14 مئی کو، پیر کے روز ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں نے فوجی باڑ کے ساتھ مظاہرہ کیاجس کی وجہ اسرائیلی فوج کا غزہ کی پٹی میں دو ملین فلسطینیوں کا مجرمانہ طور پر محاصرہ تھا۔
فابیو بوسکو
اسرائیلی فوج نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں جن میں کم از کم پچپن افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 2770سے زائد کو زخمی کیا گیا۔
30مارچ کے بعد غزہ کی پٹی (فوجی باڑ) کے ساتھ ہزاروں فلسطینیوں کی طرف سے ایک منظم احتجاج کیا گیا ،اس تاریخ تک کم ازکم 104فلسطینی ہلاک اور 10,500زخمی ہوئے۔
اُسی وقت میں مغربی فلسطین میں بھی فلسطینیوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔اور اس کے ساتھ ساتھ رامالہ(Ramallah) میں، نوجوانوں نے کلندیا کے معروف چیک پوائنٹ پربھی احتجاجی مارچ کیا، جس پر اُن پر بہت سفاکانہ جبر کیا گیا۔مغربی فلسطین کے مختلف شہروں اور گاؤں میں فلسطینیوں کی قید کے خلاف ایک رات قبل مظاہرین کی طرف سے کئی احتجاجی مظاہرے منعقدکئے گئے۔سلیوان(Silwan)، مشرقی یروشلیم میں، نبیلس(Nablus) اور پناہ گزین کیمپ نور الشمس، تلکریم (Tulkarem) کے قریب،یہ سب مظاہرے فلسطینیوں کو قید کرنے کے لئے اسرائیلی حملوں کا ہدف بنے۔
رات اور صبح کے دوران یہ حملے مسلسل جاری رہے۔اقوام متحدہ کے مطابق، 24 اپریل اور 7 مئی کے درمیان فلسطین کے مغربی کنارے میں 127 فلسطینیوں کو قید کیا گیا۔انسانی حقوق کی این جی او Addameer کے مطابق، اسرائیلی جیلوں میں 6366 فلسطینی سیاسی قید موجود ہیں۔
آخر میں تقریبا 50 اسرائیلی کارکنوں نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی جانب سے مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف مظاہرہ کیا اور محاصرہ کی مذمت کی جس کا غزہ کے فلسطینیوں نے دس سالوں سے سامنا کیا ہے۔
مئی 15ناقبہ کے دن فلسطینیوں نے ہزاروں کی تعداد میں احتجاج میں حصہ لیا(ناقبہ عربی زبان کا لفظ جس کا معنی تباہی کے ہیں)۔یہ وہ دن ہے ۔
. بین الاقوامی ردعمل
امریکہ نے اسرائیلی جارحیت کی ہمیشہ سے حمایت کی اور کرتا رہا ہے ۔جس کی واضع مثال ا س کا اپنے سفارت خانے کو تلی ایووی
(Tel Aviv) سے یروشلم منتقل کرناہے۔ جو 1949 سے باقاعدگی سے عارضی صلح کی مد میں ہے،جو مشرقی یروشلم کی عربی اکثریت کو مغربی یروشلم کی یہودی اکثریت سے تقسیم کرتا ہے جس کی وجہ1948 میں ، عربی اکثریت کی بے دخلی اور ان کی وحشیانہ نسل پرستی ہے۔
امریکہ کا یہ عمل فلسطینیوں کو اشتعال انگیزی کی طرف لے گیا ہے۔یہاں تک کہ اس کی یورپی اور عربی اتحادیوں کی طرف سے بھی مذمت کی گئی تھی۔
برطانیہ یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے خلاف تھا،اس نے احتجاجی مظاہروں کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی اور یروشلم کی تقسیم سمیت، دو ریاستوں کے حق میں اپنی رائے / حیثیت کی مذید تصدیق کی۔یہاںیہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ برطانیہ فلسطینیوں کے قبضے کے 30 سال (1918۔1948) میں اہم اسپانسرز/امداد کرنے والوں میں سے تھا، اور ہمیشہ سے نسل پرست اسرائیلی ریاست کے حق میں تھا۔
مصر، امریکہ کے ایک اور اہم اتحادی نے اسرائیلی جبر کی مذمت کی اور چار دن تک غزہ کے ساتھ حمایت میں اپنی سرحد کھولنے کا اعلان کیا۔
جبکہ دوسری طرف مصر، غزہ کی پٹی پر محاصرہ میں اسرائیل کی براہِ راست حمایت میں بھی حصہ لیتاہے۔یاد رہے کہ مصر 1979 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عربی ملک بھی تھا۔
اردن، جس نے سینکڑوں ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کو پناہ دی، نے بھی اسرائیلی جارحیت اور یروشلم کی امریکی سفارت خانے میں منتقلی کی مذمت کی۔ جبکہ اردن اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے والا دوسرا عربی ملک تھا۔اس کے علاوہ این پی اے(NPA) کے صدر(قومی فلسطینی اتھارٹی) محمود عباس نے اسرائیلی جارحیت اور سفارت خانے کی منتقلی کے خلاف احتجاج کیا۔فلسطین کے خلاف پولیس تعاون یا دوسرے لفظوں میں اسرائیل کے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لئے، او ایس ایل او(OSLO) کے معاہدوں سے پیدا کردہ این پی اے(NPA)، اسرائیل کے مفادات کو اور منظم کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے عارضی رکن، کویت نے، 15 مئی کو اسرائیلی جبر کے خلاف ایک ہنگامی اجلاس بلایا۔عرب لیگ جو کہ بائیس ممالک پر مشتمل ہے کے زیر اہتمام ملاقات میں بدھ 16 مئی کو تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسرائیلی افواج کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے،جنوبی افریقہ کی حکومت نے اپنا سفیر(Tel Aviv) مقبوضہ فلسطین بھیجا۔
زیادہ تر ممالک نے اس امریکی جارحیت پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا
86ممالک میں سے صرف 33ممالک ہیں جواسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں اور قبضہ شدہ فلسطین میں سفارتی نمائندگی رکھتے ہیں اورجو یروشلم میں نئے امریکی سفارت خانے کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کے لئے گئے تھے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اپنے اس مسلط کردہ فیصلے میں کتنا تنہا اور الگ تھلگ ہے۔
وہ ممالک جو امریکہ کے اس فیصلے کی حمایت نہیں کرتے:
یورپ: البانیہ، آسٹریا، جمہوریہ چیک، جورجیا، ہنگریہ، مقدونیہ، رومینیا، سربیا، یوکرائین۔
افریقہ: انگولا، کیمرون، جمہوریہ کانگو ، آئیوری کوسٹ، ایتھوپیا، کینیا، نائیجیریا، روانڈا، جنوبی سوڈان، تنزانیہ، زامبیا۔
لاطینی امریکہ: ڈومونیکن ریپبلک، ایل سلواڈور، گواتیمالا، ہنڈورس، پاناما، پیرو، پیراگوے۔
ایشیا: میانمر ، فلپائن ، تھائی لینڈ ، ویت نام۔
فابیو بوسکو
اسرائیلی فوج نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں جن میں کم از کم پچپن افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 2770سے زائد کو زخمی کیا گیا۔
30مارچ کے بعد غزہ کی پٹی (فوجی باڑ) کے ساتھ ہزاروں فلسطینیوں کی طرف سے ایک منظم احتجاج کیا گیا ،اس تاریخ تک کم ازکم 104فلسطینی ہلاک اور 10,500زخمی ہوئے۔
اُسی وقت میں مغربی فلسطین میں بھی فلسطینیوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔اور اس کے ساتھ ساتھ رامالہ(Ramallah) میں، نوجوانوں نے کلندیا کے معروف چیک پوائنٹ پربھی احتجاجی مارچ کیا، جس پر اُن پر بہت سفاکانہ جبر کیا گیا۔مغربی فلسطین کے مختلف شہروں اور گاؤں میں فلسطینیوں کی قید کے خلاف ایک رات قبل مظاہرین کی طرف سے کئی احتجاجی مظاہرے منعقدکئے گئے۔سلیوان(Silwan)، مشرقی یروشلیم میں، نبیلس(Nablus) اور پناہ گزین کیمپ نور الشمس، تلکریم (Tulkarem) کے قریب،یہ سب مظاہرے فلسطینیوں کو قید کرنے کے لئے اسرائیلی حملوں کا ہدف بنے۔
رات اور صبح کے دوران یہ حملے مسلسل جاری رہے۔اقوام متحدہ کے مطابق، 24 اپریل اور 7 مئی کے درمیان فلسطین کے مغربی کنارے میں 127 فلسطینیوں کو قید کیا گیا۔انسانی حقوق کی این جی او Addameer کے مطابق، اسرائیلی جیلوں میں 6366 فلسطینی سیاسی قید موجود ہیں۔
آخر میں تقریبا 50 اسرائیلی کارکنوں نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی جانب سے مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف مظاہرہ کیا اور محاصرہ کی مذمت کی جس کا غزہ کے فلسطینیوں نے دس سالوں سے سامنا کیا ہے۔
مئی 15ناقبہ کے دن فلسطینیوں نے ہزاروں کی تعداد میں احتجاج میں حصہ لیا(ناقبہ عربی زبان کا لفظ جس کا معنی تباہی کے ہیں)۔یہ وہ دن ہے ۔
. بین الاقوامی ردعمل
امریکہ نے اسرائیلی جارحیت کی ہمیشہ سے حمایت کی اور کرتا رہا ہے ۔جس کی واضع مثال ا س کا اپنے سفارت خانے کو تلی ایووی
(Tel Aviv) سے یروشلم منتقل کرناہے۔ جو 1949 سے باقاعدگی سے عارضی صلح کی مد میں ہے،جو مشرقی یروشلم کی عربی اکثریت کو مغربی یروشلم کی یہودی اکثریت سے تقسیم کرتا ہے جس کی وجہ1948 میں ، عربی اکثریت کی بے دخلی اور ان کی وحشیانہ نسل پرستی ہے۔
امریکہ کا یہ عمل فلسطینیوں کو اشتعال انگیزی کی طرف لے گیا ہے۔یہاں تک کہ اس کی یورپی اور عربی اتحادیوں کی طرف سے بھی مذمت کی گئی تھی۔
برطانیہ یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے خلاف تھا،اس نے احتجاجی مظاہروں کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی اور یروشلم کی تقسیم سمیت، دو ریاستوں کے حق میں اپنی رائے / حیثیت کی مذید تصدیق کی۔یہاںیہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ برطانیہ فلسطینیوں کے قبضے کے 30 سال (1918۔1948) میں اہم اسپانسرز/امداد کرنے والوں میں سے تھا، اور ہمیشہ سے نسل پرست اسرائیلی ریاست کے حق میں تھا۔
مصر، امریکہ کے ایک اور اہم اتحادی نے اسرائیلی جبر کی مذمت کی اور چار دن تک غزہ کے ساتھ حمایت میں اپنی سرحد کھولنے کا اعلان کیا۔
جبکہ دوسری طرف مصر، غزہ کی پٹی پر محاصرہ میں اسرائیل کی براہِ راست حمایت میں بھی حصہ لیتاہے۔یاد رہے کہ مصر 1979 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عربی ملک بھی تھا۔
اردن، جس نے سینکڑوں ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کو پناہ دی، نے بھی اسرائیلی جارحیت اور یروشلم کی امریکی سفارت خانے میں منتقلی کی مذمت کی۔ جبکہ اردن اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے والا دوسرا عربی ملک تھا۔اس کے علاوہ این پی اے(NPA) کے صدر(قومی فلسطینی اتھارٹی) محمود عباس نے اسرائیلی جارحیت اور سفارت خانے کی منتقلی کے خلاف احتجاج کیا۔فلسطین کے خلاف پولیس تعاون یا دوسرے لفظوں میں اسرائیل کے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لئے، او ایس ایل او(OSLO) کے معاہدوں سے پیدا کردہ این پی اے(NPA)، اسرائیل کے مفادات کو اور منظم کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے عارضی رکن، کویت نے، 15 مئی کو اسرائیلی جبر کے خلاف ایک ہنگامی اجلاس بلایا۔عرب لیگ جو کہ بائیس ممالک پر مشتمل ہے کے زیر اہتمام ملاقات میں بدھ 16 مئی کو تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسرائیلی افواج کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے،جنوبی افریقہ کی حکومت نے اپنا سفیر(Tel Aviv) مقبوضہ فلسطین بھیجا۔
زیادہ تر ممالک نے اس امریکی جارحیت پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا
86ممالک میں سے صرف 33ممالک ہیں جواسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں اور قبضہ شدہ فلسطین میں سفارتی نمائندگی رکھتے ہیں اورجو یروشلم میں نئے امریکی سفارت خانے کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کے لئے گئے تھے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اپنے اس مسلط کردہ فیصلے میں کتنا تنہا اور الگ تھلگ ہے۔
وہ ممالک جو امریکہ کے اس فیصلے کی حمایت نہیں کرتے:
یورپ: البانیہ، آسٹریا، جمہوریہ چیک، جورجیا، ہنگریہ، مقدونیہ، رومینیا، سربیا، یوکرائین۔
افریقہ: انگولا، کیمرون، جمہوریہ کانگو ، آئیوری کوسٹ، ایتھوپیا، کینیا، نائیجیریا، روانڈا، جنوبی سوڈان، تنزانیہ، زامبیا۔
لاطینی امریکہ: ڈومونیکن ریپبلک، ایل سلواڈور، گواتیمالا، ہنڈورس، پاناما، پیرو، پیراگوے۔
ایشیا: میانمر ، فلپائن ، تھائی لینڈ ، ویت نام۔





