(نیشنل کونسل )جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی
اس وقت ہمالیہ کا خطہ انڈیا اور پاکستان کا جنگی میدان بنا ہوا ہے۔یہ وہ متنازعہ خطہ ہے جس کی قراردایں انڈیا اور پاکستان سامراج کے عالمی ادارے اقوام متحدہ میں پیش کر چکے ہیں۔ان دونوں کا دعوی ہے کہ کشمیر اِن سے منسوب ہے جو کہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔اقوام متحد ہ یاد رہے کہ عالمی طاقتوں کا ایک ایسا کلب ہے جس میں سب سے بڑی چھاپ شمالی امریکی سامراج کی ہے جو طاقت ور قوتوں کے ہاتھوں کمزور کا استحصال کرنے کا تائید کنندہ ہے۔اس لیے ہم سامراج کے اس ادارے کو دنیا پر مصائب مسلط کرنے ، جس میں جنگ بھی شامل ہے کا منصوبہ ساز سمجھتے ہیں۔اس لیے انڈیا اور پاکستان کی موجودہ اس جنگی ڈیزائننگ میں اس ادارہ کا پورا ہاتھ ہے اس پوشیدگی میں عالمی سامراج اپنے منافعوں کو بڑھانے کی منصوبہ بند ی کر بیٹھا ہے۔جس کے لیے مختلف اوقات میں مختلف حربے آزمائے جاتے رہے ہیں۔برطانوی سامراج کی طرف سے برصغیر کی 1947میں تقسیم نے انڈیا اور پاکستان کو ہمیشہ سے ازلی دشمن کے طور پر آمنے سامنے رکھا جس کی وجہ برطانوی سامراج کی وہ تقسیم تھی جو سامراج تبدیل ہونے کے باوجود جاری و ساری رہی ۔ آج بھی امریکہ اُسی فارمولے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘‘ میں صرف تذبذب کا اضافہ کر کے تمام سماجی ، سیاسی اور اقتصادی معملات کو آگے بڑھا رہا ہے ۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہمالیہ کے اس خطہِ کشمیر کو بھی تقسیم کر کے پچھلے 70سالوں سے دونوں اطراف لائن آف کنٹرول کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ خاندان ہیں پرسامراج اور اُس کے چوکیداروں کی تقسیم کی وجہ سے دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک نہ ہونے پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں ۔کشمیر کے محنت کش عوام پر پاکستان اور ہندوستان کے حکمران اس سے پہلے تین اعلانیہ جنگیں اور بے پنا ہ ریاستی دہشت گردی کر چکے ہے اور اس وقت منصوبہ بندی کے ساتھ چوتھی لڑی جا رہی ہے ۔اس اکھاڑے میں شدت چودہ فروری کو انڈیا کے قبضے میں کشمیر کے علاقے پلوامہ میں خودکش دھماکے سے ہوئی جس میں نیم فوجی دستہ کے تقربیا ً 40لوگ مارے گئے اس کے بعد انڈیا نے 26 فروری کواس دھماکے کو جواز بنا کر پاکستان کے علاقہ بالا کوٹ پر حملہ کیا جس میں انڈیا کا بہت سارے دہشت گرد مارنے کادعوی جبکہ پاکستان کا صرف ایک کوے کے نقصان کی تصدیق ہوئی ۔اُس کے بعد 27 فروری سے مزید ہوائی اور زمینی کاروائیاں جاری ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی طرف سے ہندستان کا ایک مگ جیٹ کو مار گرانا اور ایک پائلٹ کو زندہ برآمد کرنا شامل ہے جس کی مہمان نوازی کرنے کے بعد آخر کار کرداروں کو کم کرتے ہوئے واپس انڈیا کے حوالے کر دیا گیا ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سامراج،ریجنل سرمایہ داری اور اُن کے نمائندہ حکمران اس خطے سے بہت سارا کچھ جنگ و جدل کے نام پر لوٹ چکے ہے۔ اس وقت کی جنگ کا تجزیہ کرنے کیلئے ہمیں پہلے معروضی حالات کا جائزہ لینا پڑے گا اور جنگ کی ضرورت کا بھی ۔ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیر ،انڈیا اور پاکستان، ہر جگہ سماج میں موجود انقلابی چاہے تھوری تعدار میں ہوں پر سامراج کی لوٹ مار اورتقسیم کے سامنے کھڑے نظر آ رہے ہیں ۔محنت کش عوام اس وقت پورے جنوبی ایشا کے خطے میں بے روزگاری، غربت، مہنگائی، اغوا کاری،ماورائے عدالت قتل،قید،تعلیم اور صحت کی عدم دستیابی،، ڈاؤن سائیزنگ،رائیٹ سا ئیزنگ ، خدمات کے شعبوں کی نجکاری، پسما ندگی ،دہشت گردی،اور بولنے کی آزادی کو لے کر حکمرانوں کے اقتدار کی چالوں کا احسن طریقے سے جواب دے رہے ہیں ، بد قسمتی کے ساتھ وہ کمزور اور غیر منظم ہیں۔آج تک اُن کی قیادت نے انھیں جو نصاب پڑھایا ہے وہ انتہائی پرانا اور انفرادی ہے جب کہ اُن کے خلاف لڑنے والے سامراج کی چھتر چھاؤں میں تھوڑے آگنائز ہیں ، لیکن اب انقلابی اپنے عمل سے سیکھ رہے ہیں ۔
ان انقلابو ں میں سے کشمیر کے نوجوان تقربیا ً دس سالوں سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں غیر معمولی مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں۔ جو ہر چوک، چوراہے،محلے، دیہات، شہر ،سکول ،کالج اور یونیورسٹی میں پھیل چکی ہے جس کو انڈیا کے حکمران پوری طر ح سے کچلنے میں ناکام ہیں اور نہ ہی اس تحریک کو روکنے کی چابی اب پاکستان کے پاس ہے۔ یہ وہی تحریک ہے جس کی وجہ سے انڈیا کی مرکزی حکومت (BJP)نے کشمیر کے اندر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)سے اپنا اتحاد ختم کیااور بطور چیف منسٹر محبوبہ مفتی کو اپنے انتظامی عہدے سے دستبردار ہونا پڑا ، یاد رہے اس وقت کشمیر کے تمام امور (BJP) کی حکومت دہلی سے ہو کر چلا رہی ہے۔ کشمیر کی اس تحریک کو نہ صرف پاکستان مقبوضہ کشمیر بلکہ انڈیا اور پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوان میں علامتی تحریک کے طور پر لیا جا رہا ہے ۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھی حالات پہلے جیسے نہیں رہے کہ خالی وقتی نعروں ،تقریروں اور برسیوں پر گزا راکیا جاتا تھا ۔ اب عوام کچھ کرنے ،کچھ بدلنے کے درپے چھوٹی چھوٹی ہڑتالوں اور تحریکوں میں نظر آتی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے ایل او سی کی تشویشناک صورتِ حال دیکھتے ہوئے گردونواع کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے سیز فائر لائن کی طرف لانگ مارچ کیا جس میں عوام کی بڑی تعدار نے شرکت کی جو شاید مارچ کی قیادت کے ذہن وگمان میں بھی نہیں تھا۔مارچ روکنے کے لیے پاکستان انتظامیہ کی طرف سے گولیاں چلائی گئیں۔جے کے ایل۔الف کے اہم رہنما نعیم بٹ کو شہید کیا گیا جسکی شہادت کا قرض ابھی بھی پارٹی چیرمین یاسین ملک اور زونل صدر توقیر گیلانی کے کندھوں پر ہے ۔ پھر نیلم ، جہلم دریا بچاؤ تحریک جو ابھی بھی جاری و ساری ہے جس کی مانگیں آنے والے عرصے میں مفت بجلی کی فراہمی اور کشمیر چھوڑ دو تحریک تک جا پہنچیں گی۔گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر سے نتھی ایسا خطہ ہے جسے 28اپریل 1949کو پاکستان نے جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی حکومت کے سامنے رکھ کر ایک معاہدے کے ذریعے لے لیا جس کی بنیادی وجوہات اس علاقے کی جیو پولیٹیکل اہمیت اور گلیشیرز ہیں جن کے بھاری پانی کو استعمال کر کے زیادہ مقدار میں پن بجلی حاصل کی جا رہی ہے ۔اب چین پاکستان اکانمیکل کوریڈور (CPEC) کی تمام تر ترقی و تعمیر کا انحصار اس خطے کے استحکام پر ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔گلگت بلتستان کو لیکر پچھلے لمبے عرصے سے عوام میں بے چینی موجود ہے ۔عطا آباد جھیل کے حادثے سے لیکر اشیاء خوردونوش پر سبسڈی کے خاتمہ تک بڑی ہڑتالیں اور مظاہرے ہوئے جن کی پاداش میں سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو شیڈول فور انٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت ریاستی دہشت گردی کر کے پابندے سلاسل کیا گیا جس میں بابا جان اور کچھ دوسرے اسیران زیادہ پالولر ہیں۔ گلگت بلتستان ہمیشہ ہی سامراج کی لسٹ میں اہمیت رکھتا رہا ہے ۔لیکن یہ سرزمین تک محدود ہے اس میں گلگت بلتستان کی عوام کو کبھی بھی مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ کسی قسم کی اہمیت کے حامل ہیں ۔2009 میں گلگت
بلتستان کو نیم صوبائی خود مختاری دی گئی ۔جس کو بنیاد بنا کر گلگت بلتستان کے کچھ سیاسی کارکنوں نے پاکستان سپریم کورٹ میں مکمل صوبائی اسٹیٹس کے لیے ایک پٹیشن دائر کی جس کو یہ کہ کر خارج کرنا پڑا کہ اس علاقہ کی کسی قسم کی آزادی کا تعلق مسئلہ کشمیر کے ساتھ جڑاہے ۔اس فیصلہ کے بعد کشمیر ایشو کو گلگت بلتستان میں زیادہ پزیرائی حاصل ہو رہی ہے ۔ اور آنے والے عرصے میں کسی بھی طرح کی مشترکہ حکمتِ عملی پر بات کی جا سکے گی جو پاکستان مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام اور سیاسی گروپوں کی مجبوریاں ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام سی پیک کی ریل پیل کو دیکھتے ہوئے ضر ور سوچتے ہیں کہ اس میں ہمیں کیا مل رہا ہے ۔یہ بے چینی چھوٹے عوامی مظاہروں کی شکل میں باہر آ رہی ہے جو ہر روز بڑھ رہی ہیں اور مختلف علاقوں میں ہڑتالوں تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ بے چینی حکمرانوں کی سی پیک میں حصہ داری کو خطرے میں ڈال سکتی ہے ۔
انڈیا کے اندر دو سال قبل محنت کشوں نے اپنے حقوق پر ڈاکے کے خلاف تاریخ ساز ہڑتال کی تھی۔ جس نے بھارتیا جنتاپارٹی (BJP) اور مذہبی انتہاپسند راشڑیا سوائم سیگوک سَنگ (RSS) ہندو قوم پرستی کی قیادت مودی سرکار کو یہ بتایا کہ مذہبی و قومی بنیادوں پر محنت کشوں کو تقسیم کرنا کوئی مستقل حل نہیں۔اس کے ساتھ نسل پرستی پر تقسیم کے خلاف نوجوان انقلابیوں نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا جو جاری و ساری ہے ۔ حالیہ سماج کی ایک اور پرت کسانوں نے بھی اپنے حقوق کی مارچ کر کے یہ بتا دیا کہ تمھارے ہر وار جو مذہب، قوم اور ملک کے نام پرکیا جاتا ہے ہم اُس کے خلاف ہیں اوررہیں گے ۔
پاکستان جس کی عوام پچھلی دو دہائیوں سے افپاک اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جو اصل میں امریکہ کی جنگ ہے میں بری طرف متاثر ہوئی ہے ۔ جس کی آڑ میں پاکستان کے حکمرانوں نے سامراج کے تلوے چاٹ کر اپنے لئے مزید دولت اور طاقت اکٹھی کی ۔بڑی بڑی کمپنیاں اور رہائشی سوسائیٹیاں بنائیں ، چونکہ اس سارے کھیل میں پاکستان کی طرف سے فوجی قیادت نے خوب کمایا جس کی وجہ فوج کے پاس وہ مسلح طاقت تھی جس کی ہمیشہ سامراج تلاش میں رہتا ہے ۔ اور فوجی قیادت تقسیم سے لیکر اپنی تعمیر کرتی رہی ۔ سب سے زیادہ فائدہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مسئلہ کشمیر میں فوج کو ہوا ۔اس لیے آج پاکستان کی معیشت میں سامراج کے بعد سب سے زیادہ حصہ فوج کا بنتا ہے ۔ انتہائی نحیف حصہ اُن حکمرانوں کا ہے جو پہلے پہل میں انھیں فوج کی ٹریکل ڈاؤن کی ہوئی دولت کی شکل میں حاصل ہوا تھا بعد میں مختلف شعبوں سے کرپشن کر کے کچھ زیادہ حاصل کیا گیا جس کو حاصل کرنے کی کاروائی سیکرٹ ایجنسیز ساتھ ساتھ نوٹ کرتی رہیں ۔ جب ان کے سماجی ،اقتصادی اور سیاسی مفادات میں تھوڑا سا رفٹ آیا توسپریم عدلیہ کی قیادت کو فرنٹ پر لا کرحکمرانوں کے خلاف کاروائی کروائی گئی کیونکہ اس ملک میں فوج اور عدلیہ کے اداروں کے مر اسم زیادہ تر اچھے رہے۔نواز شریف کو کرپشن کی سزا ملی جو کہ سب کی بنتی تھی ۔’’اور وں کا احتساب بھی کرو ‘‘ جملے نے فوج کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔جس کی وجہ سے ہر جگہ جہاں کچھ ہوا وردی کو ہی یاد کیا جاتا رہا ۔بلوچوں کے حقوق کی جدوجہداور پشتون تحفظ موومنٹ(PTM)جو پشتونوں کے تحفظ اور حقوق کی تحریک نے سب سے زیادہ تنقید فوج پر کی۔اس موومنٹ نے 30سالوں سے پشتونوں کے خلاف نسل پرستی،ظلم وجبر ،زیادتی اور اغوا کاری کا بھر پور جواب دیا ہے وہ باتیں جوپاکستان میں ہمارے اجداد نے کبھی نہیں کی تھیں پی ۔ٹی۔ ایم کی تحریک نے سرِعام کیں ۔ تحریک بے پناہ مشکلات کے باوجود زور پکڑ رہی ہے بلکہ سندھیوں ، پنجابیوں ،بلوچوں اور کشمیروں کی بھی ہمدریاں حاصل کر رہی ہے ۔ پاکستان کی حکومت کو چلانے کے لیے سات ماہ پہلے پاکستان تحریک انصاف کو عمران خان کی قیادت میں اقتدار دیا گیا یہ وہ پاپولر قیادت ہے جس نے اپنی کمپین کے دوران اتنے وعدے کئے جتنے سامراجی ادارے UNOنے غریب ممالک کے عوا م سے کر رکھے ہیں ۔اقتدار سے لیکر اب تک یہ قیادت محنت کشوں کی کھانے پینے اور استعمال کی چیزوں پر بے تحاشا حملے کر چکی ہے ۔اسے ہر ماہ ایک منی بجٹ یاد آ جاتا ہے ۔اس وقت عمران خان اور اُس کو لانے والی فوج یہ سمجھتی ہے کہ ان کے مزید حملے محنت کش عوام کو پھٹنے پر مجبور کریں گے جس کے لیے کچھ نیا اسٹیج لگانا ضروری ہے۔
یہ جنگ کیوں ضروری ہے؟
اس جنگ کے ذریعے فوج کی کھوئی ہوئی ساکھ کو واپس لانا، کیونکہ پاکستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں واحد ادارہ فوج ہے جو عدلیہ کو ساتھ رکھ کر عوام کی ہڑتالوں اورتحریکوں کو کچل سکتی ہے۔ انڈیا میں مودی کی حکومت کا الیکشن جیتنا اس لیے ضروری ہے کہ سامراج کی سرمایہ کاری کو محفوظ کرنا ،جو آئی ایم الف ،ایشین بنک ، چین کی طرف سے کی گئی ہے جس کے منافعوں کے لیے پہلے ہی عوام پر ٹیکسزلگائے جا چکے ہیں۔سعود ی عرب کی طرف سے حالیہ سرمایہ کاری جو پاکستان میں بیس ارب ڈالرز اور انڈیا کے اندر پچاس ارب ڈالرز ہوئی ہے ،اُس کے منافعوں کے لیے ضروری ہے کہ عوام سے مزید کفایت شعاری کروائی جائے اور ٹیکسز لگائے جائیں ۔جس میں مزید ایک سو فیصد سے زیادہ کا اضافہ متوقع ہے ۔بے روزگاری بڑھے گی ،خدماتِ عامہ کے اداروں کی نیلامی ہو گی ۔عوامی کی تحریکوں کو دبایا جائے گا۔جس سے جنوبی ایشیا کے حالات بھی مڈل ایسٹ ،لاطینی امریکہ اور یورپ جیسے بن سکتے تھے جہاں عوام سامراج اور علاقا ئی رجیمز کے خلاف برسرِپیکار نظر آئے گی۔اس سے بچنے کے لیے سامراج کی طرف یہ جنگ سپانسر گی گئی جو اس خطے میں مذہبی شاوینزم کے نام پر کھیلی جا رہی ہے تاکہ لوگوں کو جڑنے نہ دیا جائے اور وطن پرستی کی ہوا کو مزید برقرار رکھا جائے۔
انقلابیو ! سامراج کو جواب دینا ہو گا۔
ہم انقلابی جو اپنی سیاست کو ’’عام عوام کی سیاست کا‘‘ راگ الاپتے ہیں آ ج جب عوام تذبذب میں ہے تو ہم جنگ اور امن کے نعروں میں پھنس کر رہ گئے ہیں جسکی بنیادی وجہ ہماری سیاست کا سائنسی بنیادوں پر نہ ہونا ہے ۔ہم نے اپنی پارٹیوں کو کبھی بھی کیڈرز پارٹیاں بنانے کی کوشش نہیں کی ،ہمیشہ بزدلی اور ریاکاری سے کام لیاگیاجس کی وجہ سے مسلسل مایوسی اور یاس نے ہمیں گھیرے رکھا، پارٹیوں سے زیادہ تنقید ی عناصر ٹوٹتے رہے اورجو عمل اب بھی جاری و ساری ہے۔اس وقت ضروری ہے کہ تمام پارٹیاں اپنے جھنڈے اپنے ڈنڈے کے ساتھ ، مظفرآباد جمع ہو کر گزشتہ نیلم ،جہلم دریا بچاؤ تحریک کی مانگوں کو مزید گہرا کرتے ہوئے پورے کشمیر کو تحریک میں شامل کریں چونکہ فاروق حیدر اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے تحریک کی قربانی دے کر ڈیل کر چکا ہے۔ ہماری پارٹیوں کے وہ مبصرین جو بڑی شوق سے بیرون ممالک بیٹھ کر پارٹیوں میں بہتر ی لانے کے مشورے دیتے رہتے ہیں ۔انڈیا اور پاکستا ن کی ایمبیسیوں کے سامنے جمع ہو کر سامراج کو بے نقاب کریں اور’’ کشمیر چھوڑ دو ‘ ‘ نعرے کو بلند کریں۔
حکمرانوں کی اس جنگ کے خلاف عوامی حقوق کے لئے جنگ کی جائے جس سے ایک طرف سامراج اور اس کے حواریوں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے اور دوسری طرف انقلابیوں اور غیر انقلابیوں میں تقسیم ممکن ہے جو مستقبل کے لئے انقلابی حکمتِ عملی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
ہماری اپیل!
۱۔ہم ملکی ،ریجنل اور عالمی دوستو ں اور کامریڈز سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا پر مسلط جنگ کو بے نقاب کرتے ہوئے کشمیر کی حقِ خوداریت کی حمایت کریں۔
2۔اس وقت کشمیر ی دونوں اطراف سے گولیوں کا نشان بنائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے تقربیاً 30 سے زیادہ لوگوں مارے گئے اورکئی بے پناہ مالی نقصان اٹھا کر ہجرت کر نے پر مجبور ہیں۔ ہمیں فوری طور پر مظاہروں کا اہتمام کرتے ہوئے پاکستان ،ہندوستان اور سامراجی اداروں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ یہ جنگ کا مسلط کیا ہوا ڈرامہ بند کریں۔
3۔سامراج کو نتھ ڈالنے کیلئے ضروری ہے کہ کشمیر ،فلسطین ،کرد اور کٹالونیا کی تحریکوں کو مشترکہ طور پر جوڑتے ہوئے اظہارِ یکجہتی کے ساتھ لڑئیں۔
4۔ہمیں سامراج کے خلاف لڑائی کے لیے عالمی محنت کشوں کی پارٹی کی ضرورت کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے تعمیر کو یقینی بنانا چاہیے ۔
غیر ملکی غاصبو چھوڑ دو کشمیر کو !!!





