سرمایہ داری جس نے اپنے عروج کے زمانے میں محنت کش طبقے کی تحریکوں کے عوض بے شمار مراعات دی تھیں، آج ایک ایک کر کے چھین رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ نجی ملکیت میں اضافے کے لیے مقابلہ بازی پر مبنی اقدامات ہیں جنہوں نے بڑی اژدھاجیسی اجارہ داریوں کو جنم دیا ہے جو لاکھوں چھوٹے سرمایہ داروں اور کڑوروں محنت کشوں کو نگل کر اب مالیاتی سرمائے کے بلبوتے پر نیو لبرل پایسیوں کے نام سے ریاستوں کے وسائل پر ڈاکا ڈال رہی ہیں۔
تحریر: مدثر محبوب
خدمات ِعامہ کے ادارے جنہیں محنت کشوں نے اپنے خون پسینے سے بنایا تھا آج یہ اجارہ داریاں لابنگ کے ذریعے، انٹرنیشنل مونیٹرنگ فنڈ (IMF)کی مداخلت سے ان ادروں کی نجکاری، بلخصوص پاکستان جیسی ریاستوں کے بجٹوں میں رکھوا چکی ہیں۔جہاں ہر سالانہ بجٹ کے علادہ منی بجٹ اور نئی نئی اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں آئے دن چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ عوام کی پہلے سے تنگ صورت ِحال میں موجودہ عمران خان کی حکومت نے مہنگائی، بے روزگاری،بے گھری اور لاعلاجی میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے وہ تمام دعوے عدمِ دلیل بن چکے ہیں جو پاکستان کی دیہی سرمایہ داری، درمیانے طبقے کے نوجوانوں اور غریب عوام سے کئے تھے۔ خدماتِ عامہ کے شعبوں سے وابستہ محنت کشوں کی قیادت سے بھی بہت ساروں کا یہ خیال تھا کہ اقتدار کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت اداروں کی نجکاری نہیں کرے گی، کیونکہ وہ عمران خان کی اُن پاپولر تقریروں سے زیادہ متاثر تھے جو الیکشن جیتنے کیلئے وہ آئی ایم ایف کے خلاف کر رہا تھا۔بھلا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے نجکاری اور محنت کشوں کے حقوق کو سلب کرنے کے عمل سے بچا جا سکتا ہے؟۔ کیا دولت اور طاقت کے نشے میں دُھت سرمایہ داروں کو اخلاقیات،انصاف، شائشتگی اور صبرو شکر جیسے لفظوں سے آشنا کروایا جا سکتا ہے؟یہ اب محنت کش عوام پر عیاں ہو چکا ہے کہ اس وقت پاکستان کی ریاست کا سول اور فوجی سرمایہ، بین الاقوامی اجارہ داریوں کے سرما ئے کے ساتھ نتھی ہو چکا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستی سرمائے کو بین الاقوامی سرمائے میں کچھ فیصد جگہ دیکر ریاست میں موجودہ ہر طرح کا انتظام مقامی سرمائے کو دے دیا گیا ہے،جس میں سرمایہ محفوظ کرنا، سرمایہ بڑھانا، سرمایہ مذید استعمال کرنے کے لیے ریاستی وسائل کا استعمال کرنے جیسے حربے شامل ہیں۔ یہ ایسے ہی نہیں ہوا یا ہو رہا ہے کہ کچھ سول اور فوجی حکمرانوں کی دولت سویس بینکوں سے ہوتی ہوئی پانامہ لیکس تک پہنچتی ہے اور کچھ کے امریکہ کے اندر فاسٹ فورڈ کے کاروبار بن جاتے ہیں۔جب پاکستان کی زرعی زمینوں پر قبضے کرنے سے مزاج اچھا نہیں ہوتا توآسڑیلیا کے اندر جز یرے خریدے جاتے ہیں۔چونکہ سول حکمران ملڑی اسٹیبلشمنٹ کے سکھائے ہوئے ہیں اس لیے وہ اِن کی تمام کمزوریوں سے واقف بھی ہیں کہ یہ کیسے چوریاں کر کے عوام کی دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونِ ممالک اپنے سمیت اپنے اہل و عیال کے ناموں پر بنک اکاؤنٹ کھلواتے ہیں، جس کا سارا راز، اس لوٹی ہوئی دولت کے مالکوں یا پھر ملک کی والی وارث اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، جو اس ساری کاروائی کی چشم دید گواہ رہتی ہے۔ اور پھر سول حکمرانوں کی نافرمان برداری پر اُنھیں کھڈے لائن لگا دیتی ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہی اس ملک کی کُل ہے بلکہ وہ عالمی سامراج جس کے اندر ابھی تک شمالی امریکہ کا طوطی بولتا ہے، اُس کے احکامات کی پیروی کرنے والی ایک فرنچائزہے جو پاکستان کے اقتدار پر کبھی خود قبصہ کر کے اور کبھی سول بالادستی کے نام پہ اپنے چاپلوس حکمرانوں سے اس ملک کے محنت کش عوام کے وسائل کو لُوٹنے کا پروگرام بناتے ہیں۔ اس لُوٹ کھسوٹ میں کبھی کھباریہ تمام چھوٹے بڑے کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ بگڑ بھی جاتے ہیں۔ناہمواری اور نا برابری کی وجہ سے اگر سامنے سے ایک دوسرے پر وار نہ کر سکیں تو پھر چوری چھپے واردات کرتے ہیں،لیکن محنت کش عوام کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اِن تمام قوتوں کے درمیان جتنا بیر،جتنی لڑائی ہو، محنت کش عوام کے مفادات کے سارے مخالف ہیں۔پاکستان کے سارے حکمران چاہے وہ سول ہیں یا فوجی، سامراج کے لیے بڑھ چڑھ کر خدمات سر انجام دینا چاہتے ہیں۔ اُس کے لیے بے شک سامراجی اداروں کی ایما پر محنت کشوں سے جینے کا حق چھیننا پڑے۔خدماتِ عامہ کے تمام ادارے جو کسی حد تک عوام کو ریلیف دے رہے ہیں، اُن کی نجکاری کی جا رہی ہے۔جس سے ایک طرف مذید برطرفیوں سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا اور دوسری طرف محنت کش عوام متعلقہ اداروں کی پیداوار اور خدمات کو مہنگی خریدنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔اس پر ستم کہ کورونا کے متاثرین کو ہر روز بجلی،گیس،پٹرول، ادویات اور کھانے پینے کی اشیا میں اضافہ کا تحفہ دیا جا رہا ہے۔موجودہ حکمران جن عالمی اداروں کے اعدادوشمار کو لیکر گزشتہ حکمرانوں پر کرپشن کی رٹ لگائے ڈی چوک پر بیٹھے تھے، آج خود بھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں اضافہ کر کے بڑے دھیمے لہجے میں آنکھیں ملائے بغیر کرپشن کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی عوام کی کتنی خدمات کرنا چاہتا ہے۔ جو کڑوروں خرچ کر کے آتا ہے اُس کا مقصد اربوں کمانا ہوتا ہے۔ان اسمبلیوں میں وہی بیٹھتے ہیں جو یا تو ہزاروں سے لاکھوں ایکڑ زمینوں کے مالک ہیں یا پھر بنکوں سے محنت کشوں کی جمع پونجی سے اربوں روپے قرض لیکر کر معاف کروا چکے ہیں۔ ان میں محنت کش عوام کا کوئی نمائندہ نہیں، سارے بہروپیے ہیں۔ محنت کش عوام کے نمائندے جب بھی اِ ن اسمبلیوں کا حصہ بنے، تو وہ سامراج سے لیکر کر نام نہاد سول ڈیموکرٹیوں اور فوجی حکمرانوں کے تمام جبر کے خلاف عوام کو ان کی کرپشن،مفاد پرست پالیسیوں اور تمام ہتھکنڈوں کو بے نقاب کریں گے۔ کیا ہمیں مان لینا چاہیے کہ سول اور فوجی حکمرانوں پر مشتمل، نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر (NCOC)کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل آصف محمود نے تمہید باندھ کر فخریہ انداز میں کہا کہ ہم کرونا وائرس کے ہر مریض پر 23 لاکھ سے 25 لاکھ تک خرچ کر چکے ہیں؟
جنرل صاحب کے اس بیان پر دوستوں میں شامل تمام ڈاکٹرز، محققین اور فنانس میں مہارت رکھنے والے دنگ رہ گئے ہیں کہ یہ رقم کیسے ایڈجسٹ کی ہو گی لیکن ہمارے سادہ لوح ساتھی یہ نہیں سمجھتے کہ ہما رے حکمرانوں نے 74سالوں میں صرف عوام کا پیسہ ہی تو اپنے مفادات کے لیے ایڈجسٹ کرنا سیکھا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے آئے روز عالمی اجار ہ داریاں،پاکستان کے سول اور فوجی سرمایہ دارحکمران ا میر سے امیر ترہو رہے ہیں اور دوسرے طرف محنت کش عوام غربت،جہالت، بے روزگاری،بدامنی، معاشی او ر قومی جبر کا شکار ہو رہے ہیں۔ عوام جب بھی اس تمام جبر کے خلاف برسرِپیکار ہونے لگتے ہیں اُنھیں بڑی چالاکی کے ساتھ قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کرنے کے لیے مخصوص انداز سے خاندانی القابات سے نوازاجاتا ہے۔مزدور بڑی خوشی سے لاشعوری طور اپنے نام کے ساتھ اپنی برادری کا نام لگوانا پسند کرتے ہیں جس کا سارا فائدہ چند نوسرباز اٹھاتے ہیں،جو پوری برادری کو اپنی نسلوں کے مفا دات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مزدور،محنت کش کسان اوربے روزگار نوجوان ایک طبقہ ہیں انہیں ہر صورت اپنے طبقے کے خلاف ریاستی جبرکا مل کر مقابلہ کرنا چاہیے۔کیونکہ دولتمند اکٹھے ہیں اس لیے وہ جبر کرنے یا وجود رکھنے میں کامیاب ہیں۔ہمیں شعوری طور پر جمہوری مرکزیت کے تحت اپنے آپ کو منظم کرنا ہو گا تاکہ محنت کشوں کے دشمنوں (آئی ایم ایف، پاکستان کے سول اور فوجی حکمران، مزدور اشرافیہ اورقومی تحریکوں کی مڈل کلاس،مرکزیت پسند قیادت) کا محاسبہ کیا جا سکے۔
آؤ مل کراپنی تحریکوں میں موجود اُن لوگوں کی شاخت کریں جو مزدور جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور روزمرہ کی بنیادوں پر مزدوروں کے اندر بحث و مباحثہ کرتے ہیں، کہ مزدور اصل ریاستی اور عالمی طاقت ہونے کے باوجود نظم و نسق اپنے کنٹرول میں کیوں نہیں لے پا رہے؟سرمایہ داری سے آزادی کا خواب کیسے پایا تکمیل نہیں ہو پا رہا؟





