تحریر: عاطف نذیر
ٰٓٓٓجنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کے نقشے پر موجود بے شمار ملکوں کے جغرافیے میں تبدیلیاں آئیں ۔ یہ تبدیلیاں افریقہ سے لاطینی امریکہ اور پھر مشرق وسطی سے دیگر ایشیائی ممالک تک رونما ہوئیں۔ لیکن ان تمام جغرافیائی تبدیلیوں میں چند ایک کو چھوڑ کر تمام نئے سامراجی مقاصد کے لیے کی گئیں۔ برطانوی سامراج کی شکست و ریخت اور براہ راست نو آبادیاتی تسلط کے خاتمے کے بعد بھی سامراجی مفادات کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی جاری و ساری رہی تاکہ کسی صورت بھی اس نظام زر کو قائم و دائم رکھا جا سکے۔ کیونکہ اس سامراجی نظام اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف دنیا بھر میں مظلوم و محکو م طبقات صدیوں کی غلامی سے بیدار ہو کر غلامی کی آہنی زنجیروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اتار پھینکنے میں بر سر پیکار تھے۔ یہ ابھرتی تحریکیں نا صرف نو آ بادیاتی تسلط کے خاتمے کے لیے تھیں بلکہ اس نظام معیشت و حکومت کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے نئے سماج کی بنیاد رکھنے کے لیے جاری تھیں۔ ان تحریکوں کو کہیں اپنے من پسند لیڈروں کے ذریعے کہیں نام نہاد اآزادی و جمہوریت کے نام پر اور کہیں طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا گیا۔بالکل اسی طرح جب برطانوی زیر تسلط متحدہ ہندوستان میں غیر ملکی تسلط، جبر، استحصال، تعصب اور بربریت کے خلاف بر صغیر کے لوگوں نے انگڑائی لینا شروع کی تو سامراج نے ماضی کے سامراجوں کی ہی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے سات ہزار سالہ تہذیب کے ذندہ جسم کو چیر کر مذہبی بنیادوں پر خطے کو تقسیم کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجودبھی اس ملک کے عوام اس درد سے کراہ رہے ہیں۔ اس سامراجی تقسیم کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں نوزائیدہ ریاستوں کے درمیان ایک ایسا تنازعہ کھڑا کر دیا گیا جو ایک محاورے کی صورت اختیار کر گیا جیسے یہ کبھی نہ حل ہونے والا ہو۔ اور وہ مسئلہ کشمیر کی بے ہنگم اور غیر فطری تقسیم ہے۔ جس کا خمیازہ دونوں اطراف کی عوام بھگت رہی ہیں۔کشمیر تین نیوکلئیر ممالک چین، پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ خطہ ہے۔ جہاں منقسم خطے کے عوام ریاستی جبر، دہشت گردی، آر پار کی فائرنگ، اور دیگر بنیادی مسائل سے دوچار ہیں وہیں اس متنازعہ خطے کی بدولت بالعموم تینوں قابض ریاستوں اور بالخصوص پاکستان اور بھارت کے عوام معاشی بدحالی کا شکار ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک بجٹ کی ایک کثیررقم دفاع اور فوجوں پر اٹھنے والے اخراجات پر صرف کر رہے ہیں۔ یونین منسٹری آف ہوم افیئرز کے مطابق بھارت گزشتہ 28سالوں میں 6871.52کروڑ روپے صرف کشمیر میں موجود فوج پر خرچ کر چکا ہے جو 7لاکھ کے قریب ہے۔ جو بھارتی عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا ضیاع ہے۔ جبکہ بھارت تعلیم پر صرف 3فی صداور صحت پر 1.3فی صد خرچ کرتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان تعلیم پر 1 فیصد اور صحت پربھی تقریبا 1 فی صد خرچ کرتا ہے۔ دونوں ممالک بھارت اور پاکستان کی بالترتیب 21,22فی صد آبادی 1.2ڈالر یومیہ پر زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان میں تقریبا 24ملین بچے سکول نہیں جاتے۔45فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور بھارت میں 38.7فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔دفاع کے نام پربھاری اخراجات کا نتیجہ خطے میں عدم استحکام کی کیفیت کو برقرار رکھنا، بارڈر کے دونوں اطراف معصوم انسانوں کا قتل عام کرنا، انکی ا ملاک تباہ و برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ آگ و خون کا سلسلہ عوام کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ،قیامت بھی ایسی جو روز آتی ہو مگر حکمرانوں، ملٹری اشرافیہ اور عالمی اسلحہ ساز کمپنیوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ عالمی سامراجی نظام کو برقرار رکھنے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں کے لیے ایسے جنگی میدانوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ تا کہ اس نظام بربریت کی وحشت اور سفاکیت کے خلاف ابھرنے والی ہر آواز کا نا صرف گلا گھونٹا جا سکے بلکہ عوام کو دوسرے ملکوں کے حملوں کے خدشات کی پیش نظر خوفزدہ رکھ کر اپنے حاشیہ برداروں کے کاروبار اور حکمرانی کو بھی برقرار رکھا جاسکے تاکہ ان کے منافعوں اور عیاشی میں برابر اضافہ بلا کسی روک ٹوک جاری رہے۔
مزاحمتی تحریک کے مختلف مراحل:
کشمیر کی اس غیر فطری تقسیم کے خلاف روز اول سے ہی جدوجہد جاری و ساری رہی ہے۔ آزادی کی اس تحریک کی لہروں میں کبھی طوفان آ جاتے ہیں اور کبھی بالکل سست روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن یہ تحریک اب ایک دو راہے پر آن کھڑی ہے جو اپنے پاس ماضی کے بے شمار تجربات اور اسباق رکھتی ہے۔کشمیر کی مزاحمتی تحریک غیر ملکی قبضے، ریاستی جبر و استحصال اورانسانی حقوق کی پامالی کے خلاف مختلف اتار چڑھاؤ سے گزری ہے۔کشمیر کی آزادی اور منقسم حصوں کی جڑت کے لیے تحریکیں چلتی رہیں۔تقریبا آج سے اٹھائیس سال قبل کشمیر کی وادی آزادی کے نعروں سے گونج اٹھی تھی اور کشمیر کا ہر پیر و جوان آزادی کے سفر پر گامزن ہو چکا تھا جب JKLFنے کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ کشمیر کے نوجوانوں نے قابض ممالک کی افواج کے انخلاء اور مکمل آزادی کے لیے گوریلا کاروائیوں کا آغاز کر دیا تھا کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں چلنے والی قومی آزادی کی تحریکیں اسی ڈگر پر چل رہی تھیں۔ یہ رہتی دنیا میں چلنے والی انقلابی طوفانوں کا اثر تھا۔ مگر یہ تحریک پاکستانی ایجنسیوں اور مذہبی جہادی جتھوں کی بدولت جلد ہی زوال پذیر ہونا شروع ہو گئی۔ اس تحریک کا مقصد کشمیر کی مکمل آزادی یعنی چاروں منقسم حصوں آزادکشمیر، گلگت بلتستان،جموں،وادی، لداخ اور اکسائی چن کو ملاتے ہوئے خودمختار ریاست کا قیام تھا۔ مگر پاکستان کی طرف نرم گوشہ رکھنے اور نظریاتی و تنظیمی ابہام اورناقص حکمت عملی کی بدولت یہ تحریک پسپا ہوئی اور پوری وادی عسکریت پسندوں کی آماج گاہ بن گئی۔اور یوں ایک بار پھر حکمرانوں اور قابض ریاستوں کو کشمیر ی عوام کے قتل عام کا کھلا جواز مل گیا۔ہر طرف آگ و خون، بم دھماکے اور بارود کی بو نے خوبصورت وادی کی معطر فضاؤں کو آلودہ کر دیا۔
نائن الیون کے واقعہ کے بعد دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ماضی میں انقلابی تحریکوں کو کچلنے اور محنت کش عوام کو خوفزدہ رکھنے کے لیے جو پراکسیاں تیار کی گئی تھیں ان کو دہشتگرد قرار دے کر سامراج ایک نئی جنگ میں کود گیا تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں میں اضافہ کرتے ہو ئے اس زوال پذیر نظام سرمایہ داری کو تھوڑی آکسیجن دی جا سکے۔اس طرح دہشتگری کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کیا گیا۔اس کے بعد قابض ممالک ایک دوسرے پراپنی اپنی نو آبادیات میں مداخلت کا الزام لگاتے رہے مگر زندگی اپنے ہونے پر بین کرتی رہی۔ لائن آف کنٹرول پر ایک طرف تجارت کی جاتی رہی اور دوسری طرف گولہ بارود آر پار کی عوام پر پھونکا جاتا رہا۔ امن و جنگ کا یہ کھیل کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔ نا تو امن رکھا جا سکتا ہے نہ جنگ کی جا سکتی ہے بلکہ ایک ابہام کی کیفیت پیدا کر کے اپنے ناجائزقبضے کو طوالت دی جا رہی ہے اور دوسری طرف اپنے عوام کو خوف کی کیفیت میں مبتلا رکھ کر حکمرانی اور لوٹ مار کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔
مسلح جدوجہد سے سنگبازوں کی تحریک اور پھر دوبارہ عسکریت پسندی کی طرف مائل ہوتے نوجوانوں کی تحریک کئی دہائیوں کے مسلسل عمل سے گزری۔۔سنگبازوں کی تحریک نے ایک نئے انتفادہ کی بنیاد رکھی تھی۔ 2011ء میں شروع ہونے والی یہ تحریک جلد ہی پوری وادی میں پھیل گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں کا جتھہ بر آمد ہوتا اور بکتر بند فوجی گاڑیوں پر پتھروں کی بوچھاڑ کر کے واپس چھپ جاتا یہ سخت ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی واردات تھی۔ اب آزادی پسندوں نے ہتھیاروں کے بجائے اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیے تھے جو اس بات کا کھلا اظہار تھا کہ ریاستی اور فوجی طاقت آزادی کے جذبے اورحقیقی عوامی جدوجہد کا راستہ نہیں روک سکتی۔ چاہے فوج کتنی بڑی اور طاقت ور کیوں نہ ہو؟ لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے باوجود آج بھی کشمیر کے طول و عرض میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے ہم کیا چاہتے؟ آزادی ہم لے کے رہیں گے آزادی۔ یہ نعرہ اس بات کی غماز ی ہے کہ کشمیری آزادی سے کم کسی صورت کو قبول نہیں کریں گے۔ اور مکمل معاشی، سیا سی، سماجی آزادی اور غیر طبقاتی سماج تک یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ اس تحریک کو پاکستانی میڈیا پاکستانی جھنڈے لہراتے ہوئے دکھا کر اپنے ہونے کا ثبوت دے رہا ہے جو اس تحریک کو حقیقی منزل سے دور کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔اگر کوئی جھنڈا لہرایا بھی جاتا ہے تو اس کا قطعی مطلب نہیں کہ و ہ پاکستانی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ بھارتی ریاستی جبرکے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔
اس تحریک میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب 8جولائی2016کو 22سالہ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کو ایک فوجی آپریشن کے دوران قتل کر دیا گیا اس کے بعد پوری وادی احتجاجی مظاہروں کی لپیٹ میں آگئی۔ ان مظاہروں ا ور پر تشدد تحریک میں 100سے زائد لوگ قتل ہوئے جبکہ 9000ہزار سے زائد لوگ 8ماہ کہ دوران زخمی ہوئے۔ان زخمیوں میں تقریبا 6221لوگ پیلٹ گن سے زخمی کیے گئے۔ اس دوران300سے زائد لوگوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا جن میں سے چند کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔تب سے کشمیر کے نوجوان طلبہ و طالبات مسلسل ایک تحریک میں یکے بعد دیگرے آگے بڑھ رہے ہیں۔ طلبہ نئے عزم کے ساتھ ریاستی جبر، قبضے اور افواج کے وحشیانہ قتل عام کے خلاف مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری تحریک جنم لے رہی ہے۔ ابھی سلسلہ تھما نہیں تھا کی شوپیاں میں ایک فوجی آپریشن کے دوران 20سے زائد نوجوانوں کو عسکریت پسند قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔اس واقعہ میں 100 سے زائد لوگ بھی زخمی ہوئے۔ انڈین آرمی نے اس آپریشن کو کامیاب قراردیا جس میں درجن بھر عسکریت پسند بھی مارے گئے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ایک مدت سے اس سارے عمل کے دوران کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے۔ کبھی لائن آف کنٹرول پر آر پار کی بھاری گولہ بھاری کے نتیجے میں اور کبھی ریاست کے اند ر آزادی کا نعرہ لگانے کی پاداش میں۔ لیکن خوف ، وحشت ریاستی جبر و تشدد اور گولیوں و بوٹوں کی آھٹ اب کشمیر کے مظلوم و محکوم لوگوں کو اس آزادی کے سفر پر چلنے سے نہیں روک سکتے۔ کشمیر پر منڈلاتی غلامی کی سیاہ رات 70سال کی ہو چکی ہے۔یہ خونی ڈائن اب تک تقریبا 1لاکھ سے زائد انسانوں کا خون پی چکی ہے، لاکھوں گھروں کو اپنی نحوست سے اجاڑ چکی ہے۔لاکھوں ماؤں کی گودیں بانجھ اور کئی بیاتاہوں کے ماتھے کا سندور صاف کر چکی ہے۔لاکھوں لوگ دربدر ہوئے ۔ہزاروں لوگ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔یہ سب اس خونی بٹوارے کا نتیجہ ہے جس نے 27لاکھ انسانوں کے قتل عام سے اس نحوست کا آغاز کیا تھا۔
منقسم حصوں آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور جموں کشمیر کی حالت زار:
پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کا رقبہ 5,134مربع کلو میٹر اور2017ء کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی 40لاکھ45ہزار اور3سوچھیاسٹھ ہے۔اس خطے کا 2017ء کاٹوٹل بجٹ94بلین روپے ہے۔ جس میں سے 71بلین روپے غیر ترقیاتی بجٹ ہے جو سیکرٹریز، ممبران اسمبلی اور ملازمین پر خرچ کیا جاتا ہے۔جب کہ صرف 23بلین روپے ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا تھا۔ جن میں سے صحت پر769ملین اور تعلیم پر 1.7بلین روپے، زراعت پر 490ملین اور سیاحت پر250ملین روپے مختص کیے گئے ۔ ایک مزدور کی تنخواہ15ہزار مقرر کی گئی جبکہ ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں 50فی صداضافے کے ساتھ3لاکھ سے5لاکھ تک کر دی گئیں۔ لیبر سروے 2011ء کے مطابق دیہاتوں میں 11فی صد مرد اور39فی صد خواتین جبکہ باقی علاقوں میں10فی صد مرد اور39فی صد خواتین بیروزگار ہیں جبکہ خواندگی کی شرح بالترتیب 75اور76فی صد ہے۔۔ یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ بالکل اسی طرح بھارتی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ 1 لاکھ1ہزار3سوستاسی مربع کلو میٹر پر پھیلے خطے کی کل آبادی2011ء کی مردم شماری کے مطابق 1کروڑ25لاکھ48ہزار9سو پچیس افراد پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل بجٹ 76ہزار3سو35کروڑ روپے جن میں سے 40ہزار8سو19کروڑ سکیورٹی اور امن و امان کی صورت حال پر خرچ ہو جاتے ہیں جبکہ بجٹ کا 3.3فی صدتعلیم اور 4.8فی صد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ 54 فی صد بجٹ سکیورٹی پر خرچ کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بجٹ کی ایک کثیر رقم کشمیریوں کی نسل کشی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھنے پر خرچ کی جاتی ہے۔گلکت بلتستان جو برائے راست پاکستان کے زیر قبضہ ایک حصہ ہے جو اپنی مخصوص جغرافیائی لوکیشن کی وجہ سے تینوں قابض ممالک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جنوبی ایشیا میں جاری روڈ اینڈ اینیشٹڈ
(Road belt and Initiative) منصوبہ اسی خظے سے گزر رہا ہے۔یہ تقریبا 28ہزار1سو74مربع کومیٹر پر پھیلے ایک کروڑ پچیس لاکھ ا ڑتالیس ہزار نو سو پچیس نفوس پر مشتمل یہ خطہ ہمالیہ،قراقرم اور ہندوکش کے درمیان واقع ہے۔اس کا ٹوٹل بجٹ 54بلین جن میں ساڑھے28ارب روپیگیر ترقیاتی بجٹ پر صرف کیا جاتا ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ اٹھارہ بلین روپے مختص کیا جاتا ہے۔ ج میں سے ایک ارب 53کروڑ تعلیم جبکہ ایک ارب80کروڑ روپے صحت پر خرچ کیے جاتے ہیں۔60بلین ڈالر سے شروع ہونے والی یہ منصوبہ جو اب600بلین ڈالر تک کا منصوبہ ہے۔ نئے سامراجی مقاصد کے لیے بننے والا یہ منصوبہ کشمیر کے مستقبل کا تعین کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔جو اس خطے کی مستقل تقسیم کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔اسی طرح1962ء میں تحفے کے طور پر چین کو دیا جانے والا کشمیر کا ایک ٹکڑا اکسائی چن بھی ہے جس کا رقبہ تقریبا 37ہزار2سوچوالیس مربع کلومیٹر ہے۔ یہ خطہ دفاعی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے ذریعہ سے چین جنوبی ایشیاء میں اپنا اثر و رسوخ اور بدمعاشی قائم رکھے ہوئے ہے۔ اسی سے ملحقہ علاقہ ارونچل پردیش کر بھی ہے جس کے آدھے حصے پر چین اور آدھے پر بھارت کا قبضہ ہے جو 1962ء کی بھارت چین جنگ کا شاخسانہ ہے۔اکسائی چن کو چین تبت کا حصہ سمجھتا ہے اور لداخ سمیت اس پورے خطے کو چین کا حصہ سمجھتا ہے۔ جبکہ یہ حصے نا چین کے ہیں نہ ہی بھارت کے بلکہ کشمیر کے حصے ہیں۔ روڈ اینڈ انیشٹو( Road belt and initative)کے بعد اس خطے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے جس کے ذریعے سے چین اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کرنے جا رہا ہے جو بنیادی طور پراپنی تجارت کو پھیلانے کا منصوبہ اور کمزور ممالک پر اپنی اجاراداری قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ لیکن جہاں یہ منصوبہ سامراجی مقاصد کے لیے استعمال ہوگا وہیں پر ان تمام خطوں کا محنت کش طبقہ بھی جڑت بناتے ہوئے نئی فیڈریشن کا قیام عمل میں لا سکتا ہے۔جس کا اظہار ان خطوں میں چینی ریاست کا جبر اور ناروا سلوک ہے۔اس سلسلے میں وقفے وقفے سے تبت، سکم اور اندرونی چین میں کئی مظاہرے ہو چکے ہیں۔
کشمیر کی آزادی اور سیاسی پارٹیوں کا کردار:
مسئلہ کشمیر ایک طرف سامراج کا پیدا کردہ ایسا مسئلہ ہے جس سے اس خطے میں افراتفری پھیلا کر سامراجی مقاصد پورے کیے جا سکیں وہیں ریاستوں اور ان میں موجود سیاسی پارٹیوں کی منافقانہ پالیسیوں کا بھی نتیجہ ہے۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا مسئلہ کشمیر کا حل نہیں بلکہ اس کی تقسیم ہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے لے کر لیگوں اور جماعت اسلامی تک سبھی کا ایک ایجنڈا ہے کشمیر بنے گا پاکستان۔اسی طرح انڈیا میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کا بھی ایجنڈا کشمیر کی تقسیم ہی پر منتج ہو گا۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بڑی انقلابی سرکشی کے بغیر یہ تقسیم ختم بھی نہیں ہو سکتی۔ان نام نہاد پارٹیوں کے علاوہ قوم پرست اور ترقی پسند پارٹیاں بھی ایک ابہام کی کیفیت میں موجود ہیں۔ ان کے اقدامات کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی ریاست کا نقطہ نظر ہوتا ہے۔ اور سب سے زیادہ جو حل پیش کیا جاتا ہے وہ اقوام متحدہ کی 1948ء کی قرارداد ہے جس میں پاکستانی ریاست کو جارح قرار دیا گیا اور ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستاں ن اپنی مکمل فوج کا انخلاء کرے گا، بھارت آدھی فوج کا انخلاء کرے گا اور اقوام متحدہ کی امن فوج کی زیر نگرانی ریفرنڈم کروایا جائے گا اور جو عوام فیصلہ کریں گے وہی حتمی فیصلہ مانا جائے گا۔ مگر یہ قرارداد بھی ایسا گورکھ دھندہ ہے جو بظاہر ایک آسان حل ہے مگر اس پر عمل اتنا ہی مشکل۔ اور بعد میں شملہ اور تاشقند معاہدات میں اس قرارداد کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور یہ مسئلہ کشمیریوں کو کارج کرتے ہوئے دو ممالک کے درمیان سرحدی مسئلہ قرار دیا گیا جس میں پیپلز پارٹی کا اہم کردار ہے۔ بدنام زمانہ معاہدہ کراچی کے ذریعے گلگت کو کشمیر سے کاٹ کر پاکستان کے براہ راست کنٹرول میں دے دیا گیا۔ یہ کارنامہ بھی ایک سیاسی پارٹی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سر جاتا ہے جو کشمیر میں اسٹیبلشمنٹ کی بغل بچہ رہی ہے۔ یہ معاہدہ اٹھائیس اپریل 1949ء میں پاکستانی گورنمنٹ اور نام نہاد آزادکشمیر کی حکومت اور مسلم کانفرنس کے درمیان ہوا جس کو 1990ء تک خفیہ رکھا گیا۔اس معاہدے میں نام نہاد آزادحکومت نے دفاع،خارجہ امور، اقوام متحدہ میں نمائندگی کا حق،مہاجرین کی امداد اور بحالی،رائے شماری کے لیے تمام اقدامات اور لداخ و گلگت بلتستان کو براہ راست پاکستان کے قبضے میں دے کر کٹھ پتلی حکومت کی بنیاد رکھی۔مگر اس سب کے باوجود کشمیر کے نوجوانوں میں حقیقی آزادی کی ترجمانی کرنے والی طلبہ تنظیم JKNSFنے اہم کردار ادا کیا۔ جس نے مزاحمتی سیاست کو پروان چڑھا کر خطے کے تشخص اور حقیقی عوامی مسائل کا دفاع کیا۔ اور اس جدوجہد کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ کشمیر کی سیاست میں شہید کشمیر مقبول احمد بٹ سمیت دیگر لاکھوں شھدائے آزادی کی جدوجہد کو بھی نہیں فراموش کیا جا سکتا جنھوں نے آزادی اور انقلاب کی شمع کو فروزاں کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لاکھوں شھداء کی قربانیاں تبھی رنگ لائیں گی جب اس خطے کی غیر فطری تقسیم کا خاتمہ ہو کر نیا سماج قائم ہو گا۔ مگر اس عمل کے لیے ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کو تمام اصلاح پسند، دائیں و بائیں بازو کی وہ پارٹیاں جو سامراجی ایجنڈے پر کاربند ہیں کہ بر عکس اپنی آزادانہ پارٹیاں بنانے کی ضرورت ہے جو انقلابی نظریات سے لیس اور درست پروگرام رکھتی ہوں۔ جو ہرمحاذ پر محنت کشوں کے حقوق کا دفاع کریں۔
حق خودارادیت کیا ہے؟
"قوموں کے حق خود اختیاری کا مطلب صرف سیاسی معنی میں حق مختاری ہے۔ اس کا مطلب ظالم و جابر قوم سے آزاد،سیاسی علیحدگی کے حق میں احتجاج کرنے کی مکمل آزادی، علیحدگی چاہنے والی قوم کی ریفرنڈم کے ذریعے علیحدگی کے سوال کو طے کرنے کی آزادی شامل ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ مطالبہ اور علیحدگی،بٹوارے اور چھوٹی چھو ٹی ریاستیں قائمکرنے کا مطالبہ،دونوں ایک نہیں ہیں۔یہ مطالبہ منطقی اظہار ہے کسی بھی شکل میں قومی ظلم وجبر کے خلاف جدوجہد کا۔ریاست کا جمہوری نظام علیحدگی کی مکمل آزادی سے جتنا قریب آئے گا عملی طور پر علیحدگی کے لیے جدوجہد اتنی ہی کمزور اور کم ہوتی جائے گی کیونکہ اس میں شبہہ نہیں ہوسکتا کہ اقتصادی ترقی اور جنتا کے مفاد،دونوں نقطۂ نظر سے، بڑی ریاستوں کے بڑے فائدے ہوتے ہیں۔اور یہ مفادات سرمایہ داری کے پھیلاؤ کے ساتھ بڑھتے جاتے ہیں۔حق خوداکتیاری کو تسلیم کرنا اور فیڈریشن کو ایک اصول کی حیثیت سے تسلیم کرنا،ایک شخص اس اصول کا کتر دشمن اور جمہوری مرکزیت کا طرف دار ہو سکتا اور پھر بھی قومی نابرابری پر فیدریشن کو ترجیح دے سکتا ہے کہ یہی مکمل جمہوری مرکزیت کا واحد راستہ ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے مارکس نے مرکزیت پسند ہونے کے باوجود انگریزوں کے ہاتھوں آئرلینڈ کی جبریہ محکومی پر آئرلینڈ اور انگلینڈ کی فیڈریشن کو ترجیح دی تھی”۔
)بحوالہ سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کا حق خود اختیاری۔لینن )
اس لیے بحیثیت مارکسسٹ ہم دنیا بھر میں جاری محکوم و مظلوم قوموں کے حق خود اختیاری بشمول حق علیحدگی کو ناصرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس اصول پر کاربند بھی ہیں۔ ہم کشمیر سمیت فلسطین، کیٹالونیا اور دیگر قوموں کے اس مطالبے کی ناصرف حمایت کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں کو اس کی حمایت کرنے کی اپیل بھی کرتے ہیں۔
آزادی مگر کیسی۔۔۔۔۔۔؟؟؟
مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ جیسے نام نہادعالمی ادارے کے سرد خانوں میں بھی پڑا ہوا ہے۔ جس پر کئی قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں مگر اس ادارے کے بانجھ اور خصی ہونے کی اس سے بڑھ کر اور کوئی دلیل نہیں ہو سکتی کہ یہ اپنی منظور کی گئی قراردادوں پر بھی عمل کروانے سے قاصر ہے۔اگر عمل ہو بھی جائے تو وہ آزادی سول و ملٹری اشرافیہ اور سرمایہ داروں کے لیے مکمل لوٹ مار کی آزادی تو ہو سکتی ہے مگر عام محنت کشوں، کسانوں، نوجوانوں اور عوام کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جن مظلوم اور محکوم قوموں کو اس نام نہاد ادارے کی چھتر چھایا میں آزادی ملی وہ طاقتور ممالک کی گماشتہ ریاستوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ جن کا مقصد ورلڈ بینک، آئی۔ایم۔ایف اور ڈبلیو۔ٹی۔او جیسے سامراجی اداروں کی سامراجی پالیسیوں کو لاگوکروانے کے سوا کچھ نہیں۔ اور یہ ریاستیں اپنے اپنے خطوں میں سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کی صرف چوکیداری میں مشغول ہیں اور چند ٹکڑوں اور کمیشن کی بدولت کروڑوں محنت کش عوام کو بھوک،ننگ، جہالت، لاعلاجی، دہشتگردی، بربریت و سفاکیت، فرقہ واریت، بیروزگاری، مہنگائی اور قتل و غارت گری کے علاوہ کچھ نہیں دے رہی۔اقوام متحدہ طاقتور ملکوں کا اکھاڑا ہے جہاں وہ کمزور ملکوں کے وسائل لوٹنے ، ننگی جارحیت کرنے اور سامراج کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دکچلنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اس لیے ہم کشمیر کی آزادی کے لیے قابض ممالک کے محنت کشوں،نوجوانوں اورکسانوں کی طبقاتی جڑت کے ناصرف قائل ہیں بلکہ اس عمل کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ہم کشمیر کی دھرتی سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلاء،سیز فائر لائن پر جارحیت کے خاتمہ،AFSPAجیسے کالے قوانین کا خاتمہ،پیلٹ گن کے استعمال کا خاتمہ،معاہدہ کراچی میں کشمیری عوام سے لیے گئے تمام اختیارات کی واپسی، ایکٹ 74ء کا خاتمہ، جہادی و مذہبی تنظیموں کی مداخلت کے خاتمہ اور کشمیریوں کے حق خوود اختیاری و ارادت بشمول حق علیحدگی جیسے مطالبات کی حمایت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ جیسے سامراجی ادارے سے مطالبے کے بجائے دنیا بھر کی مظلوم و محکوم اقوام، محنت کشوں اور نوجوانوں سے ان مطالبات کی حمایت میں یکجہتی اور تحریک کی اپیل کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں موجود جتنے بھی مسائل غربت،بھوک، ننگ،افلاس،دہشتگری، لاعلاجی، محرومی و محکومی،انتہاپسندی، نسل پرستی، ریاستی جبر، جہالت، معاشی و سیاسی انتشار،ناہمواری، بربریت، جنگی جنون اور کرپشن وغیرہ ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظام کے زوال پذیر ہو کر بربریت میں بدل جانے کی علامتیں ہیں۔ اور ان کی وجہ عالمی نظام سرمایہ اور اس کا رکھوالا سامراج ہے۔ اس لیے ہم اس دنیا بھر کے محنت کشوں سے اس نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی اپیل کرتے ہیں۔ سامراج کے خاتمے ہی سے انسان کو انسان بننے کا پوارا پورا حق مل سکتا ہے۔
سامراج مردہ باد مظلوم و محکوم اقوام کی جدوجہد ذندہ باد





