Home Featured World نیویارک میں مامدانی کا جادو چل گیا

نیویارک میں مامدانی کا جادو چل گیا

SHARE

مامدانی نے نیویارک سٹی میں زبردست کامیابی حاصل کی

ٹونی اسٹیبیل (ورکرز وائس امریکہ)
6 نومبر، 2025

ڈی ایس اے (ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکا) کے رکن اور نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن زوہران مامدانی، جو کوئنز کے کچھ حصوں کی نمائندگی کرتا ہے ، نے نیویارک سٹی میئر کا انتخاب جیت لیا ہے۔ مامدانی نے دس لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے، جن میں محنت کش طبقے کے کئی اضلاع اور کئی لبرل یا “ترقی پسند” درمیانی طبقے کے محلوں کی بڑی اکثریت شامل تھی۔ ان کا انتخاب بائیں بازو کی پالیسیوں کی حمایت میں ابھرنے والی ایک مضبوط امنگ کو ظاہر کرتا ہے اور شاید ڈیموکریٹک پارٹی کی اندرونی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز ہو سکتا  ہے۔ محنت کش طبقے کے لیے ان کا انتخاب امید بھرا مگر ملے جلے جذبات کی طرف اشارہ ہے۔

مامدانی کی فتح اور ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابیاں

مامدانی کی جیت ایسے وقت میں ہوئی جب 4 نومبر کے انتخابات میں ملک کے کئی حصوں میں ڈیموکریٹک پارٹی نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ نیویارک سٹی سمیت دیگر علاقوں میں کیے گئے پولز کے مطابق، زیادہ تر ووٹروں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ان کے ووٹ دینے کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ بہت سے میڈیا تجزیہ کاروں نے ڈیموکریٹس کی کامیابیوں کو صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف عوامی ردِعمل قرار دیا ہے۔

مامدانی کی پالیسیوں سے پسپائی

مامدانی نے جب میئر کی دوڑ میں قدم رکھا تو وہ تقریباً ایک غیر معروف امیدوار تھے۔ فروری میں ان کی حمایت 1 فیصد سے کچھ زیادہ تھی، لیکن روزمرہ معاشی اصلاحات اور سوشل میڈیا کے استعمال کی مہارت نے انہیں تیزی سے مقبول بنا دیا۔ جب کہ کومو اور ایڈمز مختلف مالی اور جنسی اسکینڈلز میں پھنسے ہوئے تھے، مامدانی نے سماجی جمہوری نقطہ نظر سے رہائش کے بحران، بچوں کی دیکھ بھال کے بڑھتے اخراجات، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر قابو پانے جیسے مسائل کے حل کی بات کی۔

مامدانی نے تمام رکاوٹوں کے باوجود ڈیموکریٹک پرائمری/انٹرا پارٹی الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ان کی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سینیٹر چک شومر اور نمائندہ حکیم جیفریز نے پرائمری میں ان کی حمایت سے انکار کیا۔ نمائندہ لورا گلن نے انہیں “نیویارک کے لیے بالکل غلط انتخاب” کہا، جبکہ ٹام سوزی نے ان کے نظریات پر “سنگین خدشات” کا اظہار کیا۔ ارب پتی مائیکل بلومبرگ سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے بڑے عطیہ دہندگان کے کروڑوں ڈالر کومو سپر پی اے سی کے ذریعے مامدانی کو شکست دینے میں جھونک دیے گئے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے بعد، مامدانی نے عام انتخابات میں اپنی جرات مندانہ پالیسیوں سے نمایاں حد تک پسپائی اختیار کی۔ انہوں نے “دی لیٹ شو” پر اسٹیفن کولبیئر سے کہا کہ وہ “اسرائیل کے حقِ وجود” کے حامی ہیں، یہ بات انہوں نے فائزر کے سی ای او البرٹ بورلا سے بند کمرے کی ملاقاتوں میں بھی دہرائی۔ وہ نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ (NYPD) کی سخت تنقید سے بھی پیچھے ہٹ گئے اور ایڈمز دور کی کمشنر، جیسیکا تش، کو برقرار رکھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے “ملینیئر ٹیکس” کے وعدے پر بھی سمجھوتے کا عندیہ دیا جو ان کی پرائمری مہم کا مرکزی نعرہ تھا۔

ڈیموکریٹک پارٹی کا بحران

2024 کے صدارتی انتخابات کی ناکامی اور دو سال تک ٹرمپ کی پالیسیوں کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کی بزدلی کے بعد، پارٹی ایک سنگین بحران میں پھنس گئی تھی۔ محنت کش طبقے، سیاہ فاموں، اور لاطینی امریکی ووٹروں میں ان کی حمایت تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ تعلیم یافتہ اور امیر ووٹروں کو لبھانے کی  کوشش بھی ناکام رہی کیونکہ ان کی پالیسیوں کو عوام نے “نسل کشی” اور “کفایت شعاری” پر مبنی قرار دیا۔

نومبر کی انتخابی کامیابیاں اگرچہ ڈیموکریٹس کے لیے وقتی جوش و خروش لائی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خوش فہمی کب تک رہے گی اگر پارٹی نے ٹرمپ ازم یا سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف حقیقی مزاحمت نہ کی؟ حقیقت یہ ہے کہ نہ ڈیموکریٹس اور نہ ریپبلکن محنت کش طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

صحت عامہ پر موجود تنازع، جس کے باعث حکومت کا شٹ ڈاؤن ہوا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈیموکریٹس کی تجاویز اب بھی نیم دل ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انشورنس کی قیمتیں اور سبسڈیز بہت زیادہ نہ بڑھیں، مگر وہ “سب کے لیے مفت صحت کی سہولت” کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

مامدانی کی کامیابی کے سیاسی اثرات

یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ مامدانی کا انتخاب ڈیموکریٹک پارٹی کی حکمت عملی میں کوئی بنیادی تبدیلی لائے گا۔ ممکن ہے کہ پارٹی اپنی تقریروں میں غریبوں اور بھوک کے شکار لوگوں کے بارے میں زیادہ جذباتی الفاظ استعمال کرے، مگر اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ عوام کو سڑکوں پر منظم کرنے یا یونینز اور مقامی تنظیموں کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائے۔

مامدانی نے انتخابی مہم کے دوران بارہا کہا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کو “لوگوں کے لیے دوبارہ کام کرنے کے قابل” بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی پالیسیوں میں واضح دائیں بازو کی طرف جھکاؤ نظر آتا ہے۔ نیویارک کے ارب پتیوں اور ڈی این سی کے ڈھانچے پر ان کا بڑھتا ہوا انحصار ظاہر کرتا ہے کہ ان کی حکومت پارٹی کے مرکزی دھارے کی پیروی کرے گی، قیادت نہیں۔

محنت کش طبقے کے لیے اس کا مطلب

برنی سینڈرز کی 2016 کی مہم کے بعد سے امریکا میں “ترقی پسند” ڈیموکریٹک سیاست دانوں کی ایک دوڑ دیکھی گئی ہے۔ سینڈرز کی تحریک سے الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز ابھریں، جنہوں نے کئی دوسرے امیدواروں کو متاثر کیا۔ آج تقریباً ہر پرائمری میں ایک “پروگریسو” امیدوار ہوتا ہے۔ اس کے باوجود امریکا میں دائیں بازو کی عوامی تحریک مسلسل بڑھ رہی ہے۔

یہ “پروگریسو” امیدوار، خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے کام کریں، ڈیموکریٹک پارٹی کے امیر عطیہ دہندگان اور اعلیٰ حکام کے دباؤ میں آ کر محنت کش طبقے کے مفادات سے منہ موڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اوکاسیو کورٹیز نے 2023 میں ریلوے مزدوروں کی ہڑتال ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا، اور سینڈرز نے بائیڈن کی بھرپور حمایت کی — وہی بائیڈن جس نے غزہ میں نسل کشی کی مکمل حمایت کی۔ حال ہی میں سینڈرز نے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں تک کی محتاط حمایت کر دی ہے۔

مامدانی کا انتخاب بائیں بازو کی پالیسیوں کی مقبولیت کا ثبوت ہے، لیکن محنت کش طبقے کو ایک اور ایسا سیاستدان نہیں چاہیے جو سرمایہ داروں اور مالکان سے سمجھوتہ کرے۔ ڈیموکریٹک پارٹی صدی سے زائد عرصے ہو گیا  ایسے سیاستدان پیدا کرتی آ رہی ہے۔

امریکا کے سب سے بڑے شہر میں محنت کش طبقہ اور تارکین وطن آسمان کو چھوتے کرایوں، پولیس کے تشدد، اور بوسیدہ انفراسٹرکچر کا سامنا کر رہے ہیں۔ مامدانی، جنہوں نے ان مسائل کے حل کا وعدہ کیا تھا، اب انہی سرمایہ داروں، پولیس اہلکاروں اور زمینداروں کے ساتھ بند دروازوں کے پیچھے سودے کر رہا ہے جو ہمیشہ کی طرح ان مظالم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ محنت کش طبقے اور ان کے اتحادیوں کا کام ہے کہ وہ اپنے خود مختار ادارے قائم کریں اور سرمایہ دار طبقے کے خلاف براہ راست جدوجہد کریں — نہ کہ اپنی تقدیر ایک اور سرمایہ دار پارٹی کے امیدوار کے ہاتھ میں دیں۔

SHARE