ہم انتہائی بے ہنگم،پُرانتشار،استحصال زدہ، انسانوں کو جنس کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے گلے سٹرے عہد سرمایہ دارانہ نظام کے باسی ہیں جہاں پر ایک انسان کو دوسرے پر برتری حاصل ہے وہ چاہے عورت ہو یا مرد زیادہ وسائل ہونے کی وجہ سے معاشرے میں معیشت ،سیاست اور ثقافت پر برتری رکھتا ہے ۔ جس کے لیے ہم انسان کی تقسیم جنس کی وجہ سے نہیں کر سکتے کہ عورت کی سوچ سطحی اور نفسیات محدود ہوتی ہے اگر ایسا ہوتا تو یقینی طور پر مرد آج تک عورتوں کے کردار کو قبول نہ کرتا لیکن طاقتور مرد نے اپنے مادی حالات پر کنٹرول کے لیے سب سے زیادہ اعتماد وانحصاراپنے ساتھ منسوب عورتوں پر کیا جس کی واضح مثالیں ہمیں معیشت پر کنٹروں کرنے والے سرمایہ داریوں اور سیاست پر کنٹرول کرنے والے حکمرانوں کی بیویوں ، بیٹیوں سے ملتی ہیں ۔ کسی کی مجال کہ اُن کو کوئی ادھوری کہ سکے کیونکہ اُن کے پاس وسائل ہونے کی وجہ سے اُن کی ثنویت کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ عورت کی آزادی اور ماتحتی کے سوال کو معاشی عوامل کی رو سے دیکھا جائے۔جس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین بنیاد ی مادی حالات پر اثرات مرتب کرتے ہوئے اپنی سماجی صورت حال کو تبدیل کریں ،عام معنوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ خواتین اُسی وقت آزاد اور برابر ہو سکتی ہیں جب وہ نئے سماجی اور پیداواری رشتوں کا تعین کریں۔لیکن اس کا مطلب نہیں کہ بڑی سماجی تبدیلی تک ہم عورتوں کی آج کی مانگوں کو نظر انداز کر دیں جس میں مساوی روز گار ، مساوی تنخواہیں، مساوی سماجی،معاشی ،سیاسی اور ثقافتی آزادیاں شامل ہوں ۔کیونکہ یہی وہ نعرے ہیں جس سے ہم خواتین و حضرات کو ایک لڑی میں پرو کر اِن مانگوں کے لیے زیادہ بے باکانہ طریقہ اختیا ر کریں،جس سے ہم وسائل پر قابض قوتوں کو شکت دیکر وسائل کی تقسیم کو مساوی بنا سکتے ہیں۔
سرمایہ داری کی دوہری اخلاقیات
ہر سال دنیا بھر کی حکومتیں UN کی ایما پر عالمی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا دن مناتی ہیں بڑے بڑے ہوٹلوں میں سمینار اور فوٹو ز سیشنز کروائے جاتے ہیں جس کی پشت پنائی سامراج کرتا ہے تاکہ مظلوم اور استحصال زدہ عوام کی آنکھوں میں سرمایہ داری کو مَباح ٹھہراتے ہوئے موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے سب اچھا ہونے کا یقین دلایا جا سکے۔جوں جوں سماجی مسائل تیزی سے بڑھتے ہیں سرمایہ دارانہ ریاستیں اتنی ڈھٹائی اور جھوٹ کے ساتھ خواتین ،بچوں،اقلیتی کے حقوق کی تشہیر کرتی نظر آتی ہیں۔
جس میں انفرادی طور پر مظلومیت کے خلاف ابھار دیا جاتا ہے کہ خواتین خود اس مظلومیت کی ذمہ دار ہیںیا مرد جو اُن پر ظلم کرتا ہے لیکن خواتین کو پیش آنے والے مسائل کی اصل معاشی ،سیاسی اور سماجی وجوہات کوچھپایا جاتا ہے جن کے ذریعے کوئی بھی معاشرہ پسماندہ یا ترقی یافتہ گردانا جاتاہے ۔وہ پالیسیاں اُن مردوں کے پاس نہیں جن کو خواتین کے خلاف جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ اُن کے پاس ہیں چاہے مرد
ہو ں یا خواتین جوہر شعبہِ زندگی میں منصوبہ بندی کرتے ہیں ایک طرف خواتین کی آزادی کی بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اُن قوتوں کو نصاب اور میڈیا پر کنٹرول دیتے ہوئے ایسی کسی بھی تحریک کو سماجی طور پر پست رکھو جو مستقبل میں مزید دو کی بات کر سکتی ہے ۔ جوکھیل کئی صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے ۔
عورت کی جدوجہد کاپس منظر
جہاں ایک طرف عورتوں کے اوپر جبر موجود رہا وہاں دوسری طرف عورتو ں نے اس کے خلاف جدوجہد بھی کی۔ جس کے لیے وہ خراجِ عقیدت کی مستحق ہیں ایک وہ جنہوں نے 1908 میں مناتھن نیو یارک میں انٹر نیشنل لیڈیز گارمنٹس یونین کی قیادت میں فیکٹریوں کو تالے لگا کر بہتر کا م،بہتر معاوضے اور برابری کی بات کی اور دوسری وہ جنہوں نے اِس جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے 8 مارچ کو عالمی طور پر زندہ رکھا ۔ اِس نقطے کو تاریخی پہرے میں دیکھنے کی ضرورت ہے نہ صرف یہ دن تقریباً 1908کے بعد ملکی سطح پر منایا جاتا رہا بلکہ کچھ ممالک کی خواتین نے اس دن کی اہمیت کو امریکہ ،یورپ ،افریقہ اور ایشیا تک پھیلاتے ہوئے محنت کش خواتین کی اسطلاح استعمال کی کہ خواتین کے مسائل چونکہ مادی حالات کی وجہ سے ہیں جو معاشی،سیاسی اور ثقافتی سوالات ہیں جو جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے اس نعرہ کو بلند کیا کہ جنس ہمیں جوڑتا ہے اور معاشرہ ہمیں توڑتا ہے ۔ جس کی بنیا د پر انقلابِ روس کی جدوجہد میں خواتین انقلاب کی تحریک کا مرکز تھی اور انقلاب کے بعد نہ صرف روس میں بلکہ 8 مارچ کا دن پوری دنیا میں منایا جانے لگا جس کی بنیادیں یہ تھیں کہ استحصال زدہ خواتین کو منظم کیا جائے تاکہ سیاسی ، معاشی اور ثقافتی جدوجہد میں مصروف کرتے ہوئے سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی جائے جو بعد میں محنت کش قیادت کی غداریوں سے �آگے نہ بڑھ سکی ۔ دوسری طرف UN نے 1975 میں8 مارچ تمام خواتین کا دن منانے کا اعلان کیا جس سے اس دن کی اہمیت اور کم ہوئی چونکہ تمام ممالک میں حکمران اور بیوروکریٹ خواتین بانگیں دے رہی ہوتی ہیں کہ خواتین پر ظلم وجبر بند کرو جس پر محنت کش خواتین اُن کے مکردہ چہروں سے تنگ آ کر اپنی قسمت کا لکھامان لیتی ہیں ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اشرافیہ کی یہ خواتین اپنی اُس ذمہ داری کو نبھا رہی ہیں جو سامراج نے انھیں عنایت کی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اُن انقلابی خواتین کی تاریخی جدوجہد کو آگے بڑھتے ہوئے محنت کشوں کی تحریکوں کا حصہ بنا جائے اگر مسئلہ طبقاتی ہے تو لڑائی بھی طبقاتی بنیادیوں پر ہونی چاہیے ، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم خواتین کے مسئلہ پر بات کرنے والی سیاسی پارٹیوں ،ٹر یڈ یونینزاور ہر فورم پر اپنی نمائندگی مانگیں۔
پاکستان میں عورتوں کو درپیش مسائل اور اُن کا حل:
پاکستان چونکہ ترقی پزیر ممالک کی لسٹ میں شامل ہے اِس لیے یہاں پر موجود سرمایہ دارانہ سماجی انفر۱سڑکچر اتنا بیمار ہے کہ انسان کی آزادی پر بنائے گے قوانین کا عمل زیادہ تعداد میں محنت کشوں کو بھی پتہ نہیں اور محنت کشوں کی خواتین کو تو بالکل ہی ادراک نہیں کہ اُن کے نام نہاد قوانین جو آئین میں کاغذاتی طور پر موجود ہیں اُن سے کیسے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ یہاں پر موجود قوانین کے رکھوالوں کو خاص طور پر تربیت دی جاتی ہے کہ کس کو انصاف دیا جانا چاہیے کس کو نہیں اور اگر کسی جگہ پر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی جائے تو کرپشن اتنی ہے کہ ہم اپنی مالی پوزیشن دیکھ کر اپنے حق سے بھی دستبدار ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے محنت کش خواتین مکمل طور پر ملکی ،ریجنل اور عالمی قوانین سے یا توناآشنا ہیں یا پھر اُن کی فراہمی سے بیزار ہیں ۔ پا کستان اس وقت خواتین کے حقوق اور آزادی پر بنائے جانے والے تما م ریجنل اور عالمی کنونشنز کا حصہ ہے پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک میں 135ممالک میں سے 134نمبر پر ہے۔ پاکستان میں عورت کو زمین اورپیسے (زمین ،زر اور زن ) کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور پاکستان عورت فاؤنڈیشن کے 2016-17 کے اعداد و شمار کے اندازے کے مطابق جنسی تشدد، عزت اور ناموس کے نام پر قتل، زبردستی اور کمسن بچیوں کی شادیاں،جہیز نہ لانے کی وجہ سے جلایا جانے اور چہرے پر تیزاب پھینکنے جیسے 8649مقدمات سامنے آئے جس میں 1650 خواتین کو قتل کیا گیااور یہ پورے پاکستان کی تصویر کشی نہیں چونکہ پاکستان میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ابھی تک کسی بھی قانون کو دیکھنے کی اجازت نہیں جہاں پر وہ جاگیردار اور قبائلی سردار بیٹھے ہیں جو ہما رے ملک کے سب سے مہذب ادارے پارلیمنٹ میں بھی ہیں جو اکثر اس طرح کے بلز کی گفتگو میں غائب ہوتے ہیں ۔ اور جو زیادہ لبرل ہیں وہ اپنی بیویوں ، بیٹیوں یا باقی سرمایہ دار خواتین سے بل پیش کروا کر منظور کروا لیتے ہیں اس طرح عورت کی ملکی پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی ہو جاتی ہے اور مزید جو کسر رہتی ہے وہ یہ خواتین 8 مارچ میں بڑے بڑے ہوٹلوں میں سمینارزاور فوٹوز سیشنزکروا کر محنت کش خواتین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پوری کر لیتی ہیں۔
ہماری جدوجہد کیا ہے ؟
پاکستان میں تمام سیاسی پارٹیاں چاہے وہ جن خواتین و حضرات پر مشتمل ہیں وہ ایک مخصوص طبقے کی نمائندہ ہیں جو سیاست میں اس وقت مختلف سامراجی دھڑوں کے لیے کام کر رہے ہیں اُن کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ محنت کشوں کے تمام خدماتِ عامہ کے ادارے جس میں تعلیم،صحت ،ایرلائنز،ریل،اسیٹل ملز،آئل اور گیس، واپڈ ا، مواصلات میں اپنا حصہ رکھ کر نیلام کرنا شامل ہے۔ اِن کا حکمرانی کرنے کا مقصد ہم سب کے سامنے کھل کر آچکا ہے کہ یہ کتنے منافق ،کرپٹ ،جاہل اور انسانیت کے دشمن ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم خود منظم ہو کر بلاتفریق ،جمہوری مرکزیت کے قوانین کے مطابق اپنی آرگنائزیشن کریں ۔ہمیں ہر شعبہ میں اپنے آپ کو ایک طبقے کے طور پر منظم کرنا ہے یہی ہماری طاقت کا آغاز اور حاصل ہے۔
ہمارے مقاصد:
۱۔ برابر روزگار، برابر تنخواہوں کیلئے جدوجہد۔محنت کشوں کی تنظیموں اور پارٹیوں میں برابر قیادت2۔ محنت کشوں کی تنظیموں اور پارٹیوں میں خواتین کے خلاف گھٹیا اور پسماندہ اخلاقیات کا خاتمہ3۔ خواتین کے خلاف ہر طر ح کے مرد شاونزم کی مخالفت4۔ یکساں تعلیمی سہولیات کی فراہمیْ ۔محنت کش خواتین اور مرد وں کا تعلق ایک طبقے سے ہے اس لیے اُن کی سیاسی،معاشی اورسماجی لڑائی سرمایہ دار طبقے کے خلاف بنتی ہے جومل کر ہی لڑی اور جیتی جا سکتی ہے ۔





