Home Pakistan پاکستان کا بحران اورانقلابی آئین ساز اسمبلی کی ضرورت

پاکستان کا بحران اورانقلابی آئین ساز اسمبلی کی ضرورت

SHARE

آئینی توازن کا اختتام

پاکستان اس وقت ایک گہرے آئینی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ کوئی عارضی بگاڑ نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے آئینی ڈھانچے کی تاریخی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں ریاست نے 1973ء کے آئین کی منظم تباہی کا عمل جاری رکھا ہے، جس کا نقطۂ عروج 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم ہیں جنہوں نے تمام اداروں کو ایک بوناپارٹسٹ مرکز کے زیرِ تسلط کر دیا ہے۔

جو آئین بیشک دکھاوئے کے طور پر کبھی وفاقی اکائیوں کے درمیان معاہدہ اور پارلیمانی جمہوریت کا فریم ورک سمجھا جاتا تھا، وہ اب آمریت کے نقاب میں تبدیل ہو چکا ہے۔ آئینی شکل باقی ہے مگر اس کا جمہوری مواد ختم ہو چکا ہے۔ پارلیمان دباؤ میں قانون سازی کرتی ہے، عدالتیں جبر کو قانونی جواز فراہم کرتی ہیں، اور صوبائی خودمختاری کو مرکزیت کے جبری تقاضوں کے تابع کر دیا گیا ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جسے کارل مارکس نے اپنی کتاب اٹھارہواں برومیر آف لوئی بوناپارٹ (1852) میں بیان کیا تھا:

"انتظامی اقتدار، اپنی فوجی و دفتری مشینری کے ساتھ، سماج کے بدن کو جال کی طرح لپیٹ کر اس کے تمام مسامات کو بند کر دیتا ہے۔”

پاکستان کی موجودہ ریاستی صورت ٹھیک اسی بوناپارٹسٹ ڈھانچے کی عکاس ہے ۔ ایک ایسی ریاست جو غیرجانبداری کا دعویٰ کرتی ہے مگر دراصل طبقاتی جدوجہد کو “امن و نظم” کے نام پر معطل کرتی ہے۔

بوناپارٹ ازم اور پاکستان کے طبقاتی تضادات

بوناپارٹ ازم خلاء میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ طبقاتی تعلقات کے ایک مخصوص تاریخی جمود کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب بورژوازی جمہوری طریقے سے حکمرانی کی صلاحیت کھو دیتی ہے اور محنت کش طبقہ ابھی منظم نہیں ہوتا کہ اقتدار پر قبضہ کرے، تو ریاست بطور "ثالث” سامنے آتی ہے۔

پاکستان میں فوجی و دفتری طاقت کا سرمایہ دار اشرافیہ سے گٹھ جوڑ ایک مرکب حکمران بلاک پیدا کر چکا ہے۔ یہ بلاک معاشی طور پر عالمی سرمائے ۔ آئی ایم ایف کے پروگراموں، قرضوں اور جغرافیائی کرایوں  پر انحصار کرتا ہے، اور سیاسی طور پر ان اداروں پر جو اندرونی نظم و ضبط کو یقینی بناتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی ناکامی، بدعنوانی اور عوامی امنگوں سے ان کی دوری نے ایک سماجی خلا پیدا کیا ہے جس میں بوناپارٹ ازم پروان چڑھا ہے۔

انتونیو گرامشی نے جیل نوٹ بکس میں لکھا تھا کہ ایسے “نامیاتی بحران” کے ادوار میں آمریت/ قیصریت (Caesarism) جنم لیتی ہے، جب کوئی طاقتور فرد یا ادارہ زوال پذیر نظام کا توازن برقرار رکھنے کے لیے مداخلت کرتا ہے۔ پاکستان میں بوناپارٹسٹ حکومت “استحکام” اور “ٹیکنوکریٹک کارکردگی” کے نام پر پیش کی جاتی ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک ایسے طبقاتی نظام کی محافظ ہے جو رضامندی سے نہیں بلکہ جبر سے حکمرانی کرتی ہے۔

بورژوا آئین کا انہدام

1973ء کا آئین اپنی پیدائش کے وقت ایک بورژوا-جمہوری سمجھوتہ تھا۔ یہ 1971ء کی شکست و تقسیم کے ملبے سے ابھرا۔ ایک لمحہ جب حکمران طبقہ وقتی طور پر صوبائی خودمختاری اور پارلیمانی نمائندگی کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوا تھا۔

لیکن جیسا کہ نیکوس پولا نتزاز نے واضح کیا، سرمایہ دارانہ ریاست کوئی غیرجانبدار آلہ نہیں ہوتی؛ اس کے قانونی ڈھانچے طبقاتی غلبے کا اظہار ہوتے ہیں۔

جیسے جیسے پاکستان کی انحصاری سرمایہ دار معیشت گہری ہوتی گئی، ویسے ویسے جمہوری شکل سرمایہ دارانہ ضرورتوں سے متصادم ہو گئی۔ اس لیے ریاست بار بار آمریت اور جمہوریت کے درمیان جھولتی رہی ۔ ایک طرف مرکزی آمریت، دوسری طرف جمہوری فریب۔

26ویں اور 27ویں ترامیم اس تسلسل کا اختتام نہیں بلکہ اس کا کانونی جواز ہیں۔ ان ترامیم نے سول و عسکری دائرے کی تمیز مٹا دی ہے اور “پائیدار ریاست” ۔ یعنی مستقل بیوروکریسی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور عسکری کمان — کو بالا دست حیثیت دے دی ہے۔

اصلاح کی خوش فہمی

یہ سمجھنا کہ موجودہ آئینی ڈھانچہ ازخود جمہوریت کو بحال کر سکتا ہے، دراصل بحران کی طبقاتی ماہیت کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ لینن نے ریاست اور انقلاب (1917) میں خبردار کیا تھا کہ:

"بورژوا ریاست کو قابو نہیں کیا جا سکتا؛ اسے توڑنا ضروری ہے۔”

اصلاح پسند حلقے “آئین کی بحالی” یا “اداروں کے توازن” کی بات کرتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ یہی ادارے طبقاتی غلبے کے مظہر ہیں۔ پاکستان میں عدلیہ جبر کو قانونی بناتی ہے، پارلیمان فوجی نگرانی میں قانون سازی کرتی ہے، اور میڈیا ریاستی سرمایہ داری کے کنٹرول میں ہے۔ یہ بحران افراد یا واقعات کا نہیں بلکہ پورے نظامِ حکمرانی کا ہے۔

لہٰذا ضرورت آئینی بحالی کی نہیں بلکہ آئینی انقطاع کی ہے ۔ ایک ایسی انقلابی تبدیلی جو نظام کو جڑ سے بدل دے۔

انقلابی آئین ساز اسمبلی: ایک تاریخی ناگزیریت

تاریخی انقلابی مرحلوں میں مارکس وادیوں نے ہمیشہ آئین ساز اسمبلی کے نعرے کو عوامی خودمختاری کے سیاسی اظہار کے طور پر پیش کیا۔ پیرس کمیون سے لے کر روسی سوویتوں تک، اور نوآبادیاتی تحریکوں میں، دستور ساز اسمبلی کی مانگ نے جمہوریت اور سماجی نجات کے جدوجہد کو یکجا کیا ہے۔

پاکستان کے لیے آج ایک انقلابی دستور ساز اسمبلی محض ایک قانونی یا انتخابی عمل نہیں بلکہ ایک عوامی خود ارادیت کا اعلان ہے۔ ایسی اسمبلی کو لازماً:

  • عالمی بالغ رائے دہی کے ذریعے منتخب کیا جائے، جس میں محنت کشوں، کسانوں، طلبہ، خواتین اور مظلوم اقوام کی متناسب نمائندگی ہو۔

  • یہ اسمبلی خودمختار ہو، کسی موجودہ سول یا عسکری ادارے کے تابع نہ ہو۔

  • ریاست کی سماجی بنیادوں کو از سرِ نو متعین کرے، شہری آزادیوں کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی حقوق (رہائش، تعلیم، صحت، باعزت روزگار) کو یقینی بنائے۔

  • سول بالادستی، وفاقی مساوات، اور ادارہ جاتی شفافیت کو دستور کا بنیادی اصول بنائے۔

  • وفاقی خودمختاری اور قومی مسائل کی تسلیمیت، ہر قوم کو ریفرنڈم کا حق بشمول خوداریت و حق ِ علیحدگی

لیون ٹراٹسکی نے فسطائیت کے عروج کے دور میں لکھا تھا کہ آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ ایک عبوری پُل (transitional bridge) ہے ۔ جو بورژوا جمہوریت کی حدود کو بے نقاب کرتا ہے اور عوام کو انقلابی اقتدار کے لیے متحرک کرتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ تناظر میں یہ نعرہ بالکل یہی کردار ادا کر سکتا ہے۔ آئینی زوال سے انقلابی تجدید تک کا پُل۔

نئی جمہوریہ کی جانب: حکمتِ عملی اور جدوجہد

انقلابی آئین ساز اسمبلی اوپر سے نہیں اتاری جا سکتی؛ اسے نیچے سے عوامی جدوجہد کے ذریعے وجود میں لانا ہوگا۔ محنت کش طبقہ، کسان، طلبہ، خواتین، اور مظلوم اقوام کو ایک متحد جمہوری محاذ قائم کرنا ہوگا جو بوناپارٹسٹ ریاست کا مقابلہ کر سکے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ:

  • خودمختار محنت کش اور کسان تنظیمیں دوبارہ تعمیر کی جائیں، جو مروجہ پارٹیوں اور ہر طرح کی فوجی سرپرستی سے آزاد ہوں۔

  • طلبہ تحریک کو دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ وہ سیاسی تعلیم اور متحرک عمل کا مرکز بنے۔

  • ترقی پسند فکری محاذ تعمیر کیا جائے جو “قومی سلامتی” کی عسکری نظریاتی بالادستی کو چیلنج کرے۔

  • جمہوری جدوجہد کو معاشی آزادی کی جدوجہد سے جوڑا جائے تاکہ نئے دستور/آئین کی تحریک نئے سماجی نظام کی بنیاد بن سکے۔

جیسا کہ مارکس نے کہا تھا:

"محنت کش طبقے کی نجات خود محنت کش طبقے کا عمل ہے۔”

کوئی نجات دہندہ بوناپارٹ ازم کو ختم نہیں کرے گا؛ یہ کام صرف استحصال زدہ طبقات کی اجتماعی تنظیم کے ذریعے ممکن ہے۔

انقلاب یا انحطاط

پاکستان کا بحران محض آئینی نہیں بلکہ تمدنی بحران ہے۔ بوناپارٹسٹ ریاست نے قانونی پردے میں عوامی خودمختاری کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ مگر ہر زوال کے اندر ایک نئی پیدائش کے امکانات چھپے ہوتے ہیں۔

آج کا انقلابی نعرہ صاف اور دوٹوک ہونا چاہیے:

بوناپارٹ ازم مردہ باد — انقلابی آئین ساز اسمبلی زندہ باد!

صرف ایک عوامی، نچلی سطح سے ابھرنے والے آئینی عمل کے ذریعےہی پاکستان اپنا جمہوری و سماجی مستقبل حاصل کر سکتا ہے ۔ 1973ء کے سمجھوتے کی واپسی سے نہیں، بلکہ ایک دوسری جمہوریہ کے قیام سے جو جدوجہد، مساوات اور انقلابی امید سے جنم لے۔

SHARE