Home Pakistan کراچی:ٹیکسٹائل فیکٹری نے700سے زائد مزدوروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا

کراچی:ٹیکسٹائل فیکٹری نے700سے زائد مزدوروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا

SHARE

کرونا وائرس پھیلنے سے نمٹنے کے لئے سندھ سمیت ملک کے تمام صوبوں میں فیکٹریاں لاک ڈاؤن کے درمیان بند ہیں۔جس کا خمیازہ اب سب سے زیادہ مزدور اور محنت کش طبقے کو ادا کرنا ہو گا۔جس کی واضع مثال آج کراچی کی ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں 700مزدوروں کو ملازمت سے برطرف کرنے کی صورت میں نظر آئی۔
انتظامیہ کی طرف سے انہیں یہ کہتے ہوئے فیکٹری چھوڑنے کو کہا گیا ہے کہ ان کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں ہے۔اس کے علاوہ فیکٹری مالکان نے مزدوروں کو کٹوتیوں کے ساتھ پچھلے مہینے کی تنخواہ جاری کی تھی۔
ملازمت سے برطرف ملازمین بشمول مرد وخواتین اور بڑی تعداد میں نوجوانوں نے اپنی ملازمتوں کے برطرف کرنے کے سخت فیصلے پر فیکٹری کے باہر احتجاج کیا۔ جس کا حکومتی اور انتظامیہ سطح پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
احتجاج کرنے والے ملازمت سے برخاست ملازمین کا کہنا ہے کہ اس خراب معاشی حالات میں ملز کے مالک نے انہیں بلا نوٹس برطرف کردیا ہے، اب وہ اپنے کنبے کے لئے روٹی اورخوراک کا خرچہ کیسے پورا کریں گے۔ایسے مزدوروں کی بڑی تعداد کرائے کے گھروں میں رہتی ہے اگر نوکریاں نہیں ہوں گی تو یقیناً مالک مکان بھی انہیں گھروں میں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ایسے میں وہ اپنے خاندانوں کے لئے مکان اور روٹی کا بندوبست کیسے کریں گے؟یہ ایک ایسا بڑھتا ہوا عالمی مسئلہ اور سوال ہے جس کا جواب اب تلاش کرنا اس وقت کی اہم ضروروت بن چکا ہے۔
دوسری طرف سندھ میں سرکاری ملازمتوں پر بھرتیاں بھی ملتوی کر دی گئیں ہیں۔حکومتِ سندھ کے مختلف محکموں میں گریڈ ایک سے گریڈ پندرہ تک 50ہزار بھرتیاں کرنا تھیں جو کہ مالی اور انتظامی مسائل کی آڑ میں غیر معینہ مدت تک موخر کر دی گئیں ہیں۔جس سے یقیناً ملک میں بے روزگاری کی شرح اور تیزی سے بڑھے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ اب حکومتی کھوکھلے وعدوں نے مزدور اور طبقے کے معاشی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ایک طرف حکومتی بڑے دعوے کہ کوئی پرائیویٹ فرم یا ادارہ اپنے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ نہیں کرے گا اور دوسری طرف بڑے چھوٹے سرمایہ دار ابھی سے لاک ڈاؤن مدت کے دوران ہی اپنے ملازمین کو برطرف کرنے کا ظالمانہ اقدام اُٹھانے لگے ہیں۔
سرمایہ داروں اور ان کی ریاستوں نے ہمیشہ سے ہی مزدوروں اور غریبوں کے جمہوری اور بنیادی حقوق کو دبانے کے لئے کام کیا ہے۔اٹھارویں صدی سے آج تک، تاریخ میں اس کی بیشمار مثالیں اور ایسے ان گنت اقدامات نظر آتے ہیں جن کا مقصد ہمیشہ سے ہڑتالوں، یونینز اور مزدوروں کے مظاہروں پر دباؤ ڈالنا اور انہیں کمزور کرنا رہا ہے۔
مجرمانہ ذہنیت، سرمایہ دارانہ نظام کی اِس صدی کی نہایت اہم خصوصیت رہی ہے جو سرمائے کے ڈی این اے کا بنیادی حصہ ہے، کو موجودہ تاریخی دور میں خوفناک جہت ملی ہے۔ ان کے بھاری منافع کی شرح کو برقرار رکھنے، بڑھانے اور پوری دنیا میں مزدور طبقے کے وحشیانہ استحصال کو یقینی بنانے کے لئے سرمایہ داروں کو اِن کے منصوبوں کی مخالفت کرنے والوں کے لئے عام طور پر متعدد ممالک میں ریاستی پالیسی کے بنیادی جزو میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کی تنظیمیں یونینز، مزدور فیڈریشنز، معاشرتی تحریکیں جو اِن سرمایہ داروں کے ساتھ تعاون کرنے اور استحصال کا مقابلہ کرنے سے انکار کرتی ہیں ان پر بے رحمی کے ساتھ ظلم ڈھایا جاتا ہے۔
انیٹی یونین قوانین کے ذریعے سرمایہ دار اپنا معاشرتی نظام نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیس، فوجی اور نیم فوجی دستے بھی سرمایہ دارانہ نظام کی دیکھ بھال کے لئے کلیدی عناصر ہیں۔جس کی مثال کولمبیا میں نیم فوجی گروہوں کے ذریعہ سینکڑوں ٹریڈ یونینسٹوں کا قتل اور کوریا اور ترکی میں یکم مئی کو مظاہرین کے خلاف پولیس کے جبر کے ساتھ ساتھ،جنوبی افریقہ میں کان کنوں کی ہڑتال کے خلاف کیے گئے حالیہ قتل، ریاستی پولیس کی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔
انتہا پرست پرتوں کی جدوجہد کو شکست دینے کے لئے، وہ یونینز جو تحریک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، سرمایہ دار اپنے تمام ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے:جیسے اینٹی یونین قوانین، پولیس جبر، گرفتاریوں، برخاستگیوں وغیرہ کے ذریعہ ہڑتال کرنے والوں کو الگ تھلگ کرنے اور انہیں مزدوروں سے دور کرنے کے لئے وسیع بھیانک ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
اب آنے والے وقت میں ہم ایسی وسیع تحریکوں کو ابھرتا ہوا دیکھ سکیں گے جن کی قیادت مزدور اور محنت کش طبقہ کرے گا اور یہ تحریکیں صرف ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں ہوں گی بلکہ عالمی سطح پر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے مفاد اور لالچ پر مبنی بڑھتے ہوئے نظام کے گراوٹ کی طرف سفر کا پیش خیمہ ہوں گی۔
 
یکجہتی , جدوجہد اور مزدور اتحاد وقت کی اہم ضرورت!

SHARE