سوشلزم کا مطلب محنت کشوں کی جمہوری مرکزیت کے تحت سماج کا منصوبہ بند انتظام ہے کیونکہ محنت کشوں کا غلبہ یا اقتدار پر قبضہ صرف محنت کشوں کی جمہوریت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
تحریر: ایس اینڈ ایس
تاریخ میں بہت کم سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی کے ساتھ کمزور صلاحیتوں کا انکشاف دیکھنے کو ملتا ہے جیساآج دیکھا جا سکتا ہے۔یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے سربراہان یہ کہ رہے ہیں کہ گزشتہ اکتوبر ورلڈ اکنامک فورم اور بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاوئڈیشن (Bill and Melinda Gates Foundation)جیسی تنظیموں کے ذریعے ایک خبر سامنے آئی تھی کہ ایک کرونا وائرس پھیلے گا جس کی وجہ سے 18ماہ کے دوران65 ملین افراد ہلاک ہوں گے، شاید آخری دفعہ یہ تباہی دوسری جنگ عظیم 1939-45کے دوران ہوئی تھی۔
جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں کہ یورپی یونین جی ڈی پی 18فیصداور ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جی ڈی پی تقریباً 14فیصد تک گرجائے گی۔ سینٹ لوئس فیڈ(St. Louis FED) امریکی مرکزی بینک کے علاقائی صدر جمیس بلارڈ (James Bullard)کے ایک اندازے کے مطابق دنیاکی سب سے بڑی معاشی طاقت امریکہ میں بے روزگاری کی شرح3فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد تک پہنچ جائے گی۔اس بحران کی مطابقت 1930کے معاشی بحران جیسی ہے۔
چین کی معیشت جیسے صنعتی پیداوار(مینوفیکچرنگ،کان کنی اور یوٹیلیٹی سرگرمیوں) میں 13.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ کھپت میں تقریباً 20.5 فیصد کمی ہے۔ اگر فکسڈاثاثوں کی سرمایہ کاری دیکھی جائے جس میں انفراسٹرکچر،پراپرٹی اور مشینری شامل ہے۔ ان میں تقریباًً 24.5فیصدکمی ہوئی ہے۔ ٹریونیم ریسرچ فرم(Trivium Research Firm) کے نیشنل بزنس انڈیکس کے مطابق چین کی معیشت معمول کی پیداوار کے 69.5 پر کام کر رہی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً چین کی معیشت 30.5فیصد تک سکٹر چکی ہے۔اس وقت چین میں بے روزگاری کی شرح بڑ کر 6.3 فیصد ہو گی ہے۔ اُس کے ساتھ ہی روس، جاپان، برازیل، سعودی عرب اور انڈیا کی معیشتیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ اس آنے والے معاشی بحران سے پہلے ہی پاکستان کے حکمران جو تاریخی طور پر انتہائی کرپٹ اور بھکاری رہے ہیں آج کرونا جیسی وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے ماسکس تک مہیا نہیں کر سکے اس کے لیے بھی چین سے اپیل کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز او ر پیرا میڈیکل سٹاف جو اس وقت اگلی صفوں میں وبا کے خلاف لڑ رہے ہیں اُن کو حفاظتی کٹس تک مہیا نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے وہ مارچ سے اب تک متعدد دفعہ اوپی ڈیز کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ پاکستان کے وزیرعظم بھی امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی طرح کرونا وائرس کے خلاف رویہ اختیار کرتے ہوئے پوری طرح سے لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں۔ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریبوں کے معاشی مسائل میں اضافے کو لیکر دراصل سرمایہ دار وں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بات کرتے ہیں تاکہ معاشی سرگرمیاں چلتی رہیں۔معاشی پیکج سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکمران کس حد تک محنت کش عوام کے ہمدرد ہیں۔ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کے لیے معمولی سی امداد جو کہ چار ماہ کے لیے 12000روپے اس لیے رکھی گئی تاکہ اس کی آڑ میں بڑے سرمایہ داروں کے لیے معاشی پیکج کا اعلان کیا جائے جن کا سرمایہ پھنس چکا ہے۔پاکستان میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق گیارہ لاکھ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے،جس کی وجہ چھوٹی صنعتوں اور کاروباروں کی بندش ہے۔ یہ پاکستان جیسے سماج میں ابتدا ہو گی۔آگے کا راستہ باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی انقلاب یا بربریت کی طرف جائے گا۔
یہ کوئی اتفاق نہیں کہ بہت سارے ماہر معاشیات جنہوں نے چند ہفتے قبل نیو لبرل ازم کو لیکر خیال پرستانہ دعوے کئے تھے۔آج انہوں نے ایک نیا مارشل پلان بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اِن میں سے ایک OECD(Organization for Economic Cooperation and Developmet)
(اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم) کے سکریٹری جنرل انجل گوریا (Angel Gorria) جس کا تعلق میکسیکو سے ہے نے کہا،کہ سرمایہ داری اس وبائی مرض سے ہونے والے نقصا نا ت پہلے ہی جانتی تھی کہ کیا ہو سکتا ہے؟وہ کہتا ہے کہ ہمیں متعدد دفعہ فطرت کی طرف سے انتباہ مل چکا تھالیکن وائرس سے نپٹنے کیلئے ہمارے ہاں موجود سائنس کے پاس منصوبہ بندی کی کمی تھی۔اس وقت ہمارے سیارے کے لوگوں کو بے حساب معاشی اور سماجی تباہی کا سامنا ہے بلکہ یہ بحران ہمیں بتا رہا ہے کہ دنیا جیسے چل رہی تھی ویسے نہیں رہے گی۔ہر چیز بدل جائے گی،ہماری زندگیوں کا معمول کی طرف لوٹنا اب ممکن نہیں رہا۔ دراصل یہ سرمایہ دارانہ نظام کے عام قوانین ہیں جو صرف منافعوں میں اضافے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔انہی کی وجہ سے ہمیں نئے کرونا وائرس کی وبائی بیماری اور 1929کے بعد سب سے بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ جس کی پہلے سے نشانیاں موجود تھیں اور وبائی مرض سے یہ بحران صرف تیز ہوا ہے۔
اقتصادی بربریت سارے خطوں کو تبا ہ کر دے گی، بے روزگاری،موت، تشدد، بربادی اور سماجی ابتری بڑے پیمانے پر بڑھے گی۔ سرمایہ دار ہمیشہ کی طرح اپنے ہتھکنڈوں کو پہلے کی طرح جاری رکھتے ہوئے لاکھوں کو بدقسمت قرار دے کر دولت کمائیں گے۔ آخر کار منافع نہیں رکیں گے،کوئی جلے یا مرے چیزیں بکتی رہیں گی اور منافع جمع ہوتا رہے گا۔یہ پہلے ہی دونلڈ ٹرمپ اور دیگر تاجروں جیسی بدنما شخصیات کہ چکی ہیں کہ معیشت نہیں رک سکتی ہے کیونکہ بہت ساری کمپنیاں دیوالیہ پن کا شکار ہو سکتی ہیں۔گویا کہ اس طرح کے وبائی امراض کبھی بھی معیشت کو روکنے پر مجبور نہیں کر سکتے،ہاں بالکل جس معیشت کے بارے میں یہ شخصیات بات کر رہی ہیں وہ کچھ شعبے ہیں جن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سرمایہ بٹورا جائے گا۔اس وقت سرمایہ داروں کے ذہنوں میں جو منطق چل رہی ہے وہ سائنس کی انتباہ کی پروا ہ کئے بغیر اپنا منافع کمانا چاہتے ہیں اس کے لیے چاہے لاکھوں محنت کش بیمار ہوں یا مر جائیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔سرمایہ داروں کے لیے محنت کش ڈسپوزایبل اشیا کی مانند ہیں جن کی جگہ نئی ڈسپوزایبل اشیا لے سکتی ہیں۔
موجودہ تباہی سرمایہ دارانہ نظام کی بے ہودہ منطق کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔وہ نظام جس کی پیداواری صلاحیت اتنی رہ گئی ہے کہ گزشتہ سال سے آگاہ کیے جانے والے وبائی مرض کے خطرے سے نمٹنے کے لیے سنیٹائزر تک تیار نہیں کر سکا۔ایک ایسا نظام کرہ ارض پر پیداواری انضمام کیسے مہیا کر سکتا ہے جو مصنوعی سانس لینے کے لیے وینٹیلیٹرز کی موجودہ طلب کو پورا نہیں کر سکتا۔دنیا کی بڑی اور عظیم طاقتیں مریضوں کے لیے کرونا ٹیسٹ کٹس تک مہیا نہیں کر سکتیں اور موجودہ وبائی مرض کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔منڈی میں مقابلہ بازی کی وجہ سے سرمایہ دارانہ پیداوار پوری طرح سے انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔جس کو بیان کرنا اور سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
سرمایہ داری منافع کی ہوس اور انتشار کی سلطنت ہے۔آفات کی مستقل پیداوار کے لیے ایک مشین،جیسا کہ روزہ الگسمبرگ نے تجویز پیش کی تھی کہ سوشلزم ایک تاریخی ضرورت ہے جس کے یکے بعد دیگرے پیداوار کی تقسیم اور طریقہ کار میں بنیادی تبدیلی آئے گی۔اگر ایسا نہ ہوا تو بنی نوح انسان اس نظام کی مستقل بربریت کا شکار ہوتے رہیں گے۔
سوشلسٹ معیشت کے پیداواری ذرائع کو اشراکیت اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جو پروڈیوسروں (پیداوار کرنے یا بنانے والوں) اور صارفین (استعمال یا خریدنے والوں) کے درمیان جمہوری طورپر تعمیر ہو۔جس سے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی افرا تفری یا انتشار کے مقابلے میں منصوبہ بند معیشت کے فوائد واضح ہو جاتے ہیں۔ فرض کریں موجودہ صورت ِحال میں اگر اشراکیت پر مبنی منصوبہ بند معیشت کا راج ہو تو کیا وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے کیلئے انتہائی ضروری سامان کی تیاری،آئی سی یو،تیز رفتار تعمیراتی نظام کے تحت ہسپتالوں کی تعمیر،بستر،ونیٹیلیٹرز،ٹیسٹز اور سانئسی تحقیق کی مالی اعانت کے لیے پیداواری صلاصیتوں کو برو ئے کار نہ لایا جاتا؟
تاہم بہت بڑا امکان ہے کہ ہم سوشلزم میں رہتے ہوئے موجودہ بیماری جیسی وبائی بیماریاں کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ اس کی وجہ ہے کہ سرمایہ داری کبھی بھی انسان دوست نظام نہیں رہا۔ سرمایہ داری کی 20 ویں صدی میں تکنیکی ترقی کا ایک اہم حصہ انتہائی پیچیدہ اور متضاد صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مثال کے طور پر موجودہ کرونا وائرس کی اصل نوعیت کو دیکھیں تو اس کی ذمہ داری سرمایہ دارانہ تجارت اور چینی سرمایہ دارانہ حکومت کی طرف سے بنائی گئیں پالیسیاں ہیں، جس کا ماحولیاتی عدم توازن سے براہ راست تعلق ہے۔
جس نے جنگلی جانوروں کی ایک بڑی منڈی وجود میں لائی ہے۔ کرونا وائرسزجن کا مرکز چمگادر تھے۔ اُنھوں نے ماحولیات کو پر گندہ کرنے والی عدم مساوات پر مبنی انسانی ترقی کی وجہ سے قدرتی طور پر بدلاؤ کی شکل اختیار کی اور انسانوں کو آلودہ کرنا شروع کر دیا۔
سوچئے اگر بغیر منصوبہ بندی کے بڑے جنگلات کو ختم کر کے بڑے شہروں کی بنیاد رکھی جائے تو اس تباہی کے سبب کتنے نئے وبائی امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے کرہ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے نئے وبائی امراض کے ظہور کے خوفناک نتائج برآمد ہو ں گے۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مزید وبائی بیماریوں میں اضافہ ہو گا۔
ایک سوشلسٹ سوسائٹی گلوبل وارمنگ اور وبائی امراض کے پیشِ نظر ماحولیات اور کرہ ارض کی آب وہوا کو متاثر کرنے والی ہر چیز کو دھیان میں رکھتے ہوئے پیدا وار اور پیدا واری قوتوں کے سماجی تعلقات میں بیک وقت انقلاب لاتے ہوئے ماحولیاتی ٹیکنالوجیز تیار کرے گی۔
ابھی جواب دینے کی ضرورت ہے کہ معاشی منصوبہ بندی کیا ہے؟ یہ متعلقہ پروڈیوسروں کے معاشرے میں کیسے کام کرے گی اور اس کا موجوہ سرمایہ دارانہ طرز ِعمل سے کیا اختلاف ہو گا؟
منصوبہ بند معیشت بمقابلہ سرمایہ دارانہ پیداوار کی انارکی
مختصراً !
منصوبہ بندی کا مطلب نسلِ انسانی کی افزائش کیلئے تمام ضروری وسائل براہ راست مختص کیے جائیں۔تاریخی طور پر نوع انسانی معاشروں کے ذریعے منصوبہ بندی کی دو اقسام ہیں۔ پید اوار سے پہلے کی منصوبہ بندی اور تقسیم ِپیداوار کی منصوبہ بندی۔تمام منصوبہ بندی کا جائزہ لینے کے لیے پیداوار اور منڈی میں اُس کی ضرورت کا تعین کیا جاتا ہے۔یہ دونوں طریقے مختلف داخلی منطق اور حرکت کے منفرد قوانین کی نشان دہی کرتے ہیں۔
سرمایہ داری میں سماجی پیدا وار پرانارکی کا غلبہ رہتا ہے جس کی محرک طاقت سرمایہ داروں کے درمیان مقابلہ بازی ہے اس لیے پیداوار ضرورت سے زیادہ ہے۔اگر مال بیچ دیا جائے تو بہت اچھا ہے اگر نہیں تو برباد کر دیا جائے گا یا پڑ ا پڑا سڑ جائے گا۔اس طرح کمپنی بحران میں پڑ جائے گی اور اپنے ملازمین کو برطرف کرے گی۔سرمایہ داری بیکار میں پیداوار پر بے تحاشہ دولت اور محنت برباد کرتی ہے اور بنیادی انسانی ضروریات کی چیزوں کی تیاری بند کر دیتی ہے یا پیداوار کا عمل سست کر کے وقفے وقے سے زیادہ منافع کمایا جاتا ہے۔جس طرح کرونا وائرس سے نپٹنے کیلئے درکار سامان کم مقدار میں تیار کیا جا رہا ہے۔سرمایہ داری میں چیزوں کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور پھر افادیت میں اضافہ کر کے خوب منافع کمایا جا تا ہے۔اس نظام میں کاریں،ضرورت سے زیادہ ٹنکیٹ (زیورات،لباس پر کڑھائی اور سجاوٹ کا سامان)باقی عیش وآرام کی اشیا اور فوجی ٹیکنالوجی کی پیداوارکی جاتی ہے لیکن ہسپتالوں، انسانی فلاح و بہود کے لیے سائنس،دوائیاں،مکانات اور صفائی ستھرائی کے لیے سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2016 میں اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگر یکچر آرگنائزیشن (FAO) نے ایک مطالعہ شائع کیا کہ اس وقت دنیا میں سات ارب تیس کروڑ انسانوں کیلئے خوراک کی فراہمی آسانی کے ساتھ ممکن ہے لیکن آج بھی نو میں سے ایک شخص بھوکا رہتا ہے۔
سرمایہ داری میں پیداوار کرنے والی کمپنیاں اور فیکٹریاں پیداوار سے پہلے کیے جانے والے کسی حد تک غیر جانبدار اور درست فیصلے بھی پیداوار کے دوران یا بعد میں انارکی کی طرف لے جاتی ہیں۔جس کی بنیادی وجہ مارکیٹ کے قوانین کے مطابق وسائل کی تقسیم ہے۔اس لیے معاشرے کی اصل ضروریات کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ پیداوارکرنے والے مالکوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیسے اخراجات کا تعین کریں کیونکہ یہ مارکیٹ پر منحصرہے کہ موثرطلب کے بعد ہی اخراجات کا تعین ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری نے جو تکنیکی ہم آہنگی پیدا کی ہے اُس کی بنیادیں متضادیت پر مبنی ہیں چونکہ سرمایہ داری نجی ملکیت پر قائم نظام ہے جو باہمی انحصار یاانضمام کی انفرادیت سے انکاری ہے۔ تاریخی طو رپرسرمایہ داری نے قوتِ محنت کو فیکڑی تک محدود کر دیا ہے۔اس ربط میں پیداوار کی بہت سارے یونٹس اور صنعتوں کی شاخیں شامل ہوئی ہیں۔لیکن دوسری طرف پیداوار کی لڑی نے بہت ساری قوموں کے انضمام کو عالمی سطح تک پہنچا دیا ہے۔اس سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ ایک انفرادی طور پر مقرر فرم جو خالصتاًمارکیٹ کے تحت حکمرانی کرتی ہے بھر پور عقلی یا سانئسی طریقوں پر مبنی ہے۔لہذا پیداوار کی تیاری میں ایک بڑی فیکڑی یا انفرادی فرم کی منطقی منصوبہ بندی اور سرمایہ دارانہ پیداوار کے درمیان تضاد موجودہ ہے۔ دوسری طرف پیداواری اکائیوں کی جزوی منطق سرمایہ دارانہ پیداوار کے متصادم ہے۔
سوشلزم میں ایسا نہیں ہوتا۔پرولتاریہ جو سرمایہ داروں کی ملک بدری کے بعد ایک غالب طبقہ بن جاتا ہے۔جو آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے معیشت کی صلاصیت کے مطابق پیداوار اور کھپت کو کنٹرول کرتا ہے۔جیسے ہم منصوبہ بند معیشت کہتے ہیں۔
لینن پہلے ہی زور دے چکا ہے کہ ”یہی منصوبہ بند معیشت روس میں اکتوبر انقلاب کے بعد کا سب سے بڑا اور اہم کام ہو گا۔ریاست کے پورے معاشی نظام کو ایک ہی راستے پر ڈالنا،ایک ایسا معاشی عضویہ جو اس طرح کام کرتا ہے کہ سینکڑوں لاکھوں افراد کو ایک ہی طر ح کی منصوبہ بندی کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی تنظیمی ذمہ داری ہے جو ہمارے کندھوں پر آں پڑی ہے۔ (پی سی آر PCRکی ساتویں غیر معمولی گانگریس مارچ 1918)“۔سوشلزم آبادی کی اکثریت کے لیے معاشی پسماندگی پر قابو پانے کی شرط اور پیداوار کے اشتراک سے شروع ہوتا ہے۔منافع کے مقاصد کا خاتمہ کرتے ہوئے اشیا کی پیداوار اور خدمات کیلئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ پیداوار کا اہتمام معاشرے کی ضروریات سے لیکر تسکین تک کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے ہم یہاں کوئی دستی فارمولا پیش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی خالی پروڈیوسروں کے معاشرے میں کوئی منصوبہ بند معیشت کام آ سکتی ہے کیونکہ پیداوار کی ٹھوس تنظیم،حقیقت میں طے شدہ ٹھوس حالات سے ترقی کرے گی لیکن ہم یہاں کچھ عمومی نظریات پیش کرتے ہیں۔ کچھ تاریخی تجربات اور ایک لمبی بحث جو ہمیشہ مارکسٹ مفکرین کے درمیان موجود رہی ہے۔
معیشت کی منصوبہ بندی میں محنت کشوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جو سماج کے اندر پیداواراور خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ اِن کو فیصلہ سازی کرنے والے اداروں کی ضرورت ہے جو پلانٹ کی سطح پر کام کرتے ہیں جنہیں ہم کونسلز کہ سکتے ہیں۔
اِن کونسلز کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مزدور وسائل کی تقسیم ترجیحاتی بنیادوں پر کریں گے۔ یہی محنت کشوں کی کونسلز آبادی اور عمر میں اضافے کی تشکیل کے لیے وسائل کی مقدار اور معیار کی جدت کی وضاحت کریں گی۔ غیر ضروری سامان کی تیاری اور خدمات کی فراہمی، اشیا کی قدر کا تعین کرنے والی پالیساں،پیداوار میں استعمال ہونے والے تکنیکی ذرائع اور منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے کام کے اوقاتِ کار میں کمی۔اس معاشی منصوبہ بندی کی نشاندہی محنت کشوں کی اکثریت کی خواہشات سے ہو گی۔
منصوبہ بند معیشت سے متعلق بحث، پلانٹ یا کسی بھی کام کی جگہ سے شروع ہوتے ہوئے قصبے، تحصیل،ضلع اور علاقائی سطح پر منتقل ہونی چاہیے۔پلانٹ یا کام کی جگہ سے منتخب نمائندے یا مندوبین اعلیٰ کمیٹیوں کی قیادت ہوں گے جو سلسلہ قومی پیداواری کونسل تک جاری رہے گا۔منصوبہ بند معیشت کے لیے ضروری ہے کہ خودمختار اداروں کو منظم کیا جائے۔جیسے کھانے پینے کی اشیا،توانائی،مواصلات، الیکٹرانک اور نقل وحرکت کی صنعتوں کے محنت کشوں کی کونسلوں اور دوسرے خدمات کے شعبوں سے وابسطہ ورکرز کی مشترکہ کانگریسز کا انعقادضروری ہے۔ جن کے ذریعے مضبوط معاشی منصوبہ بندی کو لے کر ، اضافہ ِپیدا وار، یونٹوں کی تشکیل کا ڈیزائن، بہتر تکنیکی وسائل کی تلاش وغیرہ کی منظوری لی جائے گی۔ا ن تما م منصوبوں کی وسعت اور تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ ورکرز مستقل نگرانی کے لیے اپنا کردارادا کریں۔
منصوبہ کے ہداف کو پورا کرنے کیلئے موبائل فون، چمڑے،کپاس،اسٹیل،دوائیوں کے لیے خام مال،ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے تیز رفتارمشینری وغیرہ جیسی مجموعی مصنوعات کو مختلف پیداواری پلانٹس میں تقسیم کیا جائے گا۔یہ آج کل سرمایہ دار کمپنیوں نے بھی اپنے منتظمین کے ذریعے کیا ہوا ہے لیکن منصوبہ بند معیشت میں ورکرز خود پروڈیوسر ہوں گے جو خود جان کاری کی وضاحت کریں گے اور کوئی منیجریا شیئر ہولڈر اُن سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ مصنوعات کی پیداوار کیلئے وسائل مختص کرنے کا بہترین طریقہ ورکرز کی مشترکہ ہدایات ہیں۔
خدمات کے شعبوں ہسپتالوں، ٹرانسپورٹ،سپلائی نیٹ ورک، مواصلات وغیرہ کیلئے بھی اس طرح کا انتظامی طریقہ اپنایا جائے گا۔مثال کے طور پر صحت کے شعبے کی کونسل، صحت کے ورکرز کی طرف سے منتخب کی جائیں گی۔ جو ہسپتالوں کا انتظام سنبھانے کے ساتھ دوسرے شہریوں کی مشاورت سے سماج کی ٹھوس ضروریات پر مبنی منصوبہ بندی مرتب کریں گی۔
تاہم ان میں سے بہت سارے فیصلوں کو خاص طور پر عوام کے استعمال کی اشیا کے معاہدے، پیداوار کرنے والی ورکرز کونسل اور استعمال کرنے والی کونسلز کے مابین ہونا ضروری ہیں، شرط یہ ہے وہ کونسلز جمہوری طریقے سے منتخب ہوئی ہوں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں پروڈیوسر اور صارفین دونوں ہی منڈی میں موجود قوت ِخرید کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
منصوبہ بندمعیشت میں پروڈیوسر ایک سر گرم رکن ہے کیونکہ وہ منصوبہ بندی کے سارے عمل میں خو د حصہ لیتا ہے۔اس طرح نہ صرف تیار کردہ چیزوں کے معیار کی ضمانت دی جاسکتی ہے بلکہ عوام تک پہنچنے سے پہلے بہت ساری مصنوعات کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ظاہر ہے اس طرح کے فیصلے پوری آبادی کے ثقافتی معیار کی عمومی بلندی اور معلومات تک انتہائی آسان اور مکمل رسائی کے ساتھ تیزی سے مکمل طور پر موثر ہو ں گے۔پیدا وار کرنے والوں کا معاشرہ صرف مکمل جمہوری ماحول میں ہی ترقی کر سکتا ہے۔
موجودہ تکنیکی ترقی بہت اہمیت کی حامل ہے جو اوقات کار میں کمی اور معلومات کے پھیلاؤ میں تیزی لانے کیلئے استعمال ہو سکتی ہے۔تکنیک کے پھیلاؤ سے نئے معاشرے کے سیاسی اور معاشی فیصلوں میں عوام کو مکمل شرکت کی اجازت ہو گی۔جس سے طے شدہ اہداف کیلئے منصوبہ بندی پر عملدرآمدکی نگرانی میں آسانی پیدا ہو گی۔مثال کے طور پر انٹرنیٹ کو پیداوار کے حوالے سے معلومات کے پھیلاؤ کیلئے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وسائل کی دستیابی کے لیے مشورہ کرنا اہداف کو نکھرنے میں مد ددینااور پیداور کیلئے مخصوص وقت کی نگرانی فراہم کرے گا۔وسیع حفاظت کے ساتھ درست ابتدائی معلومات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے گا۔ناکار یاں اور وسائل کے ضائع ہونے کی جانکاری اور درست اعدادو شمار مہیا کرے گا۔صنعت کو انسانیت کی فلاح وبہود کیلئے انڈسٹری 4.0کے استعمال کا تصور ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو سائبرفزیکل سٹم کلاوڈ کمپیوٹنگ کے ساتھ انٹرنیٹ کا کام کرنے والے آٹومیشن اور ڈیٹاایکس چیج کو مربوط کرتی ہے۔
حتی کہ اس وقت سرمایہ داری میں جو تکنیکی ترقی ہو چکی ہے اس سے پہلے ہی اوقات کار میں بڑے پیمانے پر کمی ہو سکتی ہے سخت محنت سے تقریباًمکمل آزادی اور پیدواری عمل میں بے روزگار افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری میں یہ قوانین اس طرح ترقی نہیں کرتے۔ٹیکنالوجی کے ذریعے محنت کشوں کو نوکریوں سے برطرف کرتے ہوئے بے روزگاری پیدا کرنا،پس ہم اس وقت مختلف ایپلی کیشنز کے ذریعے انسانوں کی ملازمتوں سے بڑے پیمانے پر بے دخلی دیکھ رہے ہیں۔
سوشلزم ایک مکمل معاشرہ ہے سرما یہ داری کی موجود ہ منطق کو مکمل طور پر پلٹ دے گا۔فیصلہ سازی کے عمل میں سماج کی فعال شرکت معیشت میں براہِ راست انتظام لیکر محنت کی تقسیم کو آہستہ آہستہ تحلیل کر دے گی۔ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ خالی اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ ہر فرد ہر چیز کا شریکِ مالک بن جائے۔ سب کے برابر ہونے کیلئے وسائل کو کنٹرول کرنے کی طاقت سے متعلق اختلاف کو ختم کر نا ہو گا۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے،منصوبہ بند معیشت میں ہر اُس چیز کو دھیان میں رکھا جائے گا جو سیارے کے ماحول کو متاثر کرتی ہے۔وہ تمام عوامل جو سمندروں کو آلودہ یا متاثر کر سکتے ہیں۔ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کا ذریعہ بن کر ماحولیاتی توازن کے عالمی اڈوں کو ختم کر دیتے ہیں۔ جنگلات کو لیکرجمہوری طریقے سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد سے گلوبل وارمنگ سرمایہ داری کے سبب پیدا ہونے والی ایک حقیقت ہے۔جس پر بہت سارے سائنسدان پہلے ہی زمین کی تاریخ کو لیکر وضاحت کیلئے کپٹیلوسین(capitalocence) اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ایک ارضیاتی دور جو موجودہ معاشرتی نظام،جس نے اُسے تشکیل دیا ہے اُس کی نسبت بہت طویل عرصے تک رہے گا۔یہاں تک کہ سرمایہ داری پر قابو پانے کے بعد آنے والی نسلوں کو بھی مستقبل میں بھی آب وہوا کی تبدیلی کے نتائج سے نپٹنا ہو گا۔سوشلسٹ سوسائٹی کا یہ کام ہو گا کہ وہ معاشرے اور فطرت کے مابین میٹابولک (Metabolic)توازن کو بحال کرنے کیلئے ماحولیات دوست پیداواری قوتوں کی تعمیر کرے۔ یہ نابینااور بیوروکرٹیک سویت یونین کی صنعتکاری سے مختلف ہو گا۔جس کے نتیجے میں چرنوبل (chernobyl)تباہی ہوئی۔
سوشلزم جو سرمایہ داری سے با لاتر نظام ہے۔پرانے طبقاتی نظام سرمایہ داری کی تما م ایجادات اور فتوحات کو بروئے کار لائے گا۔اس وقت پوری طرح سے ہمارے پاس کوئی مثال نہیں یا ایسا کوئی سوشلسٹ معاشرہ نہیں جس کے بارے میں ہم پیداواری ذرائع کے مساوی کنٹرول کو لیکر بات کریں۔کوئی ملکی سوشلزم سرمایہ دارانہ نظام سے زیادہ امیر،آزاد اور ترقی یافتہ نہیں ہو سکتا اگر اُسے عالمی سطح پر تعمیر نہ کیا جائے۔
ہم منصوبہ بند معیشت کے حامی کیوں ہیں؟
بیشتر بورژوا لبرل معاشی ماہرین اور سرمایہ داری کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایسا نظام ممکن نہیں ہو گا۔کیونکہ اس میں پیداوار ی جدت کو ترغیب دینے والا عنصر کمزور ہے۔جو انفرادیت کی وجہ سے فروغ پاتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ داری میں ہمیشہ دولت جمع کرنے اور زیادہ اشیا خریدنے کے امکان موجود رہتا ہے۔جو کہ بیوقوف کے دِن کے خوابوں کے سوائے کچھ نہیں،کیونکہ اکثریت کے پاس زندہ رہنے کے لیے کم سے کم شرائط بھی نہیں ہیں اور اقلیت دولت جمع کرنے اور تجارت کرنے کا دفاع کر رہی ہے۔ ہم غیر متوازی دنیا میں رہنے والے لبرلز کو یہ بتانا چاہیے ہیں کہ اب محنت کشوں کے پاس کوئی وجہ نہیں کہ وہ بورژوا لبرلزکی چکنی چپٹی باتوں سے محظوظ ہو سکیں۔اب سے غیرمساوات اور دولت جمع کرنے والا نظام محنت کشوں کی زندگیوں میں متحرک قوت کے طور پر زندہ نہیں رہ سکے گا۔
تاہم اس کی وجوہات ہیں کہ لبرلز کے خیال میں سرمایہ دار زیادہ نیک انسانو ں کی فہرست میں کیوں آتے ہیں کیونکہ وہ استحصال سے جمع شدہ دولت ہڈی کے طور پر لبرلز کے منہ میں ٹھونس دیتے ہیں۔سوشلسٹ سماج میں محنت صرف اور صرف اپنی اور انسانیت کی بہتری کے لیے استعمال کی جائے گی۔منصوبہ بند معیشت میں پیداوار کرنے والے اوقاتِ کارمیں کمی لانے کیلئے ہر طرح کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔
خود کار طریقے سے فکری، فنی اور سانئسی تجس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سماج کی ایک محرک قوت بنائیں گے۔ محنت کش جانتے ہیں کہ اُن کے کام کی نوعیت بہت ساری صورتوں میں اُنھیں جسمانی اور ذہنی طور پر تھکا دیتی ہے۔اُن کے روزانہ کا وقت،توانائی اور صلاحیتیں عملی طور پر ان کے کام اور کام کیلئے سفر طے کرنے میں پوری ہوتی ہیں۔اور وہ سائنسی علم حاصل کرنے اور ثقافتی یا سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے۔اس لیے محنت کش زیادہ تعداد میں کام اور تجارت سے منسلک ہونے کے باوجود پوری جانکاری نہیں رکھ پاتے۔ سرمایہ داری ہی محنت کشوں کی اس ثقافتی پسماندگی کی ذمہ دارہے۔
صارفین کا خیال رکھتے ہوئے موثر پیداوار کو یقینی بنانے کیلئے تمام خدمات میں سے ہر طرح کی مشکلات،مکینیکل اکتاہٹ وغیر ہ اور باربار کام کو کم سے کم کرنے کی خواہش ایک اچھی ترغیب ہو گی، ہر کام کی آگاہی کے ساتھ حوصلہ افزائی کی جائے گی۔کم اور نیتجہ خیز کام کا مطلب زندگی سے محرومی کا خاتمہ ہے۔سوشلسٹ معاشرے میں محنت کش کبھی بھی دولت جمع کرنے کا شوق نہیں رکھتے بلکہ علوم کی ترقی،فنونِ لطیفہ،کھیل وغیرہ کے فروغ کے لیے اپنے آپ کو اور معاشرے کو مجموعی طور پر بہتر بنائیں گے۔ایسا معاشرہ ہو گا جو تہذیبوں میں پروان چڑھے گانہ کہ محض دولت جمع کرنے کے جنونی حصول کیلئے۔اس طرح سماج میں بامعنی انسانی سرگرمیوں اور رشتوں کی مکمل توسیع ہو گی۔
معیشت کی جمہوری اور مرکزی منصوبہ بندی سوویت افسر شاہی کی منصوبہ بندی کے بر عکس،جس کا نیتجہ رد ِانقلاب کی شکل میں اسٹالنسٹ سوویت بیوروکریسی کی وجہ سے سوویت یونین میں سامنے آیا۔
بیوروکریٹک منصوبہ بندی محنت کشوں کی فکری تقسیم پر مبنی انتظام ہے۔جس میں ماہرین کا ایک گروپ انتظامی امور سنبھالتا ہے اجارہ دار بن کر منصوبہ بندی اور انتظام کی ذمہ داری ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔بیوروکریسی کی منصوبہ بندی میں پیداوار کرنے والوں اور صارفین کو کسی بھی معاشی منصوبے پر بحث کرنے سے الگ رکھا جاتا ہے۔فیصلے عمودی اور آمرانہ ہوتے ہیں۔جن کی تکمیل ملک کی ساری پیداواری صلاحیتوں پر لازم ہو تی ہے،چاہے فیصلے کتنے غیر معقول اور جابرانہ کیوں نہ ہوں۔بیوروکریسی کے عہد میں فیکٹری کا منتظم بھی اپنی ملازمت کو بچانے اور مزیدمادی فوائد لینے کے لیے ہر طرح کی پیروی کرتے ہوئے بیوروکریسی کے تنظیمی ڈھانچے کی آنکھوں کا تار ہ بن جاتا ہے۔بیوروکریسی کا نچوڑ نکالا جائے تو بربادیوں اور ناکامیوں کو چھپانا، مزید منتظمین کو بد عنوان کرنا اور ورکرز کا استحصال کرنا ہے۔
اِس سب کا اکتوبرانقلاب کے بعد لینن سے کوئی تعلق نہیں۔لینن نے ہمیشہ روس کو ایک بہت بڑی ثقافتی اور تکنیکی ترقی دیتے ہوئے بے روزگاری کا خاتمہ کرنے کی خواہش رکھی تھی۔90فیصد کسانوں پر مشتمل زرعی ملک کو صنعتی بنانے کی منصوبہ بندی پیش کی تھی۔اُس وقت کی بڑے پیمانے پر ناخواندہ آبادی کی انتظامی اور سیاسی تعلیم کی بات کی تھی تاکہ نوکرشاہی کو ہر طرح سے شکست دی جا سکے۔لینن نے انتظامی معاملات میں نکھار لانے کیلئے عمومی سیاسی زندگی کی فعالیت پر زور دیتے ہمیشہ پروڈیوسرز کو شرکت کی دعوت دی اور اوقاتِ ِکار کی تبدیلی اور کم کرنے کے طریقوں کو سامنے لایا تھا۔لینن کا فارمولا یہ تھا چھ گھنٹے کام +پیداوار کے انتظام سے متعلق چار گھنٹے کی سرگرمیاں، مقصد یہ تھا کہ ہر کوئی دونوں کام اور سر گرمیوں میں حصہ لے سکے۔جس سے محنت کا خاتمہ ہو گا۔اسٹالنزم نے جو بیوروکریٹک منصوبہ بندی کی تھی وہ منتظمین کے لیے تھی۔جو بے تحاشہ معاشرتی تضادات کا باعث بنی۔جن کے نتیجے میں سوویت یونین میں سرمایہ داری کی بحالی ہوئی۔
خلاصے کے طرف بڑھتے ہیں۔
قاری اعتراض کر سکتاہے:لیکن منصوبہ بند معیشت نہ تو یوٹوپیا ہے اور نہ ہی ہم غیرمتزلزل ہیں،کیونکہ ہمارے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام انتہائی پستگی کی طرف جا رہا ہے۔جہاں پر وباہی امراض،معاشی اور ماحولیاتی بحرانوں کی بھر مار ہے۔بہت سارے لوگوں کو اب بھی یقین ہے کہ انسانیت کیلئے سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر کے بجائے شہاب ثاقب کو زمین پر گرانا آسان ہو گا۔دوسری طرف فریب باٹنے والے سوداگر موجود ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی اصلاح کے امکان کو ابھی بھی بیچ رہے ہیں حالانکہ ماضی اور حال گواہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی اصلاحات کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں رہیں۔
بنیادی طور پر بحث اس سوال کی طرف آتی ہے کہ انسانیت اپنی تقدیر کو تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے یا موسم ِگرما کی رات کا خواب؟
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انسان ہی ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ رقم کی ہے۔مختلف نظاموں کے اندر تکلیف برداشت کرتے ہوئے پیداواری ذرائع کو ترقی دی ہے۔اب سوشلزم ایک تاریخی امکان ہے جو سرمایہ دارانہ پیداوار کے معروضی تضادات سے نکلتا ہے لیکن معروضی حالات سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔اس کا انحصار بنیادی طور پر مظلوم پرتوں کے مرد اور خواتین کے سیاسی عمل پر ہے کہ وہ پرولتاریہ کے ساتھ ملکر اقتدار سنبھالتے ہوئے ایک انقلابی پارٹی کے ذریعے منظم شعوری مداخلت کریں۔
تاہم موثر انداز کے ساتھ جب تک محنت کش طبقہ اقتدار حاصل کر کے غلبہ حاصل نہیں کرتا کوئی بھی تبدیلی مزید رد انقلابی حملوں کے سوائے کچھ نہیں۔اُسے آج فیکٹریوں اور صنعتوں کی سب سے متنوع شاخوں میں طاقت کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ہی وقت میں اُسے تما م شعبوں کے اندر ریاست گیر سیاسی طاقت کا استعمال کرنا ہو گا۔ہمیں سوشلزم کی تعمیر کے دوران یہ منصوبہ بندی سیاسی طور پر سب سے پہلے رکھنی چاہیے۔جس سے جمہوری طور پر منتخب ممبران پر مشتمل کونسلز کا ریاستی کنٹرول ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ ایک نئی شکل میں تنظیم نو ہو گی جو محنت کش عوام کو بنیادی فیصلہ سازی میں شامل کرتے ہوئے خصوصی اہلکاروں کے کردار کویکسر محدود کرے گی۔صرف اسی طرح محنت کش طبقے کا حقیقی معنوں میں نئے معاشرے کی معاشی،سماجی اور ثقافتی ترجیحات پر کنٹرول ممکن ہے۔
آج سوشلزم کی تعمیر ہی ہماری نسل کا اولین فریضہ ہے!





