر باغیوں کے خلاف کاروائیوں کو تیز کرنے کے لیے لایا گیا۔دوسری طرف سعودی عرب ،قطر اور ترکی اس انقلابی جدوجہد کو اصل آزادی’’ جمہوری انقلاب ‘‘کے مقصد سے ہٹانے کے لیے داعش کو عوام پر مسلط کروانے کی کوشش کرتے ہوئے باغیوں اور کرد ملیشاؤں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔اس عمل سے نہ صرف آمریت کو بچایا اورطاقت دی بلکہ بڑے پیمانے پر شام کے لوگوں کو تقسیم کیا۔لاکھوں شامیوں کو اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور کیاگیا جس کے نتیجے میں اب پناہ گزینوں کا شدید بحران ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔
2015 میں، روسیوں نے آمریت کو بچانے کے لئے ملک پر چڑھائی کر دی۔روس فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے شامی ہوائی بازوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بہانے دن رات ”باغی” علاقوں پر بم دھماکے کئے ۔بڑے پیمانے پر گاؤں اور شہروں کو تباہ کردیا گیا ۔انقلاب کی شروعات کے بعد سے اب تک نصف ایک لاکھ سیرین ہلاک ہو چکے ہیں۔جن میں سب سے زیادہ روسی ہوا ئی حملوں میں ہلاک ہو ئے۔
اس دوران، امریکی حکومت نے سیرین ڈیموکریٹک فورسز (SDF) کی سربراہی میں کردش سیرین پارٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ امریکیوں نے انہیں ”دہشت گردی کے خلاف جنگ” کی بنیاد پر مسلح کیا۔جب کہ اس کا اصل مقصد شام کے تیل اور بجلی کی پیداوار کو کنٹرول کرنا تھا۔
اب 2018 میں روس، امریکہ، ایران، ترکی، حزب اللہ، عراقی گروپ داعش ، اسرائیلی فضائیہ کے حملوں اور بہت سی غیر ملکی فوجی طاقتوں کی طرف سے ملک پر کئے گئے حملوں کی وجہ سے، بشار الاسد کی آمریت طاقت میںآئی ہے۔شام کے باہربھی، بین الاقوامی اور علاقائی طاقتیں آمریت کی بحالی چاہتی ہیں اور ملک کے اثر و رسوخ والے علاقوں میں اس کی برتری کو ترجیح دیتی ہیں۔
ملک کی بائیں بازو کی زیادہ تر تنظیمیں آمریت کی حمایت کرتی ہیں یا پھر غیر جانبدار ی کا مظاہرہ کرتی ہیں،اور ایک بڑی ابھرتی ہوئی بین الاقوامی یکجہتی کی انقلابی تحریک کی ابتدا کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
اس کے باوجود، زیادہ تر آبادی آمریت کی مخالف ہے۔ اوراب تک باغیوں نے شام کے 11 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔شامی انقلاب، اب تک اکسیویں صدی کا اہم انقلاب ہے۔
بشار الاسد اور تمام غیر ملکی آرم فورسزکا بائیکاٹ!
شامی کارکنوں کی حکومت کی بنیاد مقامی معاہدے کی کمیٹیوں اور باغی ملیشیا ؤں پر ہونی چاہیے!
شام کے عام لوگوں نے آمریت اور تمام غیر ملکی فوجی قوتیں جنہوں نے ملک پر حملے کیے ہیں،کا سامنا کیا ہے۔ان غیر ملکی افواج کو نکالنے اور آمریت کو ختم کرنے کے لئے، شامی باغیوں کو ایک نئی قومی ہم آہنگ کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو مقامی کمیٹیوں اور باغی
ملیشیا ؤں کو متحد کرے۔یہ کمیٹی صرف شام کے کارکنوں کے مفادات کی نمائندگی کرنے کے لئے ہو جو علاقائی اور عالمی طاقتوں سے مکمل آزاد ہو۔
اس کے علاوہ، کمیٹی کو کردش آبادی کے ساتھ اتحاد قائم کرنا پڑے گا،کردش بشار اسد سے نفرت کرتے ہیں اوراپنے حقِ خودارادیت کے لئے لڑتے ہیں۔تاہم،(PYD) نے آمریت اوراقوام متحدہ کے ساتھ اتحاد کرنے کی کی غلطی کی۔ان میں سے کوئی بھی حقِ خودارادیت کا دفاع نہیں کرتا۔کمیٹی کو حقِ خودارادیت کی ضمانت دینے اور کردوں کو انقلاب کی جانب لانے کے عزم کو فروغ دینا ہو گا۔
باغیوں کو بھی فلسطینیوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہو گا ، گولان ہائٹس میں اسرائیلی قبضہ کے خلاف جدوجہد دوبارہ شروع کرنے کے لئے خود کو پھر سے منظم کرنا ہو گاجسے بشا الاسدکی آمریت کی طرف سے ختم کر دیاگیا تھا۔
انٹرنیشنل ورکرز لیگ (IWL-FI) شام کے انقلاب کی حمایت کرتی ہے اور ان کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی میں پیش پیش ہے۔

SHARE