Home Working Class Struggles عمر البشیر کی حکومت ختم ہونے کے بعد سوڈانی عوام نے فوجی...

عمر البشیر کی حکومت ختم ہونے کے بعد سوڈانی عوام نے فوجی بغاوت کو بھی مسترد کردیا

جدوجہد اور انقلاب کو سرخ سلام! انقلاب کی کامیابی تک بین الاقوامی یکجہتی تعمیر کرو! ایک شامی با شندے (جو کہ ایک پناہ گزین، انقلابی اور انقلابیوں کے ساتھ روزمرہ رابطے میں ہے) کہتا ہے: ہم ری سائیکل کی ہوئی ردی اور کوڑے کی دوبارہ سے ری سائیکلنگ کو قبول نہیں کرتے... اور وہ بھی ایک ہی دن میں دو حکمران رہنماؤں کی صورت میں!!! ہم صرف آزادی اور اپنی خود مختاری کو قبول کرتے ہیں۔

SHARE

سوڈان کے صدر عمر البشیر، 30 سالہ آمرانہ حکمرانی کے بعدآخر کار سوڈانی عوام کی انقلابی جدوجہد میں شدت کی وجہ سے اپنی حکومت چھوڑنے پرمجبور ہوگئے، سوڈانی عوام نے 8 اپریل کو فوجی ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کیا جو کہ صدر عمر البشیر کی حکمرانی کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوا۔
ان کے عزم اور جرات نے فوج کو بھی مجبور کر دیا وہ کہ ان کے اس آمر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کئے گئے مارچ کوحکومتی ٹھگوں کے خلاف بنیادی سیکیورٹی فراہم کریں، کہ جنہوں نے مارچ کے دوران عوام کی بھیڑ پر گولیاں برسانا شروع کر دی تھیں۔ لیفٹیننٹ جنرل اواد ابنِ اوف،وزیرِ دفاع نے 11 اپریل کو کہا کہ فوجی کونسل دو سالہ عبوری مدت کے لئے ملک چلائے گی۔انہوں نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیکن اب بھی ملک کے بہت سے حصوں میں قیدیوں کو رہا کرنے کی کوشش کرنے والوں پر گولیاں برسائی جا رہی ہے۔فوجی ہیڈکوارٹرز کے باہر سڑکوں پر قبضہ کئے ہوئے،اور ملک بھر میں مظاہروں کے ذریعے مظاہرین نے چندگھنٹوں کے اندر اندر فوجی بغاوت کو مسترد کر دیا۔
سوڈانی انقلاب معیشت کے خاتمے کی وجہ سے اقتصادی اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے: بینک کام نہیں کر رہے، روٹی اور افراطِ زر کی اشیاء کی قیمتیں بہت حد تک بڑھ گئی ہیں، ریلوے کا نظام تباہ ہو کر رہ گیا ہے اور ملک کے بڑے زرعی علاقوں کی زرخیزی میں بھی خوفناک حد تک کمی آئی ہے۔حال ہی میں عمرالبشیرنے سوڈان کی بندرگاہ متحدہ عرب امارات کو ایک بڑی رقم کے عوض بیچی ہے، اس ظالم آمر نے ملک کو سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے۔اورصدر کے اترنے کے بعدفوج نے ایک مہینے کی مدت کے لئے ملک میں کرفیو نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن عوام نے اس سازش کوبہت طاقت کے ساتھ رد کردیا۔
سوڈانی عوام کی انقلاب کی شرائط:
۱۔عبوری حکومت میں کسی بھی فوجی قوت کا خاتمہ۔
۲۲۔ملک چلانے کے لئے”بین الاقوامی برادری”کی کسی بھی طرح کی مداخلت یا مشاورت کو رد کرتے ہیں۔
۳۔فوج پرانقلابی لوگوں کی اطاعت کرنا لازمی ہے۔
۴۔پرانی حکومت سے فوج میں کوئی بھی موجود نہیں ہو گا۔
۵۵۔ سڑکوں پرعام عوام کا قبضہ اور انقلاب جاری رکھا جائے گا جب تک کہ ایک سویلین عبوری حکومت تشکیل نہیں دی جاتی۔
۶۶۔عوام اسلامی تحریک کے فوجی ونگ کی کسی بھی طرح کی شرائط کی پیروی کرنے کے احکامات کوبھی مسترد کرتی ہے۔
۷۷۔دارفور کے علاقے میں جنگ اور امن کا مسئلہ، عبوری حکومت کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔
آمریت کی انقلاب کے ہاتھوں شکست:
عمر البشیرکے دیئے گئے احکامات کی وجہ سے سیکورٹی فورسز نے ان دس ہزار مظاہرین پر حملہ کردیا،کہ جنہوں نے ”کھارتوم“ کی سڑکوں پرمنظم طریقے سے خوراک اور طبی علاج کی غرض سے فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر خیمے لگائے ہوئے تھے اور اس کے قریب کے تمام علاقے پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔ نچلی اور درمیانی سطح کی فوج نے لوگوں کو عسکریت پسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھا اوراپنی مشین گنز سے عوام کی بھرپور حفاظت بھی کی۔
بہت سے فوجیوں کے دوست اور خاندان سڑکوں پر موجود تھے اور شہریوں،بری، فضائی اور عام فوجیوں کے بیچ بہت خوشگوارتعلقات کی آب وہوا تخلیق پا چکی تھی۔ جب بھی کچھ فوجی زخمی ہوتے ٹینک اور فوجی ٹرک اپنی بھاری مشین گنز کے ساتھ چھاؤنیوں کوچھوڑ کرعمر البشیرکے عسکریت پسندوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آگے بڑھ جاتے۔
سیکیورٹی اور ملیشیا فورسز نے اس جنگ میں زرخرید کرائے کے سپاہیوں کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ شامل کیا، جن کی ابتدا 2003 سے (غالباًاس سے پہلے) ہوئی، جب دافور اور نیوباکے پہاڑوں پر رہنے والے لوگوں کے خلاف نسل پرستی شروع کی گئی، کہ جو اس وقت سے اب تک حکومت کے خلاف آزادانہ جدوجہد کر رہے تھے۔حکومت نے 50,000 افراد کو قتل کیا اور 2.5 ملین پناہ گزینوں (اندرونی طور پر بے گھر افراد) اور 100 کلومیٹر تک پھیلے ہوئے پناہ گزین کیمپوں کو پیدا کیا۔2009 سے بین الاقوامی جرائم کی عدالت(ICC) نے عمر البشیر کو مطلوب کیا ہوا ہے، لیکن امریکہ اور یورپی یونین نے انہیں گرفتار کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا،جو کہ قابلِ تشویش ہے۔
یہ مسلح جدوجہد بغاوت کا وہ حصہ ہے جو 133 دسمبر کو اس وقت شروع ہوئی جب طالب علموں نے سڑکوں اور چوراہوں کا باقائدہ طور پر رخ کیا، اور عوام بھی ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے18 دسمبر کو باہر آ گئے۔
انقلابی تنظیمیں فوجی حکومت کو مسترد کرتی ہیں:
خواتین، نوجوانوں اور یونینوں نے دسمبر سے اب تک اس جدوجہدکو، بغاوت کے اہم منتظمین ”سوڈان پروفیشنلز ایسوسی ایشن“ (SPA)کے ساتھ مل آگے بڑھایا ہے،کہ جس نے فوجی ہائی کمانڈ کی ”عبوری مدت” عائد کرنے کی کوشش کوپوری طاقت سے مسترد کردیا ہے۔
سپا(SPAA) جو ڈاکٹروں، اساتذہ اور صحافیوں سمیت تمام پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمائندگی کرتی ہے کہ جس نے اس ابھرتی ہوئی بغاوت کے پیچھے ایک بڑی طاقت کا روپ دھارا اور وزارتِ دفاع کے باہر کیمپ لگا کر مظاہرین کو سڑکوں پر رہنے کے لئے اکھٹا کیا۔
وہ کہتے ہیں ”ہمارانقلاب اپنے مقاصد کی تکمیل تک جاری رہے گا۔صرف عوام اور انقلابیوں کی مرضی کو مکمل طور پر تسلیم کرنا ہی ہمارے دھرنوں اور احتجاج کو ختم کرسکتا ہے۔جس کا مطلب حقیقی جمہوری تبدیلی ہے کہ جس پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے جمہوری سویلین عبوری اتھارٹی کو ریاستی اقتدار کی سر پرستی دی جائے گی۔آج ہمارے دھرنے اور مظاہرے جاری ہیں اور ہماری عوام انقلاب کی حفاظت اور اپنے مقصد کو درست سمت کی طرف لانے کے لئے مزید باہر آئے گی“۔
جنوری 20199 میں آزادی اور تبدیلی کے ایک اعلامیہ پر اتفاق کیا گیا جو بشیر کی آمریت کے مخالف گروہوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر اپنے تمام مطالبات کا ایک مجموعہ ہے۔یہ اعلامیہ نسل پرستوں کی جنگ، بے گھر افراد کے لئے انصاف، ایک پارٹی یا حکومت کے نظام کو ختم کرنے، سوڈانی خواتین کو بااختیار بنانے اور صحت، تعلیم اور ماحول کے لئے مذید ریاستی فنڈ زکی فراہمی کو ظاہر کرتا ہے۔
ان حالیہ واقعات کے بعدبڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے اپنے طریقے سے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنا اور عوام کا دفاع کیا،مثال کے طور پر کچھ مرد اور عورتوں نے آنسو گیس اور پلاسٹک کے بموں کے اثرات سے بچنے کے لئے بالٹیاں سر پر ڈال کرخود کو محفوظ کیا، انہوں نے عسکریت پسندوں کی گاڑیوں کو روکنے کے لئے خندقیں اور عارضی ناکے تعمیر کئے، خواتین مظاہرین نے فوج کو اور کچھ تعداد میں پولیس میں بھی خوراک تقسیم کی،اس بغاوت میں پولیس اور فوج نے بھی با غیوں کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی اور کچھ نے ان کی با ضابطہ طور پر مدد کرنا بھی شروع کر دی ہے۔
سوشل میڈیا پرWhatsApp Women’s Organization کے ایک گروپ میں 400,000 عورتوں نے شاونزم سے متعلق، سماجی اور ذاتی سوالات پر تبادلہ خیال کیا،اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ گروپ ایک وسیع قومی تنظیم میں تبدیل ہو گیا جس نے گورنمنٹ اور پولیس کے مخبروں کو بے نقاب کیا۔
ملک بھر میں لڑائی جاری ہے!
دارفور میں، 122 اپریل کو مظاہرین کے احتجاج کے نتیجے میں مختلف شہروں میں ایک بچے سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے۔ان لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جنہوں نے نیشنل انٹیلیجنس اور سیکیورٹی سروس (این آئی ایس ایس)کی جیلوں سے سیاسی قیدیوں کو آزاد کرانے کی کوشش کی۔
سوڈان کے شہر زالنگی میں صدر عمرالبشیر کے عہدے سے برطرفی کا جشن مناتے ہوئے سیکورٹی افسران نے گولیاں برساتے ہوئے سات افراد کوہلاک اور درجنوں کو زخمی کیا،این آئی ایس ایس کے ارکان کی طرف سے بھی حملے میں 37 افراد شدید زخمی ہوئے۔
12 اپریل کو مرکزی سوڈان کے ڈاکٹروں کی کمیٹی کے مطابق، ہفتے کے روزسوڈان کے شہر خرطوم میں فوجی ہیڈکوارٹروں کے باہر دھرنا شروع ہونے کے بعد، سیکورٹی فورسز اور ‘بٹالین’ (سادہ کپڑے میں مسلح افراد) کی طرف سے 35 افراد کوہلاک کیا گیا۔
سامراجیت کی حمایت عمرالبشیرکے لئے توکم ہوئی لیکن اس کی حکومت کے لئے نہیں!
سامایہ دارانہ طاقتوں نے سوڈانی حکومت کو یہ ثابت کر دیا کہ عمر البشیر کواب جانا تھا،برطانیہ، امریکہ،یورپی یونین اور بہت سے دیگر ممالک کا سوڈان سے گہرا مادی رشتہ ہے،جبکہ چین، ایران، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی ہمیشہ سوڈان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے۔کچھ نے سوڈانی وسائل کو جس میں سونا، یورینیم اور تیل بھی شامل ہے،کو بہت بے دردی اور غیر منصفانہ طریقے سے خود میں بانٹا ہے۔جبکہ سعودی عرب کی یمن میں جنگ کی حمایت کے لئے آج بھی وہاں 30000 سوڈانی فوجی موجود ہیں۔
لہذا سوڈان کو آنے والے وقت میں اس بین الاقوامی برادری کے وسیع مادی مفاد پرستی کے سیٹ کی طرف سے بہت سی گہری چالوں کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس وقت سوڈان میں صحت اور تعلیم کانظام ذیادہ حد تک نجکاری کا شکار ہو چکا ہے کہ بہت سے کارکنوں،محنت کشوں اور غریب افراد کو معمولی نوعیت کی بھی صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں۔ اور اب انہیں انقلاب کے مکمل ہونے تک تکلیف دہ زندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سوڈان میں بڑھتی ہوئی بھوک تبدیلی او ر انقلاب کا مطالبہ کر رہی ہے!
یہاں بہت سارے ایسے ابھرتے ہوئے سوالات ہیں کہ جن کے جوابات پر روشنی ڈالنا بہت ضروری ہے،جیسا کہ تاریخ کے تمام انقلابوں میں ہمیشہ بڑھتی ہوئی بھوک کے ساتھ ہی انقلاب کے مطالبات میں اضافہ ہواہے۔
جنہوں نے عمر البشیرکی حکومت کے خاتمے کو جنم دیا و ہ یقیناًوہی لوگ ہیں جو عارضی جمہوری حکومت کے ذریعہ ملک چلارہے ہیں،وہاں بہت سی انقلابی تنظیمیں موجود ہیں اور اب انہیں مل کر حکومت چلانی چاہیے۔
یہاں ایک ابھرتا ہوا قومی سوال اور آزادی کی جدوجہد اپنے پورے زور سے جاری و ساری ہے، اب ملک میں ہونے والی تمام نسلی صفائی کو روکنا ہو گا اور تمام پناہ گزینوں کو اپنی زمین اپنے علاقوں میں واپس جانے کاپورا حق ہے، اور ریاست کو انہیں اپنے گاؤں،قصبوں اور اپنی زندگیوں کو دوبارہ قائم اور آبادکرنے میں یقیناً مدد دینی چاہیے۔
دارفور کا علاقہ دارفور سے تعلق رکھنے والوں اور وہاں رہنے والوں کا ہے، صرف وہ ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں،2018 سے اب تک آزادانہ فوج ذیادہ ترعلاقوں کوریاست کے چنگل سے آزاد کر ا چکی ہے اورعام ہڑتال اب پوری شدت سے دارفور تک بھی پہنچ چکی ہے۔
جنوبی سوڈان کے ایک حالیہ مظاہرے میں (جو20111 ء میں جدا ہو کر ایک الگ ملک بن چکا ہے) فوجی ہیڈکوارٹر ز کے باہر دیئے گئے دھرنے میں بیٹھے ہوئے شرکاء کو یہ واضع کیا گیا کہ، ”عوام میں کسی بھی طرح کی کوئی تقسیم نہیں کی گئی اور نہ ہو سکتی ہے.” سوڈان میں بسنے والی تمام قوموں کو(سمیت جنوبی سوڈان)یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں۔کارکنوں کو اپنی تنظیم کو مکمل طور پر کسی بھی جبریا حکومتی کنٹرول کے بغیر منظم کرنے اور اس کے مکمل حقوق حاصل کرنے، انہیں استعمال کرنے اور مظاہرہ کرنے کا حق ہونا چاہیے۔
ایک جمہوری انقلاب کیا ہے؟ یہ صرف عمل کے ذریعے اور انقلابیوں کے موقع کے مطابق کئے گئے فیصلوں کی ایماء پر سڑکوں پر عوام کی طرف سے کیا جا تاہے۔لیکن سوڈان کو امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک کے کاروباری اور سیاسی مفادات کیوجہ سے ان کی مداخلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اور ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک بہت پرانے آمریت کے حمائیتی ہیں۔امریکہ نے سوڈان میں کچھ تیل کے شعبوں پر اپنا کنٹرول قائم کر رکھاہے،جبکہ یورپی یونین چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح یورپی براعظم کی طرف افریقی ہجرت کے بہاؤ کو روک دیا جائے۔اس معاملے میں جرمنی نے امریکہ اور پورپی یونین کی راہنمائی کی جبکہ برطانوی حکومت نے اپنی مکمل حمایت دی۔
سامراجیت کی سوڈان میں موجودگی اور مداخلت:
اقوام متحدہ کے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ابشیر کی حکومت ”پرامن، قابل اعتماد، جائز اور باضابطہ طور پرملک کو چلانے کے اہل ہے اور جس سے سوڈان کو ضروری اصلاحات کی فراہمی کی اجازت بھی دی جائے گی“۔ یہ بیان سوڈانی عوام کی خواہشات کے ساتھ، اور ان کی غیر معمولی قربانیوں کے ساتھ ایک گہری غداری کے مترادف ہے۔اس سے یورپی یونین کی انتہائی سنگدلی اور سفاکی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ کیسے بہت واضع طور پر پر نسل پرستی کے سنگین قوانین کی حمایت کرتا ہے۔
یورپی یونین نے سوڈان حکومت کی مالی معاونت کی بھی کی تاکہ ان پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے اور ان کو ضرورت کے مطابق حراست میں رکھا جائے، اس کے ساتھ ساتھ بہت ساپیسہ سیکیورٹی فورسز کو سوڈان لوگوں کو ہڑتالوں سے روکنے اور ہتھیار خریدنے کے لئے دیا گیا، گویا کہ یورپی یونین نے نسل پرستی کا مقابلہ کرنے میں عمر البشیرکی بھر پور مدد کی۔
صرف محنت کشوں کی حکومت ہی عوام کے مطالبات کی ضمانت ہو سکتی ہے اور انہیں سمجھ سکتی ہے۔اس وقت کی علامات یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ، عمر البشیر کی حکومت کو توڑ دیا گیا ہے اوربندرگاہوں اورملک کے دیگر علاقوں میں محنت کشوں کی تنظیمیں منظم ہوکر خوشحال زندگی کی طرف واپس آ رہی ہیں۔صورت حال اگرچہ بہت خطرناک ہے، لیکن انقلاب جاری ہے۔
شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے انقلابات:
الجزائر میں موجودہ بغاوت کے ساتھ ساتھ، سوڈان میں جابر حکومتوں کے خلاف انقلابی جدوجہد جاری ہے جو 2010 میں مشرق وسطی کے جمہوری حقوق کی حصولی کے لئے شروع کی گئی۔آج روس سوڈانی انقلاب کو شکست دینے کی ضرورت کو سمجھتا ہے،کیوں کہ اس نے شام میں بھی ابھرتے ہوئے انقلاب پر اسد کی بمباری کی حمایت کی تھی،عمر ا بشیر نے گزشتہ سال شام میں کم سے کم دو بار اسد سے ملاقات کی جو روسی فضائی قوت کی طرف سے منظم کی گئی۔
گزشتہ ہفتے ادلیب(شام کا شہر) میں ایک 22سالہ شامی آرٹسٹ ’ابو ملک الشامی‘ (سڑک پر تصاویر بنانے والا) نے شام کی دیواروں Free Syrian Army ) کا لڑاکا اور جنگجو ہے(پر یہ لکھ کر سوڈانیوں کو انقلاب کے آغاز کی مبارک باد بھیجی۔وہ کہتا ہے کہ: ’آزادی اب ایک مجسمہ نہیں ہے،وہ گوشت اور خون کے ساتھ زندہ ہے‘۔یہ 20 سالہ خاتون کو ظاہر کرتا ہے کہ جس نے فوج کا جرات سے سامنا کرتے ہوئے سڑکوں اور چوراہوں پر، انقلابیوں کے قبضے کی خوشی میں خرطوم(سوڈان کا شہر)میں منادی کروائی اور گانا شروع کیا ۔
بین الاقوامی یکجہتی کی ضرورت ہے:
اب تک سوڈانیوں کی ایک بڑی تعداد پوری دنیا میں پھیل گئی ہے اور مختلف ممالک میں بہت سے جاندار مظاہروں کی قیادت کر رہی ہے۔
ٹریڈ یونینوں اور سماجی تحریکوں کو ان مظاہرین کی حمایت میں اہم اقدامات کرنے چاہئے، اپنی حکومتوں سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ(جو ابھی باقی ہے) تمام تجارتی روابط او ر ممکنہ امداد ختم کر دیں۔ہر سطح پر یونینوں کو بین الاقوامی معاونت بڑھانے اور سوڈانیوں کی خود ساختہ تنظیم سازی میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔
یکجہتی کے نئے نیٹ ورک ابھر کر سامنے آئے ہیں اور بہت سے ممالک میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ہم انقلاب کی حمایت کے لئے تمام سطحوں پر تمام یونینزاور سماجی جدوجہد کرنے والے اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر اس ابھرتے ہوئے انقلاب کا ساتھ دیں اور سوڈانیوں کا ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں۔
برطانیہ میں اصلاح پسند تنظیموں نے اس صورتحال پر ایک لفظ کہنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔Jeremy Corbyn اور لیبر نے اس بغاوت کے لئے اپنی حمایت کا اظہار نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت پر زور دیا ہے۔اور نہ کسی قومی یونین نے ابھی تک انقلاب کی حمایت کی ہے۔
مطالبات:
فوج کا بائیکاٹ!
عمر ابشیر کو آئی سی سی سے سزا دلوائی جائے!
تمام سیاسی قیدیوں کو رہائی دی جائے!
NISS حکومت سیکورٹی فورسز کو ختم کریں اور انہیں سزا دیں!
تمام داخلی بے گھر پناہ گزینوں کی واپسی!
دارفور اور نیوبا ماؤنٹین سمیت سوڈانی عوام کے مساوی حقوق!
تمام وسائل کی عوامی ملکیت!
انقلابی تنظیموں کے تحت سوڈان کی تعمیر!
سوڈانی حکومت کے ساتھ مکمل تجارت اور امداد ختم کریں!
سوڈانی کارکنوں اور لوگوں کے لئے بین الاقوامی یکجہتی کی تعمیر!

SHARE