Home Special ماحول کے چند اہم اور حساس مسائل

ماحول کے چند اہم اور حساس مسائل

SHARE

”کاش کہ درخت وائی فائی کے سگنل دیتے تو شاید نہیں یقیناً ہر گھر میں ایک درخت ضرور ہوتا اورہم اتنے درخت اُگا چکے ہوتے کہ یہ دھرتی اپنی بقا کی سنگین جنگ نہ لڑ رہی ہوتی۔لیکن افسوس کہ یہ صرف ہماری سانسوں کے لئے آکسیجن پیدا کرتے ہیں!“
تحریر: امجد اسلام امجد
جس تیزی سے انسان ماحولیاتی آلودگی کی طرف بڑھ رہا ہے نا گزیر ہے جلد ہی یہ کرہ ارض زندگی کے لئے ناقابلِ رہائش ہو گا۔آپ کے گرد ہر شہ آپ کا ماحول ہے یعنی زندگی اور موت آپ کے ماحول سے وابستہ ہوا، پانی، خوراک جو کہ زندگی کی بنیادی ضرورت ہیں،آج بُری طرح آلودہ ہو چکی ہیں۔یعنی اکیسویں صدی کا جدید اور انسانی تاریخ کا عظیم انسان اپنی اولادوں کو زہر دے کر اجتماعی خود کُشی کی طرف دھکیل رہا ہے۔سرمایہ داری کے بنیادی اصول ”منافع اور شرع منافع میں اضافہ“ نے آج ریاستوں اور افراد کو اتنا لالچی،خود غرض اور بے حس کر دیا ہے کہ انسان،انسانوں کی لاشوں پر اپنا قد اُونچا کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
ڈا کٹر’گاہے مک فرسن‘ نے کہا تھا کہ، ”اگر آپ کو سچ میں یہ غلط فہمی ہے کہ معیشت ماحول سے اہم ہے تو کوشش کرو کہ اپنی سانس روک کر پیسے گنو“۔
انسانی تاریخ کا عظیم انقلاب (سرمایہ داری) انسانیت کو ایک ایسی بند گلی میں لے آیا ہے کہ جہاں سے نکلنے کے دو ہی راستے ہیں۔”انقلاب یا بربریت“۔
ماحول کے چند اہم اور حساس مسائل
1۔آلودگی:
ہوا، پانی اور مٹی کی آلودگی جس کی بنیادی وجہ غیر منصوبہ بند انسانی سرگرمیاں ہیں۔ دھواں چھوڑتی فیکٹریاں اور گاڑیاں جو کہ زہریلی گیسیز،جن میں کاربن مونو آکسائیڈ،نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ اور گرین ہاؤس گیسز نہ صرف ہوا کو آلودہ کرتی ہیں بلکہ تیزابی بارش کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ کا بھی باعث بنی ہوئی ہیں۔اسی طرح فیکٹریوں سے نکلنے والا زہریلا مواد جس میں بھاری دھاتیں شامل ہیں،کو بھی غیر سائنسی طریقے سے ندی نالوں اور سمندروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔کھیتوں میں استعمال ہونے والی کیمیائی کھاد یں پیسٹیسائیڈ، انسکٹسائیڈز وغیرہ پانی میں حل ہو کر صاف پانی کے ذخائر کو نا قابلِ برداشت حد تک آلودہ کر چکے ہیں۔ جو نہ صرف انسانوں بلکہ باقی جانداروں کے لیے جان لیوا ہے۔ گھروں سے خارج ہونے والا فالتو مواد بیماری پیدا کرنے والے جراثیم (pathogens)کی افزائش کا سبب بنتے ہیں۔ جو کہ نہ صرف پانی بلکہ ہوا اور مٹی کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہوئے،بالخصوص شہری زندگی کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ کوڑا کرکٹ،پلاسٹک کا زائد استعمال نہ صرف زمین کو بنجر کرتا ہے بلکہ انسانی رہائش گاہوں کو بد خوبصورت بناتے ہوئے ملیریا،ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کا بھی باعث بنتا ہے۔
2۔گلوبل وارمنگ:(Global Warming)
دھرتی کا درجہ حرارت بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔جس کی بنیادی وجہ ایندھن کا جلنا ہے جو کہ فیکٹریوں،گاڑ یوں اور گھریلو سطح پر استعمال کیا جا رہا ہے۔جلنے کے عمل کے دوران خطرناک گرین ہاؤس گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے جس پر شجر کاری سے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔لیکن بد قسمتی سے ایک طرف جہاں دنیا میں ایندھن کا استعمال بڑھا وہیں انسان کے انفراسٹکچر کی بہتری کے نام پر درختوں کا صفایا بھی کیاگیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ آج درجہ حرارت کے بڑھنے کی وجہ سے پولر کیپس (polar caps)اورگلیشیئرز پگھل رہے ہیں،جس کی وجہ سے سمندری سطح بتدریج بڑھ رہی ہے اور سیلاب کے خدشات کے ساتھ ہماری زمین (بنجر ہونے کے عمل)Desertificationکے خطرے سے دوچار ہے۔
3۔اوزون کی تباہی(Ozon Depletion):
دھرتی کے گرد موجود اوزون کی تہ جو سورج سے پھوٹتی خطرناک شعائیں الٹرا وائیلٹ (Ultra violet)کو زمین تک پہنچنے سے روکتی ہیں۔یوں کہا جائے کہ اوزان ہی دھرتی پر زندگی کی ضمانت ہے تو یہ غلط نہ ہو گا لیکن سرمائے کی دوڑ میں ابھرتی ہوئی ریاستوں نے CFCsکا لامتناہی استعمال کیا۔جس کے نتائج اوزون کیے شگاف اور نت نئے جلدی امراض کی شکل میں ظاہر ہوئے۔
4۔فضلے کا ضیاع)ٖ (Waste Disposal:
آج دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ فالتو مواد کا تلف کرنا ہے۔پلاسٹک،الیکٹرانک ویسٹ،کیمیکل ویسٹ،نیوکلیئر ویسٹ وغیرہ کو بغیر کسی منصوبہ بندی اورسائنسی طریقہ کار کے آبادیوں،کھیتوں اور سمندروں کے پاس پھینک دیا جاتا ہے۔جس سے نہ صرف انسانوں،پودوں بلکہ آبی زندگی کو بھی تقصان پہنچاتے ہوئے پورے ایکو سسٹم کو غیر متوازن کیا جا چکا ہے۔
5۔آبادی میں غیر معمولی اضافہ:
دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں شہری زندگی گنجان ہونے کے ساتھ ساتھ ایندھن کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔نئی بستیا ں اور شہر بسانے کے لئے جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے اور اسی کے ساتھ تیزی سے ترقی کرتا ہوا انفرا سٹکچرغیر معمولی حد تک قدرتی وسائل کو تقصان پہنچا رہا ہے۔ جو کسی صورت میں اجتماعی فائدے کے حق میں نہیں۔
6۔آب وہوا میں تبدیلی:
ایک طرف دنیا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سیلابوں کی زد میں ہے تو دوسری طرف دنیا گلوبل وارمنگ اور HARPSٹیکنالوجی کے وجہ سے موسموں میں تبدیلی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔موسموں کا لائف سپین (life span) تبدیل ہو رہا ہے،جس سے انسان حیوان اور پودے برُی طرح متا ثر ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ تمام ایکو سسٹم غیر متوازن ہونے کی وجہ سے مختلف انواع (species) کی بقا کو خطر لاحق ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ متواتر سیلاب اور موسمی ردو بدل بھی یقیناً سنگین توجہ طلب مسئلہ بن چکا ہے۔
7۔جنگلات کا کٹاؤ (Deforestation):
درخت نہ صرف آکسیجن پیدا کرتے ہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کرتے ہوئے گلوبل وارمنگ میں کمی اور پانی کی ریسائیکلنگ کے ساتھ ساتھ ماحول کی آلودگی سے بچاتے ہیں۔لیکن افسوس کہ انسان کو نظامِ زر کے ہاتھوں اتنا تنگ نظر اور سطحی سوچ کا مالک بنا دیا گیا ہے کہ آج وہ عالی شام محل،ہاؤسنگ سکیمز اور مارکیٹس بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔جس طرح سے کھیتوں کو کالونیوں،فیکٹریوں اور سڑکوں میں تبدیل کیا جارہا ہے اگر یہی سلسلہ مذید جاری رہتا ہے تو اس میں کوئی قیاس نہیں کہ جلد انسان اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی خاتم کا باعث بن جائے گا۔ با حیثیت باشندۂ دھرتی ہمیں چاہیے کہ تعلیمی اداروں سے لے کر عوامی پلیٹ فارمز تک ماحولیاتی مسئلہ کو اجاگر کریں اور ممکنہ حد تک حکومتوں اور سرمایہ داروں پر زور ڈالیں کہ وہ اپنی رو ش کو بدلیں۔اگر ایسا نہ ہوا تو اب کوئی آفاقی طاقت نہیں بلکہ دھرتی سے ہی اُٹھنے والے طوفان انسانی تہذیب کوتہس نہس کر دیں گے۔
اِس وقت ایک ہی تحریک بڑھتی ہوئی بربریت کو روک سکتی ہے اور وہ یقیناً سوشلسٹ اقدارپر مبنی ایک ایسی ریاست ہو سکتی ہے، جو تمام سیاسی، مذہبی،قومی اورلسانی تعصبات،تفرتوں اور ذاتی دلچسپیوں سے بالاتر ہو کر”اس دھرتی پہ سب کا حق ہے“،کی فلا سفی سے نہ صرف انسان کے ہاتھوں انسان کا قتل بلکہ ماحولیاتی مسائل پر منصوبہ بندی سے اِس دھرتی کو تبا ہی سے بچاتے ہوئے بہتر سماج کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔

SHARE