Home Pakistan عالمی محنت کشوں کی تنظیم ہی سامراج کے ناسور کو شکست دے...

عالمی محنت کشوں کی تنظیم ہی سامراج کے ناسور کو شکست دے سکتی ہے

SHARE

            دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

تحریر: ساجد

محنت کش ساتھیو:
اگرشہدائے مزدور شکاگو کی عظیم قربانیوں اور جدوجہد کو تاریخی تسلسل میں دیکھا جائے تو سرمایہ داری کی تقریباً ایک صدی کے بعد امریکی ریاست شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کا حاصل،جس میں باقی حقوق کے ساتھ کام کے اوقاتِ کار میں کمی کی صورت میں دنیا بھر کے محنت کشوں کو ملا۔لیکن یہ جدوجہد اُس وقت ہو پائی جب 19 ویں صدی کے دوعظیم انقلابیوں کارل مارکس اور اینگلز نے سرمائے اور محنت کے تضاد کو سمجھا اور محنت کشوں کی سیاست کو الگ کرنے کیلئے کمیونسٹ مینی فیسٹو تخلیق کیا۔کمیونسٹ مینی فیسٹو کوبنیاد بنا کر ہی انٹرنیشنل ورکنگ مینس ایسوسی ایشن‘ کی بنیاد رکھی گئی۔انٹرنیشنل کی پہلی جنرل جنیوا کانگریس کا سب سے بڑا قلیل المدت ہدف مزدوروں کے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کرنے کی مانگ تھی۔اس لیے آج مزدوروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی عبوری مانگوں سے لیکر کر جمہوری آزادیوں، انقلاب کے لیے جدوجہد اور انقلاب کے بعد پیداواری قوتوں کے تعلقات ِپیداوار کی منصوبہ بندی کو عملی شکل دینے کے لیے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے مسودے سے اپنے انقلابی کام کا آغاز کریں۔
انقلابی دوستو۔۔۔سرمایہ دارانہ نظام مجموعی طور پر محنت کشوں اور فطرت کے خلاف مسلسل حملے کر رہا ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں میں موجود غریب بستیوں پر ریاستی حملے کروا کر بربریت پھیلانے کے ساتھ 20ویں صدی میں مزدوروں کے حاصل کردہ باقی حقوق کے ساتھ اجرتوں میں بے دردی سے کمی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے محنت کش طبقہ زیادہ تعداد میں انقلابی پسند اور کم تعداد میں مایوسی کی طرف راغب ہو رہا ہے۔جو زیادہ تعداد میں ہیں اُن کے لیے مارکس نے کہا ہے، ”تمارے پاس کھونے کو صرف غلامی ہے“۔یہی پس منظر ہے جس کی وجہ سے اس وقت دنیا کے بہت سارے خطوں میں محنت کش طبقہ انقلابی سرکشی کرتے ہوئے پولیس کا مقابلہ کر رہا ہے۔جس نے آج کل سرمایہ دارانہ دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سال میں کئی بار منی بجٹوں کے نام پر بغیر کچھ حاصلات دیئے پیڑول،ڈیزل، گیس،بجلی،تعلیم،صحت اور خوردونوش کی تمام اشیا کی قیمتوں کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ کیا جاتاہے۔
اگر موجودہ کرونا وائرس کی وبا کی اصل نوعیت کو دیکھیں تو اس کی ذمہ داری سرمایہ دارانہ تجارت اور چینی سرمایہ دارانہ حکومت کی طرف سے بنائی گئیں پالیسیاں ہیں، جن کا ماحولیاتی عدم توازن سے براہ راست تعلق ہے۔جس نے جنگلی جانوروں کی ایک بڑی منڈی وجود میں لائی ہے۔ کرونا وائرسزجن کا مرکز چمگادر تھے۔ اُنھوں نے ماحولیات کو ُپر گندہ کرنے والی عدم مساوات پر مبنی انسانی ترقی کی وجہ سے قدرتی طور پر بدلاؤ کی شکل اختیار کی اور انسانوں کو آلودہ کرنا شروع کر دیا۔سوچئے اگر بغیر منصوبہ بندی کے جنگلات کے بڑے حصے کو ختم کر کے شہروں اور فیکٹریوں کی بنیاد رکھ دے جائے اور گرین ہاوس گیسوں کے اخراج سے کرہ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں بتدیج اضافہ ہوتا جائے تو اس تباہی کے سبب ایسے اورکتنے نئے وبائی امراض پیدا ہو سکتے ہیں جن کے مستقبل قریب میں انسانوں اور دیگر حیوانات پرخوفناک نتائج برآمد ہو ں گے۔
اب موجودہ صورتحال میں سرمایہ دار ہمیشہ کی طرح اپنے ہتھکنڈوں کو بیدردی سے استعمال کرتے ہوئے لاکھوں کو بدقسمت قرار دے کر دولت کمائیں گے۔بے روزگاری،موت، تشدد، بربادی اور سماجی ابتری بڑے پیمانے پر بڑھے گی۔اس وقت سرمایہ داروں کے ذہنوں میں جو منطق چل رہی ہے وہ سائنس کی انتباہ کی پروا کئے بغیر اپنا منافع کمانا چاہتے ہیں اس کے لیے چاہے لاکھوں محنت کش بیمار ہوں یا مر جائیں۔اگر موجود حکومت کے عوامی پیکجزکا موازنہ کیا جائے تو یہ چیز پوری طرح سے عیاں ہے کہ یہ کس طبقے کی حکومت ہے جس نے پوری طرح سے اپنے طبقے کو نوازنے کے لیے برآمدات سے لیکر کر مالیات اورتعمیرات تک بڑے منصوبوں کا اعلان کیا اور محنت کش عوام کے لیے معمولی سی امدادمختص کی گئی اور اُس کے لیے بھی اتنی سخت شرائط رکھی گئیں کہ اگر کسی نے کبھی ادھار لیکر کر پاسپورٹ بنوایا ہو تو وہ بے چارہ بھی احساس پروگرام کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ امداد لینے والوں کی لسٹیں بھی پبلک نہیں کی جا رہیں۔ جس کی وجوہات یقینی طورپرایک طرف حکومت کے وزیر وں کی کرپشن اور دوسری طرف کیا پتہ نادرا کا استعمال کر کے کتنے سفید پوشوں کے شناختی کارڈز استعمال کر کے اپنے عزیز و اقارب کا احساس کیا جا چکاہو گاکیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ بحران کے وقتوں میں حقیقت میں کوئی کام ہو نہ ہو پر کاغذات میں زیادہ دیکھایا جانا چاہیے۔

کیا موجودہ رجیم محنت کشوں کو کوئی رعایت دے گی؟

یقینی طور ہم جانتے ہیں کہ جب سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی ہے کوئی وعدہ پورا نہیں کر سکی حالانکہ ملک سے لوٹے ہوئے مال کی واپسی کی کوئی رپورٹ بھی منظرعام پر نہیں آئی۔صرف گزشتہ حکومتوں کی طرح سیاسی بیان بازی کر کے پیسا لُوٹا جا رہاہے۔محنت کش عوام کو اب یہ سمجھ جانا چاہیے کہ یہ سارے اپنے طبقے کے وفا دار ہیں۔ جب بھی ملک میں محنت کش گزشتہ حکمرانوں کی پالیسوں کی وجہ سے تنگ ا ٓکر اپنی انقلابی سیاست کا سوچتے ہیں تو اُس انقلابی سیاست کو شکست دینے کے لیے انہیں انتخابات کے قوانین کی زد میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ڈھکوسلے سے انہیں عوام کو گمراہ کرنے میں مدد مل جاتی ہے کہ ووٹ کے ذریعے بھی تبدیلی ممکن ہے۔
جمہوری ردِعمل دنیا بھر میں طاقت کا مخصوص توازن قائم رکھنے کے لئے سامراج کے ساتھ مطابقت اختیار کرنے کا نام ہے۔ یہ کارٹر انتظامیہ 977 1کے دور میں اس وقت ہوا جب شمالی امریکہ کے سامراج کو ویتنام میں شکست ہوئی۔بورژوازی نے یہ سبق سیکھ لیاکہ اپنے خلاف تحریکوں کو اصلاح پسندوں اور بورژواتحریک کی قیادت کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے شکست دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور یہ تسلیم کر لیاکہ جبر اور فوجی’کو‘ کا راستہ پہلی ترجیح کے طور پر زیادہ مشکل ہے۔ اس لیے پاکستان جیسے ملک میں بھی اب ایسی ہی حکمت ِعملی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
بورژوا جمہوریتیں عام طورپرایسی رجیمز ہوتی ہیں جن کے نزدیک بورژوا کی بالادستی خاص اہمیت رکھتی ہے۔رجیم حکومت سے مختلف ہوتی ہے وہ ریاست کے اِن اداروں فوج اورعدلیہ کا مخصوص مجموعہ ہے جو حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ جہاں یہ ادارے محنت کش عوام کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہیں وہاں سرمایہ دارانہ جمہوری حکومت کے سیاسی بحران کو کنٹرول کرتے ہیں۔ایک بڑے کھیل کے ذریعے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ حکومت خراب ہے۔ آئیے ایک اور کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ اس طرح عوام کو انتخاب یا ریفرنڈم کے جھوٹے امکا نات کے ذریعے دھوکا دیا جاتا ہے۔اس لیے آنے والے وقتوں میں یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں جمہوریتیں اصلاح پسندوں، مرکزیت پسندوں حتی کہ پیپلز پارٹی کے انقلابیوں کو انتخابات کی جانب متوجہ کرکے ان کے ہراول دستوں کو پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے عہدوں کے ذریعے مزید بدعنوانی کی طرف لے جائیں جوسامراجی طریقہ کار ہم پوری دنیا میں دیکھ چکے ہیں۔

دباؤ اوجبر کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرو:

جبر کئی وجوہ کی بنا پر سرمایہ داری کے حق میں ہوتا ہے:
پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ محنت کشوں کے مابین جنس، غیر مقامی لوگوں کا خوف، دیسی لوگوں کا ڈر، ثقافتی برتری کا استعمال کرکے تفریق پیدا کرتے ہیں جس سے بورژوازی کا تسلط زیادہ آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری وجہ جبر کے استعمال سے نہایت ذلت آمیز اور خطرناک کام کے عوض نہایت کم معاوضے پر کام لیا جاتا ہے۔یہ وہ تعصب ہے جو محنت کشوں کے زیادہ دبے ہوئے حصے کو جدا کرتا ہے اور انہیں اس طرح الگ کر دیتا ہے کہ ان کے لئے جدوجہد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جبر کے خلاف جدوجہد ہی دراصل مزدوروں کو متحد کرنے کی جدوجہد ہے۔اگر دوسرے صوبوں سے آنے والے محنت کشوں میں خوف موجود رہے گا تو مختلف اکائیوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو متحد کرنے کے امکانات ناممکن ہیں۔اسی طرح اگر خالی مردوں کا یونینز پر کنٹرول رہے گا تو خواتین جدوجہد میں کبھی شامل نہیں ہوں گی۔
آج جمہوری شعور پھیلنے کی ضرورت ہے۔ جو تیزی سے سماجی ناانصافی کے خلاف استعمال ہو گا۔جس سے جبر کے خلاف جدوجہد کو وسعت ملے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ انقلابی بنیادوں پر آزدانہ مزدور تحریک کے ذریعے جبر کا مقابلہ کیا جائے کیونکہ اصلاح پسندی کی لہریں جبر کے خلاف جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کے خلاف جدوجہد سے منسلک نہیں سمجھتیں بلکہ وہ جبر کو سرمایہ داری کے اندر ہی رہ کر حل کرنے کا عندیہ دیتی ہیں۔

از سرِ نو تنظیم کا ایک بڑا امکان موجود ہے:

یونین اور سیاسی تنظیمِ نو کا طریقہ پیچیدہ اور اہم ہے۔سرمایہ داری کے محنت کشوں پر جارحانہ حملوں کا ردعمل ضرور ہو گا۔یہ ردعمل یا جدوجہد دفاعی شکل اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ جارحانہ تحریک کی بھی بنیاد رکھ سکتی ہے۔لیکن اس کے زیادہ امکانات موجود ہیں کہ انقلابی قیادت کا بحران اور اصلاح پسندوں کا وجود اس طرزِعمل کو مشکل کرسکتے ہیں۔پرانے تنظیمی اداروں کے بحرانوں کی وجہ سے محنت کشوں کی ٹریڈ یونیز کے اندر مسائل جنم لے سکتے ہیں۔جہاں یہ امکان ہے کہ انقلابی قیادت کی کمزوروی کی وجہ سے نئی تنظیم ِنو میں ترقی محدود ہو سکتی ہے وہاں محنت کش طبقہ بڑی ہڑتالوں کے ساتھ منظر ِعام پر ا ٓسکتا ہے۔ اس لیے ٹرید یوینز کی موجودہ قیادت کے اوپر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ انقلابی قیادت کے روپ میں محنت کشوں کی قیادت کریں گے یا باغی محنت کشوں کی قیادت قبول کریں گے۔
ہم جانتے ہیں گزشتہ کئی عشروں سے یونین بیوروکریسی اورپیپلز پارٹی میں موجود اصلاح پسند سرمایہ داری کے حملوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے مزدوروں کی صفوں میں بڑے پیمانے پر بداعتمادی پیدا کرتے رہے ہیں۔ اس لیے محنت کش طبقہ اُنھیں مسترد کر چکا ہے اور اصلاح پسند قیادت کو مسترد کرنے کا یہ عمل نئی یونین کی تعمیر اور سیاسی متبادل تلاش کرنے سے زیادہ بڑا اقدام ہے اس لیے اب بھی مزدور بڑے پیمانے پر بدنظمی کا شکار رہتے ہیں لیکن یہ بدنظمی دراصل، بیوروکریٹک اور اصلاح پسند قیادت سے مکمل یا نا مکمل علیحدگی کا اظہار بھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ تنظیمِ نو کا پہلا قدم بھی ہے۔
عام طور پر پرولتاریہ ہمیں بدنظمی کا شکار نظر آتا ہے۔ اس لیے ہمیں اصلاح پسندوں اور یونینز بیوروکریسی کے سابقہ حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ تمام دیگر نظریوں اور کنفیوژنز کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ نوجوان پرولتاریہ جو زیادہ استحصال زدہ اور خطرناک صورتحال کا شکار ہے اور سوشل نیٹ ورک کے ذریعے زیادہ معلومات بھی رکھتا ہے،وہ گہرے بیوروکریسی مخالف احساس کامظاہر ہ کرے گا۔
یہ تجربات ایک انقلابی فیڈریشن یا یونائیٹڈ لیبر تنظیم کے فرنٹ کے وجود کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ اجتماع/ملاپ ناگزیر ہے۔ اس منصوبے کی تعمیر کے لیے ٹریڈ یونینز بیوروکریسی، مرکزیت پسند اوراصلاح پسند دھڑوں میں بورژواجمہوریت سے مطابقت اختیار کرنے کے رجحان کے خلاف جہدوجہد کی ضرورت ہے۔اس لیے ضروری ہے موجودہ حالات میں جمہوری مظاہروں کا آغاز کرتے ہوئے محنت کشوں کی تمام پرتوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔

SHARE