Home Pakistan صحت اور نیا سالانہ بجٹ2021

صحت اور نیا سالانہ بجٹ2021

SHARE

اقتصادی سروے 2021 میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق،گزشتہ کئی سال سے پاکستان صحت کے شعبے میں ضرورت سے کہیں کم خرچ کر رہا ہے۔جس کی نشاندہی عالمی ادارہ صحت بھی کر چکا ہے۔
اس سال پاکستان اپنی جی ڈی پیGDP کا ایک معمولی حصہ،صرف 1.2 فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کر رہا ہے جبکہ ڈبلیو ایچ او WHOنے جی ڈی پی کا 5فیصد اس سیکٹر پر خرچ کرنے کی سفارش کی تھی۔
تاہم، موجودہ اعداد و شمار 2017-18کے (جی ڈی پی کے 1.2 فیصد) سے قدرے زیادہ ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے مجموعی طور پرصحت کے اخراجات 14.35 فیصد بڑھ گئے جو گذشتہ سال 421.78 ارب روپے تھے اور جو رواں سال 482.27 ارب روپے ہوگئے ہیں۔رواں مالی سال کے دوران، وفاقی حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت صحت کے 71 منصوبوں کے لئے 20.194 ارب روپے بھی مختص کیے ہیں۔جبکہ موجودہ طے شدہ بجٹ ان منصوبوں کے مکمل ہونے کے ساتھ بالکل مطابقت نہیں رکھتا ہے۔
حکومت نے صحت کی سہولیات، سیوریج سسٹم، پینے کے پانی کی فراہمی، اور تعلیم کو اپ گریڈ کرکے کوویڈ 19 وبائی بیماری کے اثرات کو کم کرنے کے لئے 70 ارب روپے کا ہیلتھ کیئر پروگرام متعارف کرایا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اتنے کم بجٹ میں اتنے سارے منصوبے کس طرح مثبت نتائج دے سکتے ہیں؟
دوسری طرف دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں، پاکستان میں پیدائش کے وقت، بچوں کی اموات کی شرح اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات اور آبادی میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اقتصادی سروے 2021 کے مطابق، بین الاقوامی گروپوں کی مختلف رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں گزشتہ کچھ سالوں میں غذائی قلت کے بہت زیادہ واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ 40فیصدبچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 29فیصد اپنے اوسط وزن سے کم ہیں۔ اسی طرح، ملک میں تقریباً نصف سے زیادہ 57 فیصدنوعمربچیاں اور 42فیصدخواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
ملک میں لمبے عرصے سے جسمانی نشونما، علمی ترقی، اسکولنگ اور صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ہر سال جی ڈی پی کے 3 فیصد (7.6 بلین ڈالر) کے ضیاع کے ساتھ غذا کی معاشی لاگت زیادہ اور مستقل ہے۔
ملک کی تقریبا 18 فیصد آبادی (38 ملین) خوراکی عدم تحفظ سے دوچار ہے۔ گذشتہ سال کے دوران ملک میں ہیلتھ ورکرز کی تعداد میں بھی اضافہ سامنے آیا ہے۔جس سے یہ واضع ہوتا ہے کہ ان کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی حکومتی بجٹ کا حصہ ہوں گی۔اور اتنے کم بجٹ میں صحت کے ان تمام شعبوں کو سمیٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔نتیجتاًکچھ ہی عرصے میں بڑی تعداد میں ملازمین کو فارغ کرنے کے سوا حکومت کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ہمیشہ کی طرح موجودہ بجٹ بھی وقت کے ساتھ ساتھ عوام دشمن پالیسیوں کو ننگا کر کے ہمارے سامنے لے آئے گا،جو کہ آج بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
سب سے بڑھ کر اس وقت،کورونا وباء کے بعد ملکی بجٹ میں وباء سے نمٹنے کیلئے صحت کے شعبے میں اضافی بجٹ درکار تھا،اور جس کا مطالبہ ہم پہلے سے ہی کرتے آئے ہیں کہ آئندہ بجٹ میں ویکسین سے لے کر وینٹیلیٹرز،اضافی ضروری ادویات اور ایمرجنسی فنڈز کو شامل کیا جائے۔مگر لگتا ہے کہ اس بار پھر ریاست اپنی ذمہ داری اپنے کاندھوں سے اتار کر ملک کو، ہمیشہ کی طرح بین الاقوامی امداد کے سہارے چھوڑ رہی ہے۔

SHARE