Home Pakistan محنت کش طبقہ ہی سرمائے کی طاقت کو شکست دے سکتا ہے...

محنت کش طبقہ ہی سرمائے کی طاقت کو شکست دے سکتا ہے !

SHARE

مروجہ نظام کی پیدوارریاست جو اپنے وجود کے ساتھ ہم سے کچھ آہینی وعدے کر چکی ہے کہ محنت کش عوام سے کم سے کم ٹیکسز لیکر اُن کے لیے روزگار،تعلیم،صحت،تفریح اور انفراسڑکچر کو بہتر کیا جائے گا۔لیکن ایک طرف آج عوام پر بھاری مقدار میں ٹیکسز لاگو کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف نہ ہونے کے برابر سہولتیں مہیا کی جارہی ہیں۔آج حکمرانوں کے تمام چہیتے مختلف ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر عوام کو کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں مطلب ہم پہلے بھی روٹی ہی کھاتے تھے اب اُس کو بھی آدھا کر دیں !
ٓٓٓآج عوام بہت سارے خطر ناک امراض کی تشخیص ہو جانے کے بعد بھی ہسپتالوں میں جانے سے اِس لیے ڈرتے ہیں کہ ہسپتال میں موجود ڈا کٹرز جو مہنگے علاج اور ادویات کے عوض مریض اوراُس کے اہل خانہ سے ان کی باقی ماندہ زندگی کی خوشیاں بھی چھین لیتے ہیں۔
اس وقت ہمارے تعلیمی اداروں میں عو ام کو وہ تعلیم دی جارہی ہے جس میں صرف یاداشتوں کا امتحان لیا جاتاہے۔ جس کے ذریعے ماضی کے لٹیروں اور بدمعاشوں کے قصے کہانیاں پڑھا کر نئی نسل کو صرف تابعداری کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ حکمران جو زلزلہ سے تباہ شدہ اسکولوں کو دو بارہ تعمیر نہیں کرا سکے اورجواساتذہ کولیکچر کی تیاری کر کے بچوں کو پڑھانے سے زیادہ یہ تلقین کرتے ہیں کہ تم دیہات کے ا سکول میں موجود بچوں سے لیکر اُن کے والدین تک ہمارے جھوٹے کارناموں کی تشہیر کرو۔ جلدی چھٹی کر کے بازار جاؤ اورعوام میں یہ پروپیگنڈہ کرو کہ میں نے فلاں شخص کا علاج بیت الامال سے کروایا ہے۔آ ج یہ باتیں جب ہر استاد سے کی جائیں تو اُسے یہ اپنی آپ بیتی لگتی ہیں۔ہمارے معلمات کی جب اس طرح کے غلامانہ ماحول میں پروررش کی جائے گی تو کیا وہ ایک تنقید کرنے والی مستقبل کی شاندار نسل کی پرورش کر سکتے ہیں؟
حکومت کے نوٹیفکیشن کے باوجود اساتذہ کو اپنے قریبی دیہات میں تعینات نہیں کیا جاتاکیوں کہ مروجہ سیاست میں اساتذہ کے سیاسی تبادلے کر کے ان سے ذاتی بدلے لیے جاتے ہیں،لیکن اس میں سب سے زیادہ نقصان محنت کش عوام کا ہوتا ہے کہ جب ان کے بچوں کو بنیادی تعلیم کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جس کا اندازہ والدین کو خواندگی کی شرع کم ہونے کی وجہ سے بہت بعد میں لگتا ہے کہ جب اُن کا بچہ ناقص نظامِ تعلیم اور تربیت یافتہ اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے ا سکول سے فرار اختیار کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ موجودہ معروض کو مدِنظر رکھتے ہوئے دور دراز دیہاتوں کے اساتذہ(جن کا تبادلہ پھر باری لینے والے حکمران کی وجہ سے کل کو کسی دوسری جگہ ہو جائے گا)کو ان کے متعلقہ دیہات کے اسکولوں میں ہی تعینات کیا جائے جو بچے کی تعلیم کے حوالے سے عوامی کمیٹیوں کے سامنے جوابدۂ ہوں۔ہمارا مطالبہ ہے کہ تعلیم پر بجٹ کو کم کرنے کے بجائے بڑھایا جائے اور تمام ا سکولوں میں لائیبریریاں،سائینس لیبارٹریاں اور
چھوٹے بچوں کے لیے جھولوں کا بندوبست کیا جائے۔
حکمرانوں کے لیے سب سے زیادہ خوشی یا ہم آہنگی اُس بجٹ پر ہوتی ہے جس میں سب سے زیادہ کرپشن کی جاسکتی ہے اور وہ بجٹ انفراسٹرکچر کا بجٹ ہے جہاں پر ا پنے بیٹوں،بھتیجوں،بھانجوں،سالوں،اور قریبی دوستوں اور ٹھیکیداروں کی کمپنیوں کو ٹھیکے دلوا کر کثیر رقم کمائی جاتی ہے۔کیا ہمارے ہاں ہر سال تیار ہونے والی سڑکوں پر گھٹیا مواد استعمال ہونے کی وجہ سے گھاس نہیں اگتا؟ کیا سرکاری عمارات اورسڑکوں کی تعمیرات میں کرپشن نہیں کی جاتی؟
کیا اِس کرپشن میں وزیروں،مشیروں اور آفیسروں کا حصہ نہیں ہوتا؟
ہم سب جانتے ہیں کہ ضلع باغ میں عام عوام،نوجوانوں اور بچوں کے لئے تفریح کا کوئی نام ونشان نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں کے محنت کش انتہائی گہرے اضطراب کا شکار ہیں۔ روز مرہ کے کئی قسم کے مسائل کا سامنا کرنے اور مناسب تفریح گاہ نہ ہونے کی وجہ سے گھٹن اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔اور یقینی طور پر یہ گھٹن عوام کے وہ مسائل ہیں جن کے حل کے لیے اِن حکمرانوں کے پاس کوئی جامع اور سود مند منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔سال کے بعد ضلع باغ میں تفریح کے لیے پاک فوج کی رہنمائی میں ایک سپرنگ فیسٹیول کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں ایک طرف گندگی کی وجہ سے اسٹیڈیم کی حالت خراب ہوتی ہے جس سے کھیلوں کے شیڈول متاثر ہوتے ہیں تو دوسری طرف گھٹن اور محرومیوں میں گری محنت کش عوام(جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے) اس فیسٹیول میں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے اظہار اور انہیں حاصل کرنے کی غرض سے ہزاروں طرح کی مشکلات اٹھا کر اپنے ہم رازکی تلاش کرنے کی کوشش میں وہاں آتے ہیں،مگر پھر بھی ایک دوسرے پر یقین نہیں کر پاتے۔کیونکہ جہاں پر مفادات،مجبوریاں ہوں وہاں کوئی دوست اوررشتہ دار قابلِ بھروسہ نہیں ہو سکتا۔اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تفریح کے لئے ایسے پارکوں اور کھیلوں کے میدانوں کو تعمیر کیا جائے جہاں بھائی اپنی بہن کے ساتھ،شوہر اپنی بیوی کے ساتھ، والد اپنی بیٹی کے ساتھ وزٹ کر سکے ورنہ اس طرح کے فیسٹیول آرگنائز کرانے کی ضرورت نہیں جو لوگوں کی محروموں کو کم کرنے کی بجائے انہیں مذید ابھاریں۔
محکمہ برقیات کا جبر و ذیادتی:
بجلی کی فراہمی اس وقت کشمیر کے محنت کشوں کے لیے دردِسر بنی ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ پاکستان واپڈاکی مداخلت اورمن مانی
ہے،جہاں برقیات کے منتظمین کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ہر فیڈر کو کم سے کم یونٹس دے اور ضائع شدہ بجلی جو کہ تاریں ڈھیلی رہنے اور جہاں مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے کا خسارہ اُن صارفین سے پورا کیا جائے جو ایک تو بیرونِ ممالک کام کرتے ہیں اورجن کے گھر وں میں زیادہ بل آجانے کی صورت میں یونٹس کا ریکارڈ چیک کرنے والا کوئی نہیں ہوتا دوسر ے وہ جو کوتاہی برتتے ہیں یا کسی خوف کی وجہ سے اپنے حقوق کے لئے بات نہیں کر سکتے،وہ زیادہ بلوں کا بوجھ تو اُٹھاتے ہیں پر شکایت نہیں کرتے اور اگر شکایت کرنے کی طرف جاتے ہیں تو اُن کو یا تورشوت دے کر بل ٹھیک کروانے کا کہا جاتا ہے یا پھر مزید سخت نتائج کا انتباہ دیا جاتا ہے۔اور آج کل اسی صورت ِحال سے ہم اہلِ چمن بھی گزر رہے ہیں۔جہا ں پر بڑے پیمانے پر لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے وہاں زلزلہ کے بعد سے اب تک بڑی تعداد میں بغیرآلہ پیمائش(میٹرز) کے عوام سے بل لیے جاتے ہیں۔ ایک میٹر جس کی کل قیمت تقریباً 1000روپے سے کم بنتی ہے اُس کے لیے سرکاری فیس 2500 سو روپے تک لیکر پھر صارفین کو بار بار دفتروں کے چکر لگوائے جاتے ہیں اور مزید پیسوں کی مانگ بھی کی جاتی ہے جب ضلع باغ کے مرکز ریڑہ کے اندر اس پر تحقیق کی گئی تو بے شمار ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں علاقہ مکین میٹر کی مد میں 8000سے 10,000روپے تک جمع کر وا چکے ہیں۔کیا برقیات کے اِس ظلم کے خلاف بات نہ کی جائے؟
سیاسی اور سماجی کارکنوں پر ریاستی جبر اور دہشت گردی:
جب ریاست عوام کو بنیادی سہولتیں نہ دے تو جدوجہد محنت کشوں کا جوازبن جاتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ریاستیں چند بڑی اجارہ داریوں کی ایما پر محنت کش طبقے پر ٹیکس لگائے جا رہی ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان واپڈا کی کشمیر میں موجود ادارہِ برقیات کو اپنے تحت چلانا بھی اُن بڑی بڑی کمپنیوں کو منافع دینا ہے جو منگلہ ڈیم، میر پور، نیلم وجہلم ڈیم اور بہت سارے ڈیموں میں پاکستان وپڈا کے شراکت دار ہیں۔ باغ ریڑہ کے اندر علاقہ عوام اور انقلابی لمبے عرصہ سے ریاست کی طرف سے مسائل نہ حل کرنے کی وجہ مسلسل اپنے حقوق کے لئے سراپا احتجاج ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے چھوٹے چھوٹے مسائل کو حل کیا جا چکا ہے، جن میں طالبات کے لیے یونیورسٹی کی بس جو ڈھلی سے باغ تک شروع کی گئی، RHCریڑہ کوفی میل ڈاکٹراور باقی سٹاف کی فراہمی اور سب سے بڑی کامیابی محنت کش عوام کو جدوجہدکے عمل سے حقوق کی بحالی پر یقین کروانا شامل ہیں۔

مرکز ریڑہ کے محنت کشوں کی موجودہ کاوش و کامیابی!
پچھلے کئی مہینوں سے رٖیڑہ کے محنت کش عوام محکمہء برقیات کی جعل سازی،دھونس اور کرپشن کے خلاف احتجاج پر تھے۔شروع میں برقیات کے منتظمین سے کئی بار اس مسئلے پر گفت و شنید کے ساتھ ساتھ بار بار اپیل کرتے رہے کہ ہمارے مسائل حل کرو جس پربعض دفعہ انفرادی طور پر اس مسئلے پر آواز اٹھانے والوں کوبکنے کی آفر کے ساتھ ساتھ ڈرانے دھمکا نے کی کوششیں بھی کی گئیں اورپھرباقاعدگی سے منصوبہ بندی کے ذریعے 19اپریل کو محنت کشوں کے دو رہنماؤں پر FIR کروا کر سابق امیدوار ممبر قانون ساز اسمبلی اور سیکرٹری جنرل جموں کشمیر نیشنل سٹودنٹس فیڈریشن کامریڈ تیمور اور ممبر سی سی کامریڈ امجد کاشر کو گرفتار کروایا دیا گیا۔اس گرفتاری کا مقصد صرف حقوق کی سیاست کرنے والوں کو پابندہِ سلاسل کرکے انہیں ایسی عبرتناک سزا دینا تھا کہ محنت کش عوام دکھ اور تکلیف سہنے کی عادت نہ بھول سکیں اور مستقبل میں چار دیواری کے خوف اور ڈر کی وجہ سے اپنے حقوق کے لئے کسی بھی طرح کی آواز اٹھانے کے بارے میں نہ سوچیں،لیکن سماجی سائینس کو نہ سمجھنے والے شاید یہ بھول چکے تھے کہ ایک دفعہ محنت کش عوام رجتیت کے عہد سے آگے تحریک کے عہد میں داخل ہونے کے بعد کبھی بھی اتنی جلدی واپس نہیں لوٹتی بلکہ اگر اُن کی اپنی قیادت ان سے غداری کرتے ہوئے اصلاحات کی طرف قدم نہ بڑھائے تووہ چھوٹی بڑی تحریکوں میں کامیابیاں سمیٹے ہوئے آگے کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ جس کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں اور جس کی حالیہ مثال اب دیکھنے کو ملی کہ کس طرح محنت کش عوام نے گرفتاریوں کے خلاف احتجاج اور دھرنے دیئے۔اس اجتماع کو توڑنے کے لیے متعلقہ حلقے کے وزیر سے لیکر ضلعی انتظامیہ اور وہ تمام چھوٹے چھوٹے خود رولیڈرز جو اس وقت تک سیاست کرنے کے لئے اچھاخاصا سرمایہ لگا چکے تھے، ضلعی انتظامیہ کے پاؤں میں گرتے رہے کہ اگر مسئلے کو لے کر عوام کی عدالت لگی تو وہ کیسے سیاست کریں گے؟اوراگر سیاست نہ کر سکے تو چھوٹے چھوٹے سرمایہ کاروں کو کیا منہ دیکھیں گے۔ایک طرف انتظامیہ بار بار وقت لے رہی تھی تو دوسری طرف محنت کش عوام کی یہ مانگ تھی کہ FIRختم کرو ہمیں ہمارے حقوق دو۔ جب 26اپریل کو وقت دے کر انتظامیہ نہ آئی تو مقامی لوگوں نے مین روڑ کو باغ سے لے کر ضلع حویلی تک بند کر دیا جس کے بعد انتظامیہ کی طرف سے مذکرات کے لیے مختلف پیشکش ہوتی رہیں،مختلف لوگ آتے رہے، پر عوام کی مانگ تھی کی ڈپٹی کمشنر خود آ کر مطالبات حل کریں۔اس طرح 27اپریل کو عوام کی عدالت لگی جس میں پہلی دفعہ عوام کی طرف سے سوالات اور مطالبات کی بوچھار تھی۔ڈپٹی کمشنر نے تمام مطالبات کو قلیل ِمدت اور تحویل ِ مدت کی بنیاد پر حل کرنے کا وعدہ کیا،اور اس کے طریقہ کار میں محنت کش عوام نے اپنی کمیٹیوں کے ذریعے چار لوگوں کا انتخاب کیا جو موجودہ مسائل اور مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے متعلقہ محکمے سے مل کر کام کریں گے اور کسی قسم کی کوتاہی کی بنیاد پر متعلقہ دیہاتوں کی کمیٹیوں کے پاس یہ اختیارات ہوں گے کہ وہ موجودہ کمیٹی کو واپس بلا سکیں۔اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ کمیٹی میں موجود ممبران اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے محنت کش عوام کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔
تمام طاقت محنت کش عوام کی کمیٹیوں کو دو!

SHARE