تحریر: سارہ خالد
پاکستان میں کوویڈ 19 پھیلنے سے نہ صرف عوام کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں ہیں بلکہ اس لاک ڈاؤن اور عالمی کساد بازاری کی وجہ سے ملک بھر کے متعدد کاروباروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کے نجی اسکول بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
تین ماہ سے زیادہ کے لاک ڈاؤن اور پھر موجودہ حکومتی پالیسیوں نے ان کے وجود کو بھی شش وپنج میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر طلبا کے والدین لاک ڈاؤن اور معاشی بحران کو بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسکول کی فیس ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں اس وقت دو لاکھ سے زیادہ پرائیویٹ اسکول ہیں اور ان میں سے 85فیصد اسکول 2,000سے کم فیس وصول کرتے ہیں۔ ان نجی اسکولوں میں 15 لاکھ اساتذہ کام کرتے ہیں جبکہ لاکھوں افراد غیر تدریسی کرداروں میں اسکول کے عملے کی حیثیت سے ملازمت کرتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے اعلان کیا کہ نجی اسکولوں کو اپنے طلباء کو 20فیصد فیس کی چھوٹ دینی چاہئے۔ تاہم، صوبائی حکومت نے اس بارے میں کوئی با ظابطہ حکمتِ عملی تیار نہیں کی کہ اس لاک ڈاؤن کے دوران فیسوں کو کس طرح وصول کیا جاسکتا ہے، لہذا متعدد اساتذہ اور اسکول کے دوسرے عملے کو ماہانہ تنخواہوں سے محروم کردیا گیا۔نجی سکول بند ہونے سے صرف مالکان متاثر نہیں بلکہ استاد،کلرک،ایڈمن،اکاونٹ آفیسر،چوکیدار،مالی،آیا،صفائی والا عملہ،کینٹین والا، وین والا،رکشے والا،بک شاپ والا، یونیفارم سلائی کرنے والا،یونیفارم بیچنے والا،کاپی بنانے والے،کاپی جلد کرنے والا، کتاب کی پرنٹنگ اور پبلشنگ والے سینکڑوں لوگ، بکس ڈیلرز،فوٹو کاپی مشین میکنک،ڈیسک اور میز بنانے والے،اسکول اساتذہ کو ٹرینگ کی خدمات دینے والے لوگ بھی شامل ہیں،ایسے حالات میں یہ سب سفید پوش لوگ کہاں جائیں؟؟؟
چونکہ نجی اسکولوں کو اکثر منافع کمانے والی مشینوں کا لیبل لگایا جاتا ہے، اس لئے موجودہ حکومت سمیت متعدد افراد کا خیال ہے کہ ان اسکولوں کو نہ صرف اس دوران اپنی فیسوں میں کمی کرنی چاہئے بلکہ اساتذہ یا عملے کے دیگر ممبروں کو اُن کی تنخواہوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ برطرف بھی نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کچھ قائم شدہ ملٹی نیشنل اسکولوں کی ایک بڑی چین کے علاوہ، زیادہ تر نجی اسکول تنخواہوں، ماہانہ کرایہ اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کے لئے فیسوں پر منحصر ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں تعمیراتی شعبے کے لئے ایک امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے اسے صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔ ایمنسٹی اسکیم بھی شروع کی گئی ہے جس کے مطابق اگر کوئی پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو پھر ان کی آمدنی کے ذرائع سے حکومت کوئی پوچھ گچھ نہیں کرے گی۔ لہذا COVID-19 وباء کے دوران ان سرمایہ کاروں کو جن کے پاس کالا دھن ہے ان کی مالی اعانت کھلم کھلا کی جا رہی ہے۔ تاہم پاکستان میں نجی اسکولوں کے لئے ایسے کسی امدادی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا جو اس ملک کے مستقبل کی تشکیل کررہے ہیں۔ دوسرے اسکولوں کی طرح نجی اسکول بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں اور قومی خزانے میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس وبائی بحران میں اِن اسکولوں کی باز پُرس کرنا اس حکومت کی ترجیح نہیں ہے۔
حکومت پنجاب نے 20 فیصد کمی کے ساتھ فیسیں وصول کرنے کا اعلان توکیا مگر آیا پنجاب یا وفاقی حکومت نے اُن مالکان سے اسکولوں کی عمارتوں کے ماہانہ کرایے کی شرحوں کو کم کرنے کے لئے کہا؟ یا پھر حکومت نے یوٹیلیٹی بلوں اور ٹیکسوں میں مراعات دے کر نجی اسکولوں کے لئے کسی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا؟
حکومت وبائی مرض کے خلاف ایک کامیاب حکمتِ عملی وضع کرنے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے ساتھ ساتھ، اپنی نااہلی کو بے نقاب ہونے سے بچانے کی کوشش میں جان بوجھ کر والدین اور نجی اسکولوں کے مابین پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ معاشی غیر یقینی صورتحال ایک ملین سے زیادہ اساتذہ پر پھیلی ہوئی ہے اورظاہر ہے کہ چھوٹے نجی اسکولوں کے مالکان اور اساتذہ کو امداد فراہم کرنا حکومت کی ترجیحات کی فہرست میں ابھی فی الحال شامل نہیں ہے۔ اس شعبے کو نظرانداز کرکے حکومت لاکھوں پرائیوٹ اسکول اساتذہ کو غیر متوقع حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رہی ہے اور اس حقیقت کو بھی نظرانداز کررہی ہے کہ ان اساتذہ کو نظرانداز کرنے سے ہی ملک کے مستقبل کو نقصان پہنچے گا۔یہ صرف نجی اسکولوں کے مالکان کی بات کرنا نہیں ہے بلکہ 15 لاکھ اسکول اساتذہ کے بنیادی مسائل کے حل کے بارے میں بھی ہے۔جن کے لئے حکومتی سطح پر کسی بیل آؤٹ پیکج کے اعلان نہ کرنے سے بڑے پیمانے پر ان کے بے روزگار ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ کیوں کہ جب چھوٹے نجی اسکول ہی اگست ستمبر تک بند رہیں گے تو اُن کا اپنا وجود ہی باقی نہ رہے گا تو اساتذہ کی نوکریاں تو دور کی بات ہے۔
اس وبائی مرض نے پہلے ہی یہ بات واضح کردی ہے کہ ہماری صحت کے شعبے کو ترقی دینے میں ناکام رہ جانے والی ریاست جو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی زندگیاں پہلے ہی خطرے میں ڈال چکی ہے اب یکے بعد دیگرے تعلیم کے شعبے کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔تعلیم اورصحت کا بجٹ پہلے ہی ملکی ضرورت کے مطابق نہایت کم مختص کیا جاتا ہے اور پھر اُس میں سے بھی کٹوتیاں کر کے دوسرے شعبوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سارے اساتذہ کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔پہلے سے ہی ہماری بدقسمتی ہے کہ اس تعلیمی نظام سے نہ تو ہم حقیقی معنوں میں قوم بن سکے اورنہ ہی ذہنی طورپر باشعور اور صلاحیت سے بھرپور نسل تیار کرسکے۔ہماری حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سماج میں سوال اٹھانا اور درست سوال اٹھانا ایک جرم ہے۔آپ سوال اٹھا کر دیکھ لیں،آپ کو یہاں ذہنی اپاہج لوگوں کی ایک فوج ملے گی، کوئی وار بھی ان ریاستی خود ساختہ دانشوروں او نام نہادرمذہبی سکالرز کا تنقیدانہ رائے سے خالی نہیں۔الغرض آپ کچھ بھی کرجائیں ان کو مطمئن نہیں کرسکتے۔
تمام نجی اسکولوں اور ان کے عملے کے ممبروں کی حالتِ زار حکومت کو سننی چاہئے اور ان کو حل کرنا چاہئے۔ اگر ریاست ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو آنے والے مہینوں میں نہ صرف اساتذہ بے روزگار ہوجائیں گے بلکہ لاکھوں طلبا کو بھی سستی شرح پر معیاری تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہونے کا خطرہ لاحق ہوگا۔اور ایسی صورت میں یہ نجی اداروں کا ”معاشی قتل”ہو گا کیوں کہ نجی اسکولوں کی 90 فیصد عمارتیں کرایے پر ہیں جبکہ اساتذہ کو بھی ان کی تنخواہوں کی ادائیگی،عمارتوں کا کرایے اور تمام یوٹیلیٹی بلز انہی ماہانہ فیسوں کی وصولی سے ہی ادا کئے جاتے ہیں۔لہذا اگر 15 جولائی یا اس سے زیادہ عرصے تک تعلیمی ادارے بند رہے تو 50 فیصد کے قریب اسکول مستقل طور پر بند ہوجائیں گے اور 10 لاکھ سے زیادہ افراد اپنی ملازمت سے محروم ہوجائیں گے۔
ایسے بد ترین معاشی بحران میں اسکول مالکان،اساتذہ،والدین اور طلباء کو مل کر حکومت سے بیل آؤٹ پیکجز اور تمام نجی اسکولوں کے لئے بلا سُود قرضے مہیا کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔تاکہ یہ ادارے اس سنگین صورتحال میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر فرائض انجام دے سکیں اوراساتذہ اور دیگر غیر تدریسی عملے کے ملازمین کو تنخواہیں بر وقت ادا کر سکیں۔





