Home Special صرف سوشلزم ہی صحت اور سائنس کو سرمایہ داری کے چنگل سے...

صرف سوشلزم ہی صحت اور سائنس کو سرمایہ داری کے چنگل سے آزاد کرواسکتا ہے!

SHARE

نیوکرونا وائرس (COVID-19) وبائی مرض بلا روک ٹوک جاری ہے۔ یو این او UNOنے اعلان کیا کہ یہ مسئلہ ”apocalyptic proportions”(ایک الہامی بیماری جس کے خاتمے کا علم نہیں)کی صورت اختیارکرسکتا ہے۔ اس تحریر کے لکھتے وقت، اس سیارے یعنی زمین پر متاثرہ افراد اور اموات بالترتیب،1,074,253 اور56,987سے تجاوز کر چکی ہے۔ اٹلی میں لگ بھگ14,681 اورسپین میں 10,935 اموات ہو چکی ہیں۔ انفیکشن کی تعداد کے بارے میں، ڈبلیو ایچ اوWHO نے نئے زلزلے کا مرکز امریکہ کے ہونے کے امکان کی نشاندہی کی ہے، جس میں 245,413 سے زیادہ متاثر اور 6,054 کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔

موجودہ حالات ایک ڈرامائی تصویر پیش کررہے ہیں،جس میں دنیا بھر کے تمام علاقوں میں ہونے والے متوقع اور غیر متوقع امکانات شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا میں سب سے آخری بار وباء پھیلنے کا سبب ایبولا تھا،جو مغربی افریقہ میں مرکوز تھا۔ اس انتہائی متعدی بیماری کی روک تھام کے لئے دو سال لگے اور یہ تقریبا 11,000 اموات کا سبب بنی۔ یہ تعداد COVID-19 سے کافی کم ہے، جو تین یا چار ماہ پہلے سے پھیل چکا ہے۔
سنگین کیسز میں، خاص طور پر ساٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر والے افراد، یا پہلے سے وائرس میں مبتلا لوگوں میں، COVID-19 سنگین نمونیا کا سبب بنتا ہے۔جس میں مکینیکل وینٹیلیٹرز سے لیس انتہائی نگہداشت یونٹوں (آئی سی یو) میں فوری طور پر اسپتال میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنیادی سمجھے جانے والے طبی آلات میں، یہ سامان کرونا وائرس کی وجہ سے سانس کی ناکامی سے نمٹنے میں نہایت اہم ہے۔
اٹلی کے ہسپتالوں میں سانس لینے والی مشینوں (ونٹیلیڑز) کی کمی، وبائی بیماری سے پیدا ہونے والے مطالبے کے پیش نظر،صحت کے نظام کے بُری طرح گرنے کے تناظر میں، ایک ایسا مرکزی عنصر تھا کہ جس کی وجہ سے میڈیکل ٹیموں کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ زندہ رہنے کا موقع کس کے پاس ہوگا اور کس کے پاس نہیں۔اور یہ صورتحال مارچ کے اوائل میں اتنی زیادہ تھی کہ، سنگین بیمار مریضوں کے انتہائی نگہداشت کے لئے داخلہ یا عدم داخلہ کے لئے ایک عمر کی حد مقرر کی گئی تھی۔ ہزاروں افراد کو صرف اپنے ہی عقیدے پر بغیر ٹیسٹ کئے چھوڑ دیا گیا، اور ایسی ہی دیگر وجوہات کے ساتھ، یہ Eurozone(یورپی یونین کے اُن ممبر ممالک کے ذریعے تشکیل دیا گیا معاشی خطہ جس نے یورو کو اپنایا ہے) کی تیسری بڑی معیشت میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی اعلی شرح کی بھی وضاحت کرتا ہے۔

وینٹیلیٹرز کا کاروبار:

جیسا کہ سرمایہ داری کے کسی بھی بحران کی طرح، عالمی بورژوازی اب کی بار بھی کوشش کرے گی کہ پرولتاریہ اور مظلوم طبقات کے پسینے اور موت سے اس نقصان کی قیمت ادا کرے۔ پیٹی بورژوازی اور شہری درمیانی طبقے کے ایک حصے کو بھی یقینی طور پر بھاری دھچکا لگے گا۔ یہاں تک کہ املاک کی ملکیت رکھنے والے طبقے کے ایسے گروہ بھی ہوں گے جن کو نفع کی شرحیں نہیں مل پائیں گی۔ اس بحران سے پولرائزیشن میں اضافہ ہوگا، جو COVID-19 سے پیدا ہونے والے بحران کی پیش گوئی کرتا ہے کیونکہ اس سے براہ راست یہ صورتحال پیدا ہوجائے گی کہ کون ہارتا ہے اور کون جیتتا ہے، کون زندہ رہتا ہے اور کون مر جاتا ہے!
یہ بھی کم سچ نہیں ہے کہ دنیا کے بورژوازی کا ایک بڑا حصہ لاکھوں انسانوں کی زندگی اور موت کے بارے میں منصوبہ بندی کرکے بے حد سرمایہ بنائے گا۔
یہاں پرامریکی کمپنیوں کی زیرقیادت طاقتور دواسازی کی صنعت کا تذکرہ نہ کرنا غیر مناسب ہو گا، جس کو ایک اندازے کے مطابق 2023 تک ڈیڑھ ارب ڈالر کا منافع ہوگا اور ان ٹائکونز کے لئے آنے والے وقت میں کوئی بحران نہیں ہے!
کرونا وائرس کے موجودہ بحران سے متعلق ہم یہاں ٹیکنالوجی کی ترقی اور پیچیدہ طبی آلات جیسے،وینٹیلیٹرز کی تیاری کے لئے وقف صنعت کے کچھ پہلوؤں کی بات کریں گے۔
آئیے ایک قریبی مثال سے شروع کرتے ہیں: ارجنٹائن میں، مرکزی مقامی پروڈیوسر کوردوبہ سے TECME ہے۔ کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس مطالبہ کو پورا کرنے کے تمام ضوابط کو پورا کرتی ہے جو کرونا وائرس کے بحران سے تیزی سے بڑھتی ہوئی 300 فیصد کے لگ بھگ بڑھ گئی ہے۔ ICU میں استعمال ہونے والے وینٹیلیٹرز کی مارکیٹ مالیت،000 20, اور 40,000 ڈالر کے درمیان ہے۔ لیکن اوسطا 25,000ڈالر ہے،جو کہ ماڈل پر منحصر ہے۔ اس اندازے سے اس شعبے کو ہونے والے منافع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ فوربس (Forbes)میگزین کے مطابق، ٹیکنٹ گروپ کے مالکان، کاروباری شخصیات، پولو اور اس کے بھائی جیانفیلس روکا، ارجنٹائن کے سب سے امیر آدمی ہیں، جن کی دولت تقریبا 4.1 بلین ڈالر ہے۔ اگر ان کے اثاثے یہ کہتے ہوئے ضبط کرلئے جائیں کہ موجودہ وبائی مرض سے نمٹنے کے لئے یہ دستیاب کر دیئے گئے ہیں تو تقریباً 164,000وینٹیلیٹرز خریدے جاسکتے ہیں۔ سوچیں اگر معاشرے کی اکثریت کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ وسائل مہیا کردیئے جائیں تو جان بچانے کے لئے کتنا کام لیا جاسکتا ہے؟
آئیے اب بڑی مچھلیوں کی مثالوں کی طرف چلتے ہیں۔ ہیلتھ کیئر، جنرل الیکٹرک (GE) کے ہیلتھ ڈویژن کے ایک ایگزیکٹو نے کہا کہ”جیسے جیسے وبائی بیماری پھیلتی جارہی ہے، طبی سامان، خاص طور پر وینٹیلیٹرز کی اشد طلب بڑھتی جا رہی ہے،”۔ یہ ایک مکمل تیار شدہ ملٹی نیشنل ہے۔ جس کی فیکٹریاں دن میں 24 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ 2018 میں GE کے 121 بلین ڈالر کے 16 فیصد سے زیادہ کاروباری منافع کے لئے GE ہیلتھ کیئر ذمہ دار تھی۔ اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ COVID-19 کے پھیلاؤ سے ان منافع میں کتنی تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اس سلسلے میں، جی ای نے 24 مارچ کو فورڈ(Ford) اور 3 ایم (3M)کے ساتھ وینٹیلیٹرز کی پیداوار بڑھانے کے لئے ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
اس کاروبار سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھنے والی ایک اور کمپنی ڈچ کمپنی فلپس (Dutch Company Philips)ہے، جس نے سن 2014 سے 2018 کے درمیان میڈیکل آلات کی مارکیٹ کی طرف رُخ کیا۔ اور اس کا یہ فیصلہ کچھ غلط بھی نہیں تھا: اس کے منافع میں 169 فیصد اضافہ ہوا، کچھ 1.1 بلین یورو کے قریب!
وینٹیلیٹرز بنانے کی دوڑ نے سویڈش کے کارخانہ دار گیٹینجGetinge اور فرانسیسی صنعت کارAir Liquide ایئر لیکائڈ کو بھی اپنی پیداواری منافع میں اضافہ کرنے کا باعث بنایا۔ جرمنی کی میڈیکل ٹیکنالوجی کی دیو ہیکل کمپنی، ڈریگر Drager نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بھی اپنی پیداوار کو دوگنا کردیا ہے۔ لوسن اسٹائنLowenstein کمپنی نے اعلان کیا کہ وہ جرمنی کی حکومت کے جاری کردہ 6,500 یونٹوں کے آرڈر کی ضمانت دے گا، جو عوام کے پیسوں سے ادا کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ کمپنی فروری کے بعد سے وینٹیلیٹرز کی پیداوار میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے، جب چین میں وبائی صورتحال بدترین تھی اور عالمی سطح پر کرونا کا پھیلاؤ تقریباً بڑھ چکا تھا۔
اسی تسلسل میں، وہ کمپنیاں جو طبی شعبے کی پیداوار نہیں کرتیں وہ بھی اپنے نفع میں اضافے کے لئے وبائی مرض کے بحران کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس شعبے کی طرف لوٹ مار کے لئے نقل وحرکت کی کوشش کر رہی ہیں۔ طاقتور آٹوموبائل صنعت، جس کی زیادہ تر صلاحیت مستحکم ہے، وینٹیلیٹرزاور طبی آلات کی تیاری کے لئے سمت بندی کرتی نظر آ رہی ہے۔
یہ تمام معاملہ ہے، جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ، فورڈ، جنرل موٹرز، ٹیسلا، اور دیگر کمپنیوں کے بارے میں، جو اب وینٹیلیٹرز کی تیاری کے لئے صدر ٹرمپ کی ”گرین لائٹ” بھی رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپ میں، فرانسیسی کار ساز کمپنی PSA نے کہا کہ وہ اس شعبے میں داخل ہونے کے لئے ”انتہائی سنجیدگی سے مطالعہ کررہی ہے کہ آیا یہ ممکن ہے یا نہیں ”۔ اسی طرح جرمنی کے ووکسویگنVolkswagen اور ڈیملر Daimlerبھی آپشن دیکھ رہے ہیں۔دوسری طرف متاثرہ اٹلی میں، فیراریFerrari اور فیاٹ کرسلرFiat Chrysler آٹوموبائل کمپنیز اس بازار میں داخل ہونے کے بارے میں سب سے بڑے مقامی فین fan بنانے والے فیکٹری سے بات کررہے ہیں۔
دیگر کمپنیاں نئے ماڈل اور یہاں تک کہ تھری ڈی پرنٹنگ کے ڈیزائن کے خیال پر غور کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈچ Dutch کمپنی وینٹیلیٹر والوز تیار کرنے کے لئے اس طرح کی پرنٹنگ پیش کرنے پر کام کر رہی ہے۔
اس طرح، جب کہ ہزاروں افراد روزانہ مرر ہے ہیں اور مٹھی بھر اجارہ دار وبائی امراض کا قیاس کررہے ہیں اور اپنا نفع بڑھا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاستیں، اپنی حکومتوں کے ساتھ، عوام کے پیسوں کا استعمال کرکے، انہیں ہر طرح کے ہتھ کنڈے استعمال کرکے، اپنے کردار کو بھرپور منافع حاصل کرتے ہوئے نبھا رہی ہیں۔
مکینیکل آلہ تنفس(مصنوعی سانس کا آ لہ) بنانے کا کاروبار، جو صحت کے شعبے میں پیداوار کو کنٹرول کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایک بہت بڑے کمپلیکس کا صرف ایک حصہ ہے،جو ظاہر ہو رہا ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک کہ سرمایہ داری کو ختم نہیں کیا جاتا۔پھر بہت ہی کم لوگوں کا منافع لاکھوں کی زندگیوں سے بالا ہوگا!

تمام سنگین حالات کے لئے انتہائی نگہداشت والے بستر یا خصوصی اہلکار نہیں ہوں گے!

آلہ تنفس respiratorsکی موجودہ صورتحال کمی کی کے علاوہ، ہر آئی سی یو بستر کو سنبھالنے کے لئے تربیت یافتہ اہلکار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اینستھیٹسٹسٹ(بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر)، ریسکیوورکرز اور فرانسیسی نیشنل یونین کے نمائندے کے مطابق COVID-19 کے مریضوں کی سانس کی بحالی کے لئے resuscitation protocols کو انکے پیٹ پر رکھنا پڑتا ہے، اور ”ایسا کرنے کے لئے پانچ افراد کی ضرورت ہوتی ہے”۔اور اس کے لئے یقینا انہیں حفاظتی سازوسامان جیسے ماسک، چشمے، دستانے، اور جراثیم کش پیشہ ور سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سامان جو آلہ تنفسrespirators سے کہیں زیادہ سستا ہے، مگریورپ میں اس کی بھی قلت ہے۔
محنت کش طبقے کو یہ جان لینا چاہئے کہ جب تک وبائی مرض سے نمٹنے کے لئے آلہ تنفسrespirators اور طبی سامان کی پیداوار اور فراہمی نجی شعبے کے ہاتھ میں رہتی ہے، تب تک ایک عمومی قلت ناگزیر ہے۔خاص طور پر ہمارے طبقے کے غریب عوام کے لئے، تقریبا ًاس کی مکمل کمی ہوگی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ، سرمایہ داری میں، صحت کوئی انسانی حق نہیں ہے بلکہ ایک ایسی شے ہے جس تک رسائی صرف وہی حاصل کرسکتے ہیں جو اس کی قیمت ادا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے حالات میں، اس طبقاتی نظام کو ختم کرنا زندگی اور موت کی بات ہے۔
برازیل، جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی معیشت میں، 2019 میں 106,800 ہسپتال کے بیڈز دستیاب تھے، جن میں ”عام” اور آئی سی یو بیڈ ز(تقریبا00 60) شامل ہیں، جن میں سے بیشتر ملک کے جنوب مشرق میں امیرترین علاقوں میں ہیں۔کرونا وائرس خلاف مہم کے کوآرڈینیٹر ڈیوڈ یوپ کے مطابق،ریاست ساؤ پالو میں وبائی مرض سے سب سے زیادہ متاثرین ہیں۔ ان میں سے 90 فیصدبستروں پر ایسے مریض ہیں جن کا تعلق COVID-19سے نہیں ہے۔ خود ساؤ پا لو کی حکومت نے انتباہ کیا ہے کہ انفیکشن کا عروج اپریل اور مئی کے درمیان ذیادہ ہوگا جس سے 20فیصدآبادی متاثر ہوسکتی ہے۔ یعنی 9,200,000 افراد۔ لیکن حقائق کے پیشِ نظر صحت کے حکام اس بات سے انکار نہیں کر رہے ہیں کہ یہ شرح 60 فیصد تک پہنچ جائے گی،اور تقریباً 27.2 ملین افراد اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
برازیل ایسوسی ایشن آف انٹینسیوٹ کیئر میڈیسن نے متنبہ کیا ہے کہ، وبائی مرض کے مرکزوں میں، اوسطاً 10,000 باشندوں کے لئے 2.4 آئی سی یو بیڈز کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے۔ یہ نمبر برازیل کے عوامی شعبے کے لئے اوسط سے تقریبا دوگنا کی نمائندگی کرتا ہے، جس پر 80فیصدآبادی انحصار کرتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی صورت میں، تباہی کے حالات کے پیش ِنظر ِ، ساٹھ فیصد برازیلی میونسپلٹیز کے صحت عامہ کے نیٹ ورک میں وینٹیلیرز موجود نہیں ہیں۔
یہ نقطہ نظر اور بھی خراب ہوجاتا ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ COVID-19کے سنگین کیسز میں، آئی سی یو بستر پر مریض کے رہنے کی مدت اس کے متعلقہ مصنوعی وینٹیلیٹر کے ساتھ، 20 دن تک پہنچ سکتی ہے۔
یہ خوفناک تناظر حیرت زدہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ دہائیوں سے نو لبرل ازم اور برازیل کے عوامی صحت کے نظامSUS ایس یو ایس کو جان بوجھ کر ختم کرنے کا براہ راست نتیجہ ہے۔ SUSڈیٹا کے مطابق، پچھلی دہائی میں، بستروں میں ٖ5فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے ایک ابتدائی مطالعے میں اندازہ لگایا ہے کہ برازیل 478,000 اموات کا اندراج کرسکتا ہے۔ برازیل کی خفیہ ایجنسی اے بی آئی این ABIN کی ایک رپورٹ میں اس سے زیادہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ 6 اپریل تک,000 200 تک آبادی متاثر ہو سکتی ہے اور 5,500فراد ہلاک ہو سکتے ہیں، باقی لاطینی امریکہ میں بھی صورتحال اس سے کچھ ذیادہ مختلف نہیں ہو گی۔
ہارورڈHarvard کے ایک مطالعے کے تخمینے کے مطابق، دنیا بھر میں 40 سے 70 فیصد آبادی اس وائرس سے متاثر ہوگی جس کا مطلب تقریباً 3.1 اور 5.5 بلین کے درمیان۔متاثرین افراد کی کُل تعداد میں سے 15فیصد کو ہسپتال داخل ہونا پڑے گا اور تقریباً4فیصد کے قریب دم توڑ جائیں گے۔
یورپ سامراجی سرمایہ داری سے وابستہ بیماریوں سے نمٹنے کے لئے پوری طرح سے نااہلی دکھا رہا ہے۔ امریکہ میں (ممکنہ طور پر وبائی مرض کا نیا مرکز) مزدور طبقہ اور اس کے انتہائی غریب پرت صحت عامہ کے نظام کی عدم موجودگی کے نتائج بھگتیں گے۔ سوسائٹی آف کریٹیکل کیئر میڈیسن کے مطابق، امریکی ہسپتالوں میں 62,000 مکینیکل وینٹیلیٹرز دستیاب ہیں اور اس میں مزید 99,000 شامل ہوسکتے ہیں جو متروک سمجھے جاتے ہیں اور اسٹوریج میں ہیں۔

اگر سامراجی ممالک میں یہ حالت ہے تو ترقی پذیر ممالک میں کیا امید کی جا سکتی ہے؟

مشاورتی کمپنی گلوبل ہیلتھ انٹلیجنس (جی ایچ آئی) کے ذریعہ 2019 کی مردم شماری کے مطابق، تقریبا تمام لاطینی امریکی ممالک میں ہسپتالوں کے بنیادی ڈھانچے کی مکمل کمی ہے۔ اگر ہم مکینیکل آلہ تنفس respiratorsکی دستیابی کے بارے میں اعداد و شمار لیں تو، میکسیکو میں 16,739، ارجنٹائن میں 5,777,کولمبیامیں 6,293 چلی میں 1,737 ہیں؛ بولیویا میں 750, گوئٹے مالا میں 528, پانامہ میں 488، اور کوسٹا ریکا میں 298 موجود ہیں۔ ان اعداد و شمار سے یہ نوٹ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ تعداد COVID-19 کی علامات کے ثابت شدہ خطرے والے گروپس کے 15فیصد مریضوں کی ممکنہ مانگ کے لئے کافی نہیں ہوگی۔ان تمام اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ 80فیصد بستر اور وینٹیلیٹرز پہلے ہی سے دیگر وجوہات کی بناء پردوسرے مریضوں کے لئے مختص ہیں۔
اسی طرح امریکہ کی غریب ترین قوم ہیٹیHaiti کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے، اور COVID-19 ان کے لئے بد ترین ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کی دو تہائی آبادی بغیر کھانے،پینے کے صاف پانی اور صابن تک رسائی کے بغیر، غیر انسانی حالات میں زندہ ہے۔ ہیضہ وہاں کی ایک مقامی بیماری ہے اور اس کی آخری پھیلنے والی وبا میں 10,000 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ غذائیت کی کمی کی بلند شرح، ایچ آئی ویHIV انفیکشن اور تپ دق کی وجہ سےimmunosuppresed(وہ جس کا مدافعتی نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہو) افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
سینٹ لیوکس فاؤنڈیشن اور میری لینڈ میڈیکل سینٹر کی 2018کی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 10,000,000 سے زیادہ کی آبادی کے ساتھ، انتہائی نگہداشت((intensive care کے لئے صرف 90 بستر دستیاب تھے۔ ان میں سے صرف 45 افراد کو وینٹیلیٹرز کی سہولت حاصل تھی۔

وبائی امراض کا سامنا کرنے کے لئے سوشلسٹ پروگرام:

جب تک صحت کی دیکھ بھال سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں ہے مزدور طبقے کے لئے کوئی مؤثر راستہ نہیں ہے۔ ان سرمایہ داروں کے لئے، جن کو اپنی بہترین خدمت ہر ممکنہ صورت میں چاہیے، انہیں لاکھوں محنت کشوں کی جانوں کے ضیاع سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ برازیل کے ایک تاجر، جو ریسٹورانٹس کے نیٹ ورک کا مالک ہے، نے کچھ دن قبل انتہائی بے باکی سے حملہ کرتے ہوئے کہا کہ برازیل ”پانچ یا سات ہزار اموات” روک نہیں سکتا ہے۔ سرمایہ داروں کی یہی منطق ہے۔ ان کے لئے اہم چیز یہ ہے کہ پیداوار جاری رہے،اور منافع بناتے رہیں! باقی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ محنت کش طبقہ، ان کے لئے توپ کے ایندھن کی طرح ہے جو سرمایہ داروں کو ہر صورت محنت بیچ کر انکے سرمائے میں اضافہ کرے گا۔ جیسا کہ ہم نے ایک اور متن میں کہا ہے، کوئی درمیانی گراؤنڈ نہیں ہے: اب یا تو وہ ہیں یا ہم!
لاکھوں لوگوں کی جانوں کے دفاع کے لئے واحد حقیقت پسندانہ اور منطقی راستہ، عالمی معیشت کے اہم پیداواری شعبوں اور حاصلات پر محنت کشوں کا کنٹرول ہے۔ وبائی امراض کے درمیان، خاص طور پر دواسازی کے صنعتی اجارہ داریاں اور وہ لوگ جو طبی سامان، جیسے بستر، آلہ تنفسrespirators، ماسک، عینکیں، دستانے، سینیٹائیزر اور وائرس کا سامنا کرنے کے لئے ضروری اشیاء کی تیاری کے رہے ہیں،
ان صنعتوں کو فی الفور ان مٹھی بھر اجا رہ داروں کے ہاتھوں سے نکال کر محنت کشوں کے کنٹرول میں دیتے ہوئے، سوشلسٹ معاشی منصوبے کی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بہت سے دوسرے اقدامات کے علاوہ سائنسی تحقیق میں بھی بھاری سرمایہ کاری لازمی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو سرمایہ دارانہ مفادپرست حدود سے آزاد کر کے،امیونائزیشن (جسم کو کسی انفیکشن یا نقصان دہ عوامل سے محفوظ بنانے کا عمل)کے لئے ممکنہ متبادل اورآلہ تنفسrespirators کے جدید ماڈلز متعارف کروائے جائیں،جس سے سستے اور بڑے پیمانے پرزیادہ تیزی اور مؤثر طریقے سے پیداوار کو آگے بڑھانا ممکن ہو سکے۔
اسی طرح، جیسا کہ ہم اپنی دیگر اشاعتوں میں اشارہ کر چکے ہیں کہ ایسے اقدامات کے لئے اب لڑنا ضروری ہو چکا ہے،اُس کے لئے جو بے روزگاری یا اجرت میں کمی کے بغیر محنت کش طبقے کے لئے موثر معاشرتی نظام کی ضمانت دے!

SHARE