Home Pakistan محمد حیات بلوچ

محمد حیات بلوچ

SHARE

محمد حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی (کے یو) کا طالب علم تھا اور وہ اپنے آبائی شہر تربت میں تھا جب یہ واقعہ پیش آیا کہ اسے اُس کے بوڑھے ماں باپ کے سامنے کم از کم آٹھ بار ایف سی اہلکاروں نے گولی ماری جبکہ اس کے اہل خانہ رحم کی درخواست کرتے رہے۔
سب کو پتہ بھی ہے کہ ظالم کون ہے؟ بلوچستان کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
اغواء, ماورائے عدالت قتل اور بوری بند لاشیں اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔
طلباء معاشرے کا بہترین اور روشن ذہن رکھنے والے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں ایک ہی قوم کے حقیقی معماروں کو اغوا کیا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،نہ ان پر کسی جر م کی پاداش میں مقدمہ چلایا جاتا ہے اور نہ ہی مارنے سے پہلے انہیں اپنی صفائی میں کچھ بولنے کا موقع دیاجاتا ہے اور بناء جرم عائد کئے انہیں قتل کردیاجاتا ہے۔کچھ کی نعشیں تو اُن کے لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہیں جبکہ بیشتر کے ورثاء تا حیات اپنوں کی واپسی کے منتظر رہتے ہیں مگر نہ تو انہیں جسد وصول ہوتا ہے اور نہ ہی اُپنوں کا وصال نصیب ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں طلباء کو قتل کیا جاتا ہے اور دہشت گردوں کو بخشا جاتا ہے،جہاں حق سچ کی بات کرنے والا،اپنے اور اپنی قوم کے حقوق کا مطالبہ کرنے والا،مظلوموں کا ساتھ دینے والا غدار کہلائے اور مجرموں اور ظالموں کی پُشت پناہی کرنے والوں کو تمغوں اور انعامات سے نوازا جائے وہ معاشرہ کبھی پروان نہیں چڑھتا۔
حیات کا جرم بھی فقط یہ تھا کہ بلوچوں کی حقوق کی بات کرتا تھا,بلوچستان میں سکیورٹی اداروں کے ظلم کے خلاف عام آدمی کو شعور دلا رہا تھا کہ اپنے حق کے لئے,اپنے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق کے حصول کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں۔مگر۔۔۔۔یہاں انصاف, حق, مظلوم کی داد رسی, بنیادی انسانی حقوق, سیاسی,جمہوری و آئینی حقوق سب کتابی باتیں ہیں۔
کہنے کی حد تک توجمہوریت, عدالت, آئین و قانون, انصاف سب موجود ہیں،لیکن یہ سب صرف کمزور کے لئے ہیں۔کسی پر بھی غداری کا ٹھپہ لگانا, اغواء کرنا،قتل کرنا ان وردیوں میں ملبوس درندوں کے لئے کوئی بڑا کام نہیں ہے۔
جب حق مانگنے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے کو غدار, دہشت گرد ٹھہراکر ماردیا جائے تو ایسے معاشرے میں کیسے نئی سوچ، بہتر مستقبل کے بے پایاں خوابوں کے ساتھ پروان چڑھے گی؟ جہاں حق کی بات کرنے والے اپنی ماؤں کے نام کے واسطے دیتے ہوئے بوڑھے کمزوروالدین کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیئے جائیں وہاں ایسے گھٹن زدہ ماحول میں ظلم و جبرکی حبس،ایسے اور بخارات کوجنم دیتی ہے جو ایک ساتھ اکٹھے ہو کر پھر طوفانی بارش کی صورت برستے ہیں۔ اور پھر جتنے بھی بند باندھے جائیں سیلاب رُک نہیں سکتا!

SHARE