Home Theory کارپوریٹ فاؤنڈیشنز:حقیقت کیا؟

کارپوریٹ فاؤنڈیشنز:حقیقت کیا؟

SHARE

کارپوریٹ فاؤنڈیشنز کے سیاسی اور سماجی تحریکوں پراثرات
بحرانات سرمایہ داری میں ایک اٹل حقیقت ہیں اور یہ بحرانات جب معاشی خوشحالی کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو یہ خوشحالی،معاشرے میں موجودصرف اُس ایک مخصوص پرت تک پھیلی ہوتی ہے جو اان بحرانات کو پیدا کرنے کی بذاتِ خود ذمہ دار ہوتی ہے۔سرمایہ داری کے ان بدترین پہلوؤں کی بہتر ی کے لئے محنت کش کئی دہائیوں سے، اجرتوں میں ہونے والی کمی اور ریاستی مداخلتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر لڑ رہے ہیں۔معاشرتی ضروریات کیلئے خاطر خواہ وفاقی مالی اعانت نہ ہونے کی وجہ سے محنت کش طبقہ غیر منافع بخش تنظیموں پر انحصار کرتا ہے تاکہ اس کمی کو پورا کیا جاسکے۔بائیں بازو کے زوال سے دنیا بھرکے محنت کشوں میں تقسیم اور ایسی دوریاں آئیں جس کی وجہ سے بورژوازی نے ہمارے طبقے کو عالمی معاشی لبرلائزیشن کی شکل میں سزا دی ہے۔مزدور طبقے کو غیر منظم کرنے کے لئے سرمایہ داری کی حکمتِ عملیوں میں سے ایک، اُن تنظیموں کی سمت کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے جو محنت کشوں اور ایسی تنظیموں کے مابین عدم مساوات کو دور کرنا چاہتی ہیں۔ایسی کمپنیاں جوکسی مخصوص صنعت میں اجارہ داری رکھتی ہیں وہ اپنے خاص مقاصد کے لئے غیر منافع بخش کمپنیوں (این جی اوز)میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔سرمایہ، جس نے بذاتِ خود محنت کش طبقے کے استحصال کی راہیں استوار کی ہیں،آج نجات دہندہ کے طور پر کھڑا ہے۔اِس نے این جی اوز اور فاؤنڈیشنز کی آڑ میں، انسان دوستی کی کوششیں درحقیقت،سرمایہ دارانہ نظام کے اصل اور مکروہ چہرے کو نقاب پوش کرنے کے لئے ڈیزائن کی ہیں۔
پاپولسٹ سرمایہ دارانہ مخالف فیلن تھروپی(انسان دوست)فاؤنڈیشنز کا عروج:
غیر منافع بخش اداروں کے موجودہ کردار کو سمجھنے کے لئے، ہمیں تاریخی طور پر خیراتی اداروں کی اصلیت کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔جس کی مشہور مثالیں ’راک فیلر‘ اور’کارنیگی‘ کے قائم کردہ خیراتی ادارے ہیں،جو تقریباً ایک صدی قبل سامنے آئے۔ان اجارہ داروں نے اپنی ساکھ کو مضبوط کرنے کے لئے سب سے پہلے عوامی اعتماد کا سہارا لیا۔جب ترقی پسند دور کی سیاست سے محنت کشوں کے اندر سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف طبقاتی غیظ و غضب بڑھا تو حقیقت سے توجہ ہٹانے کیلئے Robber Barons ’رابر بیرنز‘ (انڈسٹریلسٹ،مجرموں اور اشرافیہ کے غیر قانونی امتزاج نے) کے زریعے خیراتی اداروں کی طاقت بڑھانے کیلئے قانون سازی کروائی گئی۔

(Robber Barons یہ اصطلاح اٹلانٹک ماہنامہ میگزین کے اگست 1870 کے شمارے کے اوائل میں ہی شائع ہوئی۔ 1800 کی دہائی کے آخر تک، یہ اصطلاح عام طور پر ان تاجروں پر لاگو ہوئی تھی جو اپنا مال جمع کرنے کے لئے استحصالی طریقوں کو استعمال کرتے تھے۔ ان طریقوں میں قدرتی وسائل پر قابو پانا، حکومتی اعلی درجوں پر غیر قانونی طریقوں سے فائز ہونا، اجرت کی ادائیگی نہ کرنااورافراطِ زر میں اضافے کے لئے اسٹاک کو ذ خیر ہ کرنے جیسی اسکیمیں شامل تھیں)

اس طرح،ہم کہ سکتے ہیں کہ فیلن تھیروپی(انسان دوست فاؤنڈیشنز) تعلقات ِ عامہ کی ابتدائی شکلیں تھیں جن کے ذریعے ’رابر بیرنز‘ نے اپنی ساکھ کو پاک (صاف) کرنے، رائے عامہ ہموار کرنے اور ترقی پسند دور کے پاپولسٹ زیٹجیسٹ(کسی خاص دور میں فکر واحساس کا غالب رحجان:جیسے ماحولیات،آب وہوا،تناؤ،احساس،تحریک،روح،رحجان وغیرہ)سے لاحق خطرات سے مقابلہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔
ایک سو سال پہلے بھی مخیر فیلن تھیروپسٹ حضرات کو نہ صرف پاپولسٹ رحجانات سے اندیشہ تھابلکہ قدامت پسند شخصیات نے بھی ایسے رحجانات سے خطرات اور اپنی دشمنی کا کھلا اظہار کیا۔ اُس وقت کے ترقی پسند صدارتی امیدوار’تھیوڈور وز ویلٹ‘Theodore Rooseveltنے کاروبار یوں سے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود،اس کوشش(انسان دوست فاؤنڈیشنز) کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے اجارہ داروں (جیسے راک فیلر)کی بد انتظام اور ناجائز طریقوں سے کمائی گئی استحصالی دولت کسی بھی طرح خیراتی شکل میں تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
امریکن فیڈریشن آف لیبر کے صدر اور قدامت پسند دستکاری یونین ازم کی علامت،سموئل گومپرزا،نے اس بات پر طنز کیا کہ”’اس بات سے دنیا مسٹر راک فیلر کی شکرگزار ہو گی کہ وہ انہیں تحقیق اور تعلیم کے لئے ایک بہت بڑا فنڈ مہیا کرے تاکہ دوسرے لوگوں کو بروقت یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ وہ اُس کی طرح بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں“۔خود بھی بورژوازی کا ایک رکن ہونے کے ناطے، روزویلٹ(بتیسواں امریکن صدر) اس بات سے زیادہ فکر مند تھا کہ کس طرح راک فیلر کی لالچ (لٹیری فیڈریشنز)سے عوام کے موجودہ استحصالی نظام کے بارے میں تاثرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔آدھی صدی کے بعد، ایک اور روزویلٹ کو آزادانہ سرما یہ کاری کے وجود کو بچانے کے لئے ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔
انقلابِ روس کے دو عشروں سے بھی کم عرصے کے بعد سرمایہ داری کے ذہنوں پرایک طرف انقلاب کا خوف تھا اور دوسری طرف سرمایہ داری تاریخ کے سب سے گہرے بحران میں تھی۔ جب فرینکلن ڈی روزویلٹ Franklin D. Roosevelt’s نے ”نیو ڈیل” کے حصول کا سیاق و سباق بیان کیا جسکے منصوبوں میں سرکاری ایجنسیوں کی درجہ بندی شامل تھی۔ان منصوبوں نے سرکاری شعبے میں ملازمتیں، یونینوں کو منظم کرنے کا حق اور سماجی تحفظ فراہم کیا۔ایف ڈی آر FDRکے دور سے امریکی سیاست میں کینیسیKeynesian معاشیات کا آغاز ہوا، ایک ایسی حکومت جس نے حکومتی مداخلت کو فروغ دیا اور یہ چار دہائیوں تک غالب و جاری رہی۔
شروع سے ہی، نیو ڈیل کے سرکاری منصوبوں سے سوشلزم کی حیثیت پر حملہ کیا گیا۔یہ معاملہ کسی بھی عوامی تحریک کے حق میں حکومتی مداخلت کا پُر اثر طریقہ تھا۔اس نظریہ کے تحت سرکاری مداخلت کو نجی املاک اور قومی دفاع کے تحفظ تک محدودکر دیا گیااور سماجی پروگراموں کے لئے ٹیکس عائد کرنا ایک لعنت کہا گیا جس سے سرمایہ داروں کے سرمائے کو مناسب طریقے سے محفوظ کیا گیااور انہیں بڑے پیمانے پر محنت سے حاصل شدہ رقم کوکبھی بھی اور کہیں بھی بھیجنے کی اجازت دے دی گئی۔ان کا عقیدہ تھا اور ہے کہ معاشرے کو اس طرح بہترین فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔رہائش، روزگار یا بے روزگاری الاوئنس اور محنت کش عوام کو درپیش دیگر مسائل سے نمٹنے کے لئے وقف کردہ سرکاری پروگرام ”نیو ڈیل” اور ”گریٹ سوسائٹی” کے نام سے سب کی توجہ کا مرکز تھا۔سرمایہ داری کی وجہ سے ہونے والی مادی عدم مساوات کو دور کرنے کی ضرورت پر زور کم کر دیا گیا اورتقریباًنصف صدی کے بعد سماجی و اقتصادی پالیسی مخالف سمت میں منتقل ہوگئی۔
نیو لبرل ازم نے سامراجیت کے حملے کو بڑھاوا دیا:
نیو لبرل ازم کا حملہ 1980 کی دہائی کے دوران پوری شدت سے شروع ہوا۔ ریگن انتظامیہ (رونالڈ ریگن، جو اصل میں ایک امریکی اداکار اور سیاستدان تھا، 1981 سے 1989 تک خدمات انجام دینے والا امریکہ کا 40 ویں صدر تھا)نے وفاقی بجٹ میں توازن برقرار رکھنے کے لئے گھریلو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو بڑھایا، ٹیکسوں میں کمی کی اور فوجی اخراجات میں اضافہ کیا، جس سے مجموعی طور پر وفاقی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ منشیات کے خلاف جنگ میں حوصلہ افزائی کی، اور عوامی شعبے کی مزدور یونینز کے خلاف بھی لڑا۔ قومی قرضہ پہلی بار ایک کھرب ڈالر تک پہنچ گیا، ٹیکسوں میں کمی کی وجہ سے محصول کو کم کرنا پڑا، جس کا سب سے زیادہ فائدہ سرمایہ داروں اور کارپوریشنز کو ہوا۔ چونکہ معاشرتی خدمات کی ضرورت میں تیزی سے اضافہ ہوا، تب غیر منافع بخش تنظیمیں یا غیر سرکاری تنظیمیں زیادہ اہم ہوگئیں۔ غیر سرکاری تنظیمیں ریاست کی نظر میں مزدور اور غریب طبقے کے لئے ”ان کی ذمہ داری نبھانے” کا راستہ بن گئیں۔ سرمایہ داروں کے منافع کی شرع بلند ہوئی، چونکہ دولت مند ٹیکس کم کرنے کے مقصد کے لئے مخیرحضرات کی امداد کی کوششوں میں مشغول ہو گئے۔جس سے ان کے ٹیکسوں میں کمی ہوئی اور سرمایہ دار کمپنیاں ٹیکس کی دسترس سے ماورا ء رہیں۔
فرمز اور ان کی متعلقہ صنعتیں ایسے طریقوں کو اپناتی ہیں جو ان کے مفادات اور مجموعی طور پر آزادانہ سرمایہ کاری کا تحفظ کرتی ہیں۔ 1960 کی دہائی میں محنت کشوں کی تحریکوں نے سرمایہ داری کو براہ راست خطرہ لاحق کردیا تھا جیسے 1930کی دہائی کی تحریکوں نے کیا تھا۔ نسلی انصاف کی جدوجہد، ویت نام کی جنگ مخالف تحریک، اور اس دہائی کے دوران عام سیاسی ارتقاء کے نتیجے میں مزدوروں نے ملکی اوربین الاقوامی سطح پر روابط قائم کرتے ہوئے ہر طرح کے جبرو تشدد کا مقابلہ کیا۔اسی دوران کارپوریشنز نے خیراتی اداروں کے مخیرحضرات کے ذریعے بائیں بازو کی تحریکوں کو محکوم رکھنے کے لئے انسان دوست ’اسٹریٹ جیکٹ‘(لمبی آستینوں والا ایک مضبوط لباس جس کو ایک پر تشدد قیدی یا ذہنی مریض کے بازو باندھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے)کا استعمال کیا۔
جیسا کہ ماہر معاشیات’ایفی گورسن‘نے بیان کیاکہ خیراتی اداروں کی مالی اعانت سے چلنے والی لبرل بائیں بازو کی تنظیمیں، ریاست کے ساتھ مشترکہ طور پر متحد ہو کر غیر مخالف سماجی خدمت گزار اور ریاست کے حامی اصلاح پسند ایجنسیوں میں تبدیل ہو گئیں، جو فلاحی ریاست کے زوال کے بعد خالی جگہوں کو پُر کررہی ہیں۔ سرمایہ تحریکوں کے سیاسی مواد کو کمزور کرتا ہے، اپوزیشن کی قوتوں کو غیر موثر بناتا ہے، جبکہ ریاست کو تشدد کے علاوہ، معاشرتی کنٹرول کا ایک اور ذریعہ فراہم کرنے کے ساتھ کیمونٹیز/انسانی برادریوں کو ہلکی پھلکی راحت بھی فراہم کرتا ہے۔تاکہ احساس اور مروت کا ایک لبادہ قائم رہے۔ حکمران طبقہ خیراتی اداروں کو کنٹرول کر کے اپنے سابق مخالفین کو بھی فنڈ اور سرمائے کے مفادات کی ضروریات کے تابع ہونے پر مجبور کرتا ہے۔ جینیفر سیما سیمی لکھتی ہیں کہ: جب فنانس مہیا کرنے والے ایسے مقصد رکھتے ہیں جو خیراتی اداروں کے مشن سے مطابقت نہیں رکھتے تو وہ ایسی تنظیموں کی بڑھوتری کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں۔تب اُن تنظیموں کیلئے مشن کوآگے بڑھانے کا سوال ابھرتا ہے کہ تنظیمیں اپنی اصل اقدار اور اہداف کو برقرارکھتے ہوئے باقی کمیونٹی کی شراکت داری کے امکانی سمجھوتے کو اجا گر کرسکتی ہیں یا نہیں؟
جب حکومت کی مالی اعانت ناکافی ہوتی ہے تو فاؤنڈیشنز اضافی فنڈ ز کا سہارا لیتی ہیں۔ فاؤ نڈیشنز کا پیسوں پر انحصار،اُن کی آزادی کیلئے نقصان اور مشن میں اضافے کے امکانات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
جیسا کہ سیما سیمی کا کہنا ہے کہ، ”فاؤ نڈیشنز کی طرف سے دی جانے والی گرانٹ بھی ضروریات کے ایک ناگوار سیٹ کے ساتھ آتی ہے جس کی تکمیل لازمی ہوتی ہے۔گرانٹ کی درخواست کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک تنظیم اپنے پروگراموں میں ترمیم کرنے پر مجبور ہوسکتی ہے، اور بعض اوقات اس کے مشن سٹیٹمنٹ کو بھی، تاکہ مالی ضروریات کو پورا کیا جا سکے!
”خیراتی ادارے یا فاؤنڈیشنز عارضی طور پر کچھ حاصلات دیکر عوام کی توجہ سماجی خدمات کی طرف منتقل کردیتی ہیں۔ دولت مندوں کو افراتفری سے بچانے، اداروں میں اعتماد برقرار رکھنے اور سماجی تبدیلی کی طرف مائل لوگوں پر قابو پانے کے لئے
”بفر زون“ (دو دشمنوں کے درمیان خالی علاقہ)کی تشکیل کرتی ہیں۔خیراتی اداروں یا فاؤنڈیشنزکابنیادی تنظیمی ڈھانچہ کارپوریٹ ماڈل کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ ہر ایک کے پاس سی ای او / صدر، ایک چیف فنانشل آفیسر، ایک چیف آپریشن آفیسر، اور بورڈ آف ڈائریکٹرز ہوتے ہیں، جو ان تنظیموں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جو جمہوری طرزپر سرمایہ دارانہ حکومتوں اور کمیونٹی کے درمیان بڑھتی ہوئے دوری کو کم کرنے میں اپنے کردار ادا کرتے ہیں۔
مزید برآں، جیسا کہ رامسن کین نے وضاحت کی ہے، ”ڈونر اور سرکاری گرانٹ کے پیسے وصول کرنے کے اہل ہونے کے درمیان شدید مقابلے نے این جی او انڈسٹری کے ایگزیکٹوز، گرانٹ رائٹرز (یعنی فنڈ جمع کرنے والے) وکلاء اور تعمیلی عہدیداروں کی ایک پیشہ ور کلاس تیار کی ہے۔ پیشہ ور افراد کی اس کلاس کو پیشہ ورانہ انجمنوں، فنڈنگ نیٹ ورکس، تعلیمی پروگراموں اور کانفرنسز کے ذریعے ایک ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت ساری صورتوں میں ’این جی اوز‘ کی ترقی اور توسیع محنت کش طبقے، بورژوازی اور پیشہ ورانہ انتظامیہ کے مابین تفریق کو واضح کرتی ہے جو اس کی خدمت کرتے ہیں۔فاؤنڈیشنزکی طرف سے کی جانے والی کمپینز یا انتخابی مہم متضاد مفادات کا سبب بنتی ہیں جس سے محنت کش طبقے کے مادی مفادات، این جی اوز اور ان کے مددگاروں کی خدمت کرنے میں تاخیر کا شکارہو جاتے ہیں۔
سیاہ انتہا پسندی پر مشتمل
گورسن، ڈائیلن روڈریگوز‘ کے کام کا حوالہ دیتے ہوئے، کارپوریشزاور این جی اوزکے مابین تعلقات کو اس طرح واضع کرتا ہے کہ ”سن 1970 کی دہائی کے وسط سے،ان کے درمیان علاقائی تعلقات کا آغاز ہوا،جو ریاست کے سیاسی اور مالی مفادات کو جوڑتے تھے۔ وہ عوامی سیاسی گفت و شنیدپر، خاص طور پر ابھرتی ہوئی ترقی پسند اور بائیں بازو کی سماجی تحریکوں پر کڑی نگاہ رکھنے والے نگران کا کردار ادا کررہے تھے۔جس کے لئے خاص طور پر، بلیک پاور موومنٹ کا انتخاب کیا گیا، اور اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ، سیاہ سرمایہ داری، سیاہ فام عوام کی سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ 1960 کی دہائی کی وسیع تر سیاسی سرگرمی کا ایک شاخسانہ بن گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ محنت کش طبقے میں عدم اطمینان ناگزیر تھا، اس لئے اس کی روک تھام کا یہ ایک ذریعہ ضروری ہوگیا۔
لبرلائزیشن کی منڈی میں دوبارہ شمولیت اور بجٹ میں کمی کا سیاہ فام عوام پر گہرا غیرمناسب اثر پڑا۔ 1970 کی دہائی تک، شہری حقوق(سول رائٹس) کی تحریک کی براہ ِراست کارروائی کے نتیجے میں، سیاہ فام لوگوں نے سول اور رائے دہندگی کے حقوق حاصل کیے، جس سے ریاست کے اندر سیاہ فام نمائندگی میں اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں، قومی سیاہ فام قیادت نے آزادانہ، اپوزیشن اور انقلابی سیاست سے،ہر حکومتی سطح پر انتخابی اصلاح پسندی کی طرف زور دینا شروع کیا۔ تاریخی طور پر سیاہ فارمز نے تحریکِ آزادی کے مختلف اوتار کے ذریعہ ساختی جبر کو چیلنج کیا، اور قومی اداروں سے باہر ایک قوت تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اس میں بڑی تبدیلی تب آئی جب شہری حقوق(سول رائٹس) کی تحریک کی قانون سازی کی کامیابیوں نے سیاہ فام عوام کی سیاسی بیداری کے ظہور کیلئے سازگارحالات پیدا کیے۔ جیسا کہ’ایڈولف ریڈ‘ زور دیتا ہے کہ، ”سیاہ فام کیمونٹی کے اندر بڑھتے ہوئے پیشہ ورانہ انتظامی امور نے عوامی حقوق(سول رائٹس) کے بعد کے دور میں، سیاسی سرگرمیوں کے لئے ایک نیا فریم ورک تیار کرتے ہوئے سفید فارم عوام کے حامی افراد کے ساتھ اتحاد کیا“۔
ترمیمی سیاست میں ترقی کے حامیوں نے سیاسی اور معاشی نقطہ نظر سے اختلافات رکھے۔ جس کا عملی نتیجہ سیاہ فاموں کو بے دخل کرنا ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ جب مقامی انتظامیہ خود افریقی نژاد امریکی تھی۔ اس دور سے پہلے، سیاہ کمیونٹی نے ملک کے دوسرے علاقوں یا بیرون ملک سرمائے کے اخراج کا تجربہ بھی کیا۔
سیاہ فام قومی قیادت کا لبرل اصلاح پسندی کی طرف بڑھ جانے کے باوجود، سیاہ فام کمیونٹیز ابھی بھی سرکش سفید فام حکمران طبقے کے خلاف بنیادی ضروریات کے لئے نچلی سطح پر لڑی رہی ہیں۔ قانون سازی بھی سیاہ فاموں کو امتیازی سلوک سے محفوظ نہیں رکھ سکی۔
وفاقی ڈالر ز اور سرکاری رہائشی منصوبوں سے تعمیر کردہ فیڈرل ہاؤسنگ پروگرام نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے کیونکہ منافع کا مقصد نسلی امتیاز کی بنیاد پر تھا۔سفید فاموں کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نسبت سیاہ فامز کی ہاوسنگ سوسائٹیاں عموماً سہولتوں کے بغیر تھیں۔سیاہ فام ابھی تک jim crow جم کرو) ایسے قوانین جو جنوبی امریکہ میں نسلی علیحدگی کو نافذ کرنے کیلئے تھے۔ یہ قوانین 19 ویں صدی کے آخر میں اور 20 ویں صدی کے اوائل میں سفید فام جنوبی ڈیموکریٹ ریاستی قانون سازوں کے ذریعہ تعمیر نو کے دور میں، سیاہ فام لوگوں کیلئے نسلی بنیادوں پر سیاسی اور معاشی فوائد کو نقصان پہنچانے کی غرض سے نافذ کیے گئے تھے)۔اور جب سیاہ فاموں کیلئے قوانین میں بہتری لائی گئی تو وہ ان کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔
سامراج کے ایجنٹ: خیراتی ادارے
معیشت کی لبرلائزیشن صرف شمالی امریکہ تک محدود نہیں تھی۔ درحقیقت، افریقہ اور لاطینی امریکہ ساختی ایڈجسٹمنٹ کی لیبارٹریز تھیں،جنہوں نے قوموں کو مستقل ملکی اور بیرونی قرضوں کی بھینٹ چڑھائے رکھا۔ادھر سرد جنگ کے خاتمے کا مطلب یہ تھا کہ مشرقی یورپ اور سوویت یونین مارکیٹ کی قدامت پسندی پر کاربند رہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے ”نئی دنیا“کی کھوج کے ساتھ ہی، ان نئی منڈیوں کا پروموٹرزنے دورہ کیا، اور آزاد منڈیوں کی خوبیوں کو عام کیا۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں سرد جنگ کا غلغلہ ٹوٹ گیا، جس سے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو سابقہ سوویت یونین سمیت،تمام دنیا کو سرمایہ دارانہ تسلط کے تابع کرنے پر مجبور کرنے کا ایک ذریعہ فراہم ہوا۔ یک قطبی سرد جنگ کے بعد کی دنیا کا مطلب یہ تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرمایہ داری کو اب عالمی منڈیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی ہے اور وہ دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتی ہے۔ ریاستی خدماتِ عامہ اور دوسرے اداروں اور پروگراموں کو ختم کردیا گیا، جس سے ممالک کو غیر ملکی سرمائے کی وصولی سے متعلق قیاس آرائیاں بے نقاب ہوگئیں۔ سابقہ ریاستی عہدیدار نجکاری کی بدولت مالدار ہوگئے۔ افریقہ،ایشیا اور لاطینی امریکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضوں میں پھنس گئے۔ قرضوں کی ایک بنیادی شرط یہ تھی کہ ممالک کو اپنی معیشت کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام قومیں کنگال کر دی گئیں، پانی کی نجکاری کی گئی،صحت اور تعلیم کے شعبوں کی نجکاری میں یورپی سرمایہ کاروں کے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
جیسا کہ’پیٹرک بانڈ‘ نے افریقہ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔اس واحد طاقتور دنیا میں، غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اور بین الاقوامی ادارے جیسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)، امریکی سرمائے کی نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک بین الاقوامی مشاورتی کمپنی کے بزنس الائنس کے سربراہ نے وضاحت کی ہے کہ،”ہمیں لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا غیر ملکی امدادی پروگرا م ہما ری قابلیت، ہماری صلاحیت اور ہمارے مارکیٹ شیئرز کو بڑھانے کا ایک اہم عنصر ہے“۔
سامراجیت بذاتِ خود اپنے اندر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ سے کہیں زیادہ خطرناک ہتھیار وں پر مشتمل ہے۔ یہ اتنی ہی تباہ کن چیز ہے جتناکے معا شی تباہی کا خطرہ!بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک جیسے ادارے، عالمی سرمایہ کاری کی مد میں قر ضوں کے حصول کے لئے شارک کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ’میک میلان‘ نے بتایا ہے کہ، سرما ئے کی ایکسپورٹ کرتے ہوئے زیادہ تر زرعی کاروبار، برآمدات، سویٹ شاپس، کان کنی اور سیاحوں کیلئے کھیل کے میدانوں میں سرمایہ کاری کیلئے سازگار حالات تخلیق کرتے ہیں۔ جب مارکیٹ کی قوتیں کسی ملک کو تباہ کرتی ہیں تو مخیر حضرات اصل مجرموں کی شناخت کو چھپاتے ہیں۔اسی طرح امریکی سامراجی طاقت کے تعاون سے نیولبرل پالیسیاں عالمی سطح پرپہلے سے تقسیم شدہ ریاست کو تباہ کرتی ہیں۔’میک میلان‘ کے مطابق جب سامراجی اور تیسری دنیا کے ممالک سے محنت کش عوام کی اکثریت چیریٹی ہیلتھ کلینکس، لنگرخانے اور دیگر سول سوسائٹی کے متعددحصوں میں تبدیل ہو کر اپنی ضروریات پوری کریں تو اُس وقت آؤٹ سورسنگ یا ٹھیکیداری کی سماجی ضرورت بڑھ جاتی ہے، کمزورریاستیں جب بھی مالی اور سیاسی بحران میں جاتی ہیں یہ مہربان‘ فائدہ اٹھانے والے(مخیر حضرات) بدلے میں، ایسی ریاستوں کو بچانے کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ’شہرت یافتہ انسان دوست فاؤنڈیشنز“ معاشرے پر جو تقصان دہ اثرات مرتب کر رہی ہیں،اس کو چھپانے کی ایک گھٹیا کوشش ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر، کارپوریٹ، فاؤنڈیشنز، غیر سرکاری تنظیموں کی مالی اعانت کے ذریعے، عوام پر بڑے اور گہرے ظلم و ستم ڈھا رہی ہیں اور ایک حد تک،اس سب میں ان کی اپنی رضامندی بھی حاصل کی گئی ہے۔ معاشرتی بہبود کے لئے وقف شدہ تنظیمیں ایسے معاشرے کے لئے ناگزیر ہوجاتی ہیں جو آئندہ کوئی دوسری امداد لے پانے کے قابل نہیں رہتے۔
محنت کش طبقے کی سیاست ضروری ہے، جھوٹی فاؤنڈیشنز (این جی اوز) حل نہیں!
محنت کش طبقے کی آزادی، مالی بنیادوں پر منحصر انسان دوست تنظیموں یا ایسی فاؤنڈیشنز کے ذریعے حاصل نہیں کی جاسکتی جن کے مفادات اور تنازعات عیاں ہیں۔ طبقاتی شعور رکھنے والی تنظیموں کیلئے سرمایہ داری کی طرف سے، کسی بھی چھپے یا ظاہر ذریعے سے ملنے والا فنڈ ان کے گلے کاٹنے کے لئے چاقو فراہم کرنے کے مترادف ہوگا۔ مزید یہ کہ کارپوریٹ ڈھانچے کو اپنانا اور مارکیٹ کی قوتوں پر انحصار، ایسے حالات کوبرقراررکھتا ہے جو ایسی فاؤنڈیشنز کی ضرورت کو پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جیسا کہ’کارل روڈس‘ اور ’پیٹر بلوم‘ نے اپنے مضمونThe Trouble with Charitable Billionairesمیں وضاحت کی ہے:”جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ پیداوار اور خدماتِ عامہ کی ذمہ داریاں جمہوری اداروں سے دولت مندوں کو منتقل کرنا ہے، جو ایک ایگزیکٹو کلاس کے زیر انتظام ہے“۔ مارکسسٹ کی حیثیت سے، ہم جمہوریت کو اس کے طبقاتی تناظر میں رکھتے ہوئے، آگے بڑھیں گے: خیراتی ارب پتیوں اور ان کے مخیر حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ استحصال اور جبر کی بنیادی جڑوں کی علامت ہیں اور مزدور طبقے کو پرولتاری جمہوریت کے لئے آزادانہ جدوجہد سے ہٹاتے ہیں۔
انقلابی سیاست سے لے کر اصلاح پسندانہ حکمتِ عملی تک، بائیں بازو کی پسپائی، مزدور طبقے میں غصے کی لہر کو مزید اجاگر کر دیتی ہے سماجی مسائل کے لئے چھوٹے پیمانے پر حل تجویز کیے جاتے ہیں جو اُس وقت مایوسی کا سبب بن جاتے ہیں جب نتیجہ نہیں ملتا۔ سرمایہ داری کا تریاق ہمیشہ منڈی کی معیشت پر مبنی رہتاہے۔ یہاں تک کہ مختلف وبائی امراض کے دوران بھی یہ مشورے ملتے ہیں کہ منافع کے مقصد کیلئے سرمائے کو ویکسینز اور طبی سامان کی فراہمی کے لئے،تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے فوری طور پر استعمال کیا جائے۔ اس استدلال پر غور کریں: دواسازی کی صنعت کورشوت دے کر،بیماریوں کے علاج کی دوائیاں تیار کرنے کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔ اسپتال بند ہیں، دوائیں دستیاب نہیں،اگر علاج ہے تو، اخراجات ممکن نہیں۔ صحت کی دیکھ بھال سے لے کر رہائش اور تعلیم تک،سرمایہ دار طبقہ ایسے بحرانوں کا باعث بنتا ہے جہاں سے محنت کش طبقہ تقسیم رہتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نہیں نکل سکتا۔اور ایسے میں خیراتی ادارے(این جی اوز) علاج کے بجائے مرض کے ساتھ رہنے کے لئے فراہم کی جانے والی دوا ہے۔

 

SHARE