Home Pakistan ہمالیہ پر سامراج کی یلغار کا دفاع کرو

ہمالیہ پر سامراج کی یلغار کا دفاع کرو

SHARE
(ہمالیہ جموں،کشمیر،گلگت بلتستان اور لداخ پر مشتمل وہ خطہ ہے جو گزشتہ کئی صدیوں سے سیاسی،معاشی اور ثقافتی غلامی سے آزادی کے لیے برسرِپیکار ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم درست بنیادوں پر ایسی آزادی کی بات کریں جس کے اندر متعلقہ اکائیوں کے محنت کش عوام برابری کی سطح پر ایک فیڈریشن میں منصوبہ بند معیشت کے تحت اپنے تعلقات استوار کریں۔ اس لیے قارئین سے گزارش ہے کہ جہاں پر زیادہ پاپولر اکائی(کشمیر یا جموں کشمیر) کاذکر ہو اُسے صرف ایک اکائی کے طور پر ہی دیکھا جائے)
انقلابی ساتھیو!
اگرہم خطہ ہمالیہ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے برصغیر کے بٹوارے کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔اس وقت دنیا کے نصف غریب برصغیر میں رہتے ہیں۔ دنیا کے کسی حصے میں برصغیر سے زیادہ خوراک کی کمی کے شکار افراد موجود نہیں۔بھارت اور پاکستان تعلیم اور صحت پر 5 فیصد سے بھی کم بجٹ خرچ کرتے ہیں۔برصغیر دنیا میں معاشی طور پر سب سے زیادہ بد حال خطہ ہے۔اِن ریاستوں نے 72سالوں سے مسئلہ ہمالیہ کو وجہ بنا کر برصغیر کے محنت کشوں کا معاشی،سیاسی اور سماجی استحصال کیا۔عام عوام کو غربت بیروزگاری،لاعلاجی،پسماندگی،محرومی،زوال پذیر انفراسٹرکچر،لسانی،مذہبی، ثقافتی اور قومی جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں مل سکا۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ برصغیر کے حکمرانوں نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے۔لیکن اگر سماجی سائنس کے اصولوں کو مدِنظر رکھ کر تجزیہ کیا جائے توایسا لگتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی سرمایہ داری اور جاگیرداری نے برطانوی سامراج کے ساتھ مل کر سامراج کے خلاف ابھرنے والے انقلاب کا خون کرکے یہ کامیابی حاصل کی تھی جس کے نتیجے میں 15لاکھ کے قریب لوگوں کو قتل کیا گیا اور ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کو بے گھر کر کے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔برصغیر کے زندہ جسم کو چیر کر غیر فطری سرحدیں مسلط کرتے ہوئے بنگالیوں،کشمیریوں اور پنجابیوں کی تقسیم کی جو اِن خطوں کی معاشی سماجی روایات سے متصادم تھی۔
اس تقسیم سے برطانوی سامراج کے مذہبی،لسانی اور ثقافتی مسائل زیادہ پیچیدہ ہوئے، بھارت اور پاکستان کے ریاستی ڈھانچوں میں آج بھی مذہبی اختلافات کو تقدس حاصل ہے۔ تقسیم کی وجہ سے ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان رجعتی جیو پولیٹیکل محاذ آرائی کا آغاز ہوا جس نے دونوں ملکوں کے عوام کو تین اعلانیہ جنگوں اور ان گنت جنگی بحرانوں سے گزارتے ہوئے امن اور پھر اس جنوں اور امن کو مستقل حکمتِ ِعملی کے طور پر عوام کے حواس پر نقش کر دیا۔اس تقسیم سے سامراجی غلبے کو تقویت ملی،سائنسی بنیادوں پر معاشی ترقی بشمول آبی ذرائع کے عمل کو روکا گیا اور سامراج نے ایسی حکمت ِعملی ترتیب دی جس کے تحت ایک ریاست کے حکمران کو دوسری ریاست کے حکمران طبقےسے لڑانے سے لیکر آج برصغیر کے محنت کشوں کے خلاف مشترکہ حکمت ِعملی پر معمور کر دیا گیا۔
مسئلہ ہمالیہ اور سامراج
ہمارے ہا ں بہت سارے انقلابی سامراج کو نظرانداز کر کے برصغیرکے حکمرانوں کو مسئلہ ہمالیہ کی موجودہ صورتحال کا قصور وار ٹھہراتے ہیں لیکن یہ قطعی طور پر درست نہیں بلکہ یہ مسئلہ سامراج نے پیدا کیا اور سامراجی طاقت کی تبدیلی پر پرانی پالیسو ں کے ساتھ آگے منتقل ہوتا گیا۔ہمالیہ کامسئلہ گزشتہ 71سالوں سے اقوام متحدہ کی فائیلوں میں پڑا منصف کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔اور یقینی طور پر منصف کو بھی نہیں پتا کہ فیصلہ کیا دیا جائے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج اقوام متحدہ پر شمالی امریکہ کا قبضہ ہے جو سیاسی ادارے کے طور پر اقوام متحدہ، معاشی طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک،مسلح طور پر نیٹو اور کرنسی کی قدر کے طور پر ڈالر کو رکھ کر پوری دنیا کو اپنی مرضی سے ہانکنے کی کوشش کر رہاہے۔ سرمایہ داری جوکہ بہت عرصہ پہلے سامراجیت کا روپ دھار چکی ہے اس دُنیا کا نظام صرف سامراج کی انتہا درجے کی منافع خوری اور طفیلیت کی خصوصیات کا مظاہرہ کرنا ہے۔اس وقت مسئلہ ہمالیہ کے ساتھ تین براہ ِراست جڑے ممالک چین،انڈیا اور پاکستان معاشی اور سیاسی حکمت ِعملی کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
سامراج چونکہ آج عالمی معاشی اجارہ داریوں کا مجموعہ ہے جوسیاسی طورپر ریاستوں کو استعمال کر کے اپنے معاشی ا ہداف حاصل کرتی ہیں۔ اسی لیے اِس وقت ہمالیہ عالمی معاشی مفادات کا فلیش پوائنٹ ہے۔ کیونکہ ایک طرف چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہے جو نہ صرف باآسانی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی دیتا ہے بلکہ خام مال کے ساتھ انڈیا،چین اور پاکستان کے تین ارب سے زیادہ انسانوں کی منڈی بھی ہے۔اس وقت بہت ساری عالمی اجارہ داریاں اپنا کاروبار چین سے انڈیا اور بنگلہ دیش منتقل کر چکی ہیں جو اس وقت بھارت کی ریاست کو استعمال کر رہی ہیں تاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری تک رسائی مل جائے۔جس کے لیے واشنگٹن کو ترجمانی دی گئی اور اس منصوبہ بندی کے بارے میں پاکستان، بھارت اور چین کے حکمرانوں کو پہلے سے آگاہ کیا جا چکا تھا کہ وہ عوامی بیانیہ ترتیب دیں۔جو ضرورت کے مطابق ایک دوسرے کے لیے تبدیل ہوتا رہا۔اس وقت سامراجی اجارہ داریوں کو چین پاکستان اقتصادی راہداری تک رسائی اوردونوں اطراف متنارعہ ہمالیہ کے اندر سرمایہ کاری جو خاص طور پر ہائیڈرل پاور پروجیکٹس میں کی گئی ہے کو محفوظ بنانا ہے۔ پاکستان مقبوضہ جموں کشمیر کے ساتھ جڑے ہمالیہ کے متنازعہ ریجن جس میں گلگت بلتستان شامل ہیں، چین کی بڑی سرمایہ کاری (سی پیک) کے نام پر موجود ہے۔تمام بڑ ے منصوبوں کے معاہدات بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ ہوئے ہیں جس پر اب جموں کشمیر،لداخ اور گلگت بلتستان کے اندرسے سوالات اُٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔
اس لیے اس عالمی سرمایہ کاری کو محفوظ کرنے کے لیے ہمالیہ کی مستقل تقسیم سامراجی ایجنڈا ہے۔اس وقت سامراج بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کو سامنے رکھ کر دو ہرئی حکمت ِعملی پرمعمورہے ایک ہمالیہ کی عارضی حیثیت کو مستقل کر کے خطہ ہمالیہکے پانیوں،گلیشیرز اور ماحولیات پر قبضہ رکھ کر اپنی حکمتِ عملی کو مستقل کرنااور دوسرا،مسئلہ ہمالیہ کے فریقین کی بنیاد پر ہمیشہ اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
انقلابی ساتھیو:
یہ حکمتِ عملی قطعی طور پر صرف عالمی اجارہ داریوں یا اُن کی ترجمان ریاستوں کے تضاد نہیں بلکہ اس حکمت ِعملی کے پیچھے بنیادی وجہ تین ارب سے زیادہ عوام کی منڈی ہے۔ جس پر ہمیشہ سے لسانی اور مذہبی منافرت کو برقرار رکھ کر تجارت ہو رہی ہے۔ جہاں سرمایہ دار تو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خطے کے عوام کو لوٹتے ہیں لیکن محنت کش عوام تقسیم ہیں۔یہی حکمتِ عملی فلسطین اور کردستان کے سوالات کو لیکر کر ترتیب دی گئی ہے۔چین کی ابھرتی ہوئی سرمایہ داری نے 2007-09 کے معاشی بحران میں شمالی امریکہ کی سب سے زیادہ مدد کی جس کی بنیادی وجہ ہے کہ اب چین اجارہ دار کمپنیوں کا سرمایہ عالمی سامراج کے سرمائے کا اہم جز وبن چکا ہے جس کی بناء پر اب ایک کی تباہی سب کی تباہی ہے۔ اس لیے چین اب امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ ہمیشہ اپنے محنت کشوں پر جنگی خطرات کو مستقل رکھنا چاہتا ہے۔چین ایک دوسرا بہت ہی خاص لیکن چھوٹا عالمی مرکز ہے جسکا مخصوص کردار اسکو دیگر تمام کے مقابلے میں الگ طور پر نمایاں کرتاہے۔چین کی معیشت،بالخصوص دنیا بھر کی مارکیٹ کو تہہ وبالا کرنے کی صلاصیت رکھتی ہے۔ تاہم دُنیا کی کسی اور ریاست کامعیشت پر اتنا اثر نہیں جتنا چین کا ہے۔ چین میں معیشت کے اجتماع (accomulation) کی شرح تقریباً 50 فیصد ہے جبکہ یو ایس اے اور دیگر سامراجی ملکوں میں یہ شرح تقریباً 20 فیصد ہے کیونکہ چین ایک ایسا ملک ہے جسکی آبادی سب سے زیادہ ہے اور چین کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی دیگر ممالک کی کمپنیوں کے مقابلے میں طاقت پکڑ رہی ہیں۔ خام مال کی درآمد چین کو دنیا کی کئی مارکیٹوں کیلئے فیصلہ کُن حیثیت دیتی ہے۔چین کی بورژوازی جس کااگرچہ انحصار سامراجی بورژوازی پر ہے سرمائے کے اجتماع کی وجہ سے ساری دُنیا میں سرمایہ کاری کی شرائط کو پورا کرتی ہے جو اکثر سامراجی سرمایہ کاری کے ساتھ شرکت میں رہتی ہے۔ چین اس وقت باقی دنیا کی طرح پوری طرح سے ناہموار ترقی پر مشتمل ملک ہے جس کی 94 فیصد آبادی صرف 6فیصد رقبے پر آباد ہے۔آبادی کی94 فیصد مغربی رقبے کی طرف منتقلی کے لیے(سی پیک) کی بنیاد رکھی گئی۔جس کی وجہ چین کے محنت کشوں کی طرف سے چین کے حکمرانوں پر دباؤ تھا۔ چین میں گزشتہ کئی سالوں سے خدماتِ عامہ کے شعبوں میں کٹوتیاں کی گئیں۔باقی دنیا کی طرح کفایت شعاری کا سبق یاد کروانے کی کوشش کی گئی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام سے بہت سارے چینی سرمایہ داروں کے ذریعے نہ صرف چین کے اندر بلکہ باقی ممالک بشمول جموں کشمیر میں بھی انوسٹمنٹ کروائی۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چین کے سماج میں بھی ہلچل موجود ہے جو اس وقت انتہائی سنسرشپ کی وجہ سے ہمیں دیکھائی نہیں دے لیکن ہانگ کانگ جو چین کی نوآبادیات میں شامل ہے وہاں سے تحریک کا آغاز ہو چکا ہے جس نے بہت ساری حاصلات حاصل کی ہیں۔یہ تحریک ہر صورت میں چین کے محنت کشوں کے لیے سر کشی کا با عث بنے گی۔
بھارت اور پاکستان کی موجودہ ریاستیں:
مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں سرمایہ دارانہ ریاست کو سرمایہ داروں کی ہر پرت کی مشترکہ کمیٹی قرار دیا تھا۔ ہمارے ارگرد کے لبرل دانشوروں کے خیال میں ریاست غیر جا نبدار رہے اور اگر نہیں ہو گی تو ملک انارکی کی طرف جائے گا۔لیکن ہم سرمایہ دارانہ ریاست کو سماج سے بالا اور غیر جانبدار ادارہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ سرمایہ داروں کے پاس ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ رائے عامہ کے تمام شعبوں اور باقی مسلح طاقت کو کنٹرول کر کے اسے محنت کش عوام کی اکثریت کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ مارکس نے سرمایہ داروں کو متحارب برادران قرار دیا ہے۔ جو مزدوروں پر ظلم و جبر پر متفق ہیں لیکن محنت کشوں کے استحصال سے حاصل شدہ دولت کی تقسیم پر لڑتے رہیں گے جس طرح آج بھارت اور پاکستان میں ہو رہا ہے۔ کس طرح وسائل پر قبضہ کر کے محنت کشوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ انقلابیوں کو ہمیشہ سرمایہ دارانہ ریاست کے جبر کا آلہ کار بننے سے دو رہنا چاہیے اور ریاست کے برخلاف اپنے وسائل کی جدوجہد کے لیے برسرِپیکار تمام مزاحمت کاروں اور قوم پرستوں کی غیر مشروط حمایت کرنی چاہیے۔
بھارتی ریاست کے وزیرِاعظم اور سامراج کے نمائندہ نرندر مودی نے اگست میں جموں کشمیر کی متنازعہ اور اسپیشل حالت کو تبدیل کر دیا۔ آرٹیکل 370 جس کے ذریعے جموں کشمیر 1949میں بھارت کے آئین کے زیر اثر آیا۔جس کے تحت فنانس،دفاع،امور خارجہ اور مواصلات کو چھوڑ کر باقی تمام امور پر اندرونی خودمختاری دی گئی تھی۔اوربعد میں آرٹیکل 35Aکو 1954میں صدارتی حکم کے تحت 370 میں ہم رسانی کے طور پر شامل کر کے بھارت کے آئین کا حصہ بنا یا گیا۔ جس کے تحت کوئی غیر ملکی باشندہ ریاست جموں کشمیر کا شہری نہیں ہو سکتا۔بھارت اس وقت عالمی سرمایہ داری کو نہ صرف خام مال مہیا کرنے والی اہم ریاست ہے بلکہ مال کی کھپت کے لیے ایک ارب پینتیس کروڑ کی منڈی بھی ہے۔ بہت ساری عالمی سامراجی کمپنیوں نے اپنے کاروبار بھارت منتقل کر دیئے ہیں۔جس کی وجہ سے اس خطے کے اندر انڈیا کو اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔انڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اُس کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے۔کہ ابھی تک آرٹیکل 370 کی منسوخی کا عمل جاری ہے اور بہت ساری ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ ہم جموں کشمیراور لداخ میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔اور یقینی طورپر اس سے پہلے بھی بھارت مقبوضہ کشمیر میں بڑی سرمایہ کاری ہو چکی ہے جس میں شمالی امریکہ کا حصہ موجود ہے۔خاص طور پر ہائیڈرل پاور پروجیکٹس پر۔اس وقت بھارت کے اندر سرمایہ کاری کرنے والی سامراجی کمپنیوں کی یہ مانگ ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری تک رسائی کے لیے راستہ لیا جائے۔چونکہ یہ راستہ گلگت بلتستان سے لداخ تک ممکن ہو سکتا ہے اس لئے لداخ کو براہ راست فیڈرل کے کنٹرول میں لیا گیا ہے۔
انڈیا کے اندر دو سال قبل محنت کشوں نے اپنے حقوق پر ڈاکے کے خلاف تاریخ ساز ہڑتال کی تھی۔ جس نے بھارتیا جنتاپارٹی (BJP) اور مذہبی انتہاپسند رشترا سویمسوق سنگ (RSS) ہندو قوم پرستی کی قیادت نے مودی سرکار کو یہ بتایا کہ مذہبی و قومی بنیادوں پر محنت کشوں کو تقسیم کرنا مستقل حل ہے۔ اس مذہبی اور نسل پرستی پر تقسیم کے خلاف نوجوان انقلابیوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا جو جاری و ساری ہے۔ حالیہ سماج کی ایک اور پرت کسانوں نے بھی اپنے حقوق کے لیے مارچ کر کے یہ بتا دیا کہ ہر وار جو مذہب، قوم اور ملک کے نام پرکیاجاتا ہے ہم اُس کے خلاف ہیں رہیں گے۔
پاکستان کا کردار
پاکستان وہ ملک ہے جس پر حکمرانی ہمیشہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی رہی ہے۔ جس کی بنیاد بھارت کے خلاف مذہبی شاوینزم ہے اور اس میں اہم نقطہ مسئلہ کشمیر ہے۔جس کی آڑ میں پاکستان جیسے غریب ممالک کے محافظ اتنے امیر ہو چکے ہیں کہ وہ اب عالمی اجارہ داریوں کے ساتھ مل کر فوجی ادارے چلانا شروع ہو چکے ہیں۔پاکستان والی بات مرزا غالب کے اس شعر کے مصرے جیسی ہے کہ کعبے کس منہ سے جائیں گے غالب،پاکستان جس نے جموں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو پراکسی بنوایا۔بے تحاشا آزادی کے متوالوں کو اپنے کرائے کے اہلکاروں سے شہیدکروایا۔ بھارت کی طرح کشمیر کے وسائل پر قبضہ کیا۔سب سے پہلے 1974میں متنارعہ حصے گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجکٹ رول کا خاتمہ کرتے ہوئے بھار ت کو جواز فراہم کیا کہ آج وہ 35Aکا خاتمہ کرے۔
پاکستان اپنے زیراہتمام کشمیر کو عبوری آئین کے ایکٹ 74کے تحت چلا رہا ہے جس کے مطابق جموں کشمیر کے تما م وسائل کی ملکیت کشمیرکونسل کے پاس ہے اور جس کا ہیڈ پاکستان کا وزیر اعظم ہے۔اس کے بعدجن کے پاس سب سے زیادہ اختیارات ہیں وہ نمائندے وزیرِ امورِکشمیر اور تعینات بیوروکریسی(جس میں جرنل کمانڈر آفسر،پاکستان سیکرٹ ایجنسی،چیف سیکرٹری،فنانس سیکرٹری،آئی جی پولیس،اکاؤنٹنٹ جرنل)شامل ہیں۔
پاکستان نے کبھی بھی نام نہاد آزادکشمیر کی عوام کو تقریر اور تحریر کی آزادی نہیں دی۔ ہمیشہ ایسے کارکنوں کے خلاف جبرکا استعمال کیا جنہوں نے تنقید کی۔ الیکشن سے باہر رکھنے کے لیے کشمیر بنے گا پاکستان پر دستخط لازمی قرار دئیے۔گلگت بلتستان میں عوام کے حقوق کی سیاست کرنے والے نمائندوں بابا جان،افتخار حسین اور باقی ساتھیوں کوانٹی دہشت گردی ایکٹ کی سکیشن 780A کے تحت71 سے90سالوں کی سزائیں سنائیں۔
آج پاکستان کے حکمرانوں کے بیانات اور فوجی قیادت کی خاموشی کو دیکھ کر لگتاہے کہ یہ جموں کشمیر کی عوام کے کتنے حمائیتی ہیں۔کبھی نئی دہلی پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی بات کرتے تھے اور اب کہتے ہیں اگر آزادکشمیر پر حملہ ہوا توبھارت کو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔اس سے لگتا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے شمالی امریکی سامراج سے مظلوم کا کردار لیا ہے جس کے بدلے میں پاکستان مستقل طورپر مقبوضہ کشمیر بشمول گلگت بلتستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے پورے نام نہاد آزادکشمیر اور پاکستان کے عوام سے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں۔
کیا نام نہاد آزاد کشمیر کی حکومت کو مضبوط کیا جائے۔
آج پاکستان کی طرف سے مسلط کئے گئے اُن مفاد پرستوں کی دوسری اور تیسری نسل اقتدار میں ہے۔جنہوں نے ہمیشہ عوام کی طاقت کو اپنے چھوٹے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اپنے لیے اوقات کے مطابق بے تحاشا وسائل اکٹھے کئے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ اُن وسائل کو بچانے کے لیے آخری تجزیئے میں پاکستان کے حکمرانوں کے گماشتے ہیں۔اُن کے خلاف لڑائی ہماری جدوجہد کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔اس لیے ضروری ہے کہ ایکٹ 74کے ساتھ اُس کے ماننے والوں کو بھی گھر بھیجا جائے۔
جدوجہد کا طریقہ کار
تمام انقلابیوں نے جدوجہد کے راستے کو اپناتے ہوئے PNAکے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا ہے۔ بے شک اس میں مختلف رحجانات سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں موجود ہیں لیکن یہ سب ایک نقطے پر متفق ہیں کہ اب اقوام متحدہ سے ہٹ کر تحریک کرتے ہوئے ا ہداف حاصل کئے جائیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم سماج کی باقی پرتوں کو بھی شامل کریں۔ اور یہ حکمت ِعملی داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہونی چاہئے۔
داخلی محاذ
ٹریڈ یونینز کی شمولیت:
ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی سماج میں اداروں میں اجتماعی طور پر ایک جیسا کام کرنے والے محنت کش نہ صرف ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں بلکہ مزیدحاصلات کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت کشمیر کی تقربیا ً 46ؒٓ لاکھ کی آبادی میں سے 8لاکھ لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ جن میں سے کافی تعداد آرگنائز ہو رہی ہے۔ ضروری ہے کہ ملازمین کے خلاف لائے گئے ایک ایکٹ 2016کے خلاف لڑا جائے جس کے تحت ملازمین کی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی۔ فوری طور پر ملازمین جس میں سینٹری ورکرز شامل ہیں، کی مانگوں کو اپنے پروگرام کا حصہ بناتے ہوئے اُنھیں اتحاد میں برابرنمائندگی دی جائے۔
خارجی محاذ
خارجی محاذ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پیداوار کی بین الاقوامیت میں ایک بڑی جست محض سامراج پیدا نہیں کرتی۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں قومی ریاستوں کو مغلوب نہیں کر سکتیں۔ اِسکے برعکس اُن میں سے ہر ایک کی ایک قومی بنیاد ہے جو اس ریاست کو پہلے سے کہیں زیادہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کرتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ انقلابی اپنے اپنے ممالک میں سامراج اور اُس کے ساتھ جڑی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہدعالمی اظہارِیکجہتی اور مشترکہ حکمت ِعملی کے ساتھ لڑیں۔ اس وقت ضروری ہے کہ ہم PNA اتحاد کی طرف سے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو نہ صرف جموں کشمیر پر قابض ممالک کے محنت کشوں کو مختلف کانفرنسز کے ذریعے ہم آہنگ کرے بلکہ عالمی طور پریکجہتی کمپینز کا اہتمام کروائے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ اتحاد میں موجود تمام پارٹیاں اپنے خارجی محاذ پر موجود ورکرز کو یہ سمت دیں کہ وہ وہاں موجود تمام طلبہ اور محنت کشوں کی تنظیموں میں دستخطی مہم کا آغاز کریں اور اس کے ساتھ یورپ اور امریکہ کے اندر جموں کشمیر، فلسطین،کردستان اور کیٹالونیا کے انقلابیوں پرمشتمل کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے جن کو محنت کش تحر یک کی قیادت ممکن بنانے کی کوشش کرے گی۔
عوامی محاذ
اس وقت عوامی محاذ پر نہایت تیزی سے کام شروع ہونا چاہیے۔ تمام دیہاتوں کی سطح پردستخطی مہم کے ساتھ کمیٹیوں کی تشکیل ہونی چاہیے اور پھر یونین کونسلزکی سطح پر کانفرنسز کروائی جائیں جن کے ذریعے مندوبین کا انتخاب کرتے ہوئے تحصیلوں کی کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے اور پھر ضلعی کانفرنسز کروا کر مندوبین کا انتخاب ہوجو اتحاد کی قیادت میں لایا جائے۔ جن کے ذریعے تما م ضلعوں کے عوام کو مظفرآباد یا اسلام آباد کی طرف حرکت دی جائے۔ اور متعلقہ مانگوں کے ساتھ لوگوں کی آئین ساز اسمبلی کا انعقاد کیا جائے اور مشترکہ طور پر عوام کے سامنے ان نکات پر دوبارہ رائے لی جائے وہیں سے رائے حق ِدہی کا فیصلہ کرتے ہوئے اکثریتی رائے کو حتمی شکل دی جائے۔
ؑٓ جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کے لیے حتمی رائے۔
اس وقت جموں کشمیر کی موجودہ صورت ِحال کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھا رت اور پاکستان اس سے پہلے جموں کشمیر پر قابض نہیں تھے،پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں نے تقسیم ہند کے بعد انتہائی چالسازی سے کشمیر کے عوام کی جدوجہد کو مذہبی شاوینزم میں آلودہ کرتے ہوئے غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے اتحاد کروائے۔اور اِن ممالک نے فنانس،دفاع اور کمیونکیشن کو فیس کے طور پر اپنے پاس رکھتے ہوئے دوسری دنیا میں ہمیشہ کشمیر کی وکالت کا راگ الاپا جو کہ جالسازی تھی،ہے اورہوتی رہے گی۔ہم آج تک ہونے والے تمام معاہدوں چاہے وہ برطانوی سامراج اور مہاراجا کے ہوں، مہاراجا کا انڈیا کے ساتھ الحاق ہو، نام نہاد مقبوضہ حکومت آزادکشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہویا کشمیر پر ہندوستا ن اور پاکستان کے معاہدات ہو ں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے اندونی حالات انتہائی خراب ہیں، دونوں ممالک معاشی بحرانات کا شکار ہیں اور باہمی رضامندی کے ساتھ تاریخی طور پر اِن سے نکلنے کے لئے مسئلہ کشمیر کو بحث بناکر خطے کے عوام پر مزید ٹیکسزکا اجرا ء کرتے ہوئے دو ہرئی حکمت ِعملی پر معمور ہیں ایک ہمالیہ کی عارضی حیثیت کو مستقل کر کے خطہ ِہمالیہ کے پانیوں،گلیشیرز اور ماحولیات پر قبضہ رکھ کر اپنی حکمت ِعملی کو مستقل کرنااور دوسرا،مسئلہ ہمالیہ کے فریقین کی بنیاد پر ہمیشہ اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارے نزدیک معاہدات ہمیشہ برابری کے بنیاد پر ہونے چاہیے،بغیر برابری کے کئے گئے معاہدات قبضے کے زمرے میں آتے ہیں ہم بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 کو ہندوستان، پاکستان اور کشمیر کے اُس وقت کے حکمرانوں کی کشمیرکے عوام کو آئین اور قانون میں الجھانے کی جالسازی سمجھتے ہیں جو مسلسل بحران میں اِن ممالک کے حکمرانوں کے لئے ہتھیار ہے۔ہم ایسے معاہدوں کی پاسداری کے ذمہ دار نہیں۔
جموں کشمیر کے اندر اس وقت ہندوستان،پاکستان اور سامراجی اجارہ داریوں کی بڑی سرمایا کاری موجود ہے جس کے تمام معاہدات بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ ہوئے ہیں جس پر اب کشمیر کے اندرسے سوالات اُٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔ کشمیر کے ساتھ جڑے ہمالیہ کے باقی ریجن جس میں گلگت بلتستان شامل ہیں میں چین کی بڑی سرمایہ کاری (سی پیک) کے نام پر ہو رہی ہے۔اس عالمی سرمایہ کاری کو محفوظ کرنے کے لیے مسئلہ ہمالیہ کی مستقل تقسیم سامراجی ایجنڈا ہے جس کے لیے حالیہ پاکستان کے وزیراعظم کو امریکہ طلب کر کے آگاہ کیا گیا اور ساتھ اس ڈرامہ کا کردار بھی دیا گیا۔
اس وقت پاکستان اور بھارت کے حکمران مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ہمالیہ کے لوگ بھارت اور پاکستان کے اندر ہر شعبہء زندگی میں آزادانہ طور پر نوکریاں،کاروبار اور زمین تک خرید سکتے ہیں لیکن ہندوستان اور پاکستان کے شہریوں کو یہ مراعات حاصل نہیں۔ہمیں اس نقطے پر کھل کر بھارت اور پاکستان کے شہریوں کو بتانا ہو گا کہ ہمالیہ متنازع ہے جس کے لیے شمالی امریکی سامراج،چین،سعودی عرب،ایران،ہندوستان اور پاکستان ذمہ دارہیں جو جنوبی ایشا میں اپنے مفادات کو برقرار رکھتے ہوئے،ہمیشہ ثقافتی اور مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دے کر محنت کشوں کے درمیان پھوٹ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔کشمیر کی آزادی کے بعد اُن تمام انسانوں کو جو اپنے اپنے ممالک کے حکمرانوں کے ظلم کی وجہ سے تنگ ہیں،ہمالیہ کی طرفہجرت کرنے کی آزادی دی جائے گی۔ہم بھارت،پاکستان اور دنیا کے محنت کشوں کے ساتھ برابری پر تعلقات چاہتے ہیں جو ہر شعبہ ء زندگی حتی کہ تنظیمی پروگرام سے حکمت عملی تک۔یہی ایک وجہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا ہمسفر رکھے گی۔اس لئے ضروری ہے کہ کشمیر کی آزادی اور خودمختاری جس سے مراد سوشلزم ہے، لڑا جائے اور اس وقت کشمیری عوام کے ساتھ باقی جنوبی ایشیاکے عوام کشمیر سے فوجوں کے انخلا میں کشمیر ی عوام کا ساتھ دیں۔
نکات
اسیران گلگت بلتستان کو فوری رہا کیا جائے۔
ٹریڈ یونینز پر پابندی کا خاتمہ کیا جائے۔
سینٹری ورکرز کو ملازمتوں پر مستقل اورالاٹ شدہ زمینوں کا قبضہ دیا جائے۔
فوجوں کا انخلا
لائن آف کنٹرول کا خاتمہ
ریفرنڈم کا انعقاد (اقوام متحدہ کی سربراہی میں نہیں بلکہ کشمیر کی پولیس کے ساتھ عوامی کمیٹیوں اور دنیا کی انسان دوست قوتوں کی سرپرستی میں)
بیرونی تسلط کا خاتمہ
کشمیر کے وسائل پر کشمیر کے محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول
اس کے ساتھ ہندوستان مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی عوام کو آئین سازاسمبلیاں بلانے کی اپیل کی جائے۔
ہمیں آج ہی بیرونی محاذ پر سامراج کے ادارے اقوام متحدہ کو چھوڑ کر ہندوستان،پاکستان اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں،،محنت کشوں کی ٹریڈیونینز اور خاص طور پر اُن بائیں بازو کی پارٹیوں کو اپیل کرنی چاہے جو انسانوں کی برابر ی اور سوشلزم کی حمائتی ہیں۔؟؟؟
آؤ مل کر فیڈریشن آف سوشلسٹ ریپبلک آف ہمالیہ کیلے جدوجہد کریں۔
SHARE