Home Pakistan پی ٹی ایم پر ریاست کا بڑھتا ہوا اضطراب

پی ٹی ایم پر ریاست کا بڑھتا ہوا اضطراب

SHARE

پی ٹی ایم جو مسائل کے گرد پاپولر عوامی تحرےک ہے ۔ اس کی مانگوں مےں اےسی کوئی مانگ شامل نہےں جس نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کو مجبور کیا کہ وہ متعدد مواقعوں پر، چاہے وہ آن دا ریکارڈ پریس کانفرنس اور میڈیا انٹرویوز ہوں یا آف دا ریکارڈ گفتگو، پی ٹی ایم کے بارے میں کسی نہ کسی نوعیت کا بیان دیتے رہے اور کبھی انھوں نے تحریک کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کر کے انھیں تنبیہ کی اور کبھی ان کے موقف کو جائز بھی قرار دیا ۔

ان جوابات کے حصول کے لیے اس تحریک کے جنم لینے کے عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہوگا ۔

رپورٹ:

پاکستان کے سیاسی افق پر جنوری 2018 میں ابھرنے والی یہ تحریک جنوبی وزیرستان سے 2014 میں محسود تحفظ مومنٹ کے نام سے شروع ہوئی تھی اور ان کے مرکزی مطالبات وزیرستان کے علاقے میں جبری گمشدگیوں ، بارودی سرنگوں کی موجودگی اور وہاں متعین فوجیوں کے رویے سمیت دیگر شکایات کے خلاف احتجاج کرنا تھا ۔ نقیب اللہ محسود کے قتل سے محسود تحفظ تحریک کے نام سے شروع ہونے والی پشتون موومنٹ آج پی ٹی ایم(پشتون تحفظ موومنٹ)کے نام سے پورے پاکستان میں ہی نہیں ساری دینا میں جانی جاتی ہے ۔ اب اس تحریک کے دھرنوں اور احتجاجوں میں پشتونوں کے علاوہ بلوچ،سندھی ،کشمےری ،پنجابی اور دیگر قومیتوں کے لاپتہ افراد کے لواحقین اور عام عوام بھی شریک ہوتے ہیں ۔

آخر یہ تحریک دن بدن زور کیوں پکڑ رہی ہے اور اس کی مقبولیت اور تعداد میں اضافے کی کیا وجوہات ہیں ;238; کیوں عام عوام ،اور دائےں بازو کے بڑے بڑے دانشور ،اینکر پرسنز تک یہ کہتے پائے گئے کہ اس تحریک اور اس کی قیادت کے تمام مطالبات درست ہیں ;238;کیوں یہ تحریک اس نہج پر پہنچ گئی کہ اسے فوج کے لئے سخت لہجہ اختیار کرنا پڑا;238;ایسا کیا ہواکہ ستر سال بعد آج کا قبائلی اپنے حق اور جائز مطالبات کے لئے سڑکوں پر آنے اور اپنی جان تک گنوا دینے سے گریز نہیں کرتا;238;آخر کیوں ریاست سوشل میڈیا کو پی ٹی ایم سے متعلقہ کسی بھی قسم کی خبر اور ان کی قیادت کے انٹرویوز اور جلوسوں کی کووریج کو لگام ڈالنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے;238;آخر ایسا کیا خوف ہے ریاست کو کہ قومی اور بین الاقوامی صحافیوں کے ٹویٹر اکاءونٹس کو وارننگ نوٹیفیکیشن جاری کیے گئے کہ اپنے اکاءونٹس سے پی ٹی ایم کی حمایتی پوسٹس ہٹا دی جائیں ;238;کیا وجہ ہے کہ ریاستی باشندے فوج کی نظر میں غدار اور دشمن بن گئے;238; اور آخر کب تک عام عوام میں اپنے حقوق اور خود پر کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر اور جمہوریت کے نام پر حکمرانی کرتی فوج پر انگلی اٹھانا تو دور نظر اٹھا کر دیکھنے پہ بھی غداری کے سرٹیفیکیٹ بٹیں گے;238;

پشتون تحفظ موومنٹ اب صرف پشتونوں کی تحریک نہیں رہی:

تقریباً ایک برس سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا کہ پولیس کے ہاتھوں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں قتل کے بعد منظور پشتین کی زیرقیادت قبائلی علاقوں تک محدود اس تحریک میں جیسے ایک نئی جان ڈل گئی ۔ لیکن اب اس تحریک کے حامیوں میں بڑی تعداد ان نوجوانوں ،محنت کشوں ،بے بس ماءوں ،بہنوں اور بیٹیوں کی ہے جن کے رشتہ دار گذشتہ کئی سالوں کے دوران جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے ۔ آج پاکستان کے عام عوام پی ٹی ایم کو ’اپنے اندر کی آواز‘ سمجھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی وجہ سے ان کے دلوں میں امید کی روشنی جومکمل گہرے اندھیرے میں ڈوب چکی تھی، لوٹ آئی ہیں ۔

’کئی لاپتہ لوگ اپنے گھروں کو واپس آگئے ہیں ، ہ میں بھی امید ہے کہ ہمارا بھائی،باپ،شوہر یا بیٹا واپس لوٹ آئے گا ۔ ‘

ان جلسوں کے شرکازےادہ ترلاپتہ افراد کے لواحقین یا پھر وزیرستان کے وہ رہائشی ہیں جو کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے ۔

سوات اور وزیرستان میں آپریشن کے بعد بڑی تعداد میں آئی ڈی پیز نے کراچی کا رخ کیا ، جہاں یہ لوگ محنت مزدوری سے وابستہ ہوگئے ۔ آئی ڈی پیز کے ساتھ وہ طالبان بھی یہاں پہنچ گئے، جنھوں نے یہاں پولیس، پولیو ورکرز اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کو نشانہ بنایا ۔ یہی وجہ تھی کہ سہراب گوٹھ کی آبادی کو آپریشن کا سامنا کرنا پڑا ۔ ’’کراچی ان ٹرموئل‘‘ کے مصنف، صحافی اور تجزیہ نگار ضیا الرحمان کا کہنا ہے کہ’’ 2013 میں جب آپریشن شروع ہوا تو عسکریت پسند کمزور ہوئے، کافی گرفتار یا مارے گئے یا پھر فرار ہوگئے ۔ لیکن اس کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خاص طور پر پولیس کی جانب سے عام پشتونوں اور خاص طور پر محسود قبائلیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور یہ شکایات بڑھ گئیں کہ انھیں پیسے لے کر چھوڑ دیا جاتا یا پھر انھیں جعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا ۔ اورجب نقیب اللہ محسود کا واقعہ پیش آیا تو صورتحال نے ایک نیا موڑ اختیار کرلیا، کیونکہ نقیب سوشل میڈیا پر بہت مقبول تھا اور اس کی خاطر چلائی گئی مہم نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی‘‘ ۔

کراچی میں پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیاں زیادہ تر سہراب گوٹھ، شاہ لطیف ٹاؤن، لانڈھی اور منگھو پیر میں محسود کمیونٹی آباد ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ ان علاقوں میں زیادہ سرگرم اور منظم ہے ۔ طالبان سے بھی یہی علاقے متاثر ہوئے ۔ بعد میں یہاں سے ہی پشتونوں کو بھی اٹھایا گیا ۔

اب پورے ملک میں پشتون تحفظ موومنٹ کو بائیں بازو کی تنظیموں اور نوجوانوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے، جبکہ اس کے دھرنوں میں پشتون کے علاوہ عام عوام اوردیگر قومیتوں کے لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شرکت کرتے ہیں ۔ اس سے قبل ان تمام متاثرین کے پاس کوئی ایسا مشترکہ پلیٹ فارم نہیں تھا جہاں سے اکٹھے ہو کر وہ ان تمام مظالم اور بے جا زیارتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ۔ لیکن اب حکومت نے ملک بھر میں پی ٹی ایم کے جلسوں پر پابندی لگا دی ہے ۔

ہر ذی شعور انسان یہ جانتا ہے کہ وہ انسانی مسائل پر بات اٹھاتے ہیں ، اس لیے کراچی میں بھی ان کا استقبال ہوا، لاہور اور کوءٹہ میں بھی ان کا خیرمقدم کیا گیا کیونکہ جو مسائل وہ اٹھا رہے ہیں وہ اس ملک کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں اور یہاں کے پسے ہوئے عوام کے مسائل ہیں ۔ اگرچہ ریاست اور فوج کی طرف سے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاءون جاری ہے اور انہیں غدار ،غیر ملکی ایجنٹ اور بہت سارے الزامات سے نوازا جا رہا ہے لیکن عوام ان پر لگائے جانے والے تمام الزامات کا ثبوت مانگتے ہیں جو کہ مناسب طرز پر نہ ملنے پر اب سب جان چکے ہیں کہ یہ صرف اپنے حقوق مانگنے اور فوج کے خلاف اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے نتیجے میں لب و لہجے میں رکھی جانے والی سختی کا ریاستی انتقام ہے اور کچھ نہیں ۔

آوازِ خلق ناکارہء خدا:

پی ٹی ایم کی طرف سے انصاف اور بنیادی حقوق کے لئے کئے گئے احتجاجوں نے بڑے پیمانے پر عام عوام کو اس تحریک میں شامل ہونے پر

دلی طور پر آمادہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ قبائلیوں کے لئے کھینچی گئی تصویر کہ یہاں کے لوگ دہشت گرد ہیں یا ان کے حمائیتی ہیں اور مذہبی بنیاد پرستی میں گرے ہوئے ہیں ،کا خاتمہ کیا گیا ۔ یہ حقیقت اب مکمل طور پر سب پر آشکار ہو چکی ہے کہ وہ لمبے عرصے سے خود دہشت گردی کے براہِ راست متاثرین میں سے ہیں ۔ جنھوں نے اپنے پیاروں کی جانوں کی برسوں تک قربانیاں دی ہیں اور آج تک ہزاروں اپنوں کی تلاش میں ہیں جنہیں بنا کسی جرم کے جبری طور پر اٹھا لیا گیا تھا ۔ لاپتہ افراد کا پتا لگانے کے لئے قائم کی گئی انکوائری کمیشن کے مطابق گزشتہ چار برسوں میں رواں سال سب سے زیادہ جبری گمشدگیاں ہوئیں ۔ جن میں سے اب زیادہ تعداد پی ٹی ایم کے کارکنان کی ہے ۔

اپنی شکایات کے سد ِباب کے لیے پی ٹی ایم جنوبی افریقہ کی طرز پر ;39;حقائق اور مفاہمتی کمیشن;39; کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے ۔ اور اب ان کے مطالبات میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہر دردِدل رکھنے والا انسان ان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ ان کے مطالبات وہی ہیں جو پہلے دن سے تھے کہ:

۱ ۔ شہید نقیب اللہ قتل کیس میں ملوث راءو انوار اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دی جائے ۔

۲ ۔ جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں وہ عدالت کے حوالے کئے جائیں ،ان میں جو بے گناہ ہیں ان کو رہا کیا جائے ۔

۳ ۔ فاٹا اور خصوصاً وزیرستان میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بعد عام عوام پر تشدد اور کرفیو نہ لگایا جائے ۔

۴ ۔ فاٹا اور خصوصاً وزیرستان میں ابھی تک لاتعداد مائینزموجود ہیں ،جن سے بڑی تعداد میں وہاں عام عوام کے اعضاء ضائع ہوئے ہیں ،ان مائینز کو صاف کیا جائے ۔

یہ سب وہ مطالبات ہیں جو بنیادی انسانی حقوق سے متعلقہ ہیں ان سے کیسے غداری کی شرپسند شق کو نکالا جا رہا ہے یا نکالا جا سکتا ہے یہ سب کی سمجھ سے باہر ہے ۔ اس تحریک نے گذشتہ کئی ماہ کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں اپنے مطالبات کے حصول کے لیے متعدد جلسے منعقد کیے جہاں پی ٹی ایم کے نوجوان سربراہ منظور پشتین اور ان کے دیگر ساتھیوں نے بالخصوص پاکستانی فوج پر کڑی تنقید کی جو کہ ہے بھی ایک حقیقت ،پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں فوج کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ملک کی 72 سالہ تاریخ میں تقریباً نصف عرصہ حکومت فوجی آمروں کے پاس رہی ہے اور قومی بیانیے میں فوج پر براہ راست تنقید کرنے کے بجائے اکثر اوقات اسٹیبلیشمنٹ، خلائی مخلوق اور فرشتے جیسے الفاظ استعمال ہوتے رہے ہیں ۔ لیکن پی ٹی ایم نے اس روایت کو تبدیل کرتے ہوئے جہاں اپنے جلسوں میں مسلسل ریاستی حکام سے اپنے مطالبات کے حل کے لئے مذاکرات کرنے کی اپیل کی ہے، وہیں انھوں نے جس کھلے انداز اور سخت لہجے میں فوج کی پالیسیوں اور جرنیلوں پر تنقید کی ہے وہ اس سے پہلے عوامی طور پر کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ جس کے ردِعمل میں فوجی حکام عندیہ دیتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن ان کے عملی رویے سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ وہ اس کے لیے سنجیدہ ہیں ۔ اور اب موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے فوج کا ان کی طرف رویہ محالحتی نہیں لگ رہا اور اگر فوج کی جانب سے پی ٹی ایم کے بارے میں تبصروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی ابہام اور تضاد نظر آتا ہے ۔

پی ٹی ایم کے جو مطالبات ہیں وہ فوج کی طاقت کو براہ راست چیلنج کرتے ہیں ۔ حقائق اور مفاہمتی کمیشن درحقیقت گذشتہ 17 سالوں سے قبائلی علاقوں میں ہونے والے واقعات اور ;39;وار آن ٹیرر;39; war on ;84;errorکے ذمہ داران کا تعین کرنے کا ذریعہ ہے اور ہماری فوج نہ اس طرح کے احتساب کی عادی ہے اور نہ ہی وہ چاہتی ہے کہ کوئی آکر ان سے حساب مانگے ۔ وہ کبھی یہ مطالبہ ماننے پر راضی نہیں ہوں گے، وہ تو ہمیشہ اپنی شرائط پر مذاکرات کریں گے ۔ ورنہ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر ہم اس ملک مےں جمہورےت کے دعویدار ہےں تو عوام کو تقرےر اور تحرےر کا حق دےں ۔ مظلوم عوام کے مسائل کو حل کرےں لےکن چونکہ ےہ مروجہ نظام کے خمےر مےں شامل نہےں ۔ جہاں نجی ملکےت اور رےاستی دہشتگردی کو برقرار رکھنے کےلیے ہر طرح سے رےاستی جبر کا سہارا لےناہے اور ےہی پی ٹی اےم سے لےا جا رہا ہے ۔

پی ٹی ایم کی طرف سے بارہا کوشش کی گئی کہ سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں لیکن انہیں نہ تو میڈیا پر بات کرنے کی اجازت ملتی ہے اور نہ کسی دوسرے پلیٹ فارم سے ۔ کیوں کہ اگر ان کا موقف اور ان کے اصل سنگین حقائق سامنے پیش کر دیئے گئے تو عوام کا اعتماد فوج سے ہٹ جائے کا جو وہ کبھی نہیں چاہیں گے ۔ فوج جس طرح تحریک کو مختلف اشارے دے رہی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس پی ٹی ایم کے لیے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے ۔ عام عوام کو ان سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ;238; یہ کیسی آزادی ہے جہاں اس ملک کے باشندوں کی آواز کو سچ کہنے سے روکا جا رہا ہے;238;جہاں حق اور سچ کی بات کرنے والے کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ کہا جاتا ہے وہ بھی کسی ثبوت کے بنا ۔ ملک کے شہری ہونے کے ناطے یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہر ذی شعور،مرد عورت، اپنی ریاست سے یہ سوال کر ے کہ کس گناہ کی پاداش میں بنا سوال جواب کئے وہ کسی بھی انسان کو مجرم قرار دے سکتی ہے ۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے ریاستی حقوق کو سمجھیں اور اس کا بروقت ضرورت استعمال کریں ۔

فوج اور طالبان میں کوئی فرق نہیں :

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بسنے والے قبائلیوں کو 20 سال سے وہاں پر جاری ریاستی جنگ کے باعث متعدد باراپنا علاقہ چھوڑنا پڑا ۔

حکام اور آزادانہ تحقیق کرنے والی تنظیموں کے مطابق 2002 کے بعد سے دہشت گردی کی وجہ سے تقریباً 50 لاکھ افراد کو پاکستان کے شمال مغربی علاقوں سے اپنا گھربار چھوڑ کر ملک کے دیگر علاقوں میں یا تو سرکاری کیمپوں میں یا پھر پرامن شہروں میں کرائے کے مکانوں میں پناہ لینا پڑی جو ان کے لئے نہایت اذیت دہ عمل تھا ۔ اوراس جنگ میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں اس کے کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ۔ تاہم محققین، مقامی حکام اور سماجی کارکنوں کے اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 50 ہزار سے زیادہ ہے ۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے متواتر فضائی اور زمینی کارروائیوں میں بہت سارے عام شہری مارے گئے ہیں ۔ زیادہ تر کارکنان کا تعلق انسانی حقوق کی مہم پشتون تحفظ موومنٹ سے ہے جو 2018 کے آغاز میں سامنے آئی اور تب سے قبائلی علاقوں میں فوج انسانی حقوق کی ایسی مبینہ خلاف ورزیوں کی کھل کر تشہیر کر رہی ہے جن کے بارے میں پہلے یہ قبائلی بتانے سے ڈرتے تھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ برس ہا برس کی تکالیف اور تذلیل کے بعد ہم میں اب اتنی ہمت آگئی ہے کہ ہم اپنے حقوق اور خود پر ہونے والی زیادتیوں کا کھل کر اظہار کر سکیں کہ کیسے فوج نے براہِ راست کارروائی کر کے اور شدت پسندوں کی حمایت کی پالیسی اپنا کر ہم سے ہمارے آئینی حقوق کو چھینا ہے ۔

امورِدفاع کی ماہر اور تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ’’ جیسے جیسے دہشت گردی بڑھنے لگی توپاکستانی فوج ایک طرف عسکریت پسندوں سے لڑائی اور دوسری طرف مستقبل میں مفادات کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے ان میں سے کچھ کے ساتھ اتحادکر تا گیا‘‘ ۔

وہاں بسنے والے بلواسطہ اور بلاواسطہ تشدد کا شکار ہونے کے بعد اپنی روداد سناتے ہیں کہ کس طرح کوئی ناخوشگوار واقع وقوع پذیر ہونے کے بعد ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے،کس طرح دن رات،عمر اور جنس کی پرواہ کئے بغیر ان کو ان کے گھروں سے گھسیٹ کر باہر نکالا جاتا،ماءوں کے سامنے ان کے جوان بیٹوں کوبے گناہ صرف مذاحمت کرنے پر گولیوں سے بھونا جاتا،یا اٹھا لیا جاتا ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو شور اور خوف سے چلانے پر ان کے منہ میں کیچڑ ڈال کر ان کو چپ کروایا جاتا ۔ 2002سے اب تک فوج نے وزیرستان سے 8000لوگوں کو اٹھایا ہے جن کا اب تک کچھ پتا نہیں ہے ۔ وہاں کے رہنے والوں کا اصل درد اپنوں کے حالات کی طرف سے لاعلمی ہے ۔ وہاں کوئی نہیں جانتا کہ سال ہا سال سے ان کے عزیز جو لاپتہ ہیں وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ،وہ اپنی بہنوں بیٹیوں کو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ وہ بیوہ ہیں یا ان کے سرپرست زندہ ہیں ،لاعلمی کی زندگی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے ۔ قبائلی علاقوں میں ایسے سینکڑوں گھر اپنوں کے ہی ہاتھوں اس طرح کے مظالم کے متاثرین میں شامل ہیں ۔ مگر آج تک ان کی ریاستی سطح پر سنوائی نہیں ہوئی ۔ بلکہ اب جبکہ وہ اس تحریک کے ذریعے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں تو انہیں کئی طرح الزامات میں پھنسا کر عوام کے سامنے اور عالمی سطح پر ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تحریک کے وہ کارکنان جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد اور سوشل میڈیا پرایسی تصاویر اور ویڈیوز منظرِ عام پر لا رہے ہیں ان پر ملک دشمن سرگرمیاں کرنے یا ملک غدار کا لیبل لگا کر گرفتار کیا جا رہا ہے ۔

آخر پی ٹی اےم اور فوج کے مطالبات اور نظریات میں کیا فرق ہے!

فوج بھی قبائلی علاقوں میں امن چاہتی ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ بھی اپنے علاقوں میں امن چاہتی ہے ۔ فوج بھی آپریشن کے بعد روزمرہ کی ذمہ داریاں سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کے حوالے کرنے کے حق میں ہے اور پشتون موومنٹ کا بھی یہی مطالبہ ہے ۔

فوج بھی آئین کے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہتی ہے اور پی ٹی ایم بھی وہی حقوق چاہتی ہے جو آئین میں ہیں ۔

فوج بھی عدلیہ کی بالادستی کی بابت کو بارباردہراتی ہے اور پشتون موومنٹ کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ جن جن لوگوں پر الزامات ہیں یا دہشت گردی سمیت جرائم میں ملوث ہونے کا شبہ ہے انھیں گرفتار کر کے باقاعدہ فردِ جرم عائد کر کے عدالت میں پیش کیا جائے اور جو شک کی بناء پر اٹھائے گئے ہیں انہیں رہا کیا جائے ۔ اور رات کے اندھیروں میں بنا جرم اور وجہ بتائے کسی کو بھی اٹھانے کی روایت کو ختم کیا جائے ۔

فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اندرون و بیرونِ ملک بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم دراصل پچھلے چالیس سال کی غلطیوں کی قمیت چکا رہے ہیں اور منظور پشتین وغیرہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ چالیس سال سے جاری پالیسیوں کو بدلا جائے جنھوں نے تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔

فوج بھی ملک کے اندر مسلح گروہوں کو ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کسی قیمت پر اجازت دینے کو تیار نہیں اور پشتون موومنٹ بھی غیر مسلح اور آئین و قانون کے دائرے میں جدوجہد کے اصولوں پر اب تک کاربند ہے ۔

یہ کیسے ملک دشمن اور غدار ہیں کہ ان سے مذاکرات کرنے والے جرگے سے لے کر کور کمانڈر پشاور تک کہہ رہے ہیں کہ ان کے مطالبات تو ٹھیک ہیں ۔ فوج بھی پاکستان جیسے کثیر نسلی ملک میں نسلی و گروہی مفاہمت کو آگے بڑھتے دیکھنا چاہتی ہے اور پشتون موومنٹ بھی یہی کہہ رہی ہے کہ جنوبی افریقہ کی طرز پر سچائی کمیشن قائم کی جائے تاکہ جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں ان کا بھی ازالہ ہوسکے ۔

جب فوج اور پشتون تحفظ موومنٹ دونوں ہی ہم موقف ہیں تو ایسا کیوں ہے کہ ان کے قائدین اور حامیوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے ۔

اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے جوابی احتجاجوں اور دھرنوں کوآرگنائز کرنے اور میڈیاکو ان کی کوریج کرنے کی بھی اجازت نہیں اور کوریج ہوتی بھی ہے تو ایسی گویا یہ کوئی ملک دشمن تنظیم ہے جس کا کام بیرونی ایجنسیوں سے پیسے لے کر ملکی اداروں کے خلاف عام لوگوں میں نفرت پھیلانا ہے ۔ ایسا اس لئے ہے کہ اس سے پہلے فوج کو ان کی اصل کارگردگی اور مقاصد کا شفاف آئینہ دکھانے والا کوئی سورما اس دھرتی نے اب تک پیدا نہیں کیا تھا ۔ اوائل سے لے کر آج تک عام عوام کی نفسیات پر یہ گہری چھاپ لگا دی گئی ہے کہ فوج ہی پاکستان کا وہ ایک واحد ادارہ ہے جو پاکستان کے تحفظ کی ضمانت دے سکتا ہے ۔ جس کی ایک واضع مثال بھارت کے ساتھ پاکستان کی مضبوط دشمنی ہے جس پر کسی بھی طرح کا تبادلہ خیال کرنے کا کسی بھی ادرے کو حق حاصل نہیں ۔ اس کا خیال ہے کہ صرف وہ ہی پاکستان کی درست طور پر نمائندگی کرتی ہے ۔ وہ خود کو مکمل پاکستان کاواحد حقدار سمجھتی ہے اور اس کو فائدہ پہنچانے والی واحد اکائی ۔ اس لئے ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں کہ جن میں فوج سے کسی بھی طرح کا کوئی سوال کیا جا سکے یا اس کا احتساب کیا جا سکے ۔ لہذا کسی بھی جماعت یا تحریک کو ابھارنے یا اسے منظر عام سے ہٹانے کے کئے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرنا،کسی پر بھی،کبھی بھی غدار یا غیر ملکی ایجنٹ کا ٹھپہ لگا دینا فوج کا خود کو سب کے اوپر مسلط رکھنے کا آسان حربہ ہے ۔

ایک دور تھا جب سچ کو دبانا ممکن تھامگر آج سچ ہر توانا و شکستہ دیوار کو توڑ کر اپنی پوری طاقت سے شازشی اور مکروہ پردوں کو بے نقاب کرنا جانتا ہے ۔ آج ریاست کمزور اور بے بس پر ظلم اور تشدد تو کر سکتی ہے لیکن اس کے جواب میں جی حضوری کرنے والی گونگی زبانوں کو اب زبان مل چکی ہے ۔ اگر آج فوج اور ریاست وزیرستان ’ نو گو ایریا‘ میں میڈیا اور صحافت کی رسائی کو ممکن بنا دیتی،وہاں کے مکینوں کو ان کے بنیادی حقوق ملتے،آئے روزایکسٹرا جوڈیشنل کلنگ نہ ہوتی،اپنے مفادات کے لئے بچھائی گئیں مائینز پر بے قصوروں کے جسمانی اعضاء ضائع نہ ہوتے تو آج کئی طرح کے سوالات عام عوام کے ذہنوں میں جنم نہ لیتے ،کوئی پی ٹی اےم جےسی تحریک جنم نہ لیتی اور کسی منظور پشتین پر ملک غدار کا لیبل لگا کر سوشل میڈیا پر اس کے خلاف انتہائی پرزور مہم نہ چلتی،اور سوشل مےڈےا اکاءونٹس اپنی ریٹنگ بڑھانے اور کاروبار چمکانے کے لئے اس ایشو کو استعمال نہ کرتے ۔

پی ٹی اےم کا سخت لہجہ اور وجوہات:

گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفورنے تمام نیوز چینلز پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی ایم پر یہ الزام عائد کیا کہ ان کو انڈیا کے خفیہ ادارے را اور افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس سے رقوم موصول ہوئیں ۔ انہوں نے پوچھا کہ 22 مارچ 2018 کو این ڈی ایس نے آپ کو احتجاج جاری رکھنے کے لیے کتنے پیسے دیے;238;اس کے علاوہ انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ اسلام آباد میں سب سے پہلا دھرنا ہوا اس کے لیے انڈین خفیہ ایجنسی را نے پی ٹی ایم کو کتنے پیسے دیئے، وہ کس طریقے سے پہنچے اور انھوں نے کہاں استعمال کیے;238;

ان تمام سوالات کم الزامات زیادہ کا ردِعمل کسی بھی بنیادی مطالبات رکھنے والی تحریک کی طرف سے کیسا ہوگا کہ جس کی آواز کو اٹھنے سے پہلے ہی ختم کرنے کی اندرونی طور پر دھمکیاں دی جا ررہی ہوں ;238; اس بارے میں پی ٹی ایم کا موقف ہے کہ جہاں تک فنڈنگ کی بات ہے تو جو جلسہ حکومت کروڑوں روپے میں کرتی ہے ہم وہ ڈیڑھ دو لاکھ میں کرتے ہیں ۔ اور وہ پیسے بھی ہم اسی جلسے سے اکٹھے کرتے ہیں ۔ ہمارے جلسوں میں لوگ خود گاڑی کر کے آتے ہیں ، ہمارے پاس تو انھیں بٹھانے کو بھی پیسے نہیں ہوتے ۔ جلسے کے علاوہ باہر سے مختلف شعبوں سے منسلک لوگ انھیں پیسے دیتے ہیں لیکن زیادہ فنڈنگ جلسوں میں ہی اکٹھی ہوتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر الزامات لگائے ہیں تو ان کا ثبوت بھی پیش کرو ۔ اگر ہم ملوث ہیں ، اگر ہمارا کوئی ساتھی ملوث ہے تو ثابت کرو ۔ مگر فوج کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت ہے نہ گواہ ۔

پی ٹی ایم کے مطالبات پورے نہیں کئے گئے ۔ اب بھی علاقہ مکمل طور پر بارودی سرنگوں سے کلیئر نہیں ہوا، اب بھی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے اب

بھی لوگ لاپتہ ہیں اور متاثرین بے گھر ۔ اس سب کے بعد پھر ان کے لہجے سخت کیسے نہ ہوں کہ اگر کسی کا باپ یا بھائی مراہو، ماورائے عدالت قتل ہوا ہو یا کسی کا بھائی یا رشتے دار جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہو اس کے خلاف قانونی طریقے سے کارروائی نہیں ہوئی ہوتو جب وہ فریاد کرے گا تو اس میں سختی تو ہو گی، وہ زبان سخت تو بولے گا !!!

اراکینِ پارلیمان کی گرفتاریاں :

سوال اٹھتا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں حالات اس نہج پر کیسے پہنچے کہ تحریک کے ہزاروں کارکنوں کو ملک کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا، ان کے رہنماؤں کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی گئی ۔ نہ ان کے جلسے میڈیا پر دکھائے گئے نہ ان کے رہنماؤں کو ٹاک شوز پر اپنی رائے دینے کے لئے بلایا گیا ۔ اور تو اور اخباروں میں بھی ان سے متعلقہ خبروں کو نہ لگانے کے لئے سخت رویہ رکھا گیا ۔

موجودہ صورتحال میں پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ 26 مئی شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں خڑ قمر چیک پوسٹ پر فوج کی چوکی کے قریب فوج نے ان کے ہجوم پر فائرنگ کی جس سے ان کے 22 کارکنان ہلاک ہوگئے ۔ جبکہ فوج کا کہنا ہے کہ تین کارکن اس وقت ہلاک ہوئے جب ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا گیا ۔ پی ٹی ایم اس الزام کی تردید کرتی ہے ۔ ان کے مطابق ان کے اراکین کے ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا فوج نے بتایا ۔

مگر اس واقع کے بعدپی ٹی ایم کے دو مرکزی رہنماؤں کو جو کہ اراکینِ پارلیمان بھی ہیں ، گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ جن میں رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ شامل ہیں ۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے خلاف متبادل عدالت کا نظام استعمال کیا جائے گاجس میں ملک میں دہشت پھیلانے اور سیکورٹی اداروں پر حملہ کرنے والوں کا ساتھ دینے پر پی ٹی اےم کے رہنماءوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا ۔ جس کے لئے علاقے سے گواہیاں اکھٹی کی کوششیں کی جا رہی ہیں ،سڑکوں کو بند کر کے علاقے میں کوفیو نافذ کر دیا گیا ہے ۔ جبکہ اس سال قبائلی بیلٹ میں حالات مختلف ہونے چاہیے تھے کیوں کہ گزشتہ سال الیکشن سے پہلے فاٹا کو ملک کے سیاسی اور قانونی دھارے میں شامل کر دیا گیا تھا اس اقدام نے علاقے کے پانچ لاکھ سے زیادہ مکینوں کو اسی وقت سے ریاست سے منسلک کر دیا تھاجس میں اکثریت نسلی پشتوں اقلیتوں کی تھی ۔ اس طرح دیگر پاکستانیوں کی طرح آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ دیگر شہری عدالتی نظام تک ان کی بھی رسائی شامل ہے ۔ اس سے پہلے وہاں کا نظام ایک سخت سرحدی کوڈ کے تحت چلایا جاتا تھاجو بہت پہلے سے برطانوی نوآبادیاتی ماسٹروں کی طرف سے قائم کیا گیا تھا،جس میں ہر ایک قبائلی علاقے کو ایک واحد گورنر کے ماتحت رکھا گیا تھا ۔ جس میں مکینوں کووکیل یا عام ٹرائل جیسے بنیادی سیاسی حقوق تک رسائی ممکن نہ تھی ۔ ہر انفرادی جرم پر اجتماعی سزا عام تھی ۔

اب گزشتہ دس دنوں سے جنوبی وزیرستان کا ایک بڑا علاقہ کرفیو کی زد میں ہے ۔ اور کرفیو کی نوعیت یہ ہے کہ کسی خاص و عام کو بھی گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ۔ باہر مورچوں پر فوجی سپاہی سناءپر گنز لئے کھڑے ہیں جو کسی بھی نقل و حرکت پر فائر کھول دیتے ہیں ۔ جبکہ وہاں کے کئی علاقوں کی آبادکاری ایسی ہے کہ ایک گھر ایک پہاڑ کی چوٹی پر بنا ہوا ہے تو دوسرا گھر دوسرے پہاڑ کی چوٹی پر ۔ ایسے میں بھوک پیاس سے اموات یقینی ہیں ۔ کتنے ایسے گھر ہونگے جن میں کرفیو لگنے والے دن ایک دو دن کا راشن موجود ہوگا ۔ اب ان لوگوں نے یہ دس دن کیسے گزارے ہونگے;238;اب تک چار سے زیادہ بچے بھوک کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ۔ یہ بھی یقینی ہے کہ ان گھروں میں کتنے مریض ہونگے جو ادویات اور بروقت علاج نہ ملنے پرموت کو گلے لگا چکے ہوں گے یا قریب المرگ ہوں گے ۔ کچھ ہی علاقے ہیں جن میں چوبیس گھنٹوں میں ایک آدھ گھنٹے کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے ۔ اور اتنے کم وقت میں دور کی مسافت پر بازار سے اشیاء خوردونوش لانا اور وہ بھی تب ممکن ہوکہ اگر ان اشیاء کو خریدنے کے لئے ان کے پاس پیسے موجود ہوں ۔

سیکورٹی فورسز کی حالیہ مہم اسی پرانے نوآبادیاتی نظام کی یاد تازہ کرتی ہے ۔ فاٹا میں اسی طرز کا محاذ استعمال کرتے ہوئے اب یہ بہت واضع ہو چکا ہے کہ انتظامی نظام مکمل طور پر فوج کے ہاتھوں میں ہے،ایسی صورتحال میں وہاں کے مکینوں کو یہ امید نظر نہیں آتی کہ وہاں انصاف غالب آسکتا ہے ۔

تحریک کے رہنماءوں کو اغواء یا گرفتار کر کے تحریک کو اب کسی بھی صورت دبایا نہیں جا سکتا ۔ یہ تحریک تمام ملک میں بسنے والے مظلوموں کی آواز ہے جسے اب خاموش کروانا ریاست کے بس کی بات نہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ریاست میں جب بھی کوئی تحریک اپنے حقوق کے لئے عام عوام یا مظلوموں کی آواز بن کر ابھری تو اسے دبانے اور خاموش کروانے کے لئے کئی طرح کے ریاستی ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے رہے ہیں ۔ پہلے جھوٹ اور من گھڑت کہانیوں سے تحریک چلانے والوں کے بیچ پھوٹ ڈلوانا،اور جب یہ طریقہ کارگر ثابت نہ ہو تو ملکی سطح پر تحریک کے خلاف پروپیگنڈا کرنا،اسے غدار اور دشمن ملک ایجنٹ کہا کر عام عوام کو بد ظن کرنا،اور جب یہ دونوں طریقے کام نہ کریں تو تحریک کی قےادت اور ان کے کارکنان پر تشدد کرنا اور انہیں گرفتار کرنا ۔ اور اب یہی طریقہ ریاست پی ٹی ایم کے لئے اپنائے ہوئے ہے ۔ اس موجودہ صورتحال سے یہ واضع ظاہر ہوتا ہے کہ خڑ قمرواقعہ ریاستی سطح پر منصونہ بندی کے تحت کیا گیا،جس کا مقصد اہم کارکنان کی گرفتاریوں کو جواز مہیا کرنا تھا ۔ ان گرفتاریوں کے بعد علاقے میں چھوٹے موٹے مظاہرے کئے گئے جن پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا اور انہیں مستقبل میں بھی منتشر رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پر اندرونی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جس پر سختی سے عمل درآمد جاری ہے ۔

گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان میں سڑک کے کنارے نصب بم پھٹنے سے بشمول فوج کے افسروں چار افراد ہلاک ہوئے ۔ جس کی ذمہ داری بھی بنا کسی ثبوت کے پی ٹی ایم پر ڈالی گئی ۔ اور اب جبکہ پہلی بار وہاں خیبر پختون خواہ کی حکومت کے زیرِقیادت ہونے والے انتخابات جو کہ 2جولائی کو ہونے تھے اس واقعے کی آڑ میں انہیں ملتوی کر کے ان میں 20جولائی تک توثیق کر دی گئی ہے ۔

فاٹا ایک کٹا ہوا علاقہ تھا، اس کو ’نو گو ایریا‘ بنا دیا گیا تھا ۔ پی ٹی ایم اسے سیاسی نقشے پر لے کر آئے اور وہ مسائل جن پرکبھی بات نہیں ہوئی تھی، انھوں نے اس کو مکالمے میں شامل کیا ۔ البتہ اب تحریک کے مستقبل کے لاءحہ عمل کے بارے میں اس کی قیادت کو بہت پیچیدگی سے سوچنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ ریاست کیا قدم اٹھاتی ہے کیونکہ اب یہ تحریک اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنے والی ۔ ان کا اب یہ موقف ہے کہ

’’ہم نے تو سب کھو دیا ہے اور اب مزید کچھ کھونے کے لیے باقی نہیں ہے ۔ ہم نے ہی اب تک ساری مشکلات سہی ہیں لیکن یہ ہمارا عہد ہے کہ ہم تمام تر مظالم کے باوجوداپنی جدوجہد جاری رکھےں گے جس کےلیے ہم باقی علاقوں کی عوام سے اپےل کرتے ہےں کہ آئیں مل کر اس ظلم وجبر کا خاتمہ کرےں ۔

اپےل:تمام مقامی، صوبائی ،کشمےر اور گلگت بلتستان کی تحرےکوں سے اپےل ہے کہ وہ اپنی مقامی تحرےکوں کو تےز کرےں تاکہ پی ٹی اےم سے رےاستی جبر کو ہٹایا جا سکے اور ہر ممکن ےکجہتی کے ساتھ ہ میں رےاستی دہشت گردی کا جواب دنےاہوگا تاکہ سماجی اور سےاسی کارکنوں کو مزےد مشکلات سے بچاےا جا سکے اورےہی اس وقت کی بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے

SHARE