Home Pakistan نیلم ، جہلم اور باقی ہائیڈرو پاور پروجیکٹز میں ہم کہاں؟

نیلم ، جہلم اور باقی ہائیڈرو پاور پروجیکٹز میں ہم کہاں؟

SHARE

نیلم ،جہلم ہائیڈروپاور پروجیکٹ پاکستانی مقبوضہ کشمیر مظفرآباد میں لگایا گیا ہے ۔ جس کے لیے مظفر آباد سے مشرق کی طرف تقربیا 41کلومیٹر کے فاصلے سے نوسیری کے مقام پر ایک سرنگ کھود کر دریا نیلم کے پانی کا رخ تبدیل کر کے مظفرآباد سے 22 کلو میٹر جنوب چھتر کلاس کے مقام پر تعمیر کردہ پاور ہاوس میں چھوڑاگیا۔اس کے بعد چھتر کلاس سے چار کلو میٹر جنوب کی طرف سے نیلم کے پانی کو دریا جہلم میں نکالاگیاہے ۔
اس منصوبے کی تکمیل کا دورانیہ تقریباًدس سالوں (جو 2008سے 2018تک ہے ) پر محیط ہے ۔اس ہائیڈرو پرا جیکٹ کی تعمیر کی شراکت داری میں پاکستان واپڈا،چین کا سرمایہ کار گروپ، GEZHOUBA او ر’’چینی نیشنل مشینری امپورٹ و ایکسپورٹ کا رپوریشن‘‘(CGGC) شامل ہیں۔ 515ارب روپے لاگت سے تیار کردہ یہ پروجیکٹ968میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے لئے زیادہ تر قرض چین اور مشرقِ وسطی کے بنکوں سے لیا گیا۔جبکہ پاکستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام تقریباً 50ارب روپے ڈیم کی تعمیر کی آڑ میں اپنے بجلی کے بلوں پر سرچارچ کی مد میں گزشتہ دس سالوں سے ادا کر چکے ہیں بلکہ اب تک کر رہے ہیں ۔
نیلم، جہلم ڈیم کی اونچائی 47میٹر 154فٹ اور لمبائی 125میٹر یعنی 410فٹ ہے۔جس کے اندر 80لاکھ کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔اس ہائیڈرو پراجیکٹ کوجغرافیائی لحاظ سے اس مقام پر شروع کرنے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی سماجی،معاشی اور سیاسی بنیادوں پر قائم کی ہوئی وہ ترتیب ہے جوایکٹ 74اور بعد کی ترمیموں میں واضح طور پر یہ نشاندہی کرتی ہے کہ کشمیر کے تمام داخلی اور خارجی امور ،پاکستان کے حکمران کشمیر کونسل میں بیٹھ کر فوجی قیادت کی مشاورت سے اپنے نمائندے وزیرِ امورِکشمیر ا ور تعینات بیوروکریسی(جس میں جرنل کمانڈر آفسر،پاکستان سیکرٹ ایجنسیز،چیف سیکرٹری،فنانس سیکرٹری،آئی جی پولیس،اکاؤنٹنٹ جرنل) کے ذریعے سر انجام دیتے ہیں۔ایک طرف تووہاں کے لوگوں پر مسلط یہ جتھا مختلف حربوں سے میڈیا،تعلیمی نصاب اور بھارت مخالف وطن پرستی کو برقرار رکھ کر کشمیر کے وسائل کو پوری آب و تاب سے لوٹ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پراپنے دانت بھی دکھاتا ہے۔جن کے خلاف ابھی تک کسی تحریک نے جنم نہیں لیا۔اسی لئے جمود کے دوران یہ اپنی کاروائی ڈالتے ہوئے ہینگ اور پھٹکڑی کے بغیرمزید وسائل کو اپنے قبضے میں لینے چاہتے ہیں۔اِن کے آگے ذمہ داریاں سرانجام دینے والی وہ حکومت جس کو آزاد حکومت کے طور پر جانا جاتا ہے صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے منتخب کروائی جاتی ہے تاکہ لوگوں کی بے چینی کا رخ علاقائی بنیادوں پر ہی کم ہوتا رہے جس کے شوائد ہمارے سامنے ہیں کہ کسں طرح پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد حکومت نے پچھلے ستر سالوں سے اپنے آقا ؤں کی جی حضوری کر تے ہوئے ہمیشہ کشمیری عوام کے حقوق کی قربانیاں دیں۔ جب بھی پاکستان حکومت کی پاکستان کے کسی بھی صوبے میں ڈیم بنانے کی کوشش ناکام ہوئی تو ہر بار کشمیری حکمرانوں نے سینہ تھپکتے ہوئے کشمیر میں ڈیمز بنانے کے حکم کو اپنے کمیشنزکی خاطر کشمیر کے باسیوں کی محرومیوں کو تنگ نظری میں دھکیل کر اُن کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا جو اُن کے سیاسی اجداد کا وطیرہ رہا ہے ۔منگلا سے لیکر کرنیلم، جہلم منصوبوں تک ایک تسلسل ، آؤکشمیر کی سرزمین پر جتنے چاہو ڈیم بناؤ۔دوسری وجہ پانی کا اونچائی سے بہاؤ،جو پہاڑی سلسلہ اور قدرتی طور پر پانی کے سرد ہونے کی وجہ سے کم لاگت پر ٹربائین پر اچھا پریشر بننا۔تیسرا بغیررایلٹی دیئے زیادہ سستی بجلی حاصل کرناشامل ہے۔
۔نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ پر پاکستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عام عوام ہمارے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ پانی سے بجلی پیدا ہو گی تواس سے بھلاہمیں کیا تکلیف ہے؟ڈیم تو اِس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مگرہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک طرف دیہی علاقوں میں مقیم ہم جیسے انسا ن مویشی پالنا،جنگلات اور زراعت پر انحصار کرتے ہیں جن کے لئے آبپاشی اور پینے کے پانی کے حصول کا واحد ذریعہ دریا اور چشموں کا پانی ہے۔دریائے نیلم کے رخ کی تبدیلی کی وجہ سے دریا میں پانی انتہائی کم ہو چکا ہے اوردرمیان میں آنے والے مقام نوسیری سے لے کردو میل تک کے علاقے مسلسل اس سے متاثر ہوئے ہیں۔اور دوسری طرف اس منصوبے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی بہت گہرے اثرات مرتبہ ہو رہے ہیں۔مختلف رپوٹوں کے مطابق اس پروجیکٹ کی وجہ سے ہمالیہ کے پورے ماحولیاتی نظام کی بنیادی اکائی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔جس سے حیاتیاتی نظام میں تنوع ناگزیر ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس پروجیکٹ کی و جہ سے بہت سی نایاب نوعspeciesبہت جلد ناپید ہو جائیں گی۔
نیلم اور مظفرآباد کی خوبصورتی میں دریائے نیلم اہم وجہ تھا جو سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ مظفرآباد کے شہریوں کو صاف پانی بھی مہیا کرتا تھااب اس دریا کا رخ تبدیل کرنے سے مظفرآباد پینے کے صاف پانی سے محروم ہو جائے گا۔اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سماجی ،اقتصادی اور ماحولیاتی طور پرنیلم اور مظفر آباد کے عوام کے لئے کسی نہ کسی وجہ سے دردِ سر بنا رہے گا۔
سماجی اور اقتصادی بربادی
واپڈا نے نیلم ،جہلم ہائیڈروپروجیکٹ کیلئے تقربیا 2400کنال زمین کی ملکیت حاصل کی ہے جس کی قیمت صرف بیس سے تیس ہزار روپے کنال طے کی گئی ہے ۔جس میں سے ابھی تک وہ بھی بہت ساروں کو ادا نہیں ہوئی ۔ کشمیر میں صنعت نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کا گزارہ زراعت پر ہوتا ہے زمین نہ ہونے کی وجہ سے اب اُن کے پاس کوئی متبادل نہیں کہ وہ اپنا گزر بسر کر سکیں ۔ پانی کا رخ تبدیل کرنے سے نوسیری سے مظفرآباد تک پانی کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے زراعت کی بدحالی ،موشیوں کا بڑبڑانا، پیاس سے لوگوں کا تلملانا معمول بن چکا ہے جو لوگوں کی اقتصادیات کا خاتمہ کر رہا ہے۔
جس صدمے کی وجہ سے لوگ بیمار پڑ جائیں گے۔بہت سارے دوسری جگہوں میں پناہ گزینی اختیار کریں گے لوگوں کا میل جول ختم ہو گا ۔لوگ آبشاروں سے ہوتے ہوئے گندی ندی نالوں کے نزدیک رہائش اختیار کریں گے۔غربت و اٖفلاس کی وجہ سے اپنی دو شزاوں کو کوڑیوں میں فروحت کرتے رہیں گے۔بزرگ اپنے اُس پڑوسی کو یاد کرتے ہوئے جو اُن کی زندگی میں ہر مشکل کا ساتھی تھا جوان نسل کو قصے سنائیں گے ۔کیاآپ اب بھی کسی انسان کی دوبارہ علیحدگی برداشت کریں گے ؟؟
اس لیے اہل کشمیرکے نوجوانوں اور خاص کر کے اُن خد مات کے شعبوں میں ذمہ داریاں نبھانے والے ورکرز سے یہ شکایت کی جانے چاہیے کہ وہ اِس سارے قرب کا اندازہ لگاتے ہوئے بھی عوام کو اُس پیمانے پر منظم نہیں کر رہے جہاں سے ہو کر اپنی مانگیں منوائی جا سکتی ہیں۔
ماحولیاتی بربادی
پاکستان ماحولیات پرعالمی طور پر کئی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے اس لیے ماحولیات کو تحفظ دینا پاکستان کی مجبوری ہے ۔ ان کنونشنز کی رُو سے نام نہاد آزاد جموں کشمیر کا ماحولیا تی تحفظ ایکٹ 2000لایا جا چکا ہے۔ جس کی رو سے کسی قسم کے تعمیرات کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کو ہر صورت مدنظر رکھا جائے گا۔
نیلم جہلم ہائیڈروپاور پروجیکٹ کی تعمیر کے وقت ذرائع ابلاغ کے ذریعے راہ عامہ ہموار کی گئی تھی کہ ہر طرح سے ماحولیاتی تحفظ ایکٹ کی سکشن 11ذیلی سکشن 1کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیرات سے چالو تک ماحولیات کو مدنظر رکھا جائے گا۔
پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں موجود ماحولیات پر مبنی ادارہEnvironment protection Agency (EPA) اور پاکستان وپڈا کے دومیان جنوری 2011 میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق کم از کم 15کیوبک پانی کا بہاؤ نوسیری سے مظفرآباد کی طرف چھوڑا جائے گا ۔
حیاتیاتی نوع کیلئے آکسیجن کی طلب کی فراہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے سیوریج کے پانی کی صفائی کیلئے ایک بڑا اور تقریباًکئی چھوٹے پلانٹس تعمیر یا نسب کرنے تھے۔
لیکن اس وقت واپڈا معاہدہ کی کسی ایک شق کو بھی پورا نہیں کر رہا۔ نو کیوبک سے کم پانی چھوڑا جا رہا ہے جو کسی بھی گندے نالے کا ہو سکتا ہے ۔ابھی تک سیوریج کے لیے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس سے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں ۔کیا یہ دہشت گردی نہیں؟
نیلم ،جہلم بچاؤ تحریک میں حکمران جماعت کی شمولیت پر شک کرو
یہ تحریک کوئی غیر قانونی تحریک نہیں ہے جو کشمیر اور سامراج کے حواری حکمرانوں سے یہ مطالبہ کر رہی کہ کشمیر کا کنٹرول اُن عوامی کونسلز کو دے دو جن میں تم سے بہتر نوجوان اور ورکرز سمجھداری کے ساتھ خدمات عامہ سے لیکر انفراسٹرکچر تک کے تمام شعبوں کو بہترین منصبوبہ بندی کے ساتھ زیادہ جدید بنیادوں پر استوار کرتے ہوتے انسانی اقدار کے ساتھ ماحولیات کی آزادی کو جلا بخش سکتے ہیں اس وقت سرمایہ داری کے اپنے بہت سارے بنیادی انسانی حقوق جس میں زندہ رہنے کا حق شامل ہے پورا کرنے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے عوام اپنے بقا کے لیے سراپایہِ احتجاج ہیں ۔اس وقت نام نہاد آزادکشمیر کے حکمرانوں کے آقاؤں میں شدید قسم کا بیرپڑ گیا ہے جس کی بنیادی وجہ مال و زر کی تقسیم اور لوٹ کھسوٹ ہے ۔ گزشتہ دو سالوں سے جس طرح کی اتھل پتھل اور یہ نوآبادیاتی کردار و ں کو بے نقاب ہو تے ہوئے دیکھا گیاہے بار بار لینن کے تجزے کی سچائی کا ثبوت ملتا ہے کہ حکمرانوں کی چپقلش،وایٹ کالرمڈل کلاس کی اچھل کود، اور عوام کا کچھ بدلنے کے بارے میں جست،اس وقت پاکستان کے حکمران تاریخ کے انتہائی بحران سے گزر رہے ہیں خاص کر کے وہ جو سامراج کے بعد پاکستان کی معیشت ،سیاست، ادب اور عوامی نصاب پر سب سے زیادہ کنٹرول رکھتے ہیں مطلب کہ پاکستان کی فوج جس نے ہمیشہ پاکستان کے عوام پر اپنی شعوری اجارہ داری برقرار رکھی لیکن شائد وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ تغیر موجود رہتا ہے ۔آج ہر چائے خانہ ،نُکر،کارخانہ ،فکٹری ،عوامی جگہوں پر لوگ پاکستان کی سیاست میں فوج کے کنٹرول پر بحث کرتے ہیں۔دوسری طرف کیا پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں کی قیادت کرپٹ نہیں ؟اِن جماعتوں کی قیادت نے ہمیشہ لوٹ مارکا بازار گرم رکھاجس کے ہونے کے ثبوت کا تما م موادفوجی حکمرانیوں کی ایجنسیزنے بر وقت کام آنے کے لیے محفوظ رکھا ۔چونکہ ساری پارٹیوں یا کارپوریشنز(پاکستان مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلزپارٹی) کی قیادتیں فوج کے ساتھ معاہدئے کرکے ملک کی دولت( محنت کش عوام کے وسائل) کی لوٹ مار میں اپنے خاندان ،اقابرین اورچھوٹے درجے کے سیاسی بونوں یا چیلوں کی سرپرستی کرتے ہوئے وہاں تک پہنچ گئی کہ اُس کی دولت کا ٹکراؤ ان کے سیاسی پُرکھوں کے ساتھ ہوا مطلب کہ اب اس ملک کے حکمران دولت ،خوش آمدی ،داخلی اور خارجی تعلقات ،ادب و ثقافت اور رائے عامہ میں حصہ،یعنی یہ حکمران اقتدار میں لانے والوں سے برابری چاہتے ہیں ۔ جو پاکستان جیسے سماج میں اب اس طرح ممکن نہیں رہا،جس کی بنیاد سے ہی سامراج نے اُس کی ذمہ داری عسکری قیادت کو سانپ دی تھی ۔گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں یہ تماشہ جاری و ساری ہے ۔جس کے واضح اثرات پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر مرتب ہوئے ہیں کیونکہ پاکستان میں موجود حکومت اپنے تحت کشمیر پالیسی پر عمل درآمد کروانے کی خواہاں ہوتی ہے جس کے لیے کشمیر حکومت کو ہر صورت اسٹمپ کے طور پر استعمال ہونا ہوتا ہے یا اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے اس وقت پاکستان میں چونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو۔اشارے مل چکے ہیں کہ پیروی کرو یا گھر جاؤ۔اس لیے نیلم بچاؤ تحریک میں مسلم لیگ ن (آزاد کشمیر ) کی قیادت تحریک میں پیش پیش ہے ۔ایک طر ف اس کی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ پاکستان واپڈا اُن کے ساتھ نیلم ،جہلم پروجیکٹ پر معاہدہ کرے اور دوسری طرف پسِ پردہ کہ کس طرح عوام کو ساتھ ملا کرحکومت بچا نے کے لئے تھوڑا ریلیف لیاجائے ۔اس لیے جب بھی تحریک کی شدت زور پکڑتی ہے تو یہ کہ کر تحریک کو موخر کیا جاتا ہے کہ ہم تمام مسائل کو مذکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں ۔حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اس بلیک میلنگ میں صرف حکمرانوں کو کچھ مزید وقت مل سکتا ہے پر عوام کے مطالبات جوں کے توں ہی رہیں گے اس لیے ضروری ہے کہ اب کی بار تحریک کو پاپولر کمیٹیوں میں منظم کرتے ہوئے اپنے مطالبات کو لیکر کر داخلی اور خارجی حکمرانوں کا محاسبہ کیا جائے ۔کیونکہ اِن حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے اقتدار کے لیے ہمیں استعمال کیا ہے اورکریں گے ؟ اگر اس دفعہ ہمارے حقوق کے لیے اِن کا اقتدار قربان ہو جائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟
نیلم بچاؤ تحریک میں قوم پرست اور سوشلسٹ قیادت کی ذمہ داری
جیسا کہ ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ اس تحریک میں موجود حکمران جماعت اور اپوزیشن کی بہت ساری قیادت اپنی پارٹیوں کی پاکستان میں بیٹھی اعلیٰ قیادت کے دفاع کے طور پر موجود ہیں تاکہ کسی طرح اُن کی ڈیل ہو سکے اس لیے زیادہ تر تحریک کی آرگنائزنگ کمیٹی حزبِ اقتدار اور اختلاف (پاکستانی مقبوضہ کشمیر )کی پہلی ،دوسری اور تیسری قیاد ت کے ساتھ اُن سماجی کارکنوں پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی طرح حکومتی سرپرستی میں اپنا گزر بسر کرتے ہیں ۔جو کسی بھی وقت تحریک سے ٹوٹنا شروع کر دیں گے اس لیے ضروری ہے کہ قوم پرست اور سوشلسٹ قیاد ت جو اس وقت تحریک کی قیادت میں انتہائی کم اور دباؤ میں ہے ۔اپنی قیادت میں اضافہ کرتے ہوئے تحریک کی پہلے اور دوسرے درجے کی قیادت میں مزید اضافہ کرے ۔ ایک طرف اول درجے کی قیادت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے مطالبات میں اضافہ کرتے ہوئے مطالبات منوائیں اور دوسری طرف دوسرے درجے کی قیادت کو تیار رکھا جائے کہ اگر اول درجے کی قیادت غداری کرتی ہے تو بغیر نقصان کے دوسرے درجے کی قیادت کوتحریک میں سامنے لایا جائے۔
پاپولر کونسلز کا اجراء
چونکہ اس تحریک میں اب نیلم ،جہلم ،مظفرآباد اور کشمیر کے دوسرے اضلاع سے لوگ شامل ہوں گے اس
لیے ضروری ہے کہ تحریک کے تمام کارکنوں کو چند سرحدی خطوں پر ہم آہنگ کرتے ہوئے پالولر کونسلز میں آرگنائز کیا جائے جو بھی جب بھی حکمرانوں یا واپڈا کی طرف سے کو ئی مذکرات کی پیش کش آئے تو اُسکے مواد کے سرحد ی خطوں کی منظوری پاپولر کونسلز سے لی جائے ۔جس سے تمام طرح کی دھونس ،
دباؤ،مفادپرستی ،فرقہ پرستی اور موقع پرستی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔
پاکستان کی کل بجلی کی پیداوار میں کشمیر کی امداد:
پاکستان میں کل بجلی کی پیداوار میں پن بجلی کا کردار 30فیصد ہے جس میں سے تقریباً 60فیصد نام نہاد کشمیر کے اس حصے سے لی جاتی ہے جس کے چھوٹے،درمیانے اور بڑے ہائیڈرو پراجیکٹس کی تفصیل تقریباً کچھ یوں ہے۔
ٓٓآزاد جموں و کشمیر پاور ڈیو یلپمنٹ آرگنائیزیشن کے پراجیکٹس:
دھنان (کوٹلی 1.7میگاواٹ)
کَیل (نیلم 0.75میگاواٹ)
ہلان (حویلی 0.6میگاواٹ)
پٹہکا (مظفرآباد 0.5میگاواٹ)
رنگار ii(پونچھ 6.4میگاواٹ)،
گوئیں نالہ (0.25میگاواٹ)،
جاری ii(میر پور4میگاواٹ) ،
جاگراں (نیلم 48میگاواٹ) ،
چھم آبشار(حویلی6.4میگاواٹ)،
سندووا کراس (حویلی 1.75میگاواٹ)،
بیڈی ڈوبا (حویلی 1میگاواٹ)،
گلی تار (حویلی 1میگاواٹ)،
شاؤنٹر (نیلم 41میگاواٹ)،
دواریاں(نیلم 40میگاواٹ)،
نگھدار(نیلم 35میگاواٹ)،
جاگراں iv(22میگاواٹ)۔
واپڈا اور پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کے پروجیکٹس:
نیلم جہلم پروجیکٹ 969میگاواٹ،
پترنڈ 147میگاواٹ،
دریائے کنہار پر گل پور پروجیکٹ 100میگاواٹ،
کوہالہ پروجیکٹ 1100میگاواٹ،
کروٹ پروجیکٹ 720میگاواٹ،
چکوٹھی پروجیکٹ 500میگاواٹ،
مال پروجیکٹ 590میگاواٹ،
کریلہ (کوٹلی 0.47میگاواٹ)۔
منگلا ڈیم پراجیکٹ(1150میگاواٹ)
پاکستان مقبوضہ کشمیر کا خطہ جس کا کل رقبہ تقربیاً 5,134مربع میل کے ساتھ43لاکھ آبادی پر مشتمل ہے جو اس وقت مکمل اور زیر تعمیر ہائیڈرو پروجیکٹز جو ایک دو سالوں میں مکمل ہوں گے سے 8500میگا واٹز بجلی کی پیداور دے رہاہو گا۔ جس کی اپنی ضرورت شائد انتہائی کم400 میگا واٹزہے ،موجودہ اگر بجلی پر یونٹ کے نرح دیکھے جائیں تو ٹوٹل خرچ 2.59(دو روپے انسیٹ پیسے) ہے جبکہ واپڈا اس وقت Rs.12 بارہ روپے فی یونٹ کے حساب سے کشمیر حکومت کو دے رہی ہے ۔جو سرمایہ داری کے اپنے عالمی ا دارے اقوام متحدہ کے بہت سارے کنویشنز کے منافی ہے جن کے مطابق کس قسم کی تعمیر نو کے دوران اور بعد کے وہاں کے رہائش پزیروں پر پڑنے والے ماحولیاتی،سماجی و اقتصادی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر طرح کا تحفظ دیا جائے۔
لیکن گورئمنٹ آف پاکستان نے اپنی بنائی گئی حکومت آزادکشمیر سے کسی قسم کا معاہدہ کیے بغیر محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے ۔
ہماری مانگیں پوری کرو۔
۱۔ کشمیر سے اس وقت تقربیاً آٹھ ہزار میگا واٹز بجلی لی جا رہی ہے ۔جس کے بدلے کشمیر کو فری بجلی کی سہولت مہیا کی جائے ۔
۲۔ نیلم ،جہلم اور باقی ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی وجہ سے متاثرین کی ہر طرح کے ماحولیاتی،سماجی و اقتصادی نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے بہتر روزگار مہیا کرتے ہوئے جدید کالونیاں تعمیر کر کے دی جائیں۔

SHARE